پولیس کی اصلاح کب ہوگی
1857 کا ذکر ہے جب میرٹھ کی فوجی چھاؤنی سے شروع ہونے والی تحریک آزادی نے پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا
1857 کا ذکر ہے جب میرٹھ کی فوجی چھاؤنی سے شروع ہونے والی تحریک آزادی نے پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آزادی پسند قوتوں نے اس تحریک کو جنگ آزادی کا نام دیا البتہ ایسٹ انڈیا کمپنی جوکہ اس وقت ہندوستان پر حکمرانی کر رہی تھی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی اس حکمرانی کو اس وقت سو برس ہوچکے تھے، ایسٹ انڈیا کمپنی کے سرمایہ دار حکمران اور ان سرمایہ دار حکمرانوں کے حاشیہ بردار اس تحریک آزادی کو غدر کا نام دیتے رہے۔
افسوس کا مقام ہے آج بھی تحریک آزادی 1857 کو چند لوگ غدر کا نام دے دیتے ہیں۔ بہرکیف ہوا یہ کہ آنے والے سنگین حالات کا ادراک کرتے ہوئے برٹش سرکار نے تمام حکومتی امور اپنے ہاتھ میں لے لیے اور اپنی سامراجیت کو دوام بخشنے کے لیے برٹش سرکار نے پولیس کا محکمہ قائم کیا، یہ ذکر ہے 1861 کا۔ محکمہ پولیس جوکہ برٹش سرکار نے قائم کیا تھا، چنانچہ برٹش سرکار نے وہ تمام اختیارات محکمہ پولیس کو دیے جوکہ کسی بھی غلام ملک کے باسیوں کو گرفت میں لینے کے لیے ممکن تھے۔
اس وقت کی پولیس نے برٹش سرکار سے وفاداری کا ہر موقع پر ثبوت دیا اور اپنے ہم وطنوں کی پوری پوری گوشمالی کی، آزادی پسندوں کو چھوٹے چھوٹے جرائم کے الزامات لگا کر موت کی نیند سلادیا۔ یہ سلسلہ برصغیر کی تقسیم و قیام پاکستان تک جاری رہا۔ البتہ قیام پاکستان کے بعد ضرورت اس امر کی تھی کہ دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ محکمہ پولیس میں بھی اصلاح کی جاتی اور اس پولیس کو حقیقی معنوں میں پاکستانی پولیس بنایا جاتا۔
تھانہ کلچر ایسا ہوتا کہ کوئی بھی مظلوم تھانے کی جانب امید کی نظر سے دیکھتا اور پولیس کا رویہ بھی ایسا ہوتا کہ آنے والے سائل کی فریاد پوری توجہ سے سنتی اور قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے اس مظلوم کی دادرسی کرتی۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے، کیونکہ آج قیام پاکستان کو 70 برس ہو رہے ہیں مگر کسی بھی حکومت نے ان 70 برسوں میں محکمہ پولیس کی اصلاح کی کوشش نہیں کی۔ اگرچہ ان 70 برسوں میں 12 صدور جن میں 4 فوجی آمر بھی شامل تھے، صدارتی محل میں قیام پذیر رہے۔
26 وزرائے اعظم نے بھی PM ہاؤس کو رونق بخشی مگر محکمہ پولیس بے لگام رہا۔ ان 26 وزرائے اعظم میں پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد 16 ہے جب کہ 5 وزرائے اعظم کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے رہا ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ کسی نے محکمہ پولیس کی اصلاح کی کوشش نہیں کی، بلکہ صداقت تو یہ ہے کہ پولیس کو ہر حکمران نے ہر دور میں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
اب تو ایسا لگتا ہے محکمہ پولیس کا اولین کام تو یہ ہے کہ حکومتی ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کی حفاظت کے فرائض انجام دے۔ اس عمل کو VIP کلچر کا نام دیا جاتا ہے، یعنی یہ حکمران جب ایوان اقتدار سے باہر نکلیں تو منظر یہ بنتا ہے کہ پولیس کی 80 گاڑیاں وزیراعظم و ایوان صدر میں تشریف فرما شخصیت کے ہمراہ ہوتی ہیں۔ حد تو یہ ہے 12 سے 15 پولیس کی گاڑیاں تو ایک صوبائی وزیر کی حفاظت پر مامور ہوتی ہیں۔
دوم پولیس کا سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے بھی استعمال ایک عام سی بات ہے۔ اس سلسلے میں محکمہ پولیس کا انداز یہ ہوتا ہے کہ بس حکم کریں، یہ حکومت مخالفت لوگ تو گویا کسی دشمن ملک کے باشندے ہیں چنانچہ ان کی سرکوبی لازمی ہے۔ اس سلسلے میں انگنت مثالیں دی جاسکتی ہیں مگر عصر حاضر میں ماڈل ٹاؤن لاہور کی ایک ہی مثال کافی ہے ۔ کوئی سوا 2 برس ہوچکے ہیں سانحہ ماڈل ٹاؤن کو مگر آج تک اس سانحے کے ذمے داران کا تعین نہ ہوسکا۔
سزا دینے کا عمل تو نجانے کب شروع ہوگا، کون بتا سکتا ہے کہ یہ سزا کا عمل شروع ہوگا یا نہیں۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اپنی ڈیوٹی کے دوران بڑے سے بڑا جرم کرنے والا پولیس مین سزا نہیں پاسکا۔ وہ پولیس والے بھلے اپنے وقت کی وزیراعظم کے بھائی میر غلام مرتضیٰ بھٹو کے قاتل ہی کیوں نہ ہوں۔ واضح رہے کہ میر غلام مرتضیٰ بھٹو کو 20 برس قبل 20 ستمبر 1996 کو ان کے گھر کے پاس چھ ساتھیوں سمیت قتل کیا گیا تھا۔
سوم جو کام پولیس والے کرتے ہیں وہ یہ کہ جگہ جگہ چیکنگ کے بہانے ناکے لگا کر اپنے روزمرہ کام کاج سرانجام دینے کے لیے اپنے گھروں سے دفاتر وغیرہ جانے والوں سے مختلف کاغذات و دستاویز چیک کرنے کے بہانے رقم بٹورنا، رقم نہ ملنے کی صورت میں کسی ناکردہ جرم میں گرفتار کرنے کی دھمکی دینا یا پھر گشت کے بہانے شہر کی گلیوں میں گھومنا اور جہاں کوئی تعمیراتی کام ہو رہا ہو وہاں سے تعمیراتی کام کروانے والے سے رقم وصول کرنا۔
البتہ دیہی علاقوں میں چھوٹے موٹے جرائم میں لوگوں کو گرفتار کرنا، پھر مشکوک پولیس مقابلے میں مار دینے کی دھمکی دے کر بڑی بڑی رقوم کی وصولی عام سی بات ہے، بلکہ جعلی پولیس مقابلے بھی اب تو معمولی سی بات ہیں۔
گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ ہمیں محکمہ پولیس میں اصلاح کی ضرورت ہے، اس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھانے کی فوری ضرورت ہے۔ وہ اقدامات یہ ہیں، محکمہ پولیس میں ایسے لوگوں کو ملازمت دی جائے جوکہ عوامی خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں۔ پولیس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ ایمانداری سے اپنی ڈیوٹی سرانجام دینے والوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے۔
محکمہ پولیس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو ملازمت دی جائے۔ تھانہ کلچر تبدیل کیا جائے۔ ایمانداری سے کام کرنے والے پولیس والوں کے کام میں مداخلت نہ کی جائے۔ ٹریفک پولیس کی بھی اصلاح کی جائے۔ مگر یہ تب ہوگا جب نظام حکومت تبدیل ہوگا اور نظام حکومت تبدیل کرے گا کوئی عوامی و حقیقی لیڈر۔ چنانچہ جن لوگوں کو خوش فہمی ہے کہ یہ سرمایہ دار و جاگیردار حکمران نظام حکومت تبدیل کریں گے وہ اپنی خوش فہمی دور کرلیں، ایسا ہونے والا نہیں ہے۔