بدانتظامی کی پیدا کردہ منظم قطاریں
سی این جی اسٹیشن کیلئے زمین اور مشینری کے علاوہ نگران ادارے کے حکام کو خوش کرنے کے لیے بھی کچھ دینا پڑتا ہے یا نہیں۔
ISLAMABAD:
ملک میں آج سی این جی حاصل کرنے کے لیے گیس اسٹیشنز پر لگی گاڑیوں کی لائنیں دیکھ کر دوسری جنگ عظیم کے زمانے کے حالات و واقعات پر بنائی گئی دستاویزی فلموں کے مناظر یاد آتے ہیں، گوکہ ملک حالت جنگ میں نہیں لیکن میڈیا کے توسط سے جب یہ تصاویر بیرون ملک چھپتی ہوں گی تو یقیناً پاکستان کے حالات کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں بڑا مایوس کن تاثر پیدا ہوتا ہوگا۔ ہماری بد نصیبی تو دیکھیں کہ سی این جی کا یہ بحران ایک ایسے ملک میں وارد ہوا ہے جو خود گیس پیدا کرنے والے بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ پاکستان کے دیگر بحرانوں، مسائل اور خساروں کی طرح سی این جی کے حوالے سے عوام کو جو اذیت اور خواری برداشت کرنا پڑ رہی ہے، اس کا تعلق بھی ہمارے اداروں اور محکموں کی بد انتظامی کے ساتھ ہے۔ ہماری قومی پالیسیوں میں ملک اور عوام کے مفادات کو کبھی اہمیت حاصل نہیں رہی۔ وسائل کے استعمال میں فوقیت ہمیشہ ملک کے مراعات یافتہ طبقات کی لامحدود خواہشات کی تکمیل کو حاصل رہتی ہے۔
1975ء میں وفاقی حکومت کے تحت قرارداد کے ذریعے ایک ادارہ قائم کیا گیا تھا جسے ہائیڈرو کاربن انسٹیٹیوٹ آف پاکستان (HDIP) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس ادارے کے اغراض و مقاصد میں حکومت کو توانائی کی پالیسیاں بنانے میں مدد فراہم کرنا، زیر زمین توانائی کے وسائل کو دریافت کرنے کے لیے تحقیق اور ریسرچ کا کام، ملک میں موجود توانائی کے ذخائر کا تخمینہ لگانا اور توانائی کے متبادل ذرایع کو ترقی دینا قرار پائے۔ ملک میں قدرتی گیس کی دریافت کے بعد اسے مختلف مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بارے میں مختلف پالیسیاں اسی ادارے کی رہنمائی میں بنائی جاتی رہیں۔ ملک میں پہلا سی این جی اسٹیشن بھی ایچ ڈی آئی پی نے قائم کیا اور پھر ملک بھر میں سی این جی ااسٹیشنز کا جال بچھ گیا۔ ان اسٹیشنز کے قیام اور نگرانی کی ذمے داری بھی اسی ادارے پر عائد ہوتی تھی۔
جب جنرل مشرف صدارت کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے تو انھوں نے ایک اور ادارے کی داغ بیل ڈالی جسے ہم ''اوگرا'' کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ ادارہ تیل اورگیس کے معاملات کی نگرانی کرتا ہے۔ ہمیں تو یوں نظر آتا ہے جیسے اداروں کے اوپر ادارے بنانے کا اہم ترین مقصد پسندیدہ لوگوں کے لیے ''ترقی کے نئے ذرایع پیدا کرنا ہوتا ہے۔'' کیونکہ ایچ ڈی آئی پی انتہائی کامیابی اور سہولت سے گیس اسٹیشنز کی نگرانی کے فرائض انجام دے رہی تھی۔ ہمارے ملک میں اعدادوشمار کے حوالے سے اکثر تنازعات کھڑے ہوتے رہتے ہیں۔ سی این جی کے معاملے میں بھی یہ تنازع موجود ہے۔ سپریم کورٹ نے گیس کی قیمت کم کرنے کا حکم جاری کیا جو بالکل درست تھا،گیس اسٹیشنز کے مالکان کا کہنا ہے کہ انھیں ان قیمتوں پر گیس فروخت کرنے میں نقصان ہے۔ عوام یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق گیس ااسٹیشنز کو خسارہ نہیں ہونا چاہیے۔
اعداد و شمار کے تجزئیے میں ایک بہت اہم بات کو نظرانداز کردیا جاتا ہے اور دونوں فریق اس کا ذکر کرنے سے بھی ہچکچاتے ہیں۔ اس معاملے میں یہ بات بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ کسی سی این جی اسٹیشن کو قائم کرنے کے لیے سرمایہ کاری کرنے والے کو زمین اور مشینری کے علاوہ نگران ادارے کے حکام کو خوش کرنے کے لیے بھی کچھ دینا پڑتا ہے یا نہیں۔ یہ بات بھی کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ ہر سی این جی ااسٹیشن کی چیکنگ کا ایک نظام موجود ہے، جس کے تحت انسپکٹرز اسٹیشنز پر جاکر اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ آیا تمام ضروری سہولیات اور حفاظتی انتظامات موجود ہیں یا نہیں؟ اس بارے میں بھی اطلاعات یہ ہیں کہ سی این جی اسٹیشنز کو غیر قانونی ادائیگیاں کرنی پڑتی ہیں اور یقیناً اس طرح کی ادائیگیاں صارفین کے لیے قیمت کے تعین میں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ یہ اسٹیشنز بجلی بھی استعمال کرتے ہیں اور اس طرح انھیں واپڈا سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں اعدادوشمار کے جمع جوڑ میں تنازعات کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ ایک اور اہم بات قواعد کے یکساں اطلاق کو یقینی بنانا ہے، یہ سنی سنائی بات نہیں ہے بلکہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ سی این جی اسٹیشنز کی بندش کا جو ہفتہ وار شیڈول دیا گیا تھا کچھ گیس اسٹیشنز اس سے مستثنیٰ تھے۔ ناغے کے روز بھی وہاں کچھ گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوتی تھیں۔
ہمارے اداروں کی دیدہ دلیری کا اندازہ لگائیں کہ چیئرمین اوگرا خود اقرار کر رہے ہیں کہ ہر برس 16 ارب روپے کی گیس چوری ہوجاتی ہے یہ تجویز پیش کی گئی کہ گیس کی چوری کے 16 ارب انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے صارفین پر برابر تقسیم کر دیئے جائیں، لیکن انھوں نے یہ بات ماننے سے انکار کردیا۔
اس میں کیا شک ہے کہ جو انتظامیہ گیس کے ناغے کے روز بعض اسٹیشنز کو کام کرنے دیتی ہے وہ چوری میں بھی معاونت کرتی ہوگی۔ کتنا آسان حل ہے کہ چوری کو عوام سے وصول کرلو اور کیا عوام کو سہولیات فراہم کرنے والے دیگر ادارے بھی ہمارے ساتھ یہی کچھ نہیں کرتے ہوں گے؟ہمارے پالیسی سازوں سے یہ سوال بھی کیا جانا چاہیے کہ آخر ایک کروڑ روپے مالیت کی گاڑی میں سی این جی کے استعمال کی کیا منطق ہے۔ وہ لوگ جن کے لیے پٹرول کی قیمت کوئی معنی نہیں رکھتی اور وہ اس 4 گنا زیادہ قیمت پر بھی پٹرول استعمال کرسکتے ہیں وہ بھی قدرتی گیس چلا رہے ہیں۔ اب جو قدرتی گیس کو 1000 سی سی گاڑیوں تک محدود کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں اس کا خیال ہمارے پالیسی سازوں کو پہلے کیوں نہیں آیا؟
ملک کے موجودہ حالات نے اس بات کا موقع پیدا کیا ہے کہ ہم اپنی قومی پالیسیوں پر ازسرنو غور کریں۔ قدرتی گیس جیسے توانائی کے سستے ذریعے کو غریب اور متوسط طبقے کو سہولت فراہم کرنے کے لیے مخصوص کیا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں صرف باتیں نہیں فوری عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ملک کے جو طبقات اپنی آسانیوں میں عوام کو شریک نہیں کرتے اور ملکی وسائل کو اپنا ذاتی مال سمجھتے ہیں ان کی دراز دستیوں سے ہونے والے خسارے کو ملک کے عوام پر تقسیم کرنے کا کسی طور کوئی جواز نہیں۔