دانش گردوں کی فکری غارت گری سے ہوشیار
دانش گردی اس ایٹمی حملے کی مانند قرار دی جاسکتی ہے جس کے تباہ کن اثرات لمبےعرصے تک، نسل در نسل جاری رہتے ہیں۔
اگر دہشت گردی کو روایتی بم سے تشبیہ دی جائے جس سے ہونے والی تباہی کچھ دیر تک رہتی ہے تو دانش گردی اس ایٹمی حملے کی مانند قرار دی جاسکتی ہے جس کے تباہ کن اثرات ایک لمبے عرصے تک، نسل در نسل جاری رہتے ہیں۔
دہشت گردی سے ہم سب ہی واقف ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ ہر دہشت گرد اپنے ''آقا'' کے اشارے پر بے گناہ اور قیمتی انسانی جانوں کا خراج وصول کرنے سے گریز نہیں کرتا لیکن قوموں کے لئے اس سے کہیں زیادہ خطرناک ''دانش گردی'' ہے جو کسی ملک کے عام لوگوں، بطور خاص نئی نسل کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں ماضی سے لاتعلق، حال سے غیر مطمئن اور مستقبل سے مایوس کردیتی ہے، اور بالآخر ایک ایسا اجتماعی فکری بانجھ پن جنم لیتا ہے جو آنے والی نسلوں تک کی ساری توانائیاں نچوڑ کر رکھ دیتا ہے۔
ایسے میں اگر ان کے سامنے امید کی کوئی شمع روشن بھی کردی جائے تو ان کی آنکھوں کے سامنے تاریکی ہی رہتی ہے۔ نوجوان جو کسی بھی ملک کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں اور جنہیں آنے والے وقت میں اپنے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہوتی ہے، اپنے وطن سے مایوس ہو کر دوسرے ممالک کا رخ کرنے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے ملک میں باعزت روزگار کمانے پر دیار غیر میں معمولی ملازمتوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی بیش بہا صلاحیتیں اپنے وطن کے کام آنے کے بجائے دوسروں کے مقاصد پورے کرنے میں صرف ہونے لگتی ہیں۔ مگر اپنے تئیں وہ بھی مجبور ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے اپنے ملک کا مستقبل ایک ایسی بھیانک تصویر پیش کررہا ہوتا ہے جہاں رہنے اور کچھ کرنے کا تصور ہی ان کے لئے سوہانِ روح بن جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی ایسے دانش گردوں کی کوئی کمی نہیں۔ اپنی پر تعیش رہائش گاہوں کے ٹھنڈے کمروں میں، زندگی کی ہر سہولت سے فیضیاب ہونے والے یہ فکری غارت گر اسی کام پر مامور ہوتے ہیں کہ ملک کے دوسرے افراد میں (خصوصاً نوجوانوں میں) مسلسل مایوسی پھیلاتے رہیں۔ چونکہ انہیں اخبارات اور چینلوں کے توسط سے عوام کے ایک وسیع حلقے تک رسائی حاصل ہوتی ہے، اس لئے ان کے ''افکار'' بھی کروڑوں نہیں تو لاکھوں قارئین و ناظرین کی سوچ پر ضرور اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے خیالات کو غیر محسوس طور پر اپنی رائے کا غلام بنا لیتے ہیں۔ ان دانش گردوں کا ہر کالم اور ہر سیاسی و سماجی تبصرہ صرف ایک ہی نکتے کی تکرار پر مبنی ہوتا ہے، 'پاکستان کا کچھ نہیں ہونے والا'۔
ان کے نام، زبان، سیاسی و مذہبی وابستگیاں ایک دوسرے سے کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں، لیکن ان کا طریقہ واردات یکساں ہوتا ہے جس کی چیدہ چیدہ ممکنہ خصوصیات یہ ہیں:
غرض ''بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا'' کے مصداق یہ کالم چھاپ دانشور، یہ دانش گرد، یہ فکری غارت گر اپنے گھناؤنے خیالات کا نشتر بڑی مہارت سے اپنے ناظرین و قارئین کی روح تک میں پیوست کردیتے ہیں، اور وطن سے ان کی محبت کو اکتاہٹ میں تبدیل کردیتے ہیں۔
ان کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہنے کا سب سے پہلا مرحلہ ان کی درست شناخت ہے جس کے کچھ بنیادی نکات اس بلاگ میں بیان کردیئے گئے ہیں۔ ان سے کس طرح بچا جائے اور فکری غارت گری کے اثرات کیونکر زائل کئے جائیں؟ اِن شاء اللہ اس بارے میں جلد ہی ایک اور بلاگ پیش کیا جائے گا۔
[poll id="1235"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
دہشت گردی سے ہم سب ہی واقف ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ ہر دہشت گرد اپنے ''آقا'' کے اشارے پر بے گناہ اور قیمتی انسانی جانوں کا خراج وصول کرنے سے گریز نہیں کرتا لیکن قوموں کے لئے اس سے کہیں زیادہ خطرناک ''دانش گردی'' ہے جو کسی ملک کے عام لوگوں، بطور خاص نئی نسل کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں ماضی سے لاتعلق، حال سے غیر مطمئن اور مستقبل سے مایوس کردیتی ہے، اور بالآخر ایک ایسا اجتماعی فکری بانجھ پن جنم لیتا ہے جو آنے والی نسلوں تک کی ساری توانائیاں نچوڑ کر رکھ دیتا ہے۔
ایسے میں اگر ان کے سامنے امید کی کوئی شمع روشن بھی کردی جائے تو ان کی آنکھوں کے سامنے تاریکی ہی رہتی ہے۔ نوجوان جو کسی بھی ملک کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں اور جنہیں آنے والے وقت میں اپنے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہوتی ہے، اپنے وطن سے مایوس ہو کر دوسرے ممالک کا رخ کرنے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے ملک میں باعزت روزگار کمانے پر دیار غیر میں معمولی ملازمتوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی بیش بہا صلاحیتیں اپنے وطن کے کام آنے کے بجائے دوسروں کے مقاصد پورے کرنے میں صرف ہونے لگتی ہیں۔ مگر اپنے تئیں وہ بھی مجبور ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے اپنے ملک کا مستقبل ایک ایسی بھیانک تصویر پیش کررہا ہوتا ہے جہاں رہنے اور کچھ کرنے کا تصور ہی ان کے لئے سوہانِ روح بن جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی ایسے دانش گردوں کی کوئی کمی نہیں۔ اپنی پر تعیش رہائش گاہوں کے ٹھنڈے کمروں میں، زندگی کی ہر سہولت سے فیضیاب ہونے والے یہ فکری غارت گر اسی کام پر مامور ہوتے ہیں کہ ملک کے دوسرے افراد میں (خصوصاً نوجوانوں میں) مسلسل مایوسی پھیلاتے رہیں۔ چونکہ انہیں اخبارات اور چینلوں کے توسط سے عوام کے ایک وسیع حلقے تک رسائی حاصل ہوتی ہے، اس لئے ان کے ''افکار'' بھی کروڑوں نہیں تو لاکھوں قارئین و ناظرین کی سوچ پر ضرور اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے خیالات کو غیر محسوس طور پر اپنی رائے کا غلام بنا لیتے ہیں۔ ان دانش گردوں کا ہر کالم اور ہر سیاسی و سماجی تبصرہ صرف ایک ہی نکتے کی تکرار پر مبنی ہوتا ہے، 'پاکستان کا کچھ نہیں ہونے والا'۔
ان کے نام، زبان، سیاسی و مذہبی وابستگیاں ایک دوسرے سے کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں، لیکن ان کا طریقہ واردات یکساں ہوتا ہے جس کی چیدہ چیدہ ممکنہ خصوصیات یہ ہیں:
- وہ پاکستان کے سیاسی، تعلیمی، فکری و علمی زوال پر تقریریں تو کرتے ہیں مگر اس زوال کو عروج میں تبدیل کرنے کے لئے نہ تو ان کے پاس کوئی تجویز ہوتی ہے اور نہ ہی میدان عمل میں اُترنے کا حوصلہ۔
- اپنی مقبولیت کے باعث وہ مقتدر حلقوں میں اتنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں کہ قومی سطح کے پالیسی فیصلوں پر اثرانداز ہوسکیں لیکن وہ اپنے آپ کو ہمیشہ صرف زبانی جمع خرچ اور تنقید برائے تنقید ہی تک محدود رکھتے ہیں۔
- وہ کسی بھی مسئلے کو انتہائی باریکی اور تفصیل سے بیان ضرور کرتے ہیں لیکن حل پیش کرنے سے ہمیشہ گریز کرتے ہیں۔
- اچھی یا مثبت بات کے دوران بھی وہ ایسا مجموعی تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے مایوسی پیدا ہو یا پھر کم از کم اس بات کا مثبت تاثر ضرور زائل ہوجائے۔
- وہ پاکستان کی نظریاتی اساس، قومی زبان اور مذہب سے متعلق ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے عام لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات اور الجھنیں پیدا ہوں، اور اس مقصد کے لئے وہ تاریخ کا چہرہ تک مسخ کرنے سے باز نہیں آتے۔
- اگرچہ وہ کھل کر پاک فوج سے اپنی نفرت کا اظہار نہیں کرسکتے لیکن دبے لہجے میں، گنجلک پیرایہ بیان اختیار کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کہہ جاتے ہیں جس سے پڑھنے اور سننے والے شش و پنج کا شکار ہوجائیں اور اپنے ملک کی فوج کو اپنا دشمن سمجھنے لگیں۔
- ان کے پاس دنیا زمانے کی سہولیات اور تعیشات موجود ہوتی ہیں لیکن وہ اپنے اظہار خیال کے ہتھیار سے عام لوگوں میں بڑی شدت سے غربت اور کم تری کا احساس پیدا کرتے ہیں۔
غرض ''بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا'' کے مصداق یہ کالم چھاپ دانشور، یہ دانش گرد، یہ فکری غارت گر اپنے گھناؤنے خیالات کا نشتر بڑی مہارت سے اپنے ناظرین و قارئین کی روح تک میں پیوست کردیتے ہیں، اور وطن سے ان کی محبت کو اکتاہٹ میں تبدیل کردیتے ہیں۔
ان کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہنے کا سب سے پہلا مرحلہ ان کی درست شناخت ہے جس کے کچھ بنیادی نکات اس بلاگ میں بیان کردیئے گئے ہیں۔ ان سے کس طرح بچا جائے اور فکری غارت گری کے اثرات کیونکر زائل کئے جائیں؟ اِن شاء اللہ اس بارے میں جلد ہی ایک اور بلاگ پیش کیا جائے گا۔
[poll id="1235"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔