ظلم کا معاشرہ

چاروں اطراف سے دشمنوں کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں


فرح ناز September 30, 2016
[email protected]

چاروں اطراف سے دشمنوں کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں، بیرونی دشمنوں کے علاوہ اپنے ہی ملک کے لوگ دشمنوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں، اور کسی نہ کسی طرح اپنی میں، میں مگن دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ لوگ ایسا کیوں کررہے ہیں؟

کیا ان کی فطرت میں غداری ہے یا یہ کہ واقعی ریاست ان کو انصاف نہیں دے پا رہی اور یہ مجبور ہوکر دشمنوں کا آلہ کار بن گئے؟ اگر ریاست تمام لوگوں کے ساتھ، تمام صوبوں کے ساتھ انصاف نہیں کرپاتی تو پھر کون انھیں انصاف دے گا۔ عدالتی نظام سے لے کر تمام سرکاری اداروں پرمختلف اقسام کے دباؤ موجود ہیں۔

ایک نہیں، دو نہیں، غیر ملکی فنڈنگ کے ذریعے کئی مافیاز پل رہے ہیں جو نہ صرف ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید دولت کمانے کے چکر میں ایمان اور ضمیر دونوں کا سودا کرکے اگر یہ کچھ گروپوں کے جاں نثاری کے دعوے کرتے ہیں تو کیا یہ ممکن ہے؟ یہ ایمان فروش، ضمیر فروش لوگ کس منہ سے کس عمل سے اپنے آپ کو رہنما ثابت کریں گے؟

پاکستانی عوام کا خون چوسنے والے ،کیا بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر اپنے آپ کو عزت دار محسوس کرتے ہیں یا بڑی بڑی کوٹھیاں بناکر ان کو اطمینان ملتا ہے، چاہے تمام لوگ ان کو چور ڈاکو پکاریں، ان کا نام پاناما لیکس میں آئے انھیں دنیا کی طرف سے ٹیکس چورکی سندیں مل جائے، کیسے یہ لوگ اتنے پست ہوگئے کہ ماں جیسی زمین کو ماں جیسے ملک کو یہ داؤ پر لگانے کو تیار ہوگئے۔

کیا منافقت کا دور ہے، حج بے شمار، عمرے بے شمار، دن و رات حرم شریف اور مدینہ کی باتیں، حضرت رسول پاکؐ کی زندگی اور عمرؓ کا دور خلافت، کیا ان کی زبانیں اور ان کے الفاظ ہی ان کو احساس دلانے کے لیے کافی نہیں؟ آزادی کے 70 سال اورکرپشن کے 70 سال، قائد اعظم کے پاکستان سے لے کر آج تک صرف اور صرف سازشیں او کرپشن ہی پھل پھول رہی ہے، تعلیم کو یہ پھیلنے نہیں دیتے ایمانداری کو یہ پنپنے نہیں دیتے، غربت کا یہ خاتمہ نہیں کرتے، صحت کی طرف یہ توجہ نہیں دیتے، نوجوانوں کے روزگار کے لیے یہ کچھ نہیں کرتے، بس اپنی جیبیں اور اپنے پیٹ بھرے جاؤ، تو پھر ایسا ہی ہوگا کہ تھک ہار کر بغاوت بڑھے گی، ہر طبقے میں ہر شعبے میں بڑھے گی، قصور اپنی ہی پالیسیوں کا نکلے گا۔

ابھی حال ہی میں ایم کیوایم پاکستان فاروق ستارکی زیر سرپرستی وجود میں لائی گئی، حالانکہ محنت پچھلے مہینوں سے عامرلیاقت کررہے تھے، آسرا ان کو بھی بہت تھا کہ ان کی جھولی میں ایک پارٹی ڈال دی جائے گی مگر عین موقعے پر فاروق ستار چھا گئے۔

الطاف حسین کے بعد.... ایم کیو ایم کا کیا ہوگا؟ کیا خون خرابہ ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام چیزوں پر سلیقے کے ساتھ قابو پالیا گیا ہے۔ پاک سرزمین کے مصطفیٰ کمال نے تو ایسا کوئی کمال نہیں دکھایا جیساکہ فاروق ستار نے دکھادیا، اب اگر الطاف کے خلاف کیس چلتا ہے تو اس صورت میں کراچی کے حالات کنٹرول کیے جاسکیں گے۔

مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ کراچی کے حالات فوج صحیح کرے، بلوچستان کو فوج دیکھے تو یہ جو جمہوریت کا راگ الاپنے والی جماعتیں ہیں کیا . یہ صرف بیرونی ممالک میں پاکستان سے دولت منتقل کرکے عیش کرنے کے لیے ہیں؟ کیا یہ صرف غیرملکی جاسوس بن کر دولت سمیٹے گی؟

کیا یہ صرف پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے ہیں، بار بار یہی جملے سن کر کان پک گئے ہیں کہ جمہوریت بہتر ہے چاہے لولی لنگڑی کیوں نہ ہو، ملک کا بیڑا غرق ہوجائے، عوام کا ستیاناس ہوجائے، لوگ خودکشیاں کریں، عورتوں کی عزتیں محفوظ نہ ہوں مگر جمہوریت ہو۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے بلکہ سمجھا جاتا ہے کہ ضیا الحق نے پاکستان کو بے انتہا نقصان پہنچایا، ایم کیو ایم بنانے والے بھی یہی صاحب تھے، کلاشنکوف کلچر، ہیروئن کلچر بھی انھی کا تحفہ تھا۔ کوڑے لگانے کا کلچر بھی انھی نے متعارف کروایا۔

سب اپنی اپنی پالیسیاں لے کر آئے حالانکہ ملکی مفاد اور دفاع کی پالیسیاں نسل در نسل چلتی ہیں، ان شخصیات سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، جو بھی آتا ہے وہ اپنے طریقے سے ان پالیسیوں کو مضبوط کرتا ہے اور ان کی بہتری کے لیے کام کرتا ہے۔ ملک مضبوط و آباد ہوگا تو ہی ہم مضبوط و آباد ہوتے ہیں ۔

اللہ کرے کہ ہمیں ہدایت ملے اور زندہ رہنے کا سلیقہ بھی نصیب ہو، یورپ نے ایمانداری اور انصاف کو اصول بنایا حالانکہ میراث ہماری ہے ہمیں فحاشی کے جنگل میں دھکیل دیا ہے،عورتوں کوآزادی ملی تو بھول گئیں کہاں سے شروع اور کہاں پر ختم ہوگی برابری کا ایسا روگ لگا کہ قدم بہ قدم مرد کے ساتھ ہیں۔

پس عزت میں نہیں کہ کبھی بھی ان کو بے عزت کرکے رکھ دیا جاتا ہے، ابھی تک عورتوں کے حقوق کے قوانین کو نافذ نہ کیا جاسکا۔ غرض کہ رونے کے لیے بے حساب غم اردگرد موجود ہیں۔ مگر یاد رکھیے کفر کا معاشرہ چل جائے گا مگر ظلم کا نہیں۔

تمام صوبوں کو ساتھ لے کر چلنا ہی عقلمندی ہے اور محرومی ایک حد تک ہی چل سکتی ہے پھر وہی محرومی ایک طاقت بن جاتی ہے۔ بہت سی مثالیں ایسی ہیں جس میں ہم یہ سب کچھ دیکھ سکتے ہیں پھر بھی نہ جانے کیوں عبرت نہیں پکڑتے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں