سینٹرل نظارت پول کی گاڑیاں اعلیٰ افسران کو فراہم کی جانے لگیں
گاڑیاں استعمال کرنے والوں میں اعلیٰ حکومتی افسران شامل،سپریم کورٹ نےسپرداری کےتحت گاڑیوں کےاستعمال پرپابندی لگارکھی ہے
حکومتی اہلکاروں کوسینٹرل نظارت پول سے سپرداری پرگاڑیاں فراہم کرنے کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا ہے۔
گاڑیاں استعمال کرنے والوں میں کمشنر، ڈپٹی کمشنرز، ایڈیشنل کمشنرز، ڈی ڈی او ریونیو، مختار کار سمیت پولیس اہلکار شامل ہیں،ایڈشنل چیف سیکریٹری داخلہ وسیم احمد نے سپریم کورٹ کے واضح احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر تشویش کا اظہار کیا ہے، تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ کے زیر انتظام سینٹرل نظارت پول کراچی سے سپرداری پر گاڑیاں فراہم کرنے کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا ہے۔
2سال قبل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں3رکنی بنچ نے سپرداری کے تحت گاڑیوں کے استعمال پر پابندی عائد کردی تھی جبکہ اس صورت حال پر محکمہ داخلہ سندھ کی طرف سے کمشنر کراچی کومراسلہ بھیجا گیا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ نہایت افسوس کے ساتھ بتانا پڑرہاہے کہ سپریم کورٹ کی آئینی درخواست نمبر169/2009کے واضح حکم کے باوجود سینٹرل نظارت پول سے سرکاری افسران اور اداروں کو گاڑیاں سپرداری پر فراہم کی جارہی ہیں، سپریم کورٹ نے ایسی تمام گاڑیوں کو سرکاریاہلکاروں، اداروں سے واپس لیکر شفاف طریقے سے نیلامی کے ذریعے فروخت کرنے کا حکم دیا تھا۔
مراسلے میں متعلقہ اہلکاروں کے خلاف ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے پر کارروائی کرنے اور سپرداری پر دی جانیوالی گاڑیوں کو محکمہ داخلہ کے حوالے کرنے کی ہدائت کی ہے، اسی طرح سی پی ایل سی چیف احمد چنائے کی طرف سے بھی حکومت سندھ کو ایک مراسلہ بھیجا گیا ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ سرکاری اہلکاروں کو سینٹرل نظارت پول سے سپرداری پر گاڑیاں دینے کا سلسلہ بند کیا جائے اور جن اہلکارون کو گاڑی دی گئی ہیں ان سے واپس لی جائیں، مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ گاڑی کو مالک کے علاوہ کسی دوسرے فرد کو سپرداری پرگاڑی دیناسراسر خلاف ضابطہ ہے اور یہ عمل توہین عدالت کاموجب ہوسکتاہے۔
گاڑیاں استعمال کرنے والوں میں کمشنر، ڈپٹی کمشنرز، ایڈیشنل کمشنرز، ڈی ڈی او ریونیو، مختار کار سمیت پولیس اہلکار شامل ہیں،ایڈشنل چیف سیکریٹری داخلہ وسیم احمد نے سپریم کورٹ کے واضح احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر تشویش کا اظہار کیا ہے، تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ کے زیر انتظام سینٹرل نظارت پول کراچی سے سپرداری پر گاڑیاں فراہم کرنے کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا ہے۔
2سال قبل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں3رکنی بنچ نے سپرداری کے تحت گاڑیوں کے استعمال پر پابندی عائد کردی تھی جبکہ اس صورت حال پر محکمہ داخلہ سندھ کی طرف سے کمشنر کراچی کومراسلہ بھیجا گیا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ نہایت افسوس کے ساتھ بتانا پڑرہاہے کہ سپریم کورٹ کی آئینی درخواست نمبر169/2009کے واضح حکم کے باوجود سینٹرل نظارت پول سے سرکاری افسران اور اداروں کو گاڑیاں سپرداری پر فراہم کی جارہی ہیں، سپریم کورٹ نے ایسی تمام گاڑیوں کو سرکاریاہلکاروں، اداروں سے واپس لیکر شفاف طریقے سے نیلامی کے ذریعے فروخت کرنے کا حکم دیا تھا۔
مراسلے میں متعلقہ اہلکاروں کے خلاف ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے پر کارروائی کرنے اور سپرداری پر دی جانیوالی گاڑیوں کو محکمہ داخلہ کے حوالے کرنے کی ہدائت کی ہے، اسی طرح سی پی ایل سی چیف احمد چنائے کی طرف سے بھی حکومت سندھ کو ایک مراسلہ بھیجا گیا ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ سرکاری اہلکاروں کو سینٹرل نظارت پول سے سپرداری پر گاڑیاں دینے کا سلسلہ بند کیا جائے اور جن اہلکارون کو گاڑی دی گئی ہیں ان سے واپس لی جائیں، مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ گاڑی کو مالک کے علاوہ کسی دوسرے فرد کو سپرداری پرگاڑی دیناسراسر خلاف ضابطہ ہے اور یہ عمل توہین عدالت کاموجب ہوسکتاہے۔