سپریم کورٹ فلم انڈسٹری کیساتھ ہونیوالی زیادتیوں کا از خود نوٹس لےسید نوربہار بیگم
بھارتی فلموں کی غیر قانونی نمائش کی وجہ سے پاکستانی فلموں کوسینما گھر دستیاب نہیں ہوتے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے جس طرح ملک کے بہت سے اہم ایشوپرازخود نوٹس لیا ہے وہ پاکستان فلم انڈسٹری کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بھی ازخودنوٹس لے یا پھر گزشتہ کئی برسوں سے بھارتی فلموں کی غیرقانونی نمائش پر پابندی لگانے کے کیسوں کا صرف فیصلہ ہی سنادیاجائے توہمیں مستقبل کے لیے نئے راستے مل جائیں گے ۔
پاکستان فلم انڈسٹری بحران کا شکار ضرور ہے لیکن تباہ نہیں ہوئی،بھارتی فلموں کی غیر قانونی نمائش کی وجہ سے پاکستانی فلموں کوسینما گھر دستیاب نہیں ہوتے، جب تک پنجاب میں سنسربورڈ قائم نہیں ہوتا اس وقت تک بہتری کی امید رکھنا بے وقوفی ہے، پاکستان فلم انڈسٹری کے لیے بنائی جانے والی فلم پالیسی میں اگرپاکستان فلم انڈسٹری کے سٹیک ہولڈرز شامل نہیں ہونگے تو ہم ایسی پالیسی کونہیں مانیں گے، یہ ہماری انڈسٹری ہے اوراس کی بحالی اوربہتری کے لیے ہماری تجاویز کے ساتھ کام ہونا چاہیے،۔
بھارتی فلم کی نمائش اگرضروری ہے تواس پر 25 لاکھ ٹیکس لگایاجائے اوراس رقم کو فلمسازی پرخرچ کیا جائے، حکومت اورمیڈیا پاکستان فلم انڈسٹری کی سپورٹ کرے تودوبارہ سنہری دورواپس آسکتا ہے۔ فلم انڈسٹری کے بحران کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے روزگاربیٹھے ہیں مگرحکومت کچھ نہیں کرتی۔ پاکستانی فلموںکا معیار بہترکرنے کی اشدضرورت ہے، جدیدٹیکنالوجی کے بغیربنائی جانیوالی فلمیں اب فلم بین نہیں دیکھتے۔ ان خیالات کا اظہارپاکستان فلم پروڈیوسرزایسوسی ایشن کے چیئرمین معروف ہدایتکارو فلمسازسیدنور، سینئر اداکارہ بہاربیگم، شہزاد رفیق، حسن عسکری ، چوہدری اعجازکامران، سہیل خان، جاوید وڑائچ، فیاض خان، سٹوڈیواونرراحیل باری، خرم باری، صلہ حسین، زریں اورسینما اونرنادرمنہاس نے فلم انڈسٹری کی بہتری ، بھارتی فلموں کی نمائش اورحکومتی سطح پربنائی جانے والی فلم پالیسی بارے منعقدہ ''ایکسپریس فورم '' میں گفتگوکرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر سیدنورکا کہنا تھا کہ پاکستان فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کو مل کربہتری کے لیے کام کرنا ہوگا۔ ہم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے بہت سے مثبت کام کرنے جارہے ہیں جس کا فائدہ فلم ٹریڈ سے وابستہ تمام لوگوںکو ہوگا۔ لیکن جب تک انصاف نہیں ہوتا بہتری کی توقع کرنا بے وقوفی ہے۔ گزشتہ کئی برس سے بھارتی فلموں کی غیرقانونی نمائش پرپابندی کے حوالے دائر مقدموںکا فیصلہ سامنے نہیں آرہا۔ انصاف کہاں سورہاہے ؟ ۔ ہمارے سینما گھروںمیںجن بھارتی فلموںکی نمائش ہوتی ہے اس میں ایسے مناظر دکھائے جاتے ہیں جو کوئی بھی شخص اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کے نہیں دیکھ سکتا، سنسربورڈ کے ساتھ ساتھ سینما مالکان کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ایسے مناظر کوکاٹ دیں۔
اداکارہ بہاربیگم نے کہا ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کو سب سے زیادہ نقصان میڈیا نے پہنچایا ہے۔ جس انداز سے میڈیا نے فلم انڈسٹری کی شکل لوگوں میںمتعارف کروائی ہے اس کے بعد بہتری کی امیدکرنا درست نہیں ہے۔ میڈیا اگرآج بھی ذمے داری سے کام کرے اورپاکستانی فلم کوسپورٹ اورپروموٹ کرے تویہاں پرفلمسازی کے لیے بہت سے سرمایہ کارآنے لگیں گے۔ اس کے علاوہ وفاقی وزارت کلچر کے خاتمے کے بعد اتنا وقت گزرنے کے باوجود پنجاب میں سنسربورڈ قائم نہیں ہوسکا۔ اگریہاں سنسربورڈ بن جائے تواس کے ذریعے بھی حالات بہترہونگے۔ مجھے پاکستان فلم انڈسٹری نے نام دیا اورپہچان دی، میری ایک ایک سانس فلم انڈسٹری کے لیے دھڑکتی ہے۔
اس لیے میں میڈیا سے درخواست کرونگی وہ ہمارا ساتھ دے اورمکمل تعاون کیاجائے۔ ہدایتکارشہزادرفیق نے کہا کہ فلم اورسینما الگ الگ نہیں ہیں۔ پہلے سینما کوپاکستان فلم انڈسٹری نے بھرپورسپورٹ کی اوریہاں پررونقیں لگنے لگیں مگراب سینماوالے ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں ۔ میرے نزدیک توفلم اور سینما دوبازو ہیں مگرآج ایک بازوکوفائدہ ہورہا ہے تودوسرا نقصان میں جا رہا ہے۔ بھارتی فلم کویہاں نمائش کرنا اگرضروری ہے تواس پرٹیکس لگایا جائے جس طرح دنیا کے بیشترممالک میں ہوتا ہے اور اس رقم سے پاکستان فلم انڈسٹری کی سپورٹ کی جائے۔ ہدایتکار حسن عسکری نے کہا کہ سینما گھروں میں بھارتی فلموںکی نمائش سے پاکستان فلم انڈسٹری کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیداہورہاہے اورنوجوان نسل بھی تباہی کی طرف جارہی ہے۔ نوجوان نسل ہمارے کلچراوراقدارکو بھول رہی ہے۔
فلم ایک اہم شعبہ ہے جس کے ذریعے معاشرے میں سدھارلایا جا سکتا ہے مگربدقسمتی سے بھارتی فلموں کی یلغارنے سارانظام درھم برھم ہوکررہ گیا ہے۔ ہمیںمل کر بہتری کے لیے کام کرنا ہوگا۔ فلمسازسہیل خان نے کہا ہے کہ پاکستان کا نوے فیصد میڈیا بھارتی فلموں کو پروموٹ کرتا ہے، بھارتی فلموں کی نمائش کے لیے جاری کیے جانے والے ' این او سی' میں یہ بات بہت واضح ہے کہ بھارتی فلموںکو پاکستان میں نمائش کی اجازت نہیں ہے۔ مگر کاغذی کارروائی کرتے ہوئے ہربھارتی فلم کوامپورٹ کیٹگری میںشامل کردیا جاتاہے۔ لوکل پروڈکشن بہت کم ہے اس میںبھی اضافہ ہوناچاہیے۔ فلمساز چوہدری اعجاز کامران نے کہا کہ اسلام آباد میں فلم پالیسی بنانے کے لیے کام کیا جارہا ہے اورایک پرائیویٹ کمپنی کو یہ ''ذمے داری '' سونپی گئی ہے ۔ لیکن ہم سے کسی نے کوئی رابطہ نہیں کیا ۔ میں نے بھارتی فلموں کے مقابلے میں بڑے سرمائے سے فلم ''بھائی لوگ'' بنائی توکراچی میں کوئی سینما نہیں ملا۔ جس طرح کا سلوک ہمارے ساتھ کیا جارہا ہے اس پر سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے اگراس کا فوری حل تلا ش نہ کیا گیا توپھرحالات مزید بگڑجائینگے۔
فلمساز جاوید وڑائچ نے کہا کہ 7برس میری آخری فلم ''کمانڈو'' بنائی تھی جس نے زبرست بزنس کیا لیکن اس کے بعد یہاں بھارتی فلموںکی نمائش شروع ہوگئی جس پرمیں نے خاموشی سے فلمسازی چھوڑ دی۔ میں آج بھی پاکستانی فلم انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرنے کاخواہشمندہوں اورکثیر سرمائے سے فلمیں بناناچاہتاہوں لیکن اس سے پہلے بھارتی فلموں کی نمائش پرپابندی لگائی جائے اورمیڈیا بھی ہماری سپورٹ کرنے کی یقین دہانی کروائے۔ آج جو لوگ کہتے ہیں کہ فلمسازنہیں رہے تومیں آج بھی فلمیں پروڈیوس کرنے کاارادہ رکھتا ہون۔ سینما اونرنادرمنہاس نے کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ سینما مالکان پاکستانی فلموںکو جگہ نہیں دیتے۔ میں نے چند برس قبل ہی اس شعبے میں قدم رکھا اورایک ایسے سینما میں سرمایہ کاری کی جوبدنام ہوچکا تھا اورفیملیز یہاں آنے سے ڈرتے تھے مگرآج صورتحال یہ ہے کہ وہاں فیملیز کی بڑی تعدادآتی ہے اورامپورٹڈفلمیں دیکھتی ہے۔
میں نے اپنی مارکیٹ کی ڈیمانڈ کو رد کرتے ہوئے بہت سی پاکستانی فلموں کو نمائش کے لیے پیش کیا لیکن بزنس کو دیکھتے ہوئے اورفلم بینوں کی ڈیمانڈ پرفلمیں تبدیل کرنا پڑیں۔ اب صورتحال یہ بن چکی ہے کہ ہمارے فلمسازوں کو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ فلمیں بنانا ہونگی۔ آنیوالے چند برسوں کے دوران سینما گھروں میں اتنی جدید ٹیکنالوجی متعارف ہوجائے گی کہ پھر جس کیمرہ پرہمارے ہاں فلمیں بنائی جارہی ہے وہ سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش ہی نہیں کی جاسکیںگی۔ اس حوالے سے سب کوسنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہیے اورجدید ٹیکنالوجی کے ساتھ فلمیں بنائیں تو ہمارے سینما گھر پاکستانی فلموں کی نمائش کے لیے پیش پیش ہونگے۔ فلمساز فیاض خان نے کہا کہ ایک وقت تھا جب سینما مالکان ہماری فلموںکی نمائش کے لیے آگے پیچھے ہوتے تھے لیکن اب وہ بھارتی فلموں کی بدولت ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں۔
میری فلم ''ظل شاہ'' کی نمائش کے موقع پر مجھے بہت سے مسائل کا سامنا رہا اوراسی لیے میں نے مزید فلمیں پروڈیوس کرنے کا ارادہ رکھتے ہوئے کام نہیں کیا۔ سٹوڈیو اونرراحیل باری اورخرم باری نے کہا کہ زندگی کے تمام شعبوں میں اتارچڑھائو آتے ہیں اورپھر حالات بہتری کی طرف جانے لگتے ہیں ، لیکن جب سے پاکستانی سینمائوں میں بھارتی فلموںکی نمائش کا سلسلہ شروع ہوا ہے حالات بگڑتے چلے جارہے ہیں۔ ایک ٹائم تھا جب باری سٹوڈیو میں 750لوگ ملازمت کرتے تھے لیکن اب صرف گیارہ ملازموں کے ساتھ ہم سٹوڈیو چلا رہے ہیں۔ کام نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے روزگارہوچکے ہیں۔ لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے عدالت سے رجوع کیا مگرافسوس کے اتنا وقت ہونے کے باوجود کوئی فیصلہ سامنے نہیں آسکا۔ اداکارہ صلہ حسین اورزریں نے کہا کہ پاکستان فلم انڈسٹری ہماری پہچان ہے اورآج بھی لوگ پاکستانی فلم دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اب وقت آچکا ہے کہ ہم سب ایک پلیٹ فارم پراکھٹے ہوں اوراپنے اپنے شعبوں میں مل کر بہترکام کرنے کی کوشش کریں ۔ یہ کام مشکل ضرور ہوگا لیکن ناممکن نہیں ہے۔ ہم دعا گو ہیں کہ پاکستان فلم انڈسٹری کا بحران ختم ہو، نگارخانے آباد اورسینما گھروں میں ایسی پاکستانی فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جائیں جس سے رونقیں لگ جائیں۔
پاکستان فلم انڈسٹری بحران کا شکار ضرور ہے لیکن تباہ نہیں ہوئی،بھارتی فلموں کی غیر قانونی نمائش کی وجہ سے پاکستانی فلموں کوسینما گھر دستیاب نہیں ہوتے، جب تک پنجاب میں سنسربورڈ قائم نہیں ہوتا اس وقت تک بہتری کی امید رکھنا بے وقوفی ہے، پاکستان فلم انڈسٹری کے لیے بنائی جانے والی فلم پالیسی میں اگرپاکستان فلم انڈسٹری کے سٹیک ہولڈرز شامل نہیں ہونگے تو ہم ایسی پالیسی کونہیں مانیں گے، یہ ہماری انڈسٹری ہے اوراس کی بحالی اوربہتری کے لیے ہماری تجاویز کے ساتھ کام ہونا چاہیے،۔
بھارتی فلم کی نمائش اگرضروری ہے تواس پر 25 لاکھ ٹیکس لگایاجائے اوراس رقم کو فلمسازی پرخرچ کیا جائے، حکومت اورمیڈیا پاکستان فلم انڈسٹری کی سپورٹ کرے تودوبارہ سنہری دورواپس آسکتا ہے۔ فلم انڈسٹری کے بحران کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے روزگاربیٹھے ہیں مگرحکومت کچھ نہیں کرتی۔ پاکستانی فلموںکا معیار بہترکرنے کی اشدضرورت ہے، جدیدٹیکنالوجی کے بغیربنائی جانیوالی فلمیں اب فلم بین نہیں دیکھتے۔ ان خیالات کا اظہارپاکستان فلم پروڈیوسرزایسوسی ایشن کے چیئرمین معروف ہدایتکارو فلمسازسیدنور، سینئر اداکارہ بہاربیگم، شہزاد رفیق، حسن عسکری ، چوہدری اعجازکامران، سہیل خان، جاوید وڑائچ، فیاض خان، سٹوڈیواونرراحیل باری، خرم باری، صلہ حسین، زریں اورسینما اونرنادرمنہاس نے فلم انڈسٹری کی بہتری ، بھارتی فلموں کی نمائش اورحکومتی سطح پربنائی جانے والی فلم پالیسی بارے منعقدہ ''ایکسپریس فورم '' میں گفتگوکرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر سیدنورکا کہنا تھا کہ پاکستان فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کو مل کربہتری کے لیے کام کرنا ہوگا۔ ہم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے بہت سے مثبت کام کرنے جارہے ہیں جس کا فائدہ فلم ٹریڈ سے وابستہ تمام لوگوںکو ہوگا۔ لیکن جب تک انصاف نہیں ہوتا بہتری کی توقع کرنا بے وقوفی ہے۔ گزشتہ کئی برس سے بھارتی فلموں کی غیرقانونی نمائش پرپابندی کے حوالے دائر مقدموںکا فیصلہ سامنے نہیں آرہا۔ انصاف کہاں سورہاہے ؟ ۔ ہمارے سینما گھروںمیںجن بھارتی فلموںکی نمائش ہوتی ہے اس میں ایسے مناظر دکھائے جاتے ہیں جو کوئی بھی شخص اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کے نہیں دیکھ سکتا، سنسربورڈ کے ساتھ ساتھ سینما مالکان کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ایسے مناظر کوکاٹ دیں۔
اداکارہ بہاربیگم نے کہا ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کو سب سے زیادہ نقصان میڈیا نے پہنچایا ہے۔ جس انداز سے میڈیا نے فلم انڈسٹری کی شکل لوگوں میںمتعارف کروائی ہے اس کے بعد بہتری کی امیدکرنا درست نہیں ہے۔ میڈیا اگرآج بھی ذمے داری سے کام کرے اورپاکستانی فلم کوسپورٹ اورپروموٹ کرے تویہاں پرفلمسازی کے لیے بہت سے سرمایہ کارآنے لگیں گے۔ اس کے علاوہ وفاقی وزارت کلچر کے خاتمے کے بعد اتنا وقت گزرنے کے باوجود پنجاب میں سنسربورڈ قائم نہیں ہوسکا۔ اگریہاں سنسربورڈ بن جائے تواس کے ذریعے بھی حالات بہترہونگے۔ مجھے پاکستان فلم انڈسٹری نے نام دیا اورپہچان دی، میری ایک ایک سانس فلم انڈسٹری کے لیے دھڑکتی ہے۔
اس لیے میں میڈیا سے درخواست کرونگی وہ ہمارا ساتھ دے اورمکمل تعاون کیاجائے۔ ہدایتکارشہزادرفیق نے کہا کہ فلم اورسینما الگ الگ نہیں ہیں۔ پہلے سینما کوپاکستان فلم انڈسٹری نے بھرپورسپورٹ کی اوریہاں پررونقیں لگنے لگیں مگراب سینماوالے ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں ۔ میرے نزدیک توفلم اور سینما دوبازو ہیں مگرآج ایک بازوکوفائدہ ہورہا ہے تودوسرا نقصان میں جا رہا ہے۔ بھارتی فلم کویہاں نمائش کرنا اگرضروری ہے تواس پرٹیکس لگایا جائے جس طرح دنیا کے بیشترممالک میں ہوتا ہے اور اس رقم سے پاکستان فلم انڈسٹری کی سپورٹ کی جائے۔ ہدایتکار حسن عسکری نے کہا کہ سینما گھروں میں بھارتی فلموںکی نمائش سے پاکستان فلم انڈسٹری کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیداہورہاہے اورنوجوان نسل بھی تباہی کی طرف جارہی ہے۔ نوجوان نسل ہمارے کلچراوراقدارکو بھول رہی ہے۔
فلم ایک اہم شعبہ ہے جس کے ذریعے معاشرے میں سدھارلایا جا سکتا ہے مگربدقسمتی سے بھارتی فلموں کی یلغارنے سارانظام درھم برھم ہوکررہ گیا ہے۔ ہمیںمل کر بہتری کے لیے کام کرنا ہوگا۔ فلمسازسہیل خان نے کہا ہے کہ پاکستان کا نوے فیصد میڈیا بھارتی فلموں کو پروموٹ کرتا ہے، بھارتی فلموں کی نمائش کے لیے جاری کیے جانے والے ' این او سی' میں یہ بات بہت واضح ہے کہ بھارتی فلموںکو پاکستان میں نمائش کی اجازت نہیں ہے۔ مگر کاغذی کارروائی کرتے ہوئے ہربھارتی فلم کوامپورٹ کیٹگری میںشامل کردیا جاتاہے۔ لوکل پروڈکشن بہت کم ہے اس میںبھی اضافہ ہوناچاہیے۔ فلمساز چوہدری اعجاز کامران نے کہا کہ اسلام آباد میں فلم پالیسی بنانے کے لیے کام کیا جارہا ہے اورایک پرائیویٹ کمپنی کو یہ ''ذمے داری '' سونپی گئی ہے ۔ لیکن ہم سے کسی نے کوئی رابطہ نہیں کیا ۔ میں نے بھارتی فلموں کے مقابلے میں بڑے سرمائے سے فلم ''بھائی لوگ'' بنائی توکراچی میں کوئی سینما نہیں ملا۔ جس طرح کا سلوک ہمارے ساتھ کیا جارہا ہے اس پر سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے اگراس کا فوری حل تلا ش نہ کیا گیا توپھرحالات مزید بگڑجائینگے۔
فلمساز جاوید وڑائچ نے کہا کہ 7برس میری آخری فلم ''کمانڈو'' بنائی تھی جس نے زبرست بزنس کیا لیکن اس کے بعد یہاں بھارتی فلموںکی نمائش شروع ہوگئی جس پرمیں نے خاموشی سے فلمسازی چھوڑ دی۔ میں آج بھی پاکستانی فلم انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرنے کاخواہشمندہوں اورکثیر سرمائے سے فلمیں بناناچاہتاہوں لیکن اس سے پہلے بھارتی فلموں کی نمائش پرپابندی لگائی جائے اورمیڈیا بھی ہماری سپورٹ کرنے کی یقین دہانی کروائے۔ آج جو لوگ کہتے ہیں کہ فلمسازنہیں رہے تومیں آج بھی فلمیں پروڈیوس کرنے کاارادہ رکھتا ہون۔ سینما اونرنادرمنہاس نے کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ سینما مالکان پاکستانی فلموںکو جگہ نہیں دیتے۔ میں نے چند برس قبل ہی اس شعبے میں قدم رکھا اورایک ایسے سینما میں سرمایہ کاری کی جوبدنام ہوچکا تھا اورفیملیز یہاں آنے سے ڈرتے تھے مگرآج صورتحال یہ ہے کہ وہاں فیملیز کی بڑی تعدادآتی ہے اورامپورٹڈفلمیں دیکھتی ہے۔
میں نے اپنی مارکیٹ کی ڈیمانڈ کو رد کرتے ہوئے بہت سی پاکستانی فلموں کو نمائش کے لیے پیش کیا لیکن بزنس کو دیکھتے ہوئے اورفلم بینوں کی ڈیمانڈ پرفلمیں تبدیل کرنا پڑیں۔ اب صورتحال یہ بن چکی ہے کہ ہمارے فلمسازوں کو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ فلمیں بنانا ہونگی۔ آنیوالے چند برسوں کے دوران سینما گھروں میں اتنی جدید ٹیکنالوجی متعارف ہوجائے گی کہ پھر جس کیمرہ پرہمارے ہاں فلمیں بنائی جارہی ہے وہ سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش ہی نہیں کی جاسکیںگی۔ اس حوالے سے سب کوسنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہیے اورجدید ٹیکنالوجی کے ساتھ فلمیں بنائیں تو ہمارے سینما گھر پاکستانی فلموں کی نمائش کے لیے پیش پیش ہونگے۔ فلمساز فیاض خان نے کہا کہ ایک وقت تھا جب سینما مالکان ہماری فلموںکی نمائش کے لیے آگے پیچھے ہوتے تھے لیکن اب وہ بھارتی فلموں کی بدولت ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں۔
میری فلم ''ظل شاہ'' کی نمائش کے موقع پر مجھے بہت سے مسائل کا سامنا رہا اوراسی لیے میں نے مزید فلمیں پروڈیوس کرنے کا ارادہ رکھتے ہوئے کام نہیں کیا۔ سٹوڈیو اونرراحیل باری اورخرم باری نے کہا کہ زندگی کے تمام شعبوں میں اتارچڑھائو آتے ہیں اورپھر حالات بہتری کی طرف جانے لگتے ہیں ، لیکن جب سے پاکستانی سینمائوں میں بھارتی فلموںکی نمائش کا سلسلہ شروع ہوا ہے حالات بگڑتے چلے جارہے ہیں۔ ایک ٹائم تھا جب باری سٹوڈیو میں 750لوگ ملازمت کرتے تھے لیکن اب صرف گیارہ ملازموں کے ساتھ ہم سٹوڈیو چلا رہے ہیں۔ کام نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے روزگارہوچکے ہیں۔ لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے عدالت سے رجوع کیا مگرافسوس کے اتنا وقت ہونے کے باوجود کوئی فیصلہ سامنے نہیں آسکا۔ اداکارہ صلہ حسین اورزریں نے کہا کہ پاکستان فلم انڈسٹری ہماری پہچان ہے اورآج بھی لوگ پاکستانی فلم دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اب وقت آچکا ہے کہ ہم سب ایک پلیٹ فارم پراکھٹے ہوں اوراپنے اپنے شعبوں میں مل کر بہترکام کرنے کی کوشش کریں ۔ یہ کام مشکل ضرور ہوگا لیکن ناممکن نہیں ہے۔ ہم دعا گو ہیں کہ پاکستان فلم انڈسٹری کا بحران ختم ہو، نگارخانے آباد اورسینما گھروں میں ایسی پاکستانی فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جائیں جس سے رونقیں لگ جائیں۔