حج کے بعد اک نئی زندگی

لسانی، نسلی، قبائلی اور قومی عصبیت کو بُھلا کر محض اسلام کے رشتے سے دوسرے مسلمانوں کو بھائی سمجھیں

قوم و قبیلے کی پشت پناہی کے نعرے چھوڑ کر مذہبی بھائی چارے کو اپنا سہارا بنالیں۔ فوٹو؛ فائل

حج کے موقع پر محبوب کے در پہ حاضری، اس کی چوکھٹ پر قیام اور رحمتوں و برکتوں کا انبار سمیٹنے کے بعد عاشق واپسی کے لیے پابہ رکاب ہیں۔ ایک اہم دینی رکن کی ادائی، ایک مقدس فریضے سے سبک دوشی اور اپنے مالک کے حکم کی بجاآوری سے دلوں میں خوشی کے جذبات موج زن ہیں۔ ساتھ ہی کعبے کے گرد الوداعی چکر لگاتے اور روضۂ رسول پر الوداعی سلام کہتے وقت دل جدائی کے غم سے افسردہ بھی ہیں۔ یہ مسافر تمام گناہوں کی بخشش کا پروانہ لے کر نومولود بچے کی طرح گناہوں سے پاک اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں۔

حج کرنے کے بعد اب زندگی کو ایک نیا رخ مل گیا ہے۔ پچھلی زندگی میں جتنے گناہ ہوئے، نافرمانیاں اور من مانیاں کیں، کوتاہیاں اور غفلتیں سرزد ہوئیں، وہ سب نامۂ اعمال سے حرفِ غلط کی طرح مٹ گئیں۔ اب گویا ایک نئی زندگی کا آغاز ہو رہا ہے۔ اپنے مالک کو راضی رکھنے اور اپنی آخرت کو سنوارنے کا ایک اور موقع مل گیا ہے۔ اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھائیں۔ حج کے اعمال اور اس کی خصوصیات سے سبق حاصل کرکے زندگی کو اب اس نئے رخ پر چلائیں۔


یوں تو اس نرالی عبادت میں ہر قدم پر انسان کی تربیت و اصلاح کے لیے سبق آموز مقام آتے ہیں، مگر ان میں تین خصوصیات نہایت اہم ہیں، جن کی لاج رکھنے سے زندگی میں آسانی سے تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ پہلی خصوصیت حج کی آفاقیت ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں سے آئے ہوئے مسلمان ایک جگہ جمع ہوکر بہ یک زبان ایک ہی نعرہ بلند کرتے ہیں۔ ایک ہی مالک کو پکارتے اور ایک ہی طرح کے اعمال میں مشغول ہوتے ہیں۔

عربی و عجمی، کالے و گورے، قریشی و حبشی، ایشیائی و افریقی، فقیر و غنی اور محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان میں ایسی وحدت و الفت پیدا ہوتی ہے کہ یہ زبان و رنگ کے اختلاف کو بالکل بھول جاتے ہیں اور جسم واحد کی طرح یک جان ہو جاتے ہیں۔ قوم پرستی اور عصبیت کے اس دور میں اتنے مختلف رنگوں و نسلوں کے افراد کا یک جا جمع ہونا اتحاد و مساوات کے اسلامی درس کا عملی نمونہ ہے۔

دوسری اہم خصوصیت اس میں عجز و نیاز اور فنائیت ہے۔ دو اَن سلی سفید چادروں کا لباس، بالوں و ناخنوں کی تراش خراش کی ممانعت، کنگھی و خوش بو پر پابندی، یہ سب امور انسان میں انتہائی انکساری پیدا کرتے ہیں۔ کتنا بڑا بادشاہ اور غنی ہی کیوں نہ ہو وہ اس پراگندگی کی حالت میں اپنے آپ کو فنا کردیتا ہے۔ اپنے آپ کو عاجز اور حقیر سمجھتا ہے اور اپنے خالق کی بڑائی کا اعتراف کرتا ہے۔ اس طرح انسانی تکبّر کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں اور فخر و غرور کے سایے چھٹ جاتے ہیں۔

تیسری خصوصیت اس میں حکم الٰہی کا امتثال ہے۔ اپنی عقل مانے یا نہ مانے بس اس کے حکم پر بلا چوں و چرا عمل پیرا ہونا ہے۔ اس انوکھی عبادت میں بہت سے اعمال ایسے ہیں کہ عقل ان کو تسلیم نہیں کرتی، لیکن یہاں عقلیت کا تو سوال ہی نہیں۔ یہاں تو عبودیت، محبوبیت اور محویت کا عالم ہے کہ بندگی اور محبت میں حکم کی علت و حکمت نہیں پوچھی جاتی، بس حکم ملنے کی دیر ہوتی ہے فوراً بجاآوری ظہور میں آتی ہے۔


ان خصوصیات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے اور عملی طور پر ان کا حصہ بننے کے بعد انہیں اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنالیں۔ اختلاف و انتشار کے اندھیروں میں اتحاد و اتفاق کے دیے جلائیں۔ تعصب کی تاریکیوں سے نکل کر اسلامی اخوت میں داخل ہو جائیں۔

قوم و قبیلے کی پشت پناہی کے نعرے چھوڑ کر مذہبی بھائی چارے کو اپنا سہارا بنالیں۔ ہر اُس جڑ پر تیشہ چلائیں جس سے مخالفت و تعصب کی شاخیں ابھرتی ہوں۔ ہر اس بنیاد کو تعمیر کریں جس سے اتحاد و اخوت کی فضا قائم ہوتی ہو۔ لسانی، نسلی، قبائلی اور قومی عصبیت کو بھلا کر محض اسلام کے رشتے سے دوسرے مسلمانوں کو بھائی سمجھیں اور ان سے محبت کریں۔ آپس میں اتحاد و اتفاق سے اور شیر و شکر ہوکر رہیں۔ یقینا اس صورت میں کوئی طاقت بھی مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

اپنے دلوں سے تکبّر کی غلاظت صاف کرکے عاجزی کی نفاست پیدا کریں۔ فخر و غرور کے بلند بانگ دعوؤں کو پھینک کر عجز و انکسار کا شیوہ اپنائیں۔ اپنے خالق و مالک کے عظمت و کبریائی کے سامنے جھک کر اپنی محتاجی و نیازمندی کو ثابت کردیں۔ اس کی بندگی و اطاعت میں اپنے آپ کو فنا و محو کر دیں۔ اس کے اوامر کا امتثال اور نواہی سے اجتناب کرکے اپنی وفاداری کا ثبوت دیں۔ اس کے احکام کو وجہ، علت یا حکمت کا سوال کیے بغیر بلا چوں و چرا تسلیم کرکے ان پر عمل پیرا ہوتے جائیں۔ اپنے محبوب کے ساتھ حقیقی اور اصل عشق و محبت کی مثال قائم کر دیں۔

اب جب کہ ایمان کی ایک شمع دلوں میں روشن ہو چکی ہے اور نفس کی اپنے رب کے ساتھ لو لگ گئی ہے۔ اس شمع کو جلائے رکھیں، فتنوں کی آندھی اور گم راہیوں کے طوفان سے یہ بجھنے نہ پائے۔ یہ پاک صاف روح گناہوں سے دوبارہ آلودہ نہ ہونے پائے۔ یہ بے شمار رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹنے والا دامن نافرمانیوں اور کوتاہیوں سے داغ دار نہ ہونے پائے۔

اس عظیم عبادت کی روحانیت اور خصوصیات سے زندگی میں انقلاب لاکر اس کو ایک نیا رخ دیں اور وہ ہمیشہ ہر موقع پر اپنا اثر دکھاتی رہیں۔ زندگی میں اس تبدیلی کا آنا قبولیت حج کی علامت ہے۔
Load Next Story