ایران دشمنی‘ اصل سبب

مغرب اور امریکا کِس اصول کے تحت ایران اور دیگر ممالک کو جوہری اسلحے سے دور رہنے کا پابند رکھنا چاہتے ہیں۔

shaikhjabir@gmail.com

4 دسمبر2011 ایران نے اپنی فضائی سرحدوں میں پروازکرتا ایک امریکی لاک ہیڈ مارٹن آرکیو170، سینٹی نیل۔ اَن مَین ایریل وہیکل جسے عرف عام میں ڈرون بھی کہا جانے لگا ہے پکڑلیا۔یہ ڈرون ایران کی شمال مشرقی فضائوں میں پرواز کر رہا تھا۔امریکی ڈرون کی ایرانی فضائوں میں پرواز صریح بدمعاشی کے سوا کچھ نہ تھی۔ اِس کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہیں۔ امریکا کی یہ بدمعاشی اور غنڈہ گردی ساری دنیا میں جاری ہے۔ کسی ملک یا تنظیم کو لَب کُشائی کی ہمت نہیں۔ خواہ وہ سعودی عرب ہو، چین یا برطانیہ۔امریکی ڈرون کو ایرانی ''سائبر وار فیئر یونٹ'' نے کسی خاص ہی طریقے سے بہ حفاظت زمین پر اُتار لیا۔ یہ واقعہ اتنا بڑا تھا کہ اوّل تو کسی کو یقین ہی نہیں آیا۔ کیوں کہ یہ ایک تقریباً ناممکن سا معاملہ تھا ۔کم از کم ایران کے بارے میں تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دنیا سے کٹا ہونے کے باوجود بھی اُس نے اتنی ترقّی کر لی ہے کہ وہ امریکی ڈرون پر قابو پا کر بہ حفاظت اُسے زمین پر اُتار لیتا ہے۔ایران اب تک ایسے 3کارنامے کر چکا ہے۔ابتداً مغربی میڈیا نے خبر دی کہ ایران نے ایک امریکی ڈرون مارگرایا ہے۔امریکا سے بھی اِسی طرح کے بیانات سامنے آئے۔بعد ازاں امریکا نے تسلیم کیا کہ یہ ڈرون سی آئی اے کے جاسوسی مشن پر تھا۔امریکا ایسے جاسوس ڈرون ایرانی جوہری تنصیبات کی نگرانی کے لیے بھیجتا ہے۔کیا امریکا اور اُس کے اتحادیوں کو علم نہیں کہ اِس قسم کی حرکتیں امنِ عالم بحال کرنے والی ہیں یا دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی جانب دھکیلنے والی؟ نیز یہ بھی کہ کیا خود امریکا بھی ایسی کسی جنگ کا متحمل ہو سکتا ہے؟

آخر ِکار 5دسمبر کو امریکی عسکری ذرایع نے تسلیم کیا کہ ایران کی جانب سے پکڑا جانے والا طیارہ RQ-170ہی ہے۔6دسمبر کو امریکا نے سرکاری سطح پر بس اتنا تسلیم کیا کہ ڈرون ایرانی فضائی حدودکے قریب یا اندر تباہ ہوا ہے۔ایرانی سرکاری ٹیلی وژن اس سے قبل ہی ڈرون کی تصاویر اور فلمیں نشر کر چکا تھا۔9دسمبر 2011کو ایران نے ''حماقت ِ متحدہ''کی سیکیورٹی کونسل میں باقاعدہ شکایت رقم کروا دی۔دنیا جانتی ہی ہے کہ اِس قسم کی شکایتوں پر کیا ہوتا ہے اور کیا ہو سکتا ہے۔ادھر امریکی ڈھٹائی بھی ملاحظہ فرمائیے کہ12دسمبر کو امریکی صدر اوباما نے ایران سے کہا کہ وہ امریکی ڈرون واپس کر دے۔یہ ایک مضحکہ خیز جرات تھی، جس کا ایران نے بھر پور جواب دیا۔13دسمبر کوایران کے وزیر ِ ِدفاع نے امریکی درخواست سختی سے رد کرتے ہوئے کہا کہ شاید امریکی صدر کو یاد نہیں رہا کہ ایرانی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔سرحدی خلاف ورزی پر معافی مانگنے کے بجائے یہ درخواست عجیب ہے۔اِس تمام تر صورت حال کا دِل چسپ موڑ اُس وقت سامنے آیا جب ایران کی ایک کھلونے بنانے والی کمپنی نے ڈرون کی نقل کا کھلونا تیار کر کے سوئس سفارت کے ذریعے امریکی صدرکو بھجوا دیا تاکہ امریکی صدر بارک اوباما کی خواہش کی تکمیل کا کچھ تو سامان ہو سکے۔

مغرب اور امریکا ایران کے جوہری اور میزائل پروگرام پر ایک عرصے سے تنقید کرتے چلے آرہے ہیں۔وہ کِس اصول کے تحت ایران اور دیگر ممالک کو جوہری اسلحے سے دور رہنے کا پابند رکھنا چاہتے ہیں، یہ سوال کوئی نہیں پوچھ سکتا ۔ لیکن اِس خواہش کا احترام ہر ایک پر فرض ہے۔آج جتنا جوہری اسلحہ امریکا کے پاس ہے کسی کے پاس بھی نہیںلیکن وہ ایران سے چاہتا ہے کہ وہ جوہری اسلحہ نہ بنائے ، کیوں؟کِس اصول کے تحت؟ کوئی پوچھنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ایران کا کہنا ہے کہ اُس کی تمام تر جوہری صلاحیتیں صرف اورصرف پُر امن مقاصد کے لیے ہیں۔لیکن ایران کی دیگر صلاحیتیں یقینی طور پر اسرائیل اور امریکا کی بالا دستی کے لیے خطرہ ہوتی جا رہی ہیں۔مثال کے طور پر یہی بات جو ابھی اوپر کی گئی۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایران اتنا با صلاحیت ہو سکتا ہے کہ وہ امریکی ڈرون کو نہ صرف یہ کہ شناخت کر لے بلکہ امریکی نظام سے کاٹ کر اُسے با حفاظت اُتار بھی لے۔جیسا کہ عرض کیا گیا یہ ایک بڑا وقوعہ تھا۔ایران کا میزائل پروگرام بھی تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ایرانی میزائل اب اسرائیل اور امریکا کو براہ راست نشانہ بنانے کی پوزیشن میں آچکے ہیں۔


یہ سب کچھ مستحکم اقتصادیات کے بغیر ممکن نہیں۔ ایرانی اقتصادیات کو زِک پہنچانے کے لیے اوباما نے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کردیں۔ رواں برس کی ابتدا میں عائد کی جانے والی پابندیوں نے واقعتاً ایران کو نقصان پہنچایا۔ یہ اب تک کی شاید موثر ترین اقتصادی پابندیاں رہیں۔ایرانی سکّے کی قدر میں کمی ہوتی چلی گئی۔ جواباً ایران نے کہا ہے کہ اگر اُسے اقتصادی طور پر ہراساں کرنے یا نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو وہ آبنائے ہُرمز بند کر دے گا۔یاد رہے کہ دنیا کو ملنے والے تیل کا بڑا حصہ آبنائے ہُرمزسے ہو کر گزرتا ہے۔اگر آبنائے ہُرمز بند کر دی گئی تو یہ ڈولتی عالمی اقتصادیات کے لیے یقیناً ایک بڑا مسئلہ ہوگا۔اِس برس کی ابتدا ہی سے یہ تناؤ والی کیفیت برقرار ہے اور عالمی مبصرین اِسے خوش آئند قرار نہیں دیتے۔ عالمی سطح پر جو رائے بار بار بیان کی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ تناؤ کا اصل سبب ایران کا جوہری پروگرام ہے۔ہماری رائے میں یہ ایک سطحی سی بات ہے۔ اصل بات سے توجہ ہٹانے کے لیے سرورق کی کہانی۔ایران کے صدر کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ ایران کے پاس نہ تو جوہری اسلحہ ہے ، نہ ہی وہ جوہری اسلحہ بنانے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔یہ بات امریکا کو بھی خوب پتا ہے۔ہمارا خیال ہے کہ امریکا اسرائیل کی ایران دشمنی کے اسباب اِس سے کہیں زیادہ گہرے ہیں۔

ایک تو ایران کا میزائل پروگرام ہی ہے ۔جِس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اب ایران 25000کلومیٹر تک وار اور مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ایران نے جی پی ایس ٹیکنالوجی کی بدولت اپنے میزائلوں کے درست اہداف تک مار کرنے کی صلاحیتیوں کو حیرت انگیز ترقی دے لی ہے۔اِس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ ایران اسرائیل کے جوہری، حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کو نشانہ بنانے کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ اگر چند میزائل بھی اسرائیلی تنصیبات ''دمونا'' وغیرہ پر گر جائیں تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کتنی تباہی پھیلے گی؟آج اسرائیل کے پاس سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میںجوہری بم اور اسلحہ موجود ہے، کیمیائی اور حیاتیاتی اسلحے کا تو کہنا ہی کیا۔اور اسرائیل خود اتنا سا تو ہے، اِس تباہ کُن اسلحے کے ذخیرے کوچند میزائیل بھی لگ گئے تو اسرائیل تو کیا آس پاس کا بڑا علاقہ بھی صفحہِ ہستی سے نابود ہو جائے گا۔یہ ایسا خطرہ ہے جسے امریکا اور اسرائیل برداشت نہیں کر سکتے۔اِس کا حل یہ نکالا گیا تھا کہ ایران کے میزائلوں کو لانچنگ پیڈ ہی پر ناکارہ بنانے کی صلاحیتیںحاصل کی گئیں۔ادھر ایران نے جواب یہ دیا کہ اُس نے امریکی ڈرون اُتار لیے۔ خود ایرانی ڈرون اسرائیل کے کامیاب چکر لگا آئے، حساس ترین تنصیبات کی تصاویرلے آئے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ایران نے ڈرون اور میزائل ٹیکنالوجی میں حیران کُن کامیابیاں حاصل کیں یہاں تک کہ یہ سائنسی کامیابیاں ایران کے لیے اقتصادی پابندیوں کی نوید بن گئیں۔

ہمارے خیال میں ایران دشمنی کا اصل سبب اسلحہ جاتی سے بھی زیادہ نظریاتی ہے،مغرب کے لیے اصل خطرہ ایرانی قوم کا بہ طور جسدِ واحد اپنے مضبوط تہذیبی اور مذہبی ورثے سے جڑے رہنا ہے۔
Load Next Story