مراد علی شاہ صاحب آپ کو لاکھوں لوگوں کی دعائیں لگیں گی
وزیر اعلیٰ سندھ صاحب! قوم آپکا یہ احسان عظیم کبھی نہیں بھولے گی۔
اس روز ذرائع ابلاغ کے نمائندے بھی پریشان ہوگئے جب سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے آتے ہی اپنی کابینہ کا پہلا اجلاس صبح 8 بجے شروع کر دیا۔ یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ اس وقت مجلس میں بیٹھے کتنے وزراء اور مشیر جاگ رہے تھے لیکن اتنا ضرور ہے کہ اجلاس میں حاضری کا تناسب 100 فیصد تھا۔ یہی نہیں ہمارے نئے وزیر اعلیٰ عوام کے ساتھ سڑک پر قائم کھانے کے ڈھابوں پر بھی غذا تناول کر تے رہتے ہیں۔ حال ہی میں ایک ویڈیو نے بھی بڑی دھوم مچائی ہے جس میں سندھ کے نومولود وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سڑک پر نوجوان لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے دکھائی دیئے۔ ان تمام تر باتوں سے ظاہر ہے کہ سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ سائیں مراد علی شاہ ایک متحرک انسان ہیں اور شاید ان کا انتخاب اسی مقصد کے لئے ہے کہ ماضی میں قدیم ترین وزیراعلیٰ کی جانب سے کی گئی خامیوں کو اچھے کاموں کے ذریعے عوام کی آنکھوں سے اوجھل کردیا جائے۔
یہ تمام اچھے اقدامات اپنی جگہ لیکن دو روز قبل یعنی بدھ کے روز وزیر اعلیٰ سندھ نے جو بات کہی وہ سن کر خواہش ہوچلی کہ کاش یہ کام اگر صرف کراچی میں ہی انجام پاگیا تو لاکھوں لوگوں کی زندگیاں سنور جائیں گی۔ بات کچھ یہ تھی کہ ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ شہر میں تمام مارکیٹیں اور دکانیں صبح 9 بجے کھل جائیں اور شام 6 یا 7 بجے بند کر دی جائیں۔
مراد علی شاہ صاحب کے اس بیان پر کاروباری حلقوں اور تاجر برادری کی طرف سے اب تک کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا ہے کیونکہ اسی طرح کے اعلانات سابقہ حکومتوں کے ادوار میں بھی ہوئے ہیں لیکن عمل کبھی نہیں ہو سکا، اور اب بھی نہیں معلوم کہ یہ قانون لاگو ہوتا ہے یا نہیں، لیکن مراد علی شاہ کی اب تک کی کارکردگی کو دیکھ کر یہ خوش گمانی قائم کرنے میں اعتراض ہرگز نہیں کہ ایسا ضرور ہوگا۔
اب آتے ہیں اُس نکتہ کی جانب کہ اس فیصلے پر عملدرآمد کی وجہ سے وزیراعلیٰ لاکھوں لوگوں کی دعائیں کیوں لیں گے۔ دیکھیئے سب سے پہلی بات تو یہ کہ دکان یا مارکیٹوں میں کام کرنے والے وہ حضرات جو ایک فیملی رکھتے ہیں وہ دن 12 بجے گھر سے نکلتے ہیں اور رات 1 بجے کے بعد گھر پہنچتے ہیں اس دوران، ان کی سماجی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے، پھر چاہے بات ہو اہلخانہ یا بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کی یا پھر کہیں گھومنے پھرنے کی۔ دن بھر کی تھکن کے بعد انسان کہیں کا نہیں رہتا۔ میں ذاتی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اس بے ہنگم وقت کی وجہ سے کئی کئی دن تک اپنے بچوں سے ملاقات نہیں کرپاتے۔ جب وہ رات کو دیر سے گھر پہنچتے ہیں تو بچے سو رہے ہوتے ہیں اور صبح جب بچے اسکول جارہے ہوتے ہیں تو وہ خود سو رہے ہوتے ہیں، لیکن اگر دکانیں 6 یا 7 بجے بند ہوجائیں گی تو گھر کا ماحول اور بچوں کی تربیت کا معاملہ کس قدر احسن طریقے سے سرانجام پائے گا، یہ سوچ کر ہی خوشگوار کیفیت طاری ہورہی ہے۔
پھر اس فیصلے کا ایک اور اہم ترین فائدہ بجلی کی بچت کی صورت میں ہوگا۔ نہیں جانتا کہ آپ نے کبھی بڑی مارکیٹوں کی دکانوں پر غور کیا ہے یا نہیں، لیکن میں نے ضرور کیا ہے۔ چھوٹی سی چھوٹی دکان پر بھی کم از کم 40 سے 50 سیورز اور ٹیوب لائٹس لگی ہوتی ہیں۔ بڑی دکانوں کا تو پوچھیئے ہی مت۔ لیکن چھوٹی دکانوں کی تعداد کو ہی اوسطاً پورے کراچی کی مارکیٹوں پر لاگو کیا جائے تو حساب کتاب ہی مشکل ہوجائے گا۔ ایسی صورت میں اگر دکانیں مغرب کے بعد بند ہوجائیں تو سوچئے کہ بجلی کی بچت کس قدر زیادہ ہوگی۔ یہ عین ممکن ہے کہ شہر میں رات کو ہونے والی لوڈ شیڈنگ کا ہی خاتمہ کردیا جائے۔
یہاں میں ایک اور چیز بیان کرنا چاہوں گا اور وہ یہ کہ گزشتہ برس میں عراق میں تھا، فجر کی نماز سے واپسی پر کیا دیکھتا ہوں کہ دکان دار اپنی دکانیں کھولنا شروع کر رہے ہیں اور نہ صرف بیکری اور انڈے دودھ والے بلکہ کپڑے، جوتے چپل، المختصر صبح 6 بجے تک بغداد شہر میں قائم تمام دکانیں اس طرح کھل گئیں جیسے ہمارے ملک میں دن 3 بجے کھلتی ہیں۔ یہ منظر میں کبھی نہیں بھول سکتا کیونکہ صبح کے 6 بجے تو ہمارے ملک میں صرف میڈیکل اسٹور ہی کھلا ملتا ہے۔ یہ معاملہ صرف عراق کا نہیں بلکہ دنیا کے تمام ہی ترقی یافتہ ممالک کا معاملہ ہے کہ وہاں کاروبار جلدی شروع ہوتا ہے اور جلدی بند ہوتا ہے۔
ہمارے ایک دوست کچھ دن پہلے بتارہے تھے کہ وہ کاروبار کے حوالے سے خریداری کی غرض سے سری لنکا گئے اور مارکیٹ پہنچنے میں ان کو شام 6 بچے سے کچھ منٹ اوپر لگ گئے۔ جس دکان سے اُن کو سامان لینا تھا جب وہ وہاں پہنچے تو دکاندار نے یہ کہہ کر مال بیچنے سے انکار کردیا کہ 6 بجے مارکیٹیں بند ہوجاتی ہیں۔ ہمارے دوست نے ان کو سمجھایا کہ مال زیادہ خریدنا ہے آپ بس کچھ منٹ دے دیں تو انہوں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ ٹائم ختم ہوگیا آپ صبح آئیے گا۔ آپ اندازہ لگائیے کہ دنیا میں لوگ قانون کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں۔
حدیث میں آیا ہے کے اللہ تبارک و تعالی ٰ کی بارگاہ سے رزق بٹنے کا اصل وقت صبح صادق سے سورج کے طلوع ہونے تک کے درمیان والا وقت ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں تو اس وقت موبائل کی بیٹری اپنی آخری منازل میں ہوتی ہے جس کے باعث محبت کرنے والے ٹاٹا بائے بائے کرکے سو جاتے ہیں۔ نماز پڑھنا تو کجا وہ پھر صبح کا ناشتہ دن 2 بجے ہی اٹھ کر کرتے ہیں لہذا ایسی صورتحال میں ہم کس طرح یہ توقع کر سکتے ہیں کہ ہماری صحت ٹھیک رہے گی اور ہم ایک صحت مند زندگی گزار لیں گے۔
مراد علی شاہ صاحب اگر آپ واقعی دکانیں صبح 9 بجے کھلوانے اور شام 6 یا 7 بجے بند کروانے میں کامیاب ہوگئے تو قوم آپکا یہ احسان عظیم کبھی نہیں بھولے گی کیونکہ اس کی بدولت معاشرہ کاہلی سے نکل کر چستی کی جانب گامزن ہوگا اور جب اس روش پر ہماری قوم کام کرنا شروع ہوگی تو خود بہ خود وقت کی پابندی کرنا بھی اس قوم کا وطیرہ بن جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہ تمام اچھے اقدامات اپنی جگہ لیکن دو روز قبل یعنی بدھ کے روز وزیر اعلیٰ سندھ نے جو بات کہی وہ سن کر خواہش ہوچلی کہ کاش یہ کام اگر صرف کراچی میں ہی انجام پاگیا تو لاکھوں لوگوں کی زندگیاں سنور جائیں گی۔ بات کچھ یہ تھی کہ ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ شہر میں تمام مارکیٹیں اور دکانیں صبح 9 بجے کھل جائیں اور شام 6 یا 7 بجے بند کر دی جائیں۔
مراد علی شاہ صاحب کے اس بیان پر کاروباری حلقوں اور تاجر برادری کی طرف سے اب تک کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا ہے کیونکہ اسی طرح کے اعلانات سابقہ حکومتوں کے ادوار میں بھی ہوئے ہیں لیکن عمل کبھی نہیں ہو سکا، اور اب بھی نہیں معلوم کہ یہ قانون لاگو ہوتا ہے یا نہیں، لیکن مراد علی شاہ کی اب تک کی کارکردگی کو دیکھ کر یہ خوش گمانی قائم کرنے میں اعتراض ہرگز نہیں کہ ایسا ضرور ہوگا۔
اب آتے ہیں اُس نکتہ کی جانب کہ اس فیصلے پر عملدرآمد کی وجہ سے وزیراعلیٰ لاکھوں لوگوں کی دعائیں کیوں لیں گے۔ دیکھیئے سب سے پہلی بات تو یہ کہ دکان یا مارکیٹوں میں کام کرنے والے وہ حضرات جو ایک فیملی رکھتے ہیں وہ دن 12 بجے گھر سے نکلتے ہیں اور رات 1 بجے کے بعد گھر پہنچتے ہیں اس دوران، ان کی سماجی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے، پھر چاہے بات ہو اہلخانہ یا بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کی یا پھر کہیں گھومنے پھرنے کی۔ دن بھر کی تھکن کے بعد انسان کہیں کا نہیں رہتا۔ میں ذاتی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اس بے ہنگم وقت کی وجہ سے کئی کئی دن تک اپنے بچوں سے ملاقات نہیں کرپاتے۔ جب وہ رات کو دیر سے گھر پہنچتے ہیں تو بچے سو رہے ہوتے ہیں اور صبح جب بچے اسکول جارہے ہوتے ہیں تو وہ خود سو رہے ہوتے ہیں، لیکن اگر دکانیں 6 یا 7 بجے بند ہوجائیں گی تو گھر کا ماحول اور بچوں کی تربیت کا معاملہ کس قدر احسن طریقے سے سرانجام پائے گا، یہ سوچ کر ہی خوشگوار کیفیت طاری ہورہی ہے۔
پھر اس فیصلے کا ایک اور اہم ترین فائدہ بجلی کی بچت کی صورت میں ہوگا۔ نہیں جانتا کہ آپ نے کبھی بڑی مارکیٹوں کی دکانوں پر غور کیا ہے یا نہیں، لیکن میں نے ضرور کیا ہے۔ چھوٹی سی چھوٹی دکان پر بھی کم از کم 40 سے 50 سیورز اور ٹیوب لائٹس لگی ہوتی ہیں۔ بڑی دکانوں کا تو پوچھیئے ہی مت۔ لیکن چھوٹی دکانوں کی تعداد کو ہی اوسطاً پورے کراچی کی مارکیٹوں پر لاگو کیا جائے تو حساب کتاب ہی مشکل ہوجائے گا۔ ایسی صورت میں اگر دکانیں مغرب کے بعد بند ہوجائیں تو سوچئے کہ بجلی کی بچت کس قدر زیادہ ہوگی۔ یہ عین ممکن ہے کہ شہر میں رات کو ہونے والی لوڈ شیڈنگ کا ہی خاتمہ کردیا جائے۔
یہاں میں ایک اور چیز بیان کرنا چاہوں گا اور وہ یہ کہ گزشتہ برس میں عراق میں تھا، فجر کی نماز سے واپسی پر کیا دیکھتا ہوں کہ دکان دار اپنی دکانیں کھولنا شروع کر رہے ہیں اور نہ صرف بیکری اور انڈے دودھ والے بلکہ کپڑے، جوتے چپل، المختصر صبح 6 بجے تک بغداد شہر میں قائم تمام دکانیں اس طرح کھل گئیں جیسے ہمارے ملک میں دن 3 بجے کھلتی ہیں۔ یہ منظر میں کبھی نہیں بھول سکتا کیونکہ صبح کے 6 بجے تو ہمارے ملک میں صرف میڈیکل اسٹور ہی کھلا ملتا ہے۔ یہ معاملہ صرف عراق کا نہیں بلکہ دنیا کے تمام ہی ترقی یافتہ ممالک کا معاملہ ہے کہ وہاں کاروبار جلدی شروع ہوتا ہے اور جلدی بند ہوتا ہے۔
ہمارے ایک دوست کچھ دن پہلے بتارہے تھے کہ وہ کاروبار کے حوالے سے خریداری کی غرض سے سری لنکا گئے اور مارکیٹ پہنچنے میں ان کو شام 6 بچے سے کچھ منٹ اوپر لگ گئے۔ جس دکان سے اُن کو سامان لینا تھا جب وہ وہاں پہنچے تو دکاندار نے یہ کہہ کر مال بیچنے سے انکار کردیا کہ 6 بجے مارکیٹیں بند ہوجاتی ہیں۔ ہمارے دوست نے ان کو سمجھایا کہ مال زیادہ خریدنا ہے آپ بس کچھ منٹ دے دیں تو انہوں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ ٹائم ختم ہوگیا آپ صبح آئیے گا۔ آپ اندازہ لگائیے کہ دنیا میں لوگ قانون کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں۔
حدیث میں آیا ہے کے اللہ تبارک و تعالی ٰ کی بارگاہ سے رزق بٹنے کا اصل وقت صبح صادق سے سورج کے طلوع ہونے تک کے درمیان والا وقت ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں تو اس وقت موبائل کی بیٹری اپنی آخری منازل میں ہوتی ہے جس کے باعث محبت کرنے والے ٹاٹا بائے بائے کرکے سو جاتے ہیں۔ نماز پڑھنا تو کجا وہ پھر صبح کا ناشتہ دن 2 بجے ہی اٹھ کر کرتے ہیں لہذا ایسی صورتحال میں ہم کس طرح یہ توقع کر سکتے ہیں کہ ہماری صحت ٹھیک رہے گی اور ہم ایک صحت مند زندگی گزار لیں گے۔
مراد علی شاہ صاحب اگر آپ واقعی دکانیں صبح 9 بجے کھلوانے اور شام 6 یا 7 بجے بند کروانے میں کامیاب ہوگئے تو قوم آپکا یہ احسان عظیم کبھی نہیں بھولے گی کیونکہ اس کی بدولت معاشرہ کاہلی سے نکل کر چستی کی جانب گامزن ہوگا اور جب اس روش پر ہماری قوم کام کرنا شروع ہوگی تو خود بہ خود وقت کی پابندی کرنا بھی اس قوم کا وطیرہ بن جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔