سارک سربراہ کانفرنس کا خاتمہ

تقسیم کے 70 سال بعد بھی وہ زخم اب تک نہیں بھرے جو تقسیم کے موقعے پر دونوں لوگوں کو لگے تھے


کلدیپ نئیر September 30, 2016

NEW YORK: بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اقوام متحدہ میں زور دار تقریر کرتی نظر آئیں لیکن اس سے کشمیر میں ہونے والے واقعے پر بھارت کے رنج و غم کے ساتھ اس کی بے بسی کا اظہار ہوتا ہے۔

اُڑی میں ہمارے 14 فوجی جوانوں کی ہلاکت پر اندرون ملک سب سے زیادہ زور جوابی کارروائی پر دیا گیا اور وزیراعظم نریندر مودی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس وقت اور اس جگہ پر جوابی وار کریں گے جو ہماری مسلح افواج چنیں گی۔ اس بات کا تو ابھی تک علم نہیں ہو سکا کہ بھارت کا اگلا اقدام کیا ہو گا البتہ جوابی کارروائی والی بات سچ لگتی ہے۔

اگرچہ یہ بڑی افسوسناک بات ہو گی جس کے لیے بہت زیادہ صبر و تحمل اور حوصلے کی ضرورت ہے جو کہ اب بھارت میں نظر نہیں آ رہا۔ جنگ بلاشبہ ایک آپشن نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہم اس صورت حال سے باہر کیسے نکلیں؟ بعض نان اسٹیٹ ایکٹرز نے اڑی کے واقعے میں کچھ سہولت کاری کی ہو گی لیکن اب جب کہ پوری دنیا اڑی کے واقعے پر دہشت اور وحشت کا اظہار کر رہی ہے تو پاکستان نے یہ کہا ہے کہ اڑی کا واقعہ بھارت کا اپنا رچایا ہوا ڈراما ہے جس میں پاکستان کا کسی قسم کا کوئی ہاتھ نہیں۔

پاکستان نے دیگر تمام معاملات سے توجہ ہٹانے کے لیے کشمیر کا معاملہ اٹھا لیا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ توقع کرتا ہے کہ بھارت ان مذاکرات میں شرکت کرے گا جو پاکستان کے مطالبے پر ہونگے۔ غالباً اسلام آباد کا خیال ہو گا کہ سارک سربراہ کانفرنس میں بھارت کے شامل ہونے سے حالات معمول پر آ جائیں گے لیکن بھارت کے انکار کے ساتھ نیپال اور بنگلہ دیش نے بھی اس کانفرنس میں شرکت سے معذوری ظاہر کر دی۔

ظاہر ہے کہ پھر کانفرنس نے منسوخ ہی ہونا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ یہاں سے ہم آگے کیسے بڑھیں گے؟ جنگ اگر کوئی آپشن نہیں تو مذاکرات کا بھی اب تک کیا نتیجہ نکلا ہے؟ سشما سوراج کی تقریر کے بعد اب تمام آنکھیں نئی دہلی پر لگی ہیں کہ بھارت اگلا قدم کیا اٹھاتا ہے کیونکہ بات چیت سے اب تک کوئی حل برآمد نہیں ہو سکا۔

بھارت نے سندھ طاس معاہدہ پر نظرثانی کا اعلان کر دیا ہے جس پر 1960ء میں نہرو اور پاکستان کے جنرل ایوب نے دستخط کیے تھے۔ پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ اگر بھارت نے سندھ طاس معاہدے میں پاکستان کی شمولیت کے بغیر کسی ردوبدل کی کوشش کی تو اسے جنگ کے مترادف خیال کیا جائے گا۔

اس ڈیڈ لاک کی وجہ سے کوئی ترقی نہیں کی جا رہی۔ دونوں ملکوں کے عوام اپنی اپنی حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل نکالیں۔ پاکستان بار بار کہہ رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیرمیں امن قائم نہیں ہو سکتا۔

گویا ہم پھر اسی جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ اس پر مستزادیہ کہ کشمیریوں نے کہہ دیا ہے کہ وہ ''اپنے راستے پر'' چلیں گے۔کشمیری نوجوان اپنا الگ ملک چاہتے ہیں جو خود مختار اور مکمل طور پر آزاد ہو۔ ان کو اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ بھارت اپنی سرحد پر ایک اور اسلامی ملک کے حق میں نہیں لیکن کشمیری نوجوان بہت غصے میں ہیں اور وہ اپنے آزادی کے مطالبے سے کسی طور دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں۔

انگریز واپس جا رہے تھے تو انھوں نے ان تمام ریاستوں کو جن پر راجاؤں یا نوابوں کی حکومت تھی یہ اختیار دیا کہ وہ اگر بھارت یا پاکستان میں سے کسی کے ساتھ شامل نہیں ہونا چاہتے تو پھر اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رکھیں۔ جموں کشمیر کے مہاراجا ہری سنگھ نے اعلان کر دیا کہ وہ آزاد رہیں گے لیکن چونکہ کشمیر چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا خطہ (لینڈ لاکڈ) ہے لہٰذا اسے لازمی طور پر بھارت یا پاکستان کی مدد لینا ہو گی تاکہ بیرونی دنیا سے رابطہ کر سکے۔

چونکہ جموں اور کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اس لیے پاکستان کی توقع تھی کہ وہ اس کے ساتھ الحاق کرے گا لیکن ایسا نہ ہوا ۔کشمیر میں آزادی کی جنگ شروع ہوئی تو اس پر مہاراجہ کو بھارت کی مدد مانگنا پڑی۔ بھارت کا کہنا تھا کہ کشمیر کے ساتھ الحاق کے بغیر وہ اپنی فوجیں کشمیر میں داخل نہیں کر سکتا۔ چنانچہ مہاراجہ کو بھارت کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کرنا پڑے۔ اس ریاست کے دو حصے آزادی کے مخالف ہیں۔

ایک جموں جہاں پر ہندوؤں کی اکثریت ہے اور دوسرا لداخ جہاں بدھ مت والے رہتے ہیں۔ یہ دونوں بھارتی یونین کے ساتھ ہی رہنا چاہتے ہیں۔ گویا آزادی کا مطالبہ صرف وادی کی طرف سے کیا جا رہا ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت %98 تک ہے۔ اب جب کہ بھارت خود بھی تقسیم در تقسیم کا شکار ہو رہا ہے اور حکمران بی جے پی خود ہندو کارڈ کو استعمال کر رہی ہے تو یہ تصور کرنا محال ہے کہ کانگریس یا کمیونسٹوں سمیت کوئی بھی اور پارٹی کشمیریوں کی آزادی کے مطالبے کی حمایت کرے گی۔

تقسیم کے 70 سال بعد بھی وہ زخم اب تک نہیں بھرے جو تقسیم کے موقعے پر دونوں لوگوں کو لگے تھے لہٰذا بھارتی عوام سے اس بات کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک اور تقسیم کو قبول کر لیں گے باوجود اس کے کہ کشمیری عوام کے جذبات بہت شدید اور سچے ہیں۔ اگر یہ تقسیم بھی مذہب کی بنیاد پر ہوئی تو بھارت جو کہ سیکولر ہونے کا دعویدار ہے اس کی بقا کا جواز ختم ہو جائے گا۔

یہ درست ہے کہ بھارت میں رہنے والے 25 کروڑ مسلمان برابر کے شہری ہیں اور ان کے ساتھ یرغمالوں کا سلوک نہیں کیا جاتا لیکن وادی کا بھارت سے الگ ہو جانا بہت ہولناک نتائج کا حامل ہو گا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔بھارت اور پاکستان نے کشمیر کے مسئلے پر دو باقاعدہ جنگیں لڑی ہیں جب کہ کارگل کے پہاڑوں میں ایک منی ایڈونچر بھی کیا گیا لیکن وادی اب بھی ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے۔

آزادی کی جدوجہد میں کئی ہزار کشمیری جان سے گزر چکے ہیں۔ بھارت انھیں تخریب کار قرار دیتا ہے جنھیں بھارت کے سیکیورٹی فورسز نے ہلاک کیا جب کہ خود سیکیورٹی فورسز کے بھی ہزاروں جوان مارے گئے۔ اب بھی کچھ عسکریت پسند حملوں کی کوشش کرتے ہیں جن کے خلاف جوابی کارروائی کی جاتی ہے مثال کے طور پر ایک محفل موسیقی کے موقعے پر جنوبی کشمیر میں قائم مرکزی ریزرو پولیس فورس پر راکٹ حملہ کیا گیا۔

سری نگر میں ہڑتال تھی مگر یہ ہڑتال تو کئی بار پہلے بھی ہو چکی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سشما کے انتباہ کا کوئی جواب نہیں آئے گا جب کہ یہ خطرہ بدستور موجود ہے کہ اگر اس طرح کی کوئی اور کارروائی ہوئی تو دونوں ملکوں میں جنگ چھڑ جائے گی۔ پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ اڑی کے واقع میں پاکستان کا قطعاً کوئی عمل دخل نہیں۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں