’’کشمیری عوام اب بھارتی فوج سے خوفزدہ نہیں‘‘
گلیوں سڑکوں میں ہزارہا کشمیری نکلنے سے بھارتی حکومت بوکھلا گئی
کہتے ہیں' مغل بادشاہ جہانگیر نے جب وادی ِکشمیر کا بے مثال قدرتی حسن دیکھا' تو ششدر رہ گیا۔ تبھی بے ساختہ اس کے لبوں پر درج ذیل فارسی شعر رواں ہوا جو کشمیر کی ازلی فطری خوبصورتی سے نتھی ہو چکا:
''اگر فردوس بر روی زمین است
ھمیں است و ھمیں است و ھمیں است''
(اگر زمین پر جنت موجود ہوتی ' تو وہ یہیں ہوتی، یہیں ہوتی، یہیں ہوتی)
افسوس 8 جولائی سے ظالم بھارتی سکیورٹی فورسز قدرتی حسن سے مالا مال اس خطّے میں آگ و خون کا نیا کھیل' کھیل رہی ہیں۔ جب آزادی کا متوالا' برہان وانی شہید ہوا ' تو پوری وادی کشمیر میں جیسے بھونچال آ گیا اور گھر گھر ،گلی گلی سے ''ہمیں آزادی چاہیے'' کے نعرے بلند ہونے لگے۔
تحریک آزادی کشمیر کا آغاز ہوئے تقریباً نصف صدی بیت چکی ۔ اس دوران لاکھوں دلیر کشمیریوں نے ہندوؤں کے چنگل سے آزاد ہونے کی خاطر نذرانہ جان پیش کیا مگر اب بھی بھارتی حکمران طاقت کے بل بوتے پر وادی کشمیر پہ قابض ہیں۔کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے' مگر ہندو حکمران علاقے کو اپنا ''اٹوٹ انگ'' قرار دینے کی رٹ لگائے رکھتے ہیں۔ جب بھی مقبوضہ کشمیر میں آزادی کا نیا دور ابھرے' ظالم بھارتی حکمران بندوق کے زور پر نہایت بے دردی سے اسے کچل ڈالتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی میں دو گروہ نمایاں ہیں ۔ ایک گروہ میں شامل کشمیری بھارتی سکیورٹی فورسز کے خلاف مصروف جہاد ہیں ۔ دوسرے گروہ کے کشمیری غیر مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہی رہنماؤں میں سری نگر کے وکیل اور انسانی حقوق کے رہنما' پرویز امروز بھی شامل ہیں۔
یہ ساٹھ سالہ پرویز امروز ہی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے دنیا والوں پر کشمیریوں کی ''بے کتبہ'' قبروں کا راز افشا کیا۔ دراصل جب کشمیری خاندان کے بیٹے ' بھائی اور شوہر پُراسرار انداز میں غائب ہونے لگے تو انہوں نے پرویز امروز سے رجوع کیا۔ امروز صاحب نے معاملے کی تحقیق و تفتیش کی تو منکشف ہوا' بھارتی فوج کشمیری سپوتوں کوشہید کرنے اور انھیں ''دہشت گرد ''گرداننے کے بعد بے نشاں اور بے کتبہ قبروں میں دفنا رہی ہے۔ وادی کشمیر میں ایسی بے کتبہ اور انوکھی قبروں کے قبرستان وجود میں آ چکے جو دنیا کے کسی اور خطے میں پائی نہیں جاتیں۔ان کی موجودگی بھارتی ظلم و بربریت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
بے کتبہ قبروں کی دریافت کے بعد پرویز امروز نے نہتے' غریب اور بے بس کشمیریوں کے کیس مفت لڑنا اپنا معمول بنا لیا۔ ان کی جان ہر آن خطرے میں رہتی ہے ۔بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے کارندے کسی بھی وقت انھیں موت کے گھاٹ اتار سکتے ہیں۔ مگر وہ حق و انصاف کی خاطر جان دینے کو بھی تیار ہیں۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں ایک سماجی تنظیم''Jammu and Kashmir Coalition of Civil Society '' بنا رکھی ہے جو ریاستی دہشت گردی کا شکار کشمیریوں کو ہر ممکن قانونی و مالی مدد فراہم کرتی ہے۔ پرویز امروز حالیہ کشمیری احتجاج پر متعدد انٹرویو دے چکے۔ ان انٹرویوز سے چیدہ سوال جواب کا انتخاب پیش خدمت ہے۔
سوال: جموں و کشمیر حکومت نے عوامی احتجاج کو کس طرح برتا؟
جواب: ارے بھائی' عملی طور پر اس حکومت کا کوئی وجود نہیں' یہ صرف کاغذوں میں ملے گی۔ ریاست جموں و کشمیر کی اصل حکمران بھارتی سیکورٹی فورسز ہیں۔ ان فورسز میں پولیس' نیم فوجی دستے اور فوج شامل ہیں ۔ بھارتی حکومت نے فیصلہ سازی کے عمل سے ریاستی حکومت کو باہر کر دیا ہے۔ محبوبہ مفتی کی حکومت بیانات دے کر ہی اپنی ساکھ بچانے کی سعی کرتی رہی مگر ریاستی معاملات بھارتی وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے ہاتھوں میں ہیں۔
سوال: احتجاج کے دوران ریاستی وزیر اعلیٰ ' محبوبہ مفتی کے عمل و کلام کو آپ نے کیسا پایا؟
جواب: موجودہ حکومت کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ وادی میں اتنے وسیع پیمانے پر احتجاج ہو گا۔ دراصل 2010ء کے احتجاجی مظاہروں کے بعد کشمیری عوام غم و غصّے کو بھول نہ پائے بلکہ ان جذبوں کی شدت بڑھتی رہی۔ اب یہی غم و غصہ لاوا بن کر ابل پڑا۔ بھارتی حکمران صرف اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر کشمیری بڑی تعداد میں سڑکوں اور گلیوں میں نکل آئے ' تو بین الاقوامی سطح پر ان کی جگ ہنسائی ہوگی اور ان کا کیس کمزور ہو جائے گا۔ مگر اب تو لاکھوں کشمیری سڑکوں پر آ گئے ۔حالیہ احتجاج کے دوران جموں وکشمیر میں حکمران جماعت کے لیڈر متناقض بیان دیتے رہے۔ یوں کشمیری عوام کی نظروں میں ان کا اعتبار مزید کم ہو گیا۔
سوال: حالیہ احتجاج 2008ء اور 2010ء کے عوامی مظاہروں سے کیونکر مختلف ہے؟
جواب: میں اس احتجاج کو سابقہ احتجاجی مظاہروں کا تسلسل ہی سمجھتا ہوں۔ ریاست میں چھ لاکھ بھارتی فوجی چند ہزار مسلح لڑکوں کا مقابلہ کرنے نہیں آئے... بھارتی حکمران اپنی فوج کے ذریعے کشمیری عوام کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔
جب ریاست میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخلوط حکومت بنی ' تو وہ شروع سے متنازع اور جارحانہ اقدامات کرنے لگی۔ مثلاً اس نے اعلان کیا کہ ریاست میں ''سینک'' (عسکری) کالونیاں بنائی جائیں گی۔ یا کشمیری پنڈتوں کو علیحدہ علاقوں میں آباد کیا جائے گا۔
ان اقدامات کے باعث کشمیری عوام کو احساس ہو گیا کہ ہندو قوم پرست پی ڈی پی کے کاندھوں پر بندوق رکھ کر انہیں نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ مزید براں بھارت میں سنگھ پریوار (ہندو قوم پسند جماعتوں) کی شہرت اچھی نہیں۔ یہ جماعتیں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر جو مظالم ڈھا رہی ہیں' وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ چناںچہ کشمیری مسلمان سنگھ پریوار کی تمام جماعتوں سے نفرت کرتے ہیں اور انہیں بہ حیثیت حکمران قبول کرنے کو ہرگز تیار نہیں ۔ اس کے علاوہ بھارتی میڈیا حکمرانوں کا بھونپو ہے۔ وہ مسلسل کشمیریوں کے خلاف زہر اگلتا اور تحریک آزادی کو غداری قرار دیتا ہے۔ جنگجو یانہ بھارتی میڈیا نے بھی کشمیریوں میں اشتعال پھیلا دیا۔
سوال: کرفیو، موبائل فون سروس کی بندش اور دیگر پابندیاں بھی کیا عوام کو طیش میں لے آئیں؟
جواب: میں سمجھتا ہوں، حکومت جتنی زیادہ پابندیاں لگائے، جتنی زیادہ فوج بلوائے، تو یہ ایک لحاظ سے کشمیری عوام کی فتح ہے۔ حکومت سمجھ نہیں پارہی کہ وہ عوامی مظاہروں پر کیونکر قابو پائے۔ مگر حکومت زیادہ ظالم ضرور بن چکی، اب وہ ہنستے لوگوں پر گولیاں اور چھرے چلائی ہے۔ بے پناہ ظلم کے باوجود کشمیری روزانہ منظم انداز میں جلوس نکال رہے ہیں۔ عشرہ 1990ء میں یہ منظرعنقا تھا۔ اس زمانے میں جب لوگ جذبات میں آتے، تبھی جلوس نکالتے تھے۔ مگر آج احتجاج منظم صورت اختیار کرچکا۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ کشمیری نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ان جلسے جلوسوں میں شریک ہوتی ہے۔ وہ خوف و دہشت کے ان اثرات سے ماورا ہو چکی جو بھارتی سکیورٹی فورسز نے بے پناہ مظالم ڈھا کر تیس برس قبل کشمیریوں پر طاری کردئیے تھے۔ آج کی کشمیری نئی نسل بلکہ سبھی عوام بھارتی سکیورٹی فورسز کے پیدا کردہ دہشت زدہ ماحول سے آزاد ہوچکے۔
سوال: عوامی مظاہروں پر بھارتی حکومت کا کیا ردعمل رہا؟
جواب: بھارتی فوجیوں کو احساس ہوچکا کہ وہ ایسے علاقے میں تعینات ہیں جہاں کے باشندے انہیں پسند نہیں کرتے اور ان کو قابض سمجھا جاتا ہے۔ مگر وہ مقبوضہ کشمیر میں جو چاہے کرتے پھریں، انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اسی لیے بھارتی سکیورٹی فورسز کشمیر میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ کشمیریوں کو قتل کرنے اور چھرے چلانے کے باوجود وہ رہا ہوجائینگے۔ جب بھی سکیورٹی فورسز کسی بڑے واقعے میں ملوث ہوں، تو حکومت انکوائری کمیٹی بٹھادیتی ہے۔ مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات نکلتا ہے۔ حقیقت میں جو فوجی افسر کشمیری عوام پر زیادہ سے زیادہ ظلم ڈھائے، بھارتی حکومت اسے انعام و اکرام سے نوازتی ہے۔
سوال: حال ہی میں بھارتی سیکورٹی فورسز نے ہائی کورٹ میں بتایا کہ اگر کشمیر میں چھروں والی بندوقوں کے استعمال پر پابندی لگ گئی، تو مزید ہلاکتیں ہوں گی۔ آپ کے خیال میں ان بندوقوں پر پابندی لگنی چاہیے؟
جواب: یہ نہایت نامعقول بات ہے کہ اگر چھرے والی بندوقیں استعمال نہ کی گئیں، تو زیادہ کشمیری جاں بحق ہوں گے... یہ کس قسم کی منطق ہے؟ بھارتی حکمرانوں کی عقل پر پتھر پڑچکے ۔
مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم نے تشویش ظاہر کی ہے۔ بھارتی سکیورٹی فورسز اب تک سو سے زائد کشمیری شہید کرچکی جبکہ دس ہزار زخمی ہوچکے۔ سیکڑوں زخمی کشمیری معذور ہوگئے اور اب وہ نارمل زندگی نہیں گزارسکتے۔
ہماری تنظیم کے دفتر میں پچھلے بیس سال کے دوران تشدد اور فائرنگ سے زخمی اور معذور ہونے والے کشمیریوں کا ڈیٹا موجود ہے۔ وہ افشا کرتا ہے کہ بہت سے کشمیری زخموں کی تاب نہ لاکر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انہیں اس دوران نہایت اذیت برداشت کرنا پڑی اور وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے منہ میں پہنچے۔
یہ بات یاد ر کھیے کہ چھرے والی بندوق بظاہر انسان کو جان سے نہیں مارتی، مگر اسے چہرے سے یا نازک انسانی اعضا کی طرف کرکے چلایا جائے، تو وہ خطرناک ہتھیار بن جاتی ہے۔ پھر ظالم بھارتی فوجی تو جان بوجھ کے چہروں پر چھرے مارتے ہیں تاکہ کشمیریوں کو خوفزدہ کرسکیں۔ وہ نہتے کشمیریوں کا زبانی احتجاج بھی بالکل برداشت نہیں کرسکتے۔
سوال: کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے بڑھتے مظالم دنیا والوں پر اجاگر ہوسکے ہیں؟
جواب: جی ہاں، خاصی حد تک! اقوام متحدہ کے کمشنر اعلیٰ برائے انسانی حقوق نے اعلان کیا کہ وہ حقائق جاننے کی خاطر ایک مشن کشمیر بھجوائیں گے۔ پاکستان نے اس مشن کا خیر مقدم کیا۔ مگر بھارت نے اسے کشمیر آنے سے روک دیا۔ غرض بیرون ممالک اور وہاں آباد لوگ کشمیر میں بھارتی حکومت کے غیر جمہوری، غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہتھکنڈوں سے آگاہ ہورہے ہیں۔ حال ہی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مسئلہ کشمیر اجاگر کرنا چاہا، تو اسے ''غدار'' قرار دے دیا گیا۔ دنیا والے جان رہے ہیں کہ بھارت دراصل ایک انتہا پسند اور غیر جمہوری ریاست ہے۔
جب 2010ء میں بے کتبہ قبریں دریافت ہوئیں تو یورپی یونین نے کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف ایک قرار داد منظور کی تھی۔ مگر بھارت نے روایتی ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔ دراصل بھارتی حکمران پاگل پن کی حد تک اپنی خود مختاری اور قومی سلامتی کے خبط میں مبتلا ہیں۔ وہ کشمیر تو کیا اس لفظ کے پہلے حرف کو بھی زیر بحث لانے کے لیے تیار نہیں۔
بھارتی حکمرانوں نے اقوام متحدہ کے مشن کو اسی لیے نہیں آنے دیا کہ یوں مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر نمایاں ہوجاتا ۔ اس سلسلے میں بھارتی حکومت کی احتیاط کا یہ عالم ہے کہ کشمیر میں ریڈ کراس کی انٹرنیشنل کمیٹی کے ارکان بھی چند مخصوص مراکز تک جاپاتے ہیں اور وہ کشمیریوں کے گمشدگی، تشدد اور ریاستی دہشت گردی کے معاملات پر بات نہیں کرسکتے۔
سوال: کشمیر کی موجودہ صورت کے بارے میں آپ کے کیا خیالات و تاثرات ہیں۔
جواب: بھارتی حکمران مسئلہ کشمیر کو سیاسی قرار نہیں دینا چاہتے کیونکہ یوں ان کا کیس کمزور ہو جاتا ہے۔اسی لیے وہ واویلا مچاتے ہیں کہ کشمیر میں دہشت گردی...انتہا پسندی...اسلامی قدامت پسندی وغیرہ کا دور دورہ ہے۔ماضی میں کشمیری بھارتی حکمرانوں سے ناراض تھے۔اس دوران بھارت نے کشمیریوں پہ اتنے ظلم ڈھائے کہ اب وہ بھارتی حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اب پوری وادی میں آزادی کا نعرہ پھیل چکا۔بھارتی حکمران اب آزادی کے بلند ہوتے نعروں کو تادیر نہیں دبا سکتے۔انھوں نے کشمیری عوام کو اتنا زیادہ تشدد کا نشانہ بنایا کہ اب وہ بے خوف ہو چکے۔یہی وجہ ہے ،وہ پولیس اسٹیشنوں اور فوجی مراکز پر حملے کر رہے ہیں۔
''اگر فردوس بر روی زمین است
ھمیں است و ھمیں است و ھمیں است''
(اگر زمین پر جنت موجود ہوتی ' تو وہ یہیں ہوتی، یہیں ہوتی، یہیں ہوتی)
افسوس 8 جولائی سے ظالم بھارتی سکیورٹی فورسز قدرتی حسن سے مالا مال اس خطّے میں آگ و خون کا نیا کھیل' کھیل رہی ہیں۔ جب آزادی کا متوالا' برہان وانی شہید ہوا ' تو پوری وادی کشمیر میں جیسے بھونچال آ گیا اور گھر گھر ،گلی گلی سے ''ہمیں آزادی چاہیے'' کے نعرے بلند ہونے لگے۔
تحریک آزادی کشمیر کا آغاز ہوئے تقریباً نصف صدی بیت چکی ۔ اس دوران لاکھوں دلیر کشمیریوں نے ہندوؤں کے چنگل سے آزاد ہونے کی خاطر نذرانہ جان پیش کیا مگر اب بھی بھارتی حکمران طاقت کے بل بوتے پر وادی کشمیر پہ قابض ہیں۔کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے' مگر ہندو حکمران علاقے کو اپنا ''اٹوٹ انگ'' قرار دینے کی رٹ لگائے رکھتے ہیں۔ جب بھی مقبوضہ کشمیر میں آزادی کا نیا دور ابھرے' ظالم بھارتی حکمران بندوق کے زور پر نہایت بے دردی سے اسے کچل ڈالتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی میں دو گروہ نمایاں ہیں ۔ ایک گروہ میں شامل کشمیری بھارتی سکیورٹی فورسز کے خلاف مصروف جہاد ہیں ۔ دوسرے گروہ کے کشمیری غیر مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہی رہنماؤں میں سری نگر کے وکیل اور انسانی حقوق کے رہنما' پرویز امروز بھی شامل ہیں۔
یہ ساٹھ سالہ پرویز امروز ہی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے دنیا والوں پر کشمیریوں کی ''بے کتبہ'' قبروں کا راز افشا کیا۔ دراصل جب کشمیری خاندان کے بیٹے ' بھائی اور شوہر پُراسرار انداز میں غائب ہونے لگے تو انہوں نے پرویز امروز سے رجوع کیا۔ امروز صاحب نے معاملے کی تحقیق و تفتیش کی تو منکشف ہوا' بھارتی فوج کشمیری سپوتوں کوشہید کرنے اور انھیں ''دہشت گرد ''گرداننے کے بعد بے نشاں اور بے کتبہ قبروں میں دفنا رہی ہے۔ وادی کشمیر میں ایسی بے کتبہ اور انوکھی قبروں کے قبرستان وجود میں آ چکے جو دنیا کے کسی اور خطے میں پائی نہیں جاتیں۔ان کی موجودگی بھارتی ظلم و بربریت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
بے کتبہ قبروں کی دریافت کے بعد پرویز امروز نے نہتے' غریب اور بے بس کشمیریوں کے کیس مفت لڑنا اپنا معمول بنا لیا۔ ان کی جان ہر آن خطرے میں رہتی ہے ۔بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے کارندے کسی بھی وقت انھیں موت کے گھاٹ اتار سکتے ہیں۔ مگر وہ حق و انصاف کی خاطر جان دینے کو بھی تیار ہیں۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں ایک سماجی تنظیم''Jammu and Kashmir Coalition of Civil Society '' بنا رکھی ہے جو ریاستی دہشت گردی کا شکار کشمیریوں کو ہر ممکن قانونی و مالی مدد فراہم کرتی ہے۔ پرویز امروز حالیہ کشمیری احتجاج پر متعدد انٹرویو دے چکے۔ ان انٹرویوز سے چیدہ سوال جواب کا انتخاب پیش خدمت ہے۔
سوال: جموں و کشمیر حکومت نے عوامی احتجاج کو کس طرح برتا؟
جواب: ارے بھائی' عملی طور پر اس حکومت کا کوئی وجود نہیں' یہ صرف کاغذوں میں ملے گی۔ ریاست جموں و کشمیر کی اصل حکمران بھارتی سیکورٹی فورسز ہیں۔ ان فورسز میں پولیس' نیم فوجی دستے اور فوج شامل ہیں ۔ بھارتی حکومت نے فیصلہ سازی کے عمل سے ریاستی حکومت کو باہر کر دیا ہے۔ محبوبہ مفتی کی حکومت بیانات دے کر ہی اپنی ساکھ بچانے کی سعی کرتی رہی مگر ریاستی معاملات بھارتی وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے ہاتھوں میں ہیں۔
سوال: احتجاج کے دوران ریاستی وزیر اعلیٰ ' محبوبہ مفتی کے عمل و کلام کو آپ نے کیسا پایا؟
جواب: موجودہ حکومت کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ وادی میں اتنے وسیع پیمانے پر احتجاج ہو گا۔ دراصل 2010ء کے احتجاجی مظاہروں کے بعد کشمیری عوام غم و غصّے کو بھول نہ پائے بلکہ ان جذبوں کی شدت بڑھتی رہی۔ اب یہی غم و غصہ لاوا بن کر ابل پڑا۔ بھارتی حکمران صرف اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر کشمیری بڑی تعداد میں سڑکوں اور گلیوں میں نکل آئے ' تو بین الاقوامی سطح پر ان کی جگ ہنسائی ہوگی اور ان کا کیس کمزور ہو جائے گا۔ مگر اب تو لاکھوں کشمیری سڑکوں پر آ گئے ۔حالیہ احتجاج کے دوران جموں وکشمیر میں حکمران جماعت کے لیڈر متناقض بیان دیتے رہے۔ یوں کشمیری عوام کی نظروں میں ان کا اعتبار مزید کم ہو گیا۔
سوال: حالیہ احتجاج 2008ء اور 2010ء کے عوامی مظاہروں سے کیونکر مختلف ہے؟
جواب: میں اس احتجاج کو سابقہ احتجاجی مظاہروں کا تسلسل ہی سمجھتا ہوں۔ ریاست میں چھ لاکھ بھارتی فوجی چند ہزار مسلح لڑکوں کا مقابلہ کرنے نہیں آئے... بھارتی حکمران اپنی فوج کے ذریعے کشمیری عوام کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔
جب ریاست میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخلوط حکومت بنی ' تو وہ شروع سے متنازع اور جارحانہ اقدامات کرنے لگی۔ مثلاً اس نے اعلان کیا کہ ریاست میں ''سینک'' (عسکری) کالونیاں بنائی جائیں گی۔ یا کشمیری پنڈتوں کو علیحدہ علاقوں میں آباد کیا جائے گا۔
ان اقدامات کے باعث کشمیری عوام کو احساس ہو گیا کہ ہندو قوم پرست پی ڈی پی کے کاندھوں پر بندوق رکھ کر انہیں نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ مزید براں بھارت میں سنگھ پریوار (ہندو قوم پسند جماعتوں) کی شہرت اچھی نہیں۔ یہ جماعتیں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر جو مظالم ڈھا رہی ہیں' وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ چناںچہ کشمیری مسلمان سنگھ پریوار کی تمام جماعتوں سے نفرت کرتے ہیں اور انہیں بہ حیثیت حکمران قبول کرنے کو ہرگز تیار نہیں ۔ اس کے علاوہ بھارتی میڈیا حکمرانوں کا بھونپو ہے۔ وہ مسلسل کشمیریوں کے خلاف زہر اگلتا اور تحریک آزادی کو غداری قرار دیتا ہے۔ جنگجو یانہ بھارتی میڈیا نے بھی کشمیریوں میں اشتعال پھیلا دیا۔
سوال: کرفیو، موبائل فون سروس کی بندش اور دیگر پابندیاں بھی کیا عوام کو طیش میں لے آئیں؟
جواب: میں سمجھتا ہوں، حکومت جتنی زیادہ پابندیاں لگائے، جتنی زیادہ فوج بلوائے، تو یہ ایک لحاظ سے کشمیری عوام کی فتح ہے۔ حکومت سمجھ نہیں پارہی کہ وہ عوامی مظاہروں پر کیونکر قابو پائے۔ مگر حکومت زیادہ ظالم ضرور بن چکی، اب وہ ہنستے لوگوں پر گولیاں اور چھرے چلائی ہے۔ بے پناہ ظلم کے باوجود کشمیری روزانہ منظم انداز میں جلوس نکال رہے ہیں۔ عشرہ 1990ء میں یہ منظرعنقا تھا۔ اس زمانے میں جب لوگ جذبات میں آتے، تبھی جلوس نکالتے تھے۔ مگر آج احتجاج منظم صورت اختیار کرچکا۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ کشمیری نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ان جلسے جلوسوں میں شریک ہوتی ہے۔ وہ خوف و دہشت کے ان اثرات سے ماورا ہو چکی جو بھارتی سکیورٹی فورسز نے بے پناہ مظالم ڈھا کر تیس برس قبل کشمیریوں پر طاری کردئیے تھے۔ آج کی کشمیری نئی نسل بلکہ سبھی عوام بھارتی سکیورٹی فورسز کے پیدا کردہ دہشت زدہ ماحول سے آزاد ہوچکے۔
سوال: عوامی مظاہروں پر بھارتی حکومت کا کیا ردعمل رہا؟
جواب: بھارتی فوجیوں کو احساس ہوچکا کہ وہ ایسے علاقے میں تعینات ہیں جہاں کے باشندے انہیں پسند نہیں کرتے اور ان کو قابض سمجھا جاتا ہے۔ مگر وہ مقبوضہ کشمیر میں جو چاہے کرتے پھریں، انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اسی لیے بھارتی سکیورٹی فورسز کشمیر میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ کشمیریوں کو قتل کرنے اور چھرے چلانے کے باوجود وہ رہا ہوجائینگے۔ جب بھی سکیورٹی فورسز کسی بڑے واقعے میں ملوث ہوں، تو حکومت انکوائری کمیٹی بٹھادیتی ہے۔ مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات نکلتا ہے۔ حقیقت میں جو فوجی افسر کشمیری عوام پر زیادہ سے زیادہ ظلم ڈھائے، بھارتی حکومت اسے انعام و اکرام سے نوازتی ہے۔
سوال: حال ہی میں بھارتی سیکورٹی فورسز نے ہائی کورٹ میں بتایا کہ اگر کشمیر میں چھروں والی بندوقوں کے استعمال پر پابندی لگ گئی، تو مزید ہلاکتیں ہوں گی۔ آپ کے خیال میں ان بندوقوں پر پابندی لگنی چاہیے؟
جواب: یہ نہایت نامعقول بات ہے کہ اگر چھرے والی بندوقیں استعمال نہ کی گئیں، تو زیادہ کشمیری جاں بحق ہوں گے... یہ کس قسم کی منطق ہے؟ بھارتی حکمرانوں کی عقل پر پتھر پڑچکے ۔
مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم نے تشویش ظاہر کی ہے۔ بھارتی سکیورٹی فورسز اب تک سو سے زائد کشمیری شہید کرچکی جبکہ دس ہزار زخمی ہوچکے۔ سیکڑوں زخمی کشمیری معذور ہوگئے اور اب وہ نارمل زندگی نہیں گزارسکتے۔
ہماری تنظیم کے دفتر میں پچھلے بیس سال کے دوران تشدد اور فائرنگ سے زخمی اور معذور ہونے والے کشمیریوں کا ڈیٹا موجود ہے۔ وہ افشا کرتا ہے کہ بہت سے کشمیری زخموں کی تاب نہ لاکر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انہیں اس دوران نہایت اذیت برداشت کرنا پڑی اور وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے منہ میں پہنچے۔
یہ بات یاد ر کھیے کہ چھرے والی بندوق بظاہر انسان کو جان سے نہیں مارتی، مگر اسے چہرے سے یا نازک انسانی اعضا کی طرف کرکے چلایا جائے، تو وہ خطرناک ہتھیار بن جاتی ہے۔ پھر ظالم بھارتی فوجی تو جان بوجھ کے چہروں پر چھرے مارتے ہیں تاکہ کشمیریوں کو خوفزدہ کرسکیں۔ وہ نہتے کشمیریوں کا زبانی احتجاج بھی بالکل برداشت نہیں کرسکتے۔
سوال: کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے بڑھتے مظالم دنیا والوں پر اجاگر ہوسکے ہیں؟
جواب: جی ہاں، خاصی حد تک! اقوام متحدہ کے کمشنر اعلیٰ برائے انسانی حقوق نے اعلان کیا کہ وہ حقائق جاننے کی خاطر ایک مشن کشمیر بھجوائیں گے۔ پاکستان نے اس مشن کا خیر مقدم کیا۔ مگر بھارت نے اسے کشمیر آنے سے روک دیا۔ غرض بیرون ممالک اور وہاں آباد لوگ کشمیر میں بھارتی حکومت کے غیر جمہوری، غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہتھکنڈوں سے آگاہ ہورہے ہیں۔ حال ہی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مسئلہ کشمیر اجاگر کرنا چاہا، تو اسے ''غدار'' قرار دے دیا گیا۔ دنیا والے جان رہے ہیں کہ بھارت دراصل ایک انتہا پسند اور غیر جمہوری ریاست ہے۔
جب 2010ء میں بے کتبہ قبریں دریافت ہوئیں تو یورپی یونین نے کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف ایک قرار داد منظور کی تھی۔ مگر بھارت نے روایتی ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔ دراصل بھارتی حکمران پاگل پن کی حد تک اپنی خود مختاری اور قومی سلامتی کے خبط میں مبتلا ہیں۔ وہ کشمیر تو کیا اس لفظ کے پہلے حرف کو بھی زیر بحث لانے کے لیے تیار نہیں۔
بھارتی حکمرانوں نے اقوام متحدہ کے مشن کو اسی لیے نہیں آنے دیا کہ یوں مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر نمایاں ہوجاتا ۔ اس سلسلے میں بھارتی حکومت کی احتیاط کا یہ عالم ہے کہ کشمیر میں ریڈ کراس کی انٹرنیشنل کمیٹی کے ارکان بھی چند مخصوص مراکز تک جاپاتے ہیں اور وہ کشمیریوں کے گمشدگی، تشدد اور ریاستی دہشت گردی کے معاملات پر بات نہیں کرسکتے۔
سوال: کشمیر کی موجودہ صورت کے بارے میں آپ کے کیا خیالات و تاثرات ہیں۔
جواب: بھارتی حکمران مسئلہ کشمیر کو سیاسی قرار نہیں دینا چاہتے کیونکہ یوں ان کا کیس کمزور ہو جاتا ہے۔اسی لیے وہ واویلا مچاتے ہیں کہ کشمیر میں دہشت گردی...انتہا پسندی...اسلامی قدامت پسندی وغیرہ کا دور دورہ ہے۔ماضی میں کشمیری بھارتی حکمرانوں سے ناراض تھے۔اس دوران بھارت نے کشمیریوں پہ اتنے ظلم ڈھائے کہ اب وہ بھارتی حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اب پوری وادی میں آزادی کا نعرہ پھیل چکا۔بھارتی حکمران اب آزادی کے بلند ہوتے نعروں کو تادیر نہیں دبا سکتے۔انھوں نے کشمیری عوام کو اتنا زیادہ تشدد کا نشانہ بنایا کہ اب وہ بے خوف ہو چکے۔یہی وجہ ہے ،وہ پولیس اسٹیشنوں اور فوجی مراکز پر حملے کر رہے ہیں۔