زمین اور عورت
پاکستان خصوصاً سندھ میں غریب کسانوں کو زمینوں کے مالکانہ حقوق دلوانے کی جدوجہد کی اپنی ایک تاریخ ہے
پاکستان خصوصاً سندھ میں غریب کسانوں کو زمینوں کے مالکانہ حقوق دلوانے کی جدوجہد کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ 2008 میں جب سندھ حکومت نے بے زمین ہاری عورتوں میں زمینیں بانٹنے کا اعلان کیا تو بہت سے لوگوں نے اس اقدام کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا یا اس کا تمسخر اڑایا، مگر میڈیا کی رپورٹوں اور این جی اوز کی تحقیق سامنے آنے کے بعد یقین کرنا پڑا کہ حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، یہاں اگر ہم عورتوں اور مردوں کو مساوی انسان اور مساوی شہری کا درجہ دلوانا چاہتے ہیں تو عورتوں کے پاس بھی زرعی زمینوں کی ملکیت اور کنٹرول کا ہونا ضروری ہے۔ عورت اور مرد کے درمیان عدم مساوات کی سب سے سنگین شکل زمین اور جائیداد کی ملکیت اور کنٹرول میں فرق ہے، کیونکہ اسی سے سماجی حیثیت اور سیاسی طاقت کا تعین ہوتا ہے۔ 2010 میں ایک تنظیم SDPI نے اس بارے میں ایک تحقیقی مطالعہ کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے ہاں صنفی توازن اور عورت کی خودمختاری کے لیے سب سے زیادہ اہمیت عورت کی نوکری یا روزگار کو دی جاتی ہے اور اس بات کو فراموش کر دیا جاتا ہے کہ مردوں اور خاندانوں کے اقتصادی مرتبے کو زمین اور جائیداد کی ملکیت اور کنٹرول کے پیمانے سے ناپا جاتا ہے، جب کہ عورتوں کی ترقی کے لیے صرف ملازمت، تعلیم اور صحت پر توجہ دی جاتی ہے، جو کافی نہیں ہے'۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عورت کو تعلیم، صحت کی سہولتیں اور غیر زرعی اثاثے فراہم کرنا آسان ہے اور یہ عورتوں کی فلاح و بہبود کے لیے اچھا ہے، لیکن انھیں زمین دینے کا مطلب انھیں طاقت اور اختیار دینا ہوگا، جو مردوں کو گوارا نہیں۔
ویسے تو صنعتی معاشروں میں تعلیم، صحت اور ملازمت یا کاروبار ہی عورت کو بااختیار اور طاقتور بنادیتا ہے مگر جنوبی ایشیائی مرد ذہین، تعلیم یافتہ اور اپنے برابر یا اپنے سے زیادہ کمانے والی عورتوں سے مرعوب رہتے ہیں، وہ ان کے ساتھ وقت تو گزارنا چاہتے ہیں مگر شادی نہیں کرنا چاہتے اور اگر شادی کر بھی لیں تو اپنے احساس کمتری کی بدولت ان کی زندگی عذاب کردیتے ہیں۔
خیر یہ تو صنعتی اور شہری معاشروں کی باتیں ہیں۔ پاکستان کے دیہی علاقوں کے غریب اور ناخواندہ لوگوں کو غربت سے بچانے والی اہم ترین چیزوں میں سے ایک زمین ہے۔ اس لیے ہاریوں اور خاص طور پر عورتوں کے لیے زمین کے مالکانہ حقوق بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ عورتیں دن میں سولہ گھنٹے روزانہ کام کرتی ہیں۔
گھر کے کام کے ساتھ یہ کھیتوں میں مزدوری کرتی ہیں، عام طور پر پورا گھرانہ مزدوری کرتا ہے اور اجرت گھرانے کا مرد سربراہ وصول کرتا ہے، اگر عورت کو الگ سے ادائیگی کی بھی جائے تو اسے مرد سے کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔ غذائیت کی کمی، محنت مشقت اور کھیتوں میں مضر صحت کیمیکلز کا استعمال ان کی صحت پر بری طرح اثر انداز ہوتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق کھیت مزدوروں کا 60 فیصد حصہ عورتوں پر مشتمل ہے لیکن انھیں کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ پدرسری معاشرے کے ثقافتی رواجوں کی بدولت زمین اور دیگر پیداواری وسائل مرد کی ملکیت اور کنٹرول میں رہتے ہیں، یوں عورت سماجی، سیاسی اور سماجی طور پر دبی رہتی ہے اور مرد کی محتاج رہتی ہے۔ زمین سے محروم کھیت مزدور، ہاری اور دیہی عورتوں کو زمین کے مالکانہ حقوق دلوانے کے لیے ایکشن ایڈ پاکستان نے بھی مہم چلا رکھی ہے۔
سندھ حکومت نے بے زمین ہاری عورتوں میں زمین تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، دیگر صوبائی حکومتوں کو بھی اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ 2008 میں سندھ حکومت نے دو اعشاریہ ایک ملین زمین ہاری عورتوں میں تقسیم کی تھی۔ اس پروگرام کے تحت زمین تقسیم کرنے کا طریقہ کار یہ تھا کہ حکومت اشتہارات کے ذریعے اخبارات میں اعلان کرتی تھی کہ فلاں تاریخ کو کھلی کچہری ہوگی اور وہاں چھان بین کے بعد بے زمین لوگوں کو زمین الاٹ کی جاتی تھی لیکن اس میں اولین ترجیح خواتین کو دی جاتی تھی۔
زمین بانٹنے کے اعلان سے لے کر زمین کا قبضہ ملنے تک بہت سے مراحل طے کرنا پڑتے ہیں اور کئی قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیگل رائٹس فورم نے بھی سندھ کے بے زمین ہاریوں خصوصاً خواتین کو مفت سرکاری زمین ملنے کے بعد کے مسائل پر کام کیا ہے۔ 2008 سے 2010 تک سندھ کے 17 اضلاع میں 141517 ایکڑ سرکاری اراضی کو کل 4029 لوگوں میں تقسیم کیا گیا، جن میں 2845 خواتین تھیں۔
لیگل رائٹس فورم کی تحقیقی ٹیم نے سکھر، بدین اور ٹھٹہ سے شواہد جمع کیے۔ انھوں نے دیکھا کہ باقاعدہ الاٹمنٹ آرڈر جاری کرنے کے بجائے نئے مالکان کو صرف وہ فہرستیں تھما دی گئی تھیں جن میں ان کے نام درج تھے۔
ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں واقع ریونیو ڈپارٹمنٹ کے دفاتر کے چکر کاٹنے کے باوجود وہ الاٹمنٹ آرڈر حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی ان زمینوں کی واضح طور پر حد بندی کی گئی تھی۔ ان ہاریوں کو زرعی آلات، کھاد اور بیج فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ بہتر پیداوار حاصل کرسکیں۔ کچھ جگہوں پر غریب ہاریوں کو ملنے والی زمینوں پر ابھی بھی بااثر افراد کا قبضہ ہے اور کچھ زمینیں ناقابل کاشت ہیں۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت بے زمین ہاریوں میں زمین تقسیم کرنے کا سلسلہ جاری رکھے۔ سرکاری اراضی کی تقسیم کے بارے میں کچہریاں اور آگاہی پروگرام یونین کونسل کی سطح پر منعقد کیے جائیں تاکہ بے زمین ہاری بڑی تعداد میں مستفید ہوسکیں۔ زمین الاٹ کرنے کے بعد الاٹمنٹ آرڈر اور ملکیتی دستاویز (فارم 07) فوری طور پر جاری کیا جائے۔
زمین ایسی دی جائے جو قابل کاشت ہو اور اس کے ساتھ آبپاشی کی سہولت فراہم کی جائے۔ زمینوں کی تقسیم کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے نادرا سے مدد لی جائے تاکہ زمین کی حد بندی اور دیگر معلومات کو ڈیجیٹل شکل دی جاسکے۔ شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں سول سوسائٹی، ریونیو ڈپارٹمنٹ، محکمہ آبپاشی، پولیس، انسداد تجاوزات، محکمہ جنگلات اور ہاریوں کے نمایندے شامل ہوں۔
یہ کمیٹی قابل تقسیم زمینوں اور مستحقین کی نشاندہی کرے۔ اس کمیٹی کی ذمے داری ہو کہ وہ زمین حاصل کرنے والے ہاریوں کو سالانہ ڈاکومینٹیشن فیس اور اگر کوئی اور ٹیکس بھی ہوں تو ان کی ادائیگی کے بارے میں آگاہ کرے۔ ان ہاریوں کی مدد کے لیے ضلعی سطح پر فری لیگل ایڈ سینٹر قائم کیے جائیں تاکہ قانونی پیچیدگی کی صورت میں وہ ہاریوں کی مدد کرسکیں۔
یو این ویمن سمیت اقوام متحدہ کے دیگر کئی ادارے بھی سندھ میں بے زمین ہاری عورتوں میں سرکاری زمینوں کی تقسیم کے پروگرام پر کام کر رہے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ سندھ حکومت اس پروگرام کو جاری رکھے گی اور دیگر صوبوں میں بھی بے زمین ہاریوں میں سرکاری زمینیں تقسیم کرنے کا پروگرام شروع کیا جائے گا۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، یہاں اگر ہم عورتوں اور مردوں کو مساوی انسان اور مساوی شہری کا درجہ دلوانا چاہتے ہیں تو عورتوں کے پاس بھی زرعی زمینوں کی ملکیت اور کنٹرول کا ہونا ضروری ہے۔ عورت اور مرد کے درمیان عدم مساوات کی سب سے سنگین شکل زمین اور جائیداد کی ملکیت اور کنٹرول میں فرق ہے، کیونکہ اسی سے سماجی حیثیت اور سیاسی طاقت کا تعین ہوتا ہے۔ 2010 میں ایک تنظیم SDPI نے اس بارے میں ایک تحقیقی مطالعہ کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے ہاں صنفی توازن اور عورت کی خودمختاری کے لیے سب سے زیادہ اہمیت عورت کی نوکری یا روزگار کو دی جاتی ہے اور اس بات کو فراموش کر دیا جاتا ہے کہ مردوں اور خاندانوں کے اقتصادی مرتبے کو زمین اور جائیداد کی ملکیت اور کنٹرول کے پیمانے سے ناپا جاتا ہے، جب کہ عورتوں کی ترقی کے لیے صرف ملازمت، تعلیم اور صحت پر توجہ دی جاتی ہے، جو کافی نہیں ہے'۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عورت کو تعلیم، صحت کی سہولتیں اور غیر زرعی اثاثے فراہم کرنا آسان ہے اور یہ عورتوں کی فلاح و بہبود کے لیے اچھا ہے، لیکن انھیں زمین دینے کا مطلب انھیں طاقت اور اختیار دینا ہوگا، جو مردوں کو گوارا نہیں۔
ویسے تو صنعتی معاشروں میں تعلیم، صحت اور ملازمت یا کاروبار ہی عورت کو بااختیار اور طاقتور بنادیتا ہے مگر جنوبی ایشیائی مرد ذہین، تعلیم یافتہ اور اپنے برابر یا اپنے سے زیادہ کمانے والی عورتوں سے مرعوب رہتے ہیں، وہ ان کے ساتھ وقت تو گزارنا چاہتے ہیں مگر شادی نہیں کرنا چاہتے اور اگر شادی کر بھی لیں تو اپنے احساس کمتری کی بدولت ان کی زندگی عذاب کردیتے ہیں۔
خیر یہ تو صنعتی اور شہری معاشروں کی باتیں ہیں۔ پاکستان کے دیہی علاقوں کے غریب اور ناخواندہ لوگوں کو غربت سے بچانے والی اہم ترین چیزوں میں سے ایک زمین ہے۔ اس لیے ہاریوں اور خاص طور پر عورتوں کے لیے زمین کے مالکانہ حقوق بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ عورتیں دن میں سولہ گھنٹے روزانہ کام کرتی ہیں۔
گھر کے کام کے ساتھ یہ کھیتوں میں مزدوری کرتی ہیں، عام طور پر پورا گھرانہ مزدوری کرتا ہے اور اجرت گھرانے کا مرد سربراہ وصول کرتا ہے، اگر عورت کو الگ سے ادائیگی کی بھی جائے تو اسے مرد سے کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔ غذائیت کی کمی، محنت مشقت اور کھیتوں میں مضر صحت کیمیکلز کا استعمال ان کی صحت پر بری طرح اثر انداز ہوتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق کھیت مزدوروں کا 60 فیصد حصہ عورتوں پر مشتمل ہے لیکن انھیں کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ پدرسری معاشرے کے ثقافتی رواجوں کی بدولت زمین اور دیگر پیداواری وسائل مرد کی ملکیت اور کنٹرول میں رہتے ہیں، یوں عورت سماجی، سیاسی اور سماجی طور پر دبی رہتی ہے اور مرد کی محتاج رہتی ہے۔ زمین سے محروم کھیت مزدور، ہاری اور دیہی عورتوں کو زمین کے مالکانہ حقوق دلوانے کے لیے ایکشن ایڈ پاکستان نے بھی مہم چلا رکھی ہے۔
سندھ حکومت نے بے زمین ہاری عورتوں میں زمین تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، دیگر صوبائی حکومتوں کو بھی اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ 2008 میں سندھ حکومت نے دو اعشاریہ ایک ملین زمین ہاری عورتوں میں تقسیم کی تھی۔ اس پروگرام کے تحت زمین تقسیم کرنے کا طریقہ کار یہ تھا کہ حکومت اشتہارات کے ذریعے اخبارات میں اعلان کرتی تھی کہ فلاں تاریخ کو کھلی کچہری ہوگی اور وہاں چھان بین کے بعد بے زمین لوگوں کو زمین الاٹ کی جاتی تھی لیکن اس میں اولین ترجیح خواتین کو دی جاتی تھی۔
زمین بانٹنے کے اعلان سے لے کر زمین کا قبضہ ملنے تک بہت سے مراحل طے کرنا پڑتے ہیں اور کئی قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیگل رائٹس فورم نے بھی سندھ کے بے زمین ہاریوں خصوصاً خواتین کو مفت سرکاری زمین ملنے کے بعد کے مسائل پر کام کیا ہے۔ 2008 سے 2010 تک سندھ کے 17 اضلاع میں 141517 ایکڑ سرکاری اراضی کو کل 4029 لوگوں میں تقسیم کیا گیا، جن میں 2845 خواتین تھیں۔
لیگل رائٹس فورم کی تحقیقی ٹیم نے سکھر، بدین اور ٹھٹہ سے شواہد جمع کیے۔ انھوں نے دیکھا کہ باقاعدہ الاٹمنٹ آرڈر جاری کرنے کے بجائے نئے مالکان کو صرف وہ فہرستیں تھما دی گئی تھیں جن میں ان کے نام درج تھے۔
ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں واقع ریونیو ڈپارٹمنٹ کے دفاتر کے چکر کاٹنے کے باوجود وہ الاٹمنٹ آرڈر حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی ان زمینوں کی واضح طور پر حد بندی کی گئی تھی۔ ان ہاریوں کو زرعی آلات، کھاد اور بیج فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ بہتر پیداوار حاصل کرسکیں۔ کچھ جگہوں پر غریب ہاریوں کو ملنے والی زمینوں پر ابھی بھی بااثر افراد کا قبضہ ہے اور کچھ زمینیں ناقابل کاشت ہیں۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت بے زمین ہاریوں میں زمین تقسیم کرنے کا سلسلہ جاری رکھے۔ سرکاری اراضی کی تقسیم کے بارے میں کچہریاں اور آگاہی پروگرام یونین کونسل کی سطح پر منعقد کیے جائیں تاکہ بے زمین ہاری بڑی تعداد میں مستفید ہوسکیں۔ زمین الاٹ کرنے کے بعد الاٹمنٹ آرڈر اور ملکیتی دستاویز (فارم 07) فوری طور پر جاری کیا جائے۔
زمین ایسی دی جائے جو قابل کاشت ہو اور اس کے ساتھ آبپاشی کی سہولت فراہم کی جائے۔ زمینوں کی تقسیم کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے نادرا سے مدد لی جائے تاکہ زمین کی حد بندی اور دیگر معلومات کو ڈیجیٹل شکل دی جاسکے۔ شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں سول سوسائٹی، ریونیو ڈپارٹمنٹ، محکمہ آبپاشی، پولیس، انسداد تجاوزات، محکمہ جنگلات اور ہاریوں کے نمایندے شامل ہوں۔
یہ کمیٹی قابل تقسیم زمینوں اور مستحقین کی نشاندہی کرے۔ اس کمیٹی کی ذمے داری ہو کہ وہ زمین حاصل کرنے والے ہاریوں کو سالانہ ڈاکومینٹیشن فیس اور اگر کوئی اور ٹیکس بھی ہوں تو ان کی ادائیگی کے بارے میں آگاہ کرے۔ ان ہاریوں کی مدد کے لیے ضلعی سطح پر فری لیگل ایڈ سینٹر قائم کیے جائیں تاکہ قانونی پیچیدگی کی صورت میں وہ ہاریوں کی مدد کرسکیں۔
یو این ویمن سمیت اقوام متحدہ کے دیگر کئی ادارے بھی سندھ میں بے زمین ہاری عورتوں میں سرکاری زمینوں کی تقسیم کے پروگرام پر کام کر رہے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ سندھ حکومت اس پروگرام کو جاری رکھے گی اور دیگر صوبوں میں بھی بے زمین ہاریوں میں سرکاری زمینیں تقسیم کرنے کا پروگرام شروع کیا جائے گا۔