سعودی امریکا تعلقات اور مشرق وسطیٰ کا منظر نامہ
کانگریس و سینیٹ کی جانب سے بل کی پُر زور حمایت در حقیقت امریکا سعودی تعلقات میں دراڑ کا سبب بن سکتی ہے
امریکی ایوان نمایندگان نے نائن الیون واقعہ کے متاثرین کو سعودیہ کے خلاف مقدمہ کرنے کا حق دینے کے بل کے خلاف صدر اوباما کا ویٹو مسترد کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں نائن الیون کے متاثرین کو سعودیہ کے خلاف مقدمہ کرنے کی اجازت مل جائے گی جب کہ سینیٹ نے بھی غالب اکثریت کے ساتھ ویٹو کو مسترد کیا، خود اوباما نے اپنے 8 سالہ دور حکومت نے 12 بل ویٹو کیے تھے۔
وہائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے اس پر اپنے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب سے شرمناک بات ہے جو غالباً سینیٹ نے 1983ء کے بعد کی ہے۔ صدر اوباما کے ویٹو اور کانگریس و سینیٹ کی جانب سے بل کی پُر زور حمایت در حقیقت امریکا سعودی تعلقات میں دراڑ کا سبب بن سکتی ہے اور عالم اسلام سمیت دنیا کے ہر خطے میں امریکی عمل دخل نے اسے گرداب میں پھنسا دیا ہے۔
نائن الیون کا اولین نشانہ افغانستان بنا پھر اس آگ میں پاکستان جلا، جس کے نتیجہ میں دہشتگردی کے خلاف آج بھی پاکستان فرنٹ لائن ریاست بنا ہوا ہے، مسلم دنیا کو امریکا سے دفاعی، تزویراتی، اقتصادی اور سفارتی سطح پر بے پناہ تحفطات، خدشات اور شکایات ہیں، جن مسائل اور اعصاب شکن صورتحال میں امریکا اپنے حلیفوں کو اکیلا چھوڑ جانے کی روایت پر قائم ہے، اس کے زخم مشرق وسطیٰ اور مسلم دنیا نے سب سے زیادہ کھائے ہیں۔ بڑی مثال کشمیر کی لرزہ خیز صورتحال میں بھارت سے امریکا کی یاری ہے۔
اسلامی دنیا امریکا کی یک طرفہ اور مخصوص مفادات پر مبنی پالیسیوں سے خائف ہے اور اسی تناظر میں عالمی رائے عامہ کا یہ تاثر رد نہیں کیا جا سکتا کہ نائن الیون کے متاثرین کو سعودی حکومت سے معاوضہ کا حق دینے کی پیشرفت محض سعودیہ سے سرد مہری اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تسلسل تک محدود نہیں رہ سکتی بلکہ دنیا کو مزید چیلنجوں کا سامنا ہو سکتا ہے، اس لیے عالم اسلام کو ہر لمحہ خبردار رہنا چاہیے۔
امریکی حکمت عملی اگر عالم اسلام کے اس دینی اور روحانی مرکز کے تعاقب کا عندیہ دے رہی ہے تو اسے المناک ہی کہا جانا چاہیے، یورپی یونین انکل سام کو انتباہ دے چکی ہے۔ خود امریکی صدر اوباما کو سعودی امریکا تعلقات میں پڑنے والے اس رخنہ کی ڈائمنشن خوفزدہ کیے ہوئے ہے اور ان کا ویٹو اس جانب ایک بلیغ استعارہ ہے کہ نائن الیون بل کی قانونی شکل عالم اسلام کو مضطرب کیے بغیر نہیں رہے گی۔
واضح رہے اوباما کا پہلا ویٹو ایسے وقت میں مسترد ہوا ہے جب کہ سعودی حکومت اپنے بیشتر اثاثے فروخت کر چکی ہے اور تین روز قبل وہ ملکی سطح پر انتطامی کفایت شعاری کا اعلان کر چکی ہے۔ وہائٹ ہاؤس نے اس ضمن میں دلیل دی تھی کہ نائن الیون بل خود مختار استثنیٰ کے اصول کو کمزور کریگا، اور امریکا کے خلاف قانونی مقدموں کی راہ کھل جائے گی۔
امر واقعہ یہ ہے کہ امریکا سپرپاور کی حیثیت سے اپنے استعماری کردار کے باعث کثیر جہتی گرداب میں پھنستا جا رہا ہے۔ عراق، شام، یمن، لیبیا اور سوڈان سمیت دیگر ملکوں کے داخلی معاملات میں اس کا عمل دخل زیادہ ہے، مگر وہ اسرائیل کو نکیل نہیں ڈال سکتا، وقت آ گیا ہے کہ امریکا اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے، دوست دشمن کی پہچان میں دھوکا نا کھائے۔
عالمی صورتحال اور مسلم دنیا میں پیدا شدہ صورتحال سے امریکا الگ تھلگ نہیں ہے، مگر جہاں ثالثی درکار ہے وہاں دو قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے اسی باعث امریکا کے خلاف گلے شکوؤں کا عالمی انبار لگا ہے اور مسلم دنیا امن، جمہوریت آزادی اور استحکام کے امریکی روڈ میپ کے ہنوز انتظار میں ہے ۔