مجموعہ ’آتشِ زیر پا‘ پر سیر حاصل گفتگو
آتشِ زیرپا کے شاعر اسی تپش وجود میں مبتلا ہیں جسے غالب نے آشوب آگہی کہا ہے۔
آتش زیرپا کے شاعر اصغر خاں سے میری شناسائی کوئی زیادہ پرانی نہیں، ان سے شناسائی کا آغاز اُس وقت ہوا جب ٹیلی فون پر ایک صاحب نے میرا ایڈریس پوچھنے کے بعد مجھے ''خان کی ڈائری'' نام کی کتاب کی دو جلدیں پہنچائیں۔ بعد میں فون پر ایک بھاری سی آواز میں اصغر خان نے سلام دعا کے بعد پوچھا میری کتاب ''خان کی ڈائری'' مل گئی؟ میں نے بھی مختصراََ کہا، جی مل گئی اور پھر لائن کٹ گئی۔
اب دو ماہ پہلے ان کا شعری مجموعہ ''آتشِ زیرپا'' موصول ہوا۔ کافی دنوں سے کچھ لکھنے پڑھنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا، میرے بستر کے کنارے کتابوں کا ڈھیر ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے۔ آج نا چاہتے ہوئے بھی دوستوں اور مہربانوں کی چاہتوں کا قرض تو اتارنا ہی ہے۔
آج آتشِ زیرپا زیر مطالعہ ہے۔ آتشِ زیرپا کی غزلوں میں سب سے پہلے شاعر کی تصویر بنتی نظر آتی ہے۔ میرے خیال میں شاعری دراصل فنکار کی شخصیت سے آگہی ہے اور کسی شاعر کی ذات کا عرفان اس کی شاعری کی معرفت کا پہلا زینہ ہے۔ ہربرٹ اپنے مضمون 'شاعر کی شخصیت' میں لکھتا ہے،
غزل کے کینوس پر اصغر خان کی شخصیت کی جو تصویر بنتی ہے، بالکل اصغر خان جیسی ہے۔ صاف ستھری، کھری بات، بے باکانہ انداز۔
اصغر خان نے اپنے شعری مجموعہ کا نام مرزا غالب کے ایک شعر سے کشید کیا ہے جو ان کی اندرونی کیفیات، افکار و محسوسات اور ان کی تخلیقی تڑپ کا آئینہ دار ہے۔
ان کے کرب کا آغاز گردوپیش کے سماجی اور انسانی مسائل سے ہوتا ہے۔ آتشِ زیرپا کے شاعر اسی تپش وجود میں مبتلا ہیں جسے غالب نے آشوب آگہی کہا ہے۔ اصغر خان کا یہ مجموعہ، مجموعہ نہیں ایک نظم مسلسل بلکہ شہر آشوب ہے۔ ایسا شہر آشوب جو کرب و ذات سے شروع ہوکر سماجی اقدار کے نوحے پر ختم ہوتا ہے۔ اصغر خان کے بارے میں ان کے بہت سے ناقدین کا کہنا ہے کہ اصغر خان نے اپنے پختون لب و لہجے کے اکھڑپن کو جملہ نقائص و معائب سمیت زبان میں اضافہ کی حیثیت دی۔ یہ اور ایسی ہی چند باتیں ان ناقدین کی زبان سے ہیں جو اپنے علاوہ کسی کو کچھ نہیں سمجھتے اور جو تعصب کی عینک کسی طور ہٹا نہیں پاتے۔ اصغرخان نے اپنے ایسے ناقدین کو خود ہی جواب دے دیا ہے، بڑے ہی دھیمے سے انداز میں۔
اصغر خان جیسا شاعر جب شہر آشوب نظم کہتا ہے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے اس نے اپنے قاری کے سامنے جام جمشید رکھ دیا ہو جس سے وہ خود بھی موجودہ دور کے نشیب و فراز دیکھتا ہے بلکہ قاری کو بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ اس سے شاعر کا مقصد اپنی انا کی تسکین نہیں بلکہ اپنی تخلیقی شخصیت کا ترفع ہے۔
اور آخر میں اصغر خان کی ایک مختصر نظم
شاعری کے دلدادہ افراد کے لئے آتشِ زیرپا ایک اچھا اضافہ ہے۔ رنگ ادب پبلی کیشنز، ۵۔ کتاب مارکیٹ، اردوبازار، کراچی کی شائع کردہ اس کتاب کے صفحات 320 ہیں اور اسکی قیمت 600 روپے ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب دو ماہ پہلے ان کا شعری مجموعہ ''آتشِ زیرپا'' موصول ہوا۔ کافی دنوں سے کچھ لکھنے پڑھنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا، میرے بستر کے کنارے کتابوں کا ڈھیر ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے۔ آج نا چاہتے ہوئے بھی دوستوں اور مہربانوں کی چاہتوں کا قرض تو اتارنا ہی ہے۔
آج آتشِ زیرپا زیر مطالعہ ہے۔ آتشِ زیرپا کی غزلوں میں سب سے پہلے شاعر کی تصویر بنتی نظر آتی ہے۔ میرے خیال میں شاعری دراصل فنکار کی شخصیت سے آگہی ہے اور کسی شاعر کی ذات کا عرفان اس کی شاعری کی معرفت کا پہلا زینہ ہے۔ ہربرٹ اپنے مضمون 'شاعر کی شخصیت' میں لکھتا ہے،
''یہ صرف فیضان ہی نہیں ہے جس سے کہ کوئی شخص شاعر بنتا ہے، بنیادی قوت اپنی شخصیت کی آگہی ہے اور اس شخصیت کے خلقی عمل اور حرکت کو اندرونی بغاوت اور انتشار سے بچاتے ہوئے پروان چڑھانے کی صلاحیت ہے''۔
غزل کے کینوس پر اصغر خان کی شخصیت کی جو تصویر بنتی ہے، بالکل اصغر خان جیسی ہے۔ صاف ستھری، کھری بات، بے باکانہ انداز۔
دل تو ہے صاف آئینے کی طرح
پیرہن لاکھ داغ دار سہی
اصغر خان نے اپنے شعری مجموعہ کا نام مرزا غالب کے ایک شعر سے کشید کیا ہے جو ان کی اندرونی کیفیات، افکار و محسوسات اور ان کی تخلیقی تڑپ کا آئینہ دار ہے۔
چار سو گلزار میرے اور آتش زیرِ پا
امتزاج ایسا کہ اصغر ہو گیا گلنار میں
ان کے کرب کا آغاز گردوپیش کے سماجی اور انسانی مسائل سے ہوتا ہے۔ آتشِ زیرپا کے شاعر اسی تپش وجود میں مبتلا ہیں جسے غالب نے آشوب آگہی کہا ہے۔ اصغر خان کا یہ مجموعہ، مجموعہ نہیں ایک نظم مسلسل بلکہ شہر آشوب ہے۔ ایسا شہر آشوب جو کرب و ذات سے شروع ہوکر سماجی اقدار کے نوحے پر ختم ہوتا ہے۔ اصغر خان کے بارے میں ان کے بہت سے ناقدین کا کہنا ہے کہ اصغر خان نے اپنے پختون لب و لہجے کے اکھڑپن کو جملہ نقائص و معائب سمیت زبان میں اضافہ کی حیثیت دی۔ یہ اور ایسی ہی چند باتیں ان ناقدین کی زبان سے ہیں جو اپنے علاوہ کسی کو کچھ نہیں سمجھتے اور جو تعصب کی عینک کسی طور ہٹا نہیں پاتے۔ اصغرخان نے اپنے ایسے ناقدین کو خود ہی جواب دے دیا ہے، بڑے ہی دھیمے سے انداز میں۔
میرا تو غزل کہنے کا انداز الگ ہے
غالب سے تعلق، نہ کوئی میر سے رشتہ
اصغر خان جیسا شاعر جب شہر آشوب نظم کہتا ہے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے اس نے اپنے قاری کے سامنے جام جمشید رکھ دیا ہو جس سے وہ خود بھی موجودہ دور کے نشیب و فراز دیکھتا ہے بلکہ قاری کو بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ اس سے شاعر کا مقصد اپنی انا کی تسکین نہیں بلکہ اپنی تخلیقی شخصیت کا ترفع ہے۔
اب رہنے بھی دے دوست تو بازی گری اپنی
ہم نے تو بہت دیکھے ہیں دنیا میں تماشے
خوابوں میں مجھے رہنے دو، خوابوں میں بُرا کیا
تم جاگنے والوں نے دنیا کو دیا کیا
اور آخر میں اصغر خان کی ایک مختصر نظم
عمر گزاری جس کے ساتھ
پوچھتا ہے وہ، کون ہوں میں
میں نے اسے جب غور سے دیکھا
وہ بھی مجھے انجان لگا
شاعری کے دلدادہ افراد کے لئے آتشِ زیرپا ایک اچھا اضافہ ہے۔ رنگ ادب پبلی کیشنز، ۵۔ کتاب مارکیٹ، اردوبازار، کراچی کی شائع کردہ اس کتاب کے صفحات 320 ہیں اور اسکی قیمت 600 روپے ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔