خود پر ’’خودکش‘‘ حملہ
متحدہ کے سابق قائد کے پاس اب پاکستان کی نہیں برطانیہ کی شہریت ہے
کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ تین دہائیوں سے سندھ کی شہری سیاست پر چھائی ہوئی ایم کیو ایم کے قائد پر یہ وقت بھی آئے گا کہ ایم کیو ایم اپنے ہی قائد کے خلاف سندھ اسمبلی میں قرارداد مذمت پیش کرے گی اور قائد تحریک کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کے الزام میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔
قومی اسمبلی سمیت دیگر اسمبلیوں میں بھی متحدہ کے قائد کی شر انگیز پاکستان مخالف تقریر کے خلاف مذمتی قراردادیں منظور ہوئی ہیں اور سندھ اسمبلی وہ واحد اسمبلی ہے جس میں خود متحدہ نے اپنے قائد کے خلاف جو اب ایک ماہ سے سابق ہوگئے ہیں، قرارداد مذمت پیش کی، جس کی تمام جماعتوں نے مکمل تائید کی اور متفقہ طور پر اس اہم سیاسی قائد کے خلاف سخت کارروائی کی قرارداد منظور ہوگئی۔
بائیس اگست کو قائد تحریک نے اپنے اس ملک کے خلاف شرانگیز تقریر کی جس کو انھوں نے 24 سال قبل خود چھوڑدیا تھا اور برطانیہ میں سیاسی پناہ لے کر وہاں کی شہریت بھی حاصل کرلی تھی۔
متحدہ کے سابق قائد کے پاس اب پاکستان کی نہیں برطانیہ کی شہریت ہے اور گزشتہ چوبیس سال سے پاکستان میں سیاست بھی کرتے رہے اور سندھ کے شہری علاقوں خصوصاً ملک کے سب سے بڑے شہر پر اسی طرح حاوی رہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
لاہور وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کا اپنا شہر ہے جس کی ترقی پر وہ مکمل توجہ دے رہے ہیں، لاہور مسلم لیگ ن کا مضبوط گڑھ اور وہاں کے عوام کی اکثریت نے کراچی میں متحدہ کی نمایندگی کی طرح مسلم لیگ ن کو لاہور کا سیاسی مینڈیٹ دے رکھا ہے مگر لاہور میں میاں صاحبان کے مخالف خصوصاً عمران خان جس طرح سخت مخالفانہ تقریریں اور الزامات لگا لیتے ہیں ایسی قائد تحریک کے خلاف کراچی میں عمران خان سمیت کسی بھی لیڈر کی طرف سے معمولی مخالفت کا بھی تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔
کراچی میں ایم کیو ایم سے خفیہ مصالحت کے تحت پی ٹی آئی کا جلسہ اس شرط پر ہوتا تھا کہ اس میں ایم کیو ایم اور اس کے قائد کے خلاف عمران خان کچھ نہیں بولیںگے۔ ہر جگہ جذباتی اور قابل اعتراض تقریر کرنے میں مشہور عمران خان کراچی آکر خاموش ہو جاتے تھے اور ان میں جرأت نہیں ہوئی اور بائیس اگست سے قبل انھوں نے کبھی متحدہ کے قائد کے خلاف کوئی بات کی ہو۔
عمران خان سمیت دیگر سیاسی رہنما ملک بھر میں متحدہ اور اس کے خلاف سخت تقاریر کرتے تھے مگر کراچی آکر ان کا لہجہ بدل جاتا تھا۔ سندھ کے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے قائد تحریک کے خلاف پریس کانفرنسز اس وقت تک کی جب تک انھیں وزیر داخلہ کی طاقت حاصل رہی اور بعد میں وہ بھی ٹھنڈے پڑ گئے تھے۔اسی سال مارچ میں کراچی کے متحدہ کے سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے متحدہ کے گڑھ کراچی واپس آکر قائد متحدہ پر ''را'' کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا تو تمام حلقے حیران رہ گئے۔
کراچی کی فضاؤں میں قائد تحریک کے خلاف مسلسل تقاریر ہونے لگیں، ان کی تصاویر پھاڑی گئیں، قائد تحریک کے خلاف مزار قائد کے قریب پی ایس پی کا جلسہ ہوا اور متحدہ کے ارکان اسمبلی اور رہنماؤں نے مستعفی ہوکر پی ایس پی میں شمولیت اختیار کرنا شروع کی۔ مصطفی کمال کے خلاف کراچی میں چاکنگ اور ان کی ریلیوں پر پتھراؤ قائد تحریک کے حامیوں نے کیا، جو متحدہ سے زیادہ اپنے اسی قائد کے وفادار تھے، جو کہتے تھے کہ قائد کا جو غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے۔
اس نعرے پر عمل بھی انھوں نے ہی کیا جو منفرد نعرہ لگایا کرتے تھے کہ ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے۔ دنیا بھر میں قائد کی قیادت میں منزل حاصل کی جاتی ہے، مگر متحدہ میں اس کے برعکس تھا اور وہاں منزل کی نہیں بلکہ اس قائد کی بات کی جاتی تھی جو 24 برس سے جلاوطن اور اپنے چاہنے والوں کو اپنے منفرد اسٹائل کی تقاریر کے سوا کچھ نہ دے سکا۔
متحدہ کے قائد نے ایم کیو ایم اس بنیاد پر بنائی تھی کہ اردو بولنے والے بانیان پاکستان کی اولاد ہیں جن کے ساتھ مسلسل حکومتی زیادتیاں ہوتی رہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں انھیں نظر انداز کیا گیا معیاری تعلیمی اداروں میں انھیں داخلے نہیں ملتے اور چار دہائیوں قبل سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کرکے ان پر میرٹ کو نظر انداز کردیا گیا تھا۔
ایم کیو ایم کے قیام کی شکایات اور وجوہات سو فی صد درست تھیں اور اردو بولنے والوں کو ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم پر جمع ہونے کے فوائد کے جو خواب دکھائے گئے تھے اس میں ایم کیو ایم کہاں تک کامیاب رہی یہ حقائق آیندہ کبھی سہی مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے قیام میں اردو بولنے والوں کے بڑوں نے جو اصل مہاجر تھے بلاشبہ قربانیاں دی تھیں جس کا کریڈٹ متحدہ والے لیتے ہیں۔
انھوں نے مہاجر ہونا اپنی شناخت بنالیا ہے مگر در حقیقت وہ خود مہاجر نہیں ہیں ان کے بڑے مہاجر تھے۔ جنھوں نے پاکستان کے لیے قربانیاں دیں اور پاکستان ہجرت کی اور پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ لٹایا اور یہاں آکر مشکلات برداشت کیں اور اب ان ہی کی نسل ایم کیو ایم کی حمایتی ہے اور ان کے بڑے جو حیات ہیں کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ کوئی پاکستان کے خلاف بات کرے۔ مخالفانہ نعرے لگائے اور بھارت سے مدد مانگے جو ہمارا ازلی دشمن ہے۔
متحدہ کا بانی ''را'' کا ایجنٹ ہے یا نہیں ان پر قومی پرچم جلانے کا بھی الزام ہے اور اب وہ برطانوی شہری ہے اور وہاں سے انھوں نے 22 اگست کو پاکستان کے خلاف بات کرکے خود پر ہی خود کش حملہ کیا جس نے بات یہاں تک پہنچادی کہ خود متحدہ نے اسمبلی میں اپنے سابق قائد کے خلاف قرارداد مذمت پیش کی۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کونسل کے پہلے اجلاس میں بانی ایم کیو ایم کے خلاف مذمتی قرارداد منظور ہوئی۔
اس موقع پر متحدہ کے فیصل سبزواری نے کہاکہ میں مہاجر نہیں پاکستان میں پیدا ہوا ہوں۔ متحدہ کے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار کا کہنا ہے کہ ہم نے پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے ہم پاکستان کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرسکتے۔ سید مصطفی کمال کے بقول ان کے سابق بہت زیادہ پی کر آپے میں نہیں رہتے اور جذبات میں نہ جانے کیا کیا کہہ جاتے ہیں۔
یہ وہی مصطفیٰ کمال ہیں جنھیں قائد اپنا بیٹا کہتے تھے اور بیٹے کا بوسہ لینے کی تصویر میڈیا میں فخریہ لگواتے تھے۔ سابق قائد نے بقول اگر انھوں نے اردو بولنے والوں کی حالت پر باغیانہ تقریر کی اور بعد میں معافی مانگی یہ جذبات میں نہیں بلکہ جان بوجھ کر کی جانے والی تقریر تھی جس پر معذرت بھی کی اور دو اور جگہ بھی دہرایا جس پر ان کے چاہنے والے سخت ناراض ہوگئے کیوںکہ انھیں یہیں رہنا ہے بھارت واپس یا کہیں اور نہیں جانا۔
ایک سینئر میڈیا اینکر نے متحدہ پاکستان کی اپنے قائد سے علیحدگی کے بعد مکا چوک سمیت متحدہ کے گڑھ کے حامیوں کے تاثرات لیے تو کسی ایک نے بھی سابق قائد کی حمایت نہ کی اور پاکستان سے وفاداری کی بات کی کہ پاکستان کے خلاف کوئی بھی بات قبول نہیں کی جاسکتی۔
عروج کو زوال ضرور ہے اور اب یہ زوال متحدہ کے بانی پر اس دل سوز باغیانہ تقریر کے باعث آیا جو انھوں نے جان بوجھ کر کی۔ ملک کی ہر جماعت متحدہ کے نہیں اس کے بانی کے جو خلاف ہے اس کی وجوہات سابق قائد کا رویہ، رعونت، متشددانہ ذہنیت اور من مانیاں تھیں جنھوں نے انھیں اس مقام پر پہنچا دیا۔ جہاں ان کی اپنی جماعت بھی اب ان کی اپنی نہیں رہی۔
قومی اسمبلی سمیت دیگر اسمبلیوں میں بھی متحدہ کے قائد کی شر انگیز پاکستان مخالف تقریر کے خلاف مذمتی قراردادیں منظور ہوئی ہیں اور سندھ اسمبلی وہ واحد اسمبلی ہے جس میں خود متحدہ نے اپنے قائد کے خلاف جو اب ایک ماہ سے سابق ہوگئے ہیں، قرارداد مذمت پیش کی، جس کی تمام جماعتوں نے مکمل تائید کی اور متفقہ طور پر اس اہم سیاسی قائد کے خلاف سخت کارروائی کی قرارداد منظور ہوگئی۔
بائیس اگست کو قائد تحریک نے اپنے اس ملک کے خلاف شرانگیز تقریر کی جس کو انھوں نے 24 سال قبل خود چھوڑدیا تھا اور برطانیہ میں سیاسی پناہ لے کر وہاں کی شہریت بھی حاصل کرلی تھی۔
متحدہ کے سابق قائد کے پاس اب پاکستان کی نہیں برطانیہ کی شہریت ہے اور گزشتہ چوبیس سال سے پاکستان میں سیاست بھی کرتے رہے اور سندھ کے شہری علاقوں خصوصاً ملک کے سب سے بڑے شہر پر اسی طرح حاوی رہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
لاہور وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کا اپنا شہر ہے جس کی ترقی پر وہ مکمل توجہ دے رہے ہیں، لاہور مسلم لیگ ن کا مضبوط گڑھ اور وہاں کے عوام کی اکثریت نے کراچی میں متحدہ کی نمایندگی کی طرح مسلم لیگ ن کو لاہور کا سیاسی مینڈیٹ دے رکھا ہے مگر لاہور میں میاں صاحبان کے مخالف خصوصاً عمران خان جس طرح سخت مخالفانہ تقریریں اور الزامات لگا لیتے ہیں ایسی قائد تحریک کے خلاف کراچی میں عمران خان سمیت کسی بھی لیڈر کی طرف سے معمولی مخالفت کا بھی تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔
کراچی میں ایم کیو ایم سے خفیہ مصالحت کے تحت پی ٹی آئی کا جلسہ اس شرط پر ہوتا تھا کہ اس میں ایم کیو ایم اور اس کے قائد کے خلاف عمران خان کچھ نہیں بولیںگے۔ ہر جگہ جذباتی اور قابل اعتراض تقریر کرنے میں مشہور عمران خان کراچی آکر خاموش ہو جاتے تھے اور ان میں جرأت نہیں ہوئی اور بائیس اگست سے قبل انھوں نے کبھی متحدہ کے قائد کے خلاف کوئی بات کی ہو۔
عمران خان سمیت دیگر سیاسی رہنما ملک بھر میں متحدہ اور اس کے خلاف سخت تقاریر کرتے تھے مگر کراچی آکر ان کا لہجہ بدل جاتا تھا۔ سندھ کے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے قائد تحریک کے خلاف پریس کانفرنسز اس وقت تک کی جب تک انھیں وزیر داخلہ کی طاقت حاصل رہی اور بعد میں وہ بھی ٹھنڈے پڑ گئے تھے۔اسی سال مارچ میں کراچی کے متحدہ کے سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے متحدہ کے گڑھ کراچی واپس آکر قائد متحدہ پر ''را'' کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا تو تمام حلقے حیران رہ گئے۔
کراچی کی فضاؤں میں قائد تحریک کے خلاف مسلسل تقاریر ہونے لگیں، ان کی تصاویر پھاڑی گئیں، قائد تحریک کے خلاف مزار قائد کے قریب پی ایس پی کا جلسہ ہوا اور متحدہ کے ارکان اسمبلی اور رہنماؤں نے مستعفی ہوکر پی ایس پی میں شمولیت اختیار کرنا شروع کی۔ مصطفی کمال کے خلاف کراچی میں چاکنگ اور ان کی ریلیوں پر پتھراؤ قائد تحریک کے حامیوں نے کیا، جو متحدہ سے زیادہ اپنے اسی قائد کے وفادار تھے، جو کہتے تھے کہ قائد کا جو غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے۔
اس نعرے پر عمل بھی انھوں نے ہی کیا جو منفرد نعرہ لگایا کرتے تھے کہ ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے۔ دنیا بھر میں قائد کی قیادت میں منزل حاصل کی جاتی ہے، مگر متحدہ میں اس کے برعکس تھا اور وہاں منزل کی نہیں بلکہ اس قائد کی بات کی جاتی تھی جو 24 برس سے جلاوطن اور اپنے چاہنے والوں کو اپنے منفرد اسٹائل کی تقاریر کے سوا کچھ نہ دے سکا۔
متحدہ کے قائد نے ایم کیو ایم اس بنیاد پر بنائی تھی کہ اردو بولنے والے بانیان پاکستان کی اولاد ہیں جن کے ساتھ مسلسل حکومتی زیادتیاں ہوتی رہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں انھیں نظر انداز کیا گیا معیاری تعلیمی اداروں میں انھیں داخلے نہیں ملتے اور چار دہائیوں قبل سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کرکے ان پر میرٹ کو نظر انداز کردیا گیا تھا۔
ایم کیو ایم کے قیام کی شکایات اور وجوہات سو فی صد درست تھیں اور اردو بولنے والوں کو ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم پر جمع ہونے کے فوائد کے جو خواب دکھائے گئے تھے اس میں ایم کیو ایم کہاں تک کامیاب رہی یہ حقائق آیندہ کبھی سہی مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے قیام میں اردو بولنے والوں کے بڑوں نے جو اصل مہاجر تھے بلاشبہ قربانیاں دی تھیں جس کا کریڈٹ متحدہ والے لیتے ہیں۔
انھوں نے مہاجر ہونا اپنی شناخت بنالیا ہے مگر در حقیقت وہ خود مہاجر نہیں ہیں ان کے بڑے مہاجر تھے۔ جنھوں نے پاکستان کے لیے قربانیاں دیں اور پاکستان ہجرت کی اور پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ لٹایا اور یہاں آکر مشکلات برداشت کیں اور اب ان ہی کی نسل ایم کیو ایم کی حمایتی ہے اور ان کے بڑے جو حیات ہیں کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ کوئی پاکستان کے خلاف بات کرے۔ مخالفانہ نعرے لگائے اور بھارت سے مدد مانگے جو ہمارا ازلی دشمن ہے۔
متحدہ کا بانی ''را'' کا ایجنٹ ہے یا نہیں ان پر قومی پرچم جلانے کا بھی الزام ہے اور اب وہ برطانوی شہری ہے اور وہاں سے انھوں نے 22 اگست کو پاکستان کے خلاف بات کرکے خود پر ہی خود کش حملہ کیا جس نے بات یہاں تک پہنچادی کہ خود متحدہ نے اسمبلی میں اپنے سابق قائد کے خلاف قرارداد مذمت پیش کی۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کونسل کے پہلے اجلاس میں بانی ایم کیو ایم کے خلاف مذمتی قرارداد منظور ہوئی۔
اس موقع پر متحدہ کے فیصل سبزواری نے کہاکہ میں مہاجر نہیں پاکستان میں پیدا ہوا ہوں۔ متحدہ کے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار کا کہنا ہے کہ ہم نے پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے ہم پاکستان کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرسکتے۔ سید مصطفی کمال کے بقول ان کے سابق بہت زیادہ پی کر آپے میں نہیں رہتے اور جذبات میں نہ جانے کیا کیا کہہ جاتے ہیں۔
یہ وہی مصطفیٰ کمال ہیں جنھیں قائد اپنا بیٹا کہتے تھے اور بیٹے کا بوسہ لینے کی تصویر میڈیا میں فخریہ لگواتے تھے۔ سابق قائد نے بقول اگر انھوں نے اردو بولنے والوں کی حالت پر باغیانہ تقریر کی اور بعد میں معافی مانگی یہ جذبات میں نہیں بلکہ جان بوجھ کر کی جانے والی تقریر تھی جس پر معذرت بھی کی اور دو اور جگہ بھی دہرایا جس پر ان کے چاہنے والے سخت ناراض ہوگئے کیوںکہ انھیں یہیں رہنا ہے بھارت واپس یا کہیں اور نہیں جانا۔
ایک سینئر میڈیا اینکر نے متحدہ پاکستان کی اپنے قائد سے علیحدگی کے بعد مکا چوک سمیت متحدہ کے گڑھ کے حامیوں کے تاثرات لیے تو کسی ایک نے بھی سابق قائد کی حمایت نہ کی اور پاکستان سے وفاداری کی بات کی کہ پاکستان کے خلاف کوئی بھی بات قبول نہیں کی جاسکتی۔
عروج کو زوال ضرور ہے اور اب یہ زوال متحدہ کے بانی پر اس دل سوز باغیانہ تقریر کے باعث آیا جو انھوں نے جان بوجھ کر کی۔ ملک کی ہر جماعت متحدہ کے نہیں اس کے بانی کے جو خلاف ہے اس کی وجوہات سابق قائد کا رویہ، رعونت، متشددانہ ذہنیت اور من مانیاں تھیں جنھوں نے انھیں اس مقام پر پہنچا دیا۔ جہاں ان کی اپنی جماعت بھی اب ان کی اپنی نہیں رہی۔