منفی تنقید اور مثبت تنقید
اپوزیشن کا وجود بجائے خود ایک بہت بڑا قصور ہوتا ہے، لیکن اس معاملے میں حکومت سے بھی کوتاہی ہوئی ہے۔
یہ اپوزیشن والے بھی بڑے وہ ہوتے ہیں، آخر موجودہ وزیراعظم جو انتہائی مرنجان مرنج شخصیت کے مالک ہیں، ان کو بھی شاکی کر ہی دیا،
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
چنانچہ انھوں نے بھی شکوہ کر ہی دیا ہے کہ تنقید ضرور کریں لیکن بے جا الزامات نہ لگائیں، بے چارے سابق وزیراعظم بلکہ اس سے بھی کئی سابق سابق ورزاء اعظم یہی شکوہ کرتے رہے ہیں کہ مثبت تنقید کا خیر مقدم کریں گے لیکن منفی تنقید نہ کریں اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کوئی ایک بھی مثال ایسی نہیں ملتی ہے کہ کسی وزیر یا وزیراعظم یا صدر یا حکومت نے یہ کہا ہو کہ فلاں نے مثبت تنقید کی ہے، ہمیشہ ہی منفی تنقید کی مثالیں قائم ہوتی رہی ہیں۔ اپوزیشن کا تو اس میں قصور ہے ہی، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اپوزیشن کا وجود بجائے خود ایک بہت بڑا قصور ہوتا ہے، لیکن اس معاملے میں حکومت سے بھی کوتاہی ہوئی ہے۔ سوری شاید ہم نے بھی منفی تنقید کر لی ہے، چلیے اس کو مثبت بناتے ہیں، حکومت سے کوتاہی ہوئی نہیں ہے بلکہ اپوزیشن نے کرائی ہے کہ اب تک کسی بھی حکومت نے ایسی کوئی لسٹ نمایاں مقامات پر چسپاں نہیں کی ہے کہ کون سی تنقید مثبت ہے اور کون سی تنقید منفی ہے، فہرست نہ سہی کم از کم یہ تو مشتہر کرنا چاہیے تھا کہ مثبت تنقید کی نشانیاں کیا ہوتی ہیں اور منفی تنقید کے کیا لچھن ہوتے ہیں، پاکستان کی ولولہ انگیز قیادت عرف ایوب خان کے زمانے میں جب کوئی مشاعرہ ہوتا تھا تو اسٹیج سیکریٹری سب سے پہلے یہ اعلان کر دیتا تھا کہ مشاعرے میں سیاسی اشعار سنانے سے اجتناب کیا جائے یا سیاسی اشعار سنانا منع ہے، اس کے بعد جب مشاعرہ شروع ہوتا تھا تو اکثر شعراء ولولہ انگیز قیادت اور بنیادی جمہوریت کی مدح سرائی کر دیتے تھے جس پر اسٹیج سیکریٹری کچھ بھی نہ کہتا تھا لیکن جہاں کسی شاعر نے غربت یا گرانی یا کسی تکلیف کا ذکر کیا، اسٹیج سیکریٹری فوراً اپنا اعلان دہرا دیتا تھا کہ یہ قطعی غیر سیاسی مشاعرہ ہے اور اس میں سیاسی اشعار سنانے سے گریز کیا جائے، اس کے بعد پھر وہی ملک میں خوش حالی اور ولولہ انگیز قیادت کی قصیدہ خوانی ،ایسے ہی ایک مشاعرے میں ایک شاعر کا نمبر آیا تو وہ بولا کہ مجھے پتہ نہیں کہ میرے اشعار سیاسی ہیں یا غیر سیاسی ۔۔۔ اس لیے اسٹیج سیکریٹری پہلے مہربانی کر کے سیاسی اشعار کی پہچان بتا دیں، یہی معاملہ منفی اور مثبت تنقید کا بھی لگتا ہے کسی بھی حکومت نے آج تک یہ وضاحت نہیں کی ہے کہ منفی تنقید کیا ہے اور مثبت تنقید کی پہچان کیا ہے۔ یہ بہت بڑا کنفیوژن ہے جب تک اس کنفیوژن کو دور نہیں کیا جائے گا ،کسی کو کیا پتہ کہ جو بات میں کہہ رہا ہوں وہ منفی ہے یا مثبت۔ اصل میں یہ معاملہ کچھ آئینے جیسا ہے جو خواہ مخواہ دائیں کو بایاں اور بائیں کو دایاں بنا دیتا ہے، اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ
بے وفا ان کو بلایا تو برا مان گئے
آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے
بات ہے بھی برا ماننے کی، جب انسان دیکھتا ہے کہ آئینہ بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ اس کی مخالفت کر رہا ہے کہ وہ اپنا دایاں اٹھاتا ہے تو آئینہ اسے بایاں بنا دیتا ہے، وہ اپنے خیال میں دائیں کی طرف کی مونچھ کو تاؤ دیتا ہے تو کم بخت آئینہ بائیں مونچھ کو مروڑنے لگتا ہے۔ چلیے کسی کی مونچھ نہ سہی نتھنا سہی آنکھ سہی، لیکن آئینہ کبھی کسی کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا اور منفی تنقید ہی کرتا رہتا ہے
دشنہ غمزہ جاں ستاں ناوک ناز بے پناہ
تیرا ہی عکس رخ سہی سامنے تیرے آئے کیوں
حالانکہ کہا جاتا ہے کہ آئینہ جھوٹ نہیں بولتا جو ہوتا ہے وہی دکھاتا ہے اور یہ بات بہت سارے داناؤں نے کہی ہے اور آئینے کی طرف داری نظم و نثر دونوں میں کی ہے لیکن اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ آئینہ منفی کو مثبت اور مثبت کو منفی بھی بناتا ہے بلکہ ہم نے تو یہاں تک سنا ہے بلکہ دیکھا بھی ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو بائیں بازو والے کہتے ہیں، وہ جب آئینے میں دیکھتے ہیں تو آئینہ ان کے منہ پر ان کو دائیں بازو والا بتاتا ہے، مطلب یہ کہ لوگوں کے راز فاش کر دیتا ہے اور چوری پکڑوا دیتا ہے، بے چارے کتنی محنت سے کتنے میک اپ سے بلکہ کتنی کاسٹمیک سرجری سے، اپنے آپ کو بائیں بازو والے بناتے ہیں اور یہ کم بخت آئینہ ان کا سارا پول کھول دیتا ہے، اسی لیے تو رحمن بابا بھی کہہ گئے ہیں کہ
وہر چاتہ پہ خپل شکل سر گند یگم
آئینے غوند بے رویہ بے ریا یم
یعنی ہر کسی کو میں اپنی شکل دکھاتا ہوں کیوں کہ میں آئینے کی طرح بے رو اور بے ریا ہوں، لیکن آئینے کی یہی بے روئی اور بے ریائی ہی تو اس کا عیب بن جاتا ہے اور مثبت سے مثبت تنقید کو لے کر منفی بنا دیتا ہے اور حکومت کے مخالفین تو آپ جانتے ہیں کہ ہمیشہ آئینے لیے پھرتے ہیں بلکہ بیچ بازار میں بیچتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ یہی آئینے بیچنے والے جب حکومت کی کرسی پر جلوہ افروز ہو جاتے ہیں تو آئینے چھپانے توڑنے اور ممنوع کرنے میں لگ جاتے ہیں، اکثر تو اپنے لیے اپنے مخصوص آئینے رکھ لیتے ہیں جو ان کی مرضی کا عکس پیش کرتے ہیں۔
تیری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں ہے
اورنگ زیب عالم گیر کی بیٹی زیب النساء جو شاعرہ تھی، اسے کسی نے چین کا ایک آئینہ تحفے میں دیا ۔اس زمانے میں آئینے چین ہی سے آتے تھے، ویسے عجیب اتفاق ہے کہ چین آج بھی ہمیں آئینہ ہی دکھا رہا ہے کہ میں تم سے بعدمیں آزاد ہوا ہوں اور تم 47ء میں ۔۔۔ ذرا دیکھو تو سہی تم تو بالکل میرے الٹ ہو، وہ آئینہ ایک کنیز کے ہاتھ سے چھوٹ کر ٹوٹ گیا، وہ ڈرتے ڈرتے آئی اور زیب النساء سے کہا کہ
از خطا آئینہ چینی شکست
زیب النساء نے برا مانے بغیر فوراً اس پر مصرعہ لگایا کہ
خوب شد اسباب خود بینی شکست
بات منفی اور مثبت تنقید کی ہو رہی تھی جسے ہمارے نئے نویلے وزیراعظم نے بے جا الزامات کا نام دیا ہے لیکن مثال دے کر سمجھایا نہیں کہ بے جا الزامات ہوتے کیسے ہیں اور بے جا الزامات کی پہچان تب ممکن ہے جب وہ ان دونوں کے نمونے پیش کریں، لیکن چوں کہ ان کو اتنی فرصت نہیں ہے اس لیے یہ کام ہم ہی رضا کارانہ طور پر کیے دیتے ہیں۔ ہمارے خیال میں بجا الزام یہ ہے کہ کوئی یہ کہے کہ حکومت نے عوام کی طرز زندگی اونچی کر دی ہے اور لوگ اتنے صاحب استطاعت ہو گئے ہیں کہ کوئی چیز دگنی تو کیا چوگنی قیمت پر بھی خرید لیتے ہیں ۔۔۔۔۔ اب اس کو منفی تنقید میں ڈالنے کے لیے کہا جائے گا کہ حکومت نے اشیائے صرف کی قیمت دگنی کر دی یا مہنگائی بڑھ گئی بلکہ کچھ زیادہ ہی منفی کرنا ہو تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی، جو ظاہر ہے کہ قطعی منفی تنقید ہے۔ مثبت تنقید تو یہ ہے کہ حکومت نے عوام کو اس قابل کر دیا کہ وہ کوئی بھی چیز کسی بھی قیمت پر خرید سکتے ہیں۔ بری بات تب ہوتی جو عوام کے خرید نہ پانے کی وجہ سے وہ چیز بازار میں سڑ جاتی لیکن خرید تو لیتے ہیں، مطلب یہ کہ حکومت نے عوام کو اس قابل بنا دیا ہے۔