کچھ توپیں کراچی میں بھی گرجی تھیں
بچپن میں ہی ’قدیم تہذیبیں‘ ’تاریخ ابن خلدون‘ اور ’قدیم مشرق‘ پڑھ کر ان کتابوں کا چسکا بڑھتا گیا
BAHAWALNAGAR:
ابتدا سے تاریخ میرا من پسند موضوع رہا۔ بچپن میں ہی 'قدیم تہذیبیں' 'تاریخ ابن خلدون' اور 'قدیم مشرق' پڑھ کر ان کتابوں کا چسکا بڑھتا گیا۔ پھر یہ معلوم ہوا کہ تاریخ کے بھی کئی پہلو ہوتے ہیں۔ کسی ملک پر قبضہ کرنے والے، اسے اپنی نو آبادی بنا لینے والے ہوشو شیدی اور بھگت سنگھ کا نام غداروں اور باغیوں کی فہرست میں لکھتے ہیں جب کہ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔
آہستہ آہستہ ہمارے نصاب سے تاریخ خارج ہوئی اور وہ آئینہ جس میں ہم گزرے ہوئے دنوں کا چہرہ دیکھ سکتے تھے، وہ توڑ دیا گیا۔ اس بات پر حیرت بھی ہوئی کہ اب ہم تاج برطانیہ کی نو آبادی نہیں، پھر تاریخ سے ایسی بے اعتنائی کیوں؟
یہ بات بعد میں سمجھ میں آئی کہ اس طرح ہمارے حکمرانوں کی نااہلیوں اور غلط کاریوں پر دبیز پردے پڑے رہتے ہیں اور اسی میں ان کی بھلائی ہے۔ تاریخ کو نہ جاننے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ بچے جو 1971ء یا اس کے آس پاس کے دنوں میں پیدا ہوئے ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جنھوں نے مشرقی پاکستان کا نام سنا ضرور ہے لیکن وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ 1971ء میں ہندوستان نے حملہ کر کے مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کر دیا اور اب وہ بنگلہ دیش کے نام سے دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔
وہ یہ نہیں جانتے کہ پاکستان میں بنگالیوں کا حقِ حکمرانی ان سے چھینا گیا، نہ انھیں یہ معلوم ہے کہ یہ بنگالی مسلمانوں کا ووٹ تھا جس کی بنا پر پاکستان قائم ہوا۔ وہ ان ناانصافیوں سے بھی واقف نہیں جو مغربی پاکستان کی اقلیت نے مشرقی پاکستان کی اکثریت کے ساتھ روا رکھیں۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ سے کیا شکایتیں تھیں؟ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت ان تاریخی حقائق سے آگاہ نہیں، اسی طرح وہ پاکستانی سیاست میں جرنیلوں کے عمل دخل اور اس کے المناک نتائج کو نہیں جانتے۔
آج کی سیاست کو سمجھنے کے لیے تاریخ کو پڑھنے اور اسے جاننے کی ضرورت ہے۔ آج کسی سیاسی جماعت سے وابستہ افراد کا پس منظر جاننے کے لیے لازم ہے کہ ہم اس کے بنیادی اراکین کی کئی پشتوں کے بارے میں جانتے ہوں۔ ہمیں اس بات سے آگہی ہو کہ ہزاروں ایکڑ کی وسیع جاگیریں رکھنے والوں کے پاس یہ زمینیں کہاں سے آئیں۔
ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ آج عوام کے حقوق کی لڑائی لڑنے کے دعویداروں کو یہ جاگیریں ان کے اجداد کو برطانوی راج کے مفادات کی نگرانی کے عوض عطا ہوئی تھیں جنھوں نے اپنے لوگوں کے مفادات کو کچلتے ہوئے سلطنت برطانیہ کی بنیادیں مضبوط کی تھیں۔
نوجوان نسل کو اپنی تاریخ سے آگاہ کرنے کے لیے کچھ لوگ اپنی سی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ایسی ہی ایک کوشش چند دنوں پہلے کراچی میں ہوئی۔ لوگوں نے دیکھا کہ بزرگوں اور نوجوانوں پر مشتمل ایک مختصر سا گروہ ہے جو کراچی کے مصروف ترین علاقے صدر سے گزر کر ایمپریس مارکیٹ کے سامنے پہنچا ہے اور یہ لوگ وہاں زمین پر بیٹھ گئے ہیں۔
کچھ لوگ یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ یہ لوگ دن کی روشنی میں کراچی کے مصروف ترین بازار کے سامنے مٹی کے دیے جلاکر اور سرخ گلابوں کی پتیاں تپتی ہوئی سڑک پر رکھ کر خاموش بیٹھے ہیں۔ یہ لوگ کراچی کے ان شہیدوں کو یاد کررہے تھے جنھوں نے 1857ء کی جنگ آزادی میں ستمبر کی سترھویں تاریخ کو اپنی جان کا نذرانہ دیا تھا اور یاد فراموشی کی دھند میں گم ہوگئے تھے۔
چشم تصور سے کراچی کے اس چٹیل میدان کو دیکھیے جو 1857ء میں فریئر اسٹریٹ سے آرٹلری میدان تک پھیلا ہوا تھا اور اس زمانے میں کراچی کنٹونمنٹ ایریا کہلاتا تھا۔ 10 مئی 1857 ء کو جنگ آزادی کا پہلا شہید منگل پانڈے بغاوت کے الزام میں اپنے انجام کو پہنچا تو وہ پورے ہندوستان میں آزادی کی آگ لگا گیا۔ یہ آگ سندھ تک پہنچی، کراچی سندھ کا سب سے بڑا اور اہم شہر تھا۔
یہاں بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقامی سپاہیوں نے بغاوت کا منصوبہ بنایا لیکن یہ منصوبہ 2 غداروں کی مخبری کے سبب وقت سے پہلے طشت ازبام ہوا۔ اس منصوبے سے آگاہ ہوتے ہی برطانوی افسروں نے کراچی میں کرفیو نافذ کر دیا۔ باغیوں کو چُن چُن کر گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے 25 کالا پانی بھیج دیے گئے جہاں انھوں نے عمر قید کاٹی۔ کچھ باغی سپاہی لیاری میں شہید کیے گئے اور کچھ گوٹھ احمد خاں سے گرفتار ہوئے جو آج کا سہراب گوٹھ ہے۔
اس واقعے کو سندھ ریلوے کے ایک افسر اعلیٰ جان برنٹن نے یوں بیان کیا ہے کہ:
''سر بارٹل اور جنرل اسکاٹ اتوار گزارنے کے لیے پانچ میل دور کلفٹن نامی مقام پر اپنے اپنے مضافاتی بنگلوں کو چلے گئے تھے اور چھاؤنی کا فوجی انتظام بریگیڈیر لاؤتھ کے سپرد کر گئے تھے۔ رات کے گیارہ بجے ایک صوبیدار بریگیڈیر کے بنگلے پر آیا اور پہرے والے گارڈ سے بریگیڈیر سے ضروری ملاقات کے لیے کہا۔
صوبیدار کے بے حد اصرار پر بریگیڈیر باہر آئے تو صوبیدار نے بتایا کہ اکیسویں رجمنٹ رات بارہ بجے بغاوت کرنے والی ہے۔ چھاؤنی کا نقشہ تیار کرلیا گیا ہے اور لوگوں کے مقام مقرر کردیے گئے ہیں جو ایک ایک یورپی کو قتل کردیں گے اور بنگلے لوٹ لیں گے۔ یہ بڑی چونکا دینے والی خبر تھی۔ فوراً ہی بریگیڈیر نے یوروپین رجمنٹ کی دونوں کمپنیوں کو فوراً مسلح ہوجانے کا حکم بھیجا۔ ایسا ہی حکم نیٹو رجمنٹ کو بھی بھیجا گیا، جن کے بارے میں صوبیدار نے بتایا تھا کہ وہ کسی طرح بھی اکیسویں رجمنٹ کی سازش میں شریک نہیں ہیں۔
ان سے کہا گیا کہ وہ سب جائیں اور فوراً اکیسویں رجمنٹ کی بیرکس کے سامنے پوزیشنیں سنبھال لیں۔ آرٹلری کی بیٹری کو تیار رہنے کا حکم دے دیا گیا۔ سب کام کمال کی پھرتی سے ہوگیا۔ بارہ بجنے میں پانچ منٹ تھے کہ بریگیڈیر نے فوج کی کمان کرتے ہوئے اکیسویں رجمنٹ کو باہر نکل آنے کا حکم دیا۔
شروع میں انھوں نے حکم ماننے سے انکار کردیا۔لیکن جب انھوں نے باہر دیکھا تو انھیں بیرکس کے سامنے تو پیں کھڑی نظر آئیں جن کے فلیتے حملے کے لیے تیار جل رہے تھے۔ بریگیڈیر نے اپنی گھڑی نکالی اور انھیں خبردار کیا کہ اگر پانچ منٹ کے اندر اندر وہ باہر نہیں نکلے تو ان پر حملہ کردیا جائے گا۔ وہ بادلِ ناخواستہ نکلے اور میدان میں صف بند ہوگئے۔
انھیں ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا گیا جس پر عمل کیا گیا۔ پھر ریٹائر ہونے کا حکم دیا گیا اور فوراً ہی یو روپین رجمنٹ نے جاکر تمام ہتھیاروں پر قبضہ کیا اور انھیں اسلحہ خانے بھجوادیا۔ اکیسویں رجمنٹ کی حاضری لی گئی تو پتہ چلا کہ 27 افراد لاپتہ ہیں۔ وہ نکل بھاگے تھے اور روپوش ہوگئے تھے۔صبح ہوتے ہی پولیس کے کھوجی ان کے پیچھے لگا دیے گئے اور تین ہفتے کے اندر اندر ستائیس کے ستائیس باغی پکڑ کر کراچی لے آئے گئے''۔
17 ستمبر 1857ء کو کھلے میدان میں پھانسیاں گڑیں، توپیں لائی گئیں۔ کراچی والوں کو دعوتِ عام تھی کہ وہ آئیں اور بغاوت کرنے والوں کا حشر دیکھیں۔ کچھ سولی پر لٹکائے گئے اور کچھ کو توپوں سے باندھ کر اڑا دیا گیا۔
برطانوی افسروں کو جب اندازہ ہوا کہ یہ جگہ شہر والوں کے لیے زیارت گاہ بن رہی ہے اور یہاں شہیدوں کی یاد میں چراغ جلائے جانے لگے ہیں اور پھول چڑھائے جارہے ہیں تو انھوں نے یہاں ایک شاندار بازار تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا۔ یوں 1884ء سے 1889ء کے درمیان ایمپریس مارکیٹ تعمیر کی گئی جس کی بنیاد رکھنے بمبئی سے گورنر جیمز فرگوسن آئے۔ گو تھک اور مغل فن تعمیر کا ایک شاندار نمونہ ابھر کر سامنے آیا اور یہاں سندھ کا سب سے شاندار بازار قائم ہوا جسے ایمپریس مارکیٹ کا نام دیا گیا۔
ایمپریس مارکیٹ آج اپنی پرانی شان و شوکت سے محروم ہوچکی ہے اس کے باوجود یہاں ہر طرح کا سامان فروخت ہوتا ہے۔ وہ لوگ فراموش کیے جاچکے ہیں جن کے خون کے دھبوں کو چھپانے کے لیے برطانوی راج نے یہ عمارت تعمیر کی تھی۔ آج یہاں سے گزرنے والے سوچ بھی نہیں سکتے کہ کبھی یہاں توپیں گرجی تھیں اور آزادی کے کچھ پروانے جان سے گزر گئے تھے۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کراچی والوں نے انھیں یاد کیا اور ان کے نام کی شمعیں جلائیں۔