جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد
اڑی سیکٹر میں حملے کی خبر نے پاک بھارت تناؤ میں اضافہ کردیا
جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل میڈیا پر ایک شور برپا تھا اور سیاسی حلقوں میں بھی ایک تناؤ تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے ، خصوصاً اڑی سیکٹر میں حملے کی خبر نے پاک بھارت تناؤ میں اضافہ کردیا۔ آج کے دور میں کون جارح ہے اور کون مجروح، اس کا پتہ لگانا دشوار نہیں۔ کم ازکم دو ممالک کے لیے جن کے سیارچے ہمہ وقت مدار کا چکر لگا رہے ہیں اور جاسوسی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
ایسے ماحول میں جب کہ بھارت اور پاکستان میں تناؤ چل رہا ہے تو بھارت کے لیے یہ مشکل نہ تھا کہ حملے کی تصویر کشی کی جائے، حملے کا وقت سمت اور اسلحے کی نوعیت کا پتہ لگایا جا سکے، مگر یہ تو ایک موقع تھا کہ جس کی آڑ میں محدود آپریشن کشمیر سیکٹر میں کیا جائے مگر یہ اس لیے ممکن نہ ہوا کہ عالمی صورتحال اس قدر آسان نہ تھی اور روس جو کبھی بھارت کا اتحادی تھا وہ اب پاکستان کے ساتھ مل کر 24 ستمبر سے جنگی مشقیں شروع کر رہا ہے اور یہ بھی کہ ان مشقوں کا طریقہ کار بھی کچھ انوکھا ہے، خصوصاً 30 ہزار فٹ سے بلند جنگی جہازوں کا نشانہ لگانا اور پہاڑی اور دشوار گزار علاقوں میں جنگی صلاحیت کا عمل۔
دوم امریکا اور پاکستان کے بین بین تعلقات جو نواز شریف اور امریکا کے مابین ہیں اور دوسری جانب پاکستانی کمانڈر جنرل راحیل شریف اور روسی افواج کے جرنلوں کے ہمراہ جو روسی ہیلی کاپٹر کی خریداری سے فوجی تعاون شروع ہوا اور رفتہ رفتہ ایک پیشہ ورانہ فوجی تعلق میں تبدیل ہوگیا۔ یہ گزشتہ دو برسوں کی سفارتکاری تھی جو کام آئی۔ اور ایسے موقعے پر یہ بھارت کے لیے کوئی خوشگوار عنوان نہ تھا کہ روس پاکستان مشقوں کے درمیان ایک چھوٹی جنگ کا آغاز کر دے۔
یہ بات واضح رہے کہ جب نریندر مودی کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات بالکل بھولنے کی نہیں کہ یہ اس پارٹی کے رہنما ہیں جس پارٹی نے ماضی میں مہاتما گاندھی پر حملہ کر کے انھیں ہلاک کیا تھا، تو ان سے کسی موقع کو جانے دینے کی توقع نہ رکھی جائے۔ یہ تو جمہوریت کی انہونی ہے کہ نریندر مودی جن پر یہ الزام تھا کہ انھوں نے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا، اپنی نسل پرستی کی سیاست کرنے پر الیکشن جیت گئے اور اب دنیا بھر کے دروازے ان پر کھل گئے۔
یہ ہے جمہوریت کے ڈھول کا پول کہ جس نے مذہب کو سیاست میں استعمال کیا وہ ان ملکوں میں اہم مانا جا رہا ہے جہاں مذہب کو ریاست کے معاملے میں استعمال نہیں کیا جاتا، اور جہاں رنگ نسل اور مذہب کو سیاست سے دور رکھا جاتا ہے۔ مگر کیا دوش دیجیے نریندر مودی کو، یہ اپنے ماضی کے جواہر کی روٹی کھا رہے ہیں، جواہر لعل نہرو نے بھارت کو آزادی کے فوراً بعد زمینداری ختم کر دی۔
فی کس جو ایک خاندان کا حصہ بنتا تھا، وہ دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج بھارت میں 40 فیصد مڈل کلاس پیدا ہو گیا ہے، یعنی پاکستان کے اعتبار سے 80-6000 اور ایک لاکھ ماہوار والا طبقہ جس کی وجہ سے کوئی ملک اس کی اقتصادی قوت کی وجہ سے نظرانداز نہیں کرتا، اسی وجہ سے امریکا اور یورپی ممالک کشمیر میں اس کی دراندازی پر خاموش ہیں، ورنہ اگر کوئی دوسرا ملک ہوتا تو اس کو اس قدر من مانی ہرگز کرنے نہ دیتے اور نہ ہی مذہب کی بنیاد پر ووٹ لے کر آنے والے کو اہمیت دی جاتی۔ یہ سب سرمایہ دارانہ دنیا کا کھیل ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بھارتی انتہا پسندوں کی راہ پر ہم چلیں اور ان سے ہر قسم کے عوامی رابطے ختم کر دیں۔
یہی تو ایجنڈا ہے بھارتی مذہبی انتہا پسندوں کا۔ اسی کی آڑ میں پاکستانی وڈیرے یہ چاہتے ہیں کہ بھارت سے سبزیوں کی تجارت بند کر دیں، تاکہ یہ ٹماٹر 200 روپے کلو اور پیاز 100 روپے کلو میں فروخت کر سکیں۔ لہٰذا پاکستانی عوام کی قوت خرید کے تحت سبزیوں کا جو سلسلہ تجارت رکھا ہے وہ عوام کے مفاد میں ہے مگر پاکستان کے کسانوں کے تجارتی مفاد کو زیر غور رکھنا چاہیے اور ایسی پالیسی وضع کرنی چاہیے کہ جو سبزی کھیت سے 10 روپے کلو اٹھائی جائے اسے سبزی فروشوں کے پاس آنے تک 80 یا 60 روپے کلو فروخت کیا جائے۔
پاکستان میں وڈیرہ شاہی ختم ہونے کی اب کوئی امید نہیں، ایک زمانہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے یہ نعرہ لگایا تھا، پھر کچھ عرصہ ایم کیو ایم سے یہ آواز اٹھی، مگر اب یہ سب ختم ہوکر رہ گئی۔ بغیر کسی پروگرام کے پاکستان میں سیاست ہو رہی ہے۔ اسی لیے بھارت کے حکمرانوں کے مقابل پاکستان کے حکمرانوں کی بھی عالمی فورم پر کوئی وقعت نہیں۔
کشمیر کے لوگوں کی آواز بھی عالمی فورم پر اس لیے پذیرائی حاصل نہیں کر پا رہی کیونکہ محض مذہبی بنیادوں پر آواز اٹھ رہی ہے اور یہ وقت جمہوریت، آزادی، خودمختاری کا ہے، کشمیر کی نئی لیڈرشپ جو نوجوانوں پر مشتمل ہے زیادہ پرکشش ہے اور عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔
بھارت بڑی ہوشیاری سے یہ سوچ رہا ہے کہ کسی طرح آزادی کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے خطے میں جنگ چھیڑ دی جائے، لیکن وہ براہ راست جنگ نہیں چاہتا کیونکہ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور 60 لاکھ کشمیریوں کی وجہ سے سوا ارب لوگوں کو اپنی نسل کی تباہی نظر آ رہی ہے۔ اسی لیے بھارت یہ سوچ رہا ہے کہ وہ کسی طرح پراکسی وار شروع کرے، یعنی افغانستان سے پاکستان کو الجھا دے اور یہ طویل جنگ کی شکل ہو، کیونکہ افغانستان کے بارڈر کے علاقے اور فاٹا اور دیگر علاقوں میں ضرب عضب تیزی سے جاری ہے، اس لیے بھارت یہ چاہے گا کہ وہ پاکستان سے اس خطے میں پراکسی وار جاری رکھے۔
یہ پراکسی وار اس قسم کی ہوسکتی ہے جیسی کہ مشرق وسطیٰ کی ہیجانی جنگ تھی، مگر پاک افواج اس قسم کی جنگ کو بھڑکنے نہ دیں گی جسکی عسکری صلاحیت کی دنیا معترف ہے۔ حال میں انگلینڈ کی افواج کے کمانڈر انچیف نے پاکستانی فوجی صلاحیتوں کا لوہا مانا ہے اور امید ہے کہ یہ خواہشیں کبھی عملی جامہ نہ پہن سکیں گی۔
البتہ ایک بات جو قابل غور ہے وہ یہ کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کو کئی دن گزر گئے مگر پھر بھی میڈیا میں اس موضوع پر گفتگو جاری ہے کہ وزیراعظم کی گفتگو کیسی تھی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے پر ہمارے وزیراعظم نے گفتگو نہ کی جس کا جواب نواز شریف نے واپسی پر لندن میں گفتگو کرتے ہوئے دیا کہ بلوچستان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، جتنی اہمیت ہے دنیا اس سے آگاہ ہے۔
ایک اعتبار سے یہ ان کا کہنا درست ہے کہ بلوچستان کو اہمیت نہ دی گئی مگر بلوچستان کا معاملہ نظرانداز کرنا میرے اعتبار سے مناسب نہیں، کیونکہ اس مسئلے پر 1958ء سے رہ رہ کر معاملات میں الجھاؤ آتا رہا ہے اور گزشتہ چند ماہ سے بھارت پر بلوچستان میں دخل اندازی پر کافی واضح اعتبار سے الزام لگتا رہا ہے اور اب برہمداغ بگٹی کی بھارتی شہریت کا ایک شوشہ لوگوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ ہمارے میڈیا سے برہمداغ بگٹی کا معاملہ بہت اچھالا جا رہا ہے۔ لہٰذا اس پر چند جملوں کے لائق تو یقینی گفتگو ہونی چاہیے تھی، کیونکہ بھارت اس موضوع پر کھل کر گفتگو کر رہا ہے۔
مودی ایک خطرناک پگڈنڈی پر چل رہے ہیں۔ ان کو شاید یہ علم نہیں کہ امریکا نے جو مڈایسٹ میں جنگ کا کھیل کھیلا تھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امریکا کا بھرم دنیا سے جاتا رہا اور دنیا کا یونی پولر (Unipolar) تصور گم ہوگیا۔ باجپائی، جو طریقہ امن کا ہے اگر چلاتے رہے تو بھارت میں جو مڈل کلاس ابھرا ہے وہ ملک کے لیے ترقی کا باعث ہے۔ اگر جنگ کے شعلوں کو بھڑکایا گیا اور بھارت بدامنی کی لپیٹ میں آ گیا تو وہاں کی ٹورازم انڈسٹری اور دیگر تجارتی ڈھانچے تباہ ہو جائیں گے۔
جہاں بھارت کا مڈل کلاس ابھرا ہے تو وہاں دوسری طرف غربت کی زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اگر کوئی لیڈر ان غریب عوام کو یکجا اور منظم کرنے میں کامیاب ہوگیا تو بھارت کا دوسرا نقشہ بھی لوگوں کے سامنے آجائے گا، مگر فی الحال بھارت کے مڈل کلاس کی طرف سرمایہ دار ملکوں کی نظریں ہیں، جہاں وہ اپنی مصنوعات کو فروخت کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ لوگوں کے سامنے ہے مگر وہ معاشی مفادات کی بنا پر بھارت پر تنقید سے گریزاں ہیں بلکہ بھارت کو خوش کرنے میں لگے ہیں۔ سول نیوکلیئر پلانٹ کو ہی دیکھ لیں ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ دونوں ملکوں کو نرم انداز گفتگو اور ہمسایوں والی زبان بولنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام کی بہتری اچھے ہمسایہ کی شکل میں ہی ممکن ہے، ورنہ ایٹمی ایندھن کا لقمۂ اجل کو ہاتھوں میں لیے ان کا استقبال کرے گا اور انا کی بھینٹ دونوں چڑھ جائیں گے۔
ایسے ماحول میں جب کہ بھارت اور پاکستان میں تناؤ چل رہا ہے تو بھارت کے لیے یہ مشکل نہ تھا کہ حملے کی تصویر کشی کی جائے، حملے کا وقت سمت اور اسلحے کی نوعیت کا پتہ لگایا جا سکے، مگر یہ تو ایک موقع تھا کہ جس کی آڑ میں محدود آپریشن کشمیر سیکٹر میں کیا جائے مگر یہ اس لیے ممکن نہ ہوا کہ عالمی صورتحال اس قدر آسان نہ تھی اور روس جو کبھی بھارت کا اتحادی تھا وہ اب پاکستان کے ساتھ مل کر 24 ستمبر سے جنگی مشقیں شروع کر رہا ہے اور یہ بھی کہ ان مشقوں کا طریقہ کار بھی کچھ انوکھا ہے، خصوصاً 30 ہزار فٹ سے بلند جنگی جہازوں کا نشانہ لگانا اور پہاڑی اور دشوار گزار علاقوں میں جنگی صلاحیت کا عمل۔
دوم امریکا اور پاکستان کے بین بین تعلقات جو نواز شریف اور امریکا کے مابین ہیں اور دوسری جانب پاکستانی کمانڈر جنرل راحیل شریف اور روسی افواج کے جرنلوں کے ہمراہ جو روسی ہیلی کاپٹر کی خریداری سے فوجی تعاون شروع ہوا اور رفتہ رفتہ ایک پیشہ ورانہ فوجی تعلق میں تبدیل ہوگیا۔ یہ گزشتہ دو برسوں کی سفارتکاری تھی جو کام آئی۔ اور ایسے موقعے پر یہ بھارت کے لیے کوئی خوشگوار عنوان نہ تھا کہ روس پاکستان مشقوں کے درمیان ایک چھوٹی جنگ کا آغاز کر دے۔
یہ بات واضح رہے کہ جب نریندر مودی کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات بالکل بھولنے کی نہیں کہ یہ اس پارٹی کے رہنما ہیں جس پارٹی نے ماضی میں مہاتما گاندھی پر حملہ کر کے انھیں ہلاک کیا تھا، تو ان سے کسی موقع کو جانے دینے کی توقع نہ رکھی جائے۔ یہ تو جمہوریت کی انہونی ہے کہ نریندر مودی جن پر یہ الزام تھا کہ انھوں نے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا، اپنی نسل پرستی کی سیاست کرنے پر الیکشن جیت گئے اور اب دنیا بھر کے دروازے ان پر کھل گئے۔
یہ ہے جمہوریت کے ڈھول کا پول کہ جس نے مذہب کو سیاست میں استعمال کیا وہ ان ملکوں میں اہم مانا جا رہا ہے جہاں مذہب کو ریاست کے معاملے میں استعمال نہیں کیا جاتا، اور جہاں رنگ نسل اور مذہب کو سیاست سے دور رکھا جاتا ہے۔ مگر کیا دوش دیجیے نریندر مودی کو، یہ اپنے ماضی کے جواہر کی روٹی کھا رہے ہیں، جواہر لعل نہرو نے بھارت کو آزادی کے فوراً بعد زمینداری ختم کر دی۔
فی کس جو ایک خاندان کا حصہ بنتا تھا، وہ دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج بھارت میں 40 فیصد مڈل کلاس پیدا ہو گیا ہے، یعنی پاکستان کے اعتبار سے 80-6000 اور ایک لاکھ ماہوار والا طبقہ جس کی وجہ سے کوئی ملک اس کی اقتصادی قوت کی وجہ سے نظرانداز نہیں کرتا، اسی وجہ سے امریکا اور یورپی ممالک کشمیر میں اس کی دراندازی پر خاموش ہیں، ورنہ اگر کوئی دوسرا ملک ہوتا تو اس کو اس قدر من مانی ہرگز کرنے نہ دیتے اور نہ ہی مذہب کی بنیاد پر ووٹ لے کر آنے والے کو اہمیت دی جاتی۔ یہ سب سرمایہ دارانہ دنیا کا کھیل ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بھارتی انتہا پسندوں کی راہ پر ہم چلیں اور ان سے ہر قسم کے عوامی رابطے ختم کر دیں۔
یہی تو ایجنڈا ہے بھارتی مذہبی انتہا پسندوں کا۔ اسی کی آڑ میں پاکستانی وڈیرے یہ چاہتے ہیں کہ بھارت سے سبزیوں کی تجارت بند کر دیں، تاکہ یہ ٹماٹر 200 روپے کلو اور پیاز 100 روپے کلو میں فروخت کر سکیں۔ لہٰذا پاکستانی عوام کی قوت خرید کے تحت سبزیوں کا جو سلسلہ تجارت رکھا ہے وہ عوام کے مفاد میں ہے مگر پاکستان کے کسانوں کے تجارتی مفاد کو زیر غور رکھنا چاہیے اور ایسی پالیسی وضع کرنی چاہیے کہ جو سبزی کھیت سے 10 روپے کلو اٹھائی جائے اسے سبزی فروشوں کے پاس آنے تک 80 یا 60 روپے کلو فروخت کیا جائے۔
پاکستان میں وڈیرہ شاہی ختم ہونے کی اب کوئی امید نہیں، ایک زمانہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے یہ نعرہ لگایا تھا، پھر کچھ عرصہ ایم کیو ایم سے یہ آواز اٹھی، مگر اب یہ سب ختم ہوکر رہ گئی۔ بغیر کسی پروگرام کے پاکستان میں سیاست ہو رہی ہے۔ اسی لیے بھارت کے حکمرانوں کے مقابل پاکستان کے حکمرانوں کی بھی عالمی فورم پر کوئی وقعت نہیں۔
کشمیر کے لوگوں کی آواز بھی عالمی فورم پر اس لیے پذیرائی حاصل نہیں کر پا رہی کیونکہ محض مذہبی بنیادوں پر آواز اٹھ رہی ہے اور یہ وقت جمہوریت، آزادی، خودمختاری کا ہے، کشمیر کی نئی لیڈرشپ جو نوجوانوں پر مشتمل ہے زیادہ پرکشش ہے اور عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔
بھارت بڑی ہوشیاری سے یہ سوچ رہا ہے کہ کسی طرح آزادی کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے خطے میں جنگ چھیڑ دی جائے، لیکن وہ براہ راست جنگ نہیں چاہتا کیونکہ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور 60 لاکھ کشمیریوں کی وجہ سے سوا ارب لوگوں کو اپنی نسل کی تباہی نظر آ رہی ہے۔ اسی لیے بھارت یہ سوچ رہا ہے کہ وہ کسی طرح پراکسی وار شروع کرے، یعنی افغانستان سے پاکستان کو الجھا دے اور یہ طویل جنگ کی شکل ہو، کیونکہ افغانستان کے بارڈر کے علاقے اور فاٹا اور دیگر علاقوں میں ضرب عضب تیزی سے جاری ہے، اس لیے بھارت یہ چاہے گا کہ وہ پاکستان سے اس خطے میں پراکسی وار جاری رکھے۔
یہ پراکسی وار اس قسم کی ہوسکتی ہے جیسی کہ مشرق وسطیٰ کی ہیجانی جنگ تھی، مگر پاک افواج اس قسم کی جنگ کو بھڑکنے نہ دیں گی جسکی عسکری صلاحیت کی دنیا معترف ہے۔ حال میں انگلینڈ کی افواج کے کمانڈر انچیف نے پاکستانی فوجی صلاحیتوں کا لوہا مانا ہے اور امید ہے کہ یہ خواہشیں کبھی عملی جامہ نہ پہن سکیں گی۔
البتہ ایک بات جو قابل غور ہے وہ یہ کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کو کئی دن گزر گئے مگر پھر بھی میڈیا میں اس موضوع پر گفتگو جاری ہے کہ وزیراعظم کی گفتگو کیسی تھی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے پر ہمارے وزیراعظم نے گفتگو نہ کی جس کا جواب نواز شریف نے واپسی پر لندن میں گفتگو کرتے ہوئے دیا کہ بلوچستان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، جتنی اہمیت ہے دنیا اس سے آگاہ ہے۔
ایک اعتبار سے یہ ان کا کہنا درست ہے کہ بلوچستان کو اہمیت نہ دی گئی مگر بلوچستان کا معاملہ نظرانداز کرنا میرے اعتبار سے مناسب نہیں، کیونکہ اس مسئلے پر 1958ء سے رہ رہ کر معاملات میں الجھاؤ آتا رہا ہے اور گزشتہ چند ماہ سے بھارت پر بلوچستان میں دخل اندازی پر کافی واضح اعتبار سے الزام لگتا رہا ہے اور اب برہمداغ بگٹی کی بھارتی شہریت کا ایک شوشہ لوگوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ ہمارے میڈیا سے برہمداغ بگٹی کا معاملہ بہت اچھالا جا رہا ہے۔ لہٰذا اس پر چند جملوں کے لائق تو یقینی گفتگو ہونی چاہیے تھی، کیونکہ بھارت اس موضوع پر کھل کر گفتگو کر رہا ہے۔
مودی ایک خطرناک پگڈنڈی پر چل رہے ہیں۔ ان کو شاید یہ علم نہیں کہ امریکا نے جو مڈایسٹ میں جنگ کا کھیل کھیلا تھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امریکا کا بھرم دنیا سے جاتا رہا اور دنیا کا یونی پولر (Unipolar) تصور گم ہوگیا۔ باجپائی، جو طریقہ امن کا ہے اگر چلاتے رہے تو بھارت میں جو مڈل کلاس ابھرا ہے وہ ملک کے لیے ترقی کا باعث ہے۔ اگر جنگ کے شعلوں کو بھڑکایا گیا اور بھارت بدامنی کی لپیٹ میں آ گیا تو وہاں کی ٹورازم انڈسٹری اور دیگر تجارتی ڈھانچے تباہ ہو جائیں گے۔
جہاں بھارت کا مڈل کلاس ابھرا ہے تو وہاں دوسری طرف غربت کی زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اگر کوئی لیڈر ان غریب عوام کو یکجا اور منظم کرنے میں کامیاب ہوگیا تو بھارت کا دوسرا نقشہ بھی لوگوں کے سامنے آجائے گا، مگر فی الحال بھارت کے مڈل کلاس کی طرف سرمایہ دار ملکوں کی نظریں ہیں، جہاں وہ اپنی مصنوعات کو فروخت کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ لوگوں کے سامنے ہے مگر وہ معاشی مفادات کی بنا پر بھارت پر تنقید سے گریزاں ہیں بلکہ بھارت کو خوش کرنے میں لگے ہیں۔ سول نیوکلیئر پلانٹ کو ہی دیکھ لیں ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ دونوں ملکوں کو نرم انداز گفتگو اور ہمسایوں والی زبان بولنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام کی بہتری اچھے ہمسایہ کی شکل میں ہی ممکن ہے، ورنہ ایٹمی ایندھن کا لقمۂ اجل کو ہاتھوں میں لیے ان کا استقبال کرے گا اور انا کی بھینٹ دونوں چڑھ جائیں گے۔