سرحدوں سے شوبز تک
پاکستان کو ہر فورم پر تنہا کرنے کا خواب دیکھنے والا بھارت اپنے ہی جال میں پھنس رہا ہے۔
تُو ۔۔۔ تُو میرا سب سے پکا یار ہے، امن کی آشا، جنتا کی بھاشا اور اسی طرح کے راگ الاپ الاپ کر بھارت عرصہ دراز سے ہمسائے ملک پاکستان کی پیٹھ میں خنجر گھونپتا آیا ہے۔ 1996ء میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قواعد کے تحت بھارت نے پاکستان کو ''موسٹ فیورٹ نیشن'' کاخطاب دیا تھا، لیکن بغل میں چھری رکھ کر منہ میں رام رام کرنے والوں نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور دہشت گردی پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ اسی لیے پاکستانی حکومت ابھی سوچ ہی رہی ہے کہ آئے روز سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے والے بھارت کو ''ایم ایف این'' کا درجہ دیا بھی جائے یا نہیں۔
ہمسائے ہونے اور انسانیت کی خاطر بسیں چل رہی ہیں، ٹرینیں آ جارہی ہیں، برآمدات، درآمدات بھی ہو رہی ہیں، یہاں کے غریب وہاں اور وہاں کے لوگ یہاں کام کر رہے ہیں۔ اپنے اپنے دائرہ کار میں، کبھی کمی ہوجاتی ہے تو کبھی معمول پر آجاتے ہیں۔ ایسے میں ہی کچھ دہشت گرد ''کلبھوشن یادو'' جیسے گھس آتے ہیں اور جس تھالی میں کھاتے ہیں اس میں سوراخ کرتے ہیں۔ پکڑے جانے پر ان کی حکومت ہی ان کو قبول نہیں کرتی، بلاوجہ کا واویلا مچا کر نئے الزامات تھوپ دیتی ہے۔ بھارت نے اس بار اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرکے ثقافت کے ذریعے پاکستان پروار کیا ہے۔ کشمیر، جنرل اسمبلی اور سرحدوں سے بات نکل کر شوبز تک جا پہنچی ہے۔ بھارت نے پاکستانی فنکاروں اور ٹیکنیشنز کو اپنے ملک میں کام کرنے سے روک دیا ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق پاکستانی اداکاروں نے اُڑی حملے کی مذمت تو دور اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
پاکستانی اداکار فواد خان نے 3، گلوکار و اداکار علی ظفر نے 4 بالی وڈ فلموں میں کام کیا، اداکارہ ماہرہ خان فلم رئیس میں شاہ رخ خان کے ساتھ جلوہ گر ہورہی ہیں، گلوکار عاطف اسلم اب تک بالی وڈ کے لیے 50 سے زائد گانے گا کر بھارتی معیشت بڑھانے میں اہم کردار ادا کرچکے ہیں، جبکہ 100 سے زائد فلموں کے لیے راحت فتح علی خان اپنی آوازکا جادو جگا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اداکار جاوید شیخ اور عمران عباس جیسے فنکار بھی بالی وڈ میں سرگرم ہیں۔ فنکاروں، صداکاروں، اداکاروں، گلوکاروں، شعرا اور ادیبوں کے لیے سرحد کی کوئی قید نہیں ہوتی لیکن بھارت یہ ماننے کو تیار ہی نہیں، پاکستان کے جلاپے میں اپنے ہی ملک کے شہری اور معروف اداکار ''سلمان خان'' کو بھی آڑے ہاتھوں لے لیا۔ کافی عرصے سے عامر اور شاہ رخ خان کو بھی تعصب کا سامنا ہے اور بھارت سے نکل جانے کی دھمکیاں ہیں۔ یہاں تک کہ بھارتی فلمساز کرن جوہر نے ایک انٹرویو میں بیزار ہوکر کہا کہ
''ہم فنکار لوگ ہیں، برائے مہربانی ہمیں تنہا چھوڑ دیں۔ ہم فلمیں بناتے ہیں، محبت پھیلاتے ہیں، دنیا بھر میں لاکھوں لوگ ہمارے کام سے خوش ہیں، ہمیں آپ وہی کرنے دیں۔''
انڈین فلم انڈسٹری سے وابستہ کئی نامور ہدایت کاروں اور فلم سازوں کا خیال ہے کہ پاکستانی فنکاروں کو اس طرح سے ملک سے نکالنے سے پاکستان کا نہیں بلکہ بالی ووڈ کا اپنا ہی نقصان ہوگا۔ ان کے مطابق اگر پاکستانی فنکاروں کو فلم انڈسٹری سے نکال دیں گے تو اس سے پاکستان کا تو کچھ نہیں بگڑے گا لیکن اس سے بھارتی فلمی صنعت کو نقصان ہوگا کیونکہ ان سے وابستہ کئی منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی جاچکی ہے۔ اب جبکہ پاکستانی اسٹار بھارتی فلموں میں کام کرنے کے اہل نہیں رہے تو پاکستانی عوام کی جانب سے یہ بھی مطالبہ سامنے آرہا ہے کہ پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کی جائے۔ کراچی اور اسلام آباد میں اپنی فوج اور فنکاروں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے فوری طور پر بھارتی فلموں کو اسکریننگ سے روک بھی دیا گیا ہے۔
فلمیں ہٹ کرانے والے اسٹار آپ کی فلم میں نہ ہوں گے تو کیا خاک بزنس ہوگا۔ پھر بڑھتی ہوئی کشیدگی میں آپ اپنے ہی اسٹارز پر کیچڑ اچھال رہے ہوں تو ان کا دل بھی کام میں نہ لگے گا۔ پاکستان کو ہر فورم پر تنہا کرنے کا خواب دیکھنے والا بھارت اپنے ہی جال میں پھنس رہا ہے۔ ان سب باتوں سے پاکستان کی فلم انڈسٹری کو تو نقصان ہوگا ہی بھارت کو بھی یہ سودا خسارے کا ہی پڑے گا کیونکہ بھارتی فلمیں دیکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد پاکستانیوں پر بھی مشتمل ہے۔ عوام سینماؤں کا رخ کرتے ہیں، ٹکٹ خریدے جاتے ہیں، ہاؤس فل ہوتے ہیں، اسکریننگ ہوتی ہے، پوسٹر بنتے ہیں، لگتے ہیں، تشہیر ہوتی ہے، پریمئیر ہوتے ہیں، یوں فائدہ فلم بنانے والے ملک کو ہوتا ہے۔ اب جبکہ پاکستان میں بھارتی فلموں پر پابندی لگے گی تو بھارت کو پاکستان میں لگنے والی فلموں سے منافع حاصل نہ ہوسکے گا۔ اس کے برعکس مقابلے پر پاکستان فلم انڈسٹری بھی جاگ اٹھی ہے، اگر دیکھا جائے تو بالی ووڈ کی فلموں کی وجہ سے سینما بننے شروع ہوگئے۔ پاکستانی فلمیں بھی دوبارہ بن رہی ہیں، گزشتہ تین سالوں میں سینما کی اسکرینز دو درجن سے بڑھ کر 116 ہوگئی ہیں اور آئندہ تین سالوں میں مزید 100 اسکرینز کے سینما تیار ہو رہے ہیں۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ سینما کو ہر ہفتے ایک نئی فلم چاہیئے ہوتی ہے جو ابھی پاکستانی فلم انڈسٹری فراہم نہیں کرسکتی۔
پاکستانی فلم ڈسٹری بیوٹر ستیش آنند کا کہنا ہے کہ پاکستانی سینما میں بالی ووڈ کی فلموں کا سب سے بڑا حصہ ہے اور اگر حکومت بالی ووڈ کی فلمیں بند کرتی ہے تو اس کا اثر سینما پر ضرور پڑے گا تاہم ان کے خیال میں پاکستانی سینما میں اب اتنی جان ضرور ہے کہ وہ یہ جھٹکا برداشت کرجائے۔ پاکستانی فلمسازوں اور ہدایتکاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی ڈرامہ سیریل پورا پورا دن ٹی وی پر دیکھے جاتے ہیں، اور بھارتی فلموں کی خرید و فروخت کسی حد تک ڈی وی ڈی کی مدد سے بھی ہوتی ہے، تو صرف سینماوں کو نشانہ بنانے کی بجائے تمام کے تمام انڈین مواد پر پابندی لگائی جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔