ناطقہ سر بہ گریباں
تنخواہوں میں اضافے کی خاطر اب پی ایچ ڈی کی بھرمار نظر آتی ہے
کتنی تکلیف دہ اور افسوس ناک بات ہے کہ پاکستان میں کسی بھی معاملے میں اورکسی بھی حوالے سے کچھ مثبت کام نہیں ہو رہا۔ پچھلے کالم میں تعلیم کے حوالے سے بات کو بہت سے لوگوں نے سنجیدگی سے لیا۔ ملک سے باہر رہنے والوں کو جنھوں نے کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرزکیا ہے۔
ماضی کی دلکش اور مہذب یادوں نے اپنے حلقے میں لے لیا، لیکن ساتھ ہی ایک مایوس کن رویہ بھی ان کی ای میل میں جھلکتا نظر آیا کہ دنیا علم و ادب اور ترقی میں آگے جا رہی ہے لیکن ہم پاکستانی مسلسل انحطاط کی جانب رواں دواں ہیں۔ کہنے کو امتحانات میں پرسنٹیج بڑھتی جا رہی ہے لیکن حقیقی معنوں میں علمی ترقی قابلیت اورکردار سازی زوال پذیر ہے۔
تنخواہوں میں اضافے کی خاطر اب پی ایچ ڈی کی بھرمار نظر آتی ہے۔کھمبیوں کی طرح آپ کو ہر سبجیکٹ میں ڈاکٹریٹ کرتے لوگ نظر آئیں گے لیکن قابلیت بالکل صفر۔ کیونکہ اب نہ گائیڈ ویسے رہے جو پی ایچ ڈی کے لیے ریسرچ اسکالرز کا تیل نکال دیتے تھے۔ نہ وہ لوگ جو قابلیت میں اضافے کے لیے ریسرچ کرتے تھے۔ صرف ببلیوگرافی بنانے میں جان نکل جاتی تھی۔
لائبریریوں میں جانا، متعلقہ موضوع پر پرانی کتابوں اور رسائل کو کھنگالنا، پھر صفحہ نمبر سے لے کر تمام تر ذیلی معلومات کا مہینہ اور سال سمیت اندراج کیا جانا ضروری تھا۔ کوئی اندراج غلط نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ گائیڈ پڑھے لکھے اور وسیع المطالعہ ہواکرتے تھے۔ وہ ببلیوگرافی میں مندرج کتب، رسائل اور مضامین کا نہایت باریکی سے جائزہ لیتے تھے۔
جہاں کہیں شک ہوتا وہ پکڑ لیتے۔ لہٰذا ریسرچ اسکالرز بھی پوری دیانتداری سے کام کرتے تھے کہ جعلی معلومات پکڑے جانے پر انھیں شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔ اسی لیے موجودہ پی ایچ ڈی اور بیس سال پہلے کے پی ایچ ڈی میں آپ کو معلومات کے حوالے سے نمایاں فرق نظر آئے گا، کیونکہ اب سب کچھ تیار مختلف ریٹ پر باآسانی دستیاب ہے۔
گائیڈ حضرات کی اکثریت ببلیوگرافی کے حوالے سے کوئی زحمت نہیں اٹھاتی۔ صرف کتابوں کے ناموں کی فہرست دیکھی اور سائن کر دیے۔ ریسرچ اسکالرز بھی اپنے اپنے گائیڈکی تن آسانی سے واقف ہیں۔ رہی سہی کسر انٹرنیٹ سے چوری شدہ مواد نے پوری کر دی اور وہ لوگ جو میٹرک کو پڑھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ یونیورسٹیوں میں پڑھا رہے ہیں اور جہل بانٹ رہے ہیں۔
دوسری طرف طب کے شعبے کو دیکھیے جنھیں کبھی مسیحا کہا جاتا تھا اب وہ صرف تاجر ہیں۔ جو اپنے پیشے کی تجارت کر رہے ہیں۔ 98 فیصد صرف دولت کمانے میں مصروف ہیں۔ جعلی ڈگریاں، رشوت اور سفارشوں کے عوض یہاں بھی نوکریوں کی بندربانٹ ہو رہی ہے۔ اسی لیے زیادہ تر لوگ سینئر ڈاکٹر کو ترجیح دیتے ہیں۔
سینئر نے اپنے تجربے کا یہ فائدہ اٹھایا کہ صرف معائنہ فیس کم ازکم 500 روپے رکھ دی۔ ناک، کان، حلق، آنکھ کے اسپیشلسٹ الگ الگ۔ صرف اور صرف کمائی کا دھندہ۔ اس پہ بھی یہ عالم کہ مریض نے ابھی اپنی بیماری کے متعلق بتانے کے لیے منہ ہی کھولا کہ موصوف نے نسخہ گھسیٹنا شروع کر دیا۔ کیونکہ انھیں ایک گھنٹے میں پچیس مریض نمٹانے ہوتے ہیں۔ بالکل وہی کیفیت ہوتی ہے۔ ''آتے جاؤ پھنستے جاؤ''۔
کوئی دن جاتا ہے جب یہ لٹیرے دائیں ٹانگ، بائیں ٹانگ، گھٹنا، کہنی اور دائیں بائیں ہاتھ کے اسپیشلسٹ بھی وجود میں لے آئیں گے۔ سب سے زیادہ منافع بلکہ منافع ہی منافع صرف طب کے شعبے میں ہے۔ انسانیت تو ہر سطح پہ رخصت ہو چکی ہے۔ لہٰذا دوائیں بنانے والی کمپنیاں بھی کمر کس کے منافعے کے سمندر میں غوطہ زن ہیں۔ ایکسپائری ڈیٹ کی دواؤں کے لیبل بدل کر دوبارہ مارکیٹوں میں لایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ زندگی بچانے والی دواؤں کے ساتھ بھی یہی کھلواڑ جاری ہے۔
دل کے دورے میں جو پیلا انجکشن دیا جاتا ہے تاکہ مریض کو بچایا جا سکے وہ بھی جعلی۔ جو گولی زبان کے نیچے رکھنے کو دی جاتی ہے وہ بھی جعلی۔ سرکاری اسپتالوں کا حال نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔ سب سے زیادہ نااہل ڈاکٹرز آپ کو یہیں ملیں گے۔ بیٹھے بٹھائے تنخواہیں اور مراعات مل رہی ہیں تو سوائے ایک گھنٹہ بے زاری سے ڈیوٹی دینے اور مریضوں کو جھڑکنے کے یہ کچھ نہیں کرتے۔
البتہ اپنے اپنے پرائیویٹ کلینک میں یہ بھاری فیس لے کر فرعونیت سے معائنہ کرتے ہیں اور اپنے من پسند میڈیکل اسٹور اور لیبارٹری سے دوائیں لینے اور ٹیسٹ کروانے پر زور دیتے ہیں کیونکہ ان میں ان ڈاکٹرز کا باقاعدہ کمیشن طے ہوتا ہے اور تو اور دوائیں بنانے والی کمپنیاں ڈاکٹرز کو مختلف پیکیج دیتی ہیں یہ ان کی مہنگی ترین دواؤں کو مریض کے نسخے میں لکھ دیتے ہیں اور مسلسل استعمال پر زور بھی دیتے ہیں۔ میرے ایک سابق اسٹوڈنٹ نے جوکہ اب ایک فارماسیوٹیکل کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر ہے۔
بتایا کہ جب وہ میڈیکل نمائندہ تھا تو ڈاکٹرز کو ایک دوا کو مریضوں کے نسخے میں لکھنے کے لیے جو آفر دی گئی تھی وہ کچھ اس قسم کی تھی کہ اگر متعلقہ دوا کی مطلوبہ مقدار ایک ہفتے میں بیچ دی گئی تو اس کے عوض بے انتہائی پرکشش آفر بھی ساتھ تھی۔ میرے اسٹوڈنٹ نے بتایا کہ وہ اس وقت حیرت زدہ رہ گیا جب ڈاکٹر نے آفر قبول کرتے ہوئے کہا کہ ''ایسی آفر کے لیے تو وہ تین چار دن میں مطلوبہ تعداد میں یہ دوا مریضوں کے نسخے میں لکھ سکتا ہے۔''
اب ذرا ادب کی طرف بھی جھانک لیں۔ دو نمبر کے کاغذی ادیب، شاعر اور شاعرات ہر طرف نظر آئیں گے۔ نثر لکھنا مشکل ہے۔ آنکھیں جلانا پڑتی ہیں، موضوع سوچنا پڑتا ہے۔ وسیع مطالعہ اور الفاظ کا ذخیرہ ہونا بھی لازمی ہے، لیکن کسی بھی گاڈ فادر سے دو دو مصرعوں کی پانچ سات اشعار پہ مبنی غزل لکھوانا معقول معاوضے پر خاصا آسان ہے۔ جو نثر میں نام بنانا چاہتے ہیں ان کے لیے بھی مال دستیاب ہے۔
دو چارکتابیں سامنے رکھیں پہلا صفحہ اورآخری صفحہ بدلا اورکتاب کھٹ سے کمپیوٹر سے نکل آئی اور موصوف یا موصوفہ کو نثر نگار بنا گئی۔ معاوضے پر چھپنے والی کتابوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ حروف کی توہین اور سراسر چوری ہے بلکہ سینہ زوری ہے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ کسی کی تحریر اپنے نام سے دھڑلے سے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پہ ڈال دی جاتی ہے۔
کسی کا بھی افسانہ معمولی رد و بدل کے ساتھ ادبی چور اپنے نام سے شایع کروا دیتا ہے۔ حتیٰ یہ کہ کالموں کی بھی چوری ہو رہی ہے۔ کسی کا پرانا کالم کسی اور کے نام سے شایع ہو رہا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس کا تجربہ ہوا، جب دو تین لوگوں نے بتایا کہ میرا کالم صرف چند الفاظ بدل کر کسی اور کے نام سے کسی دوسرے اخبار میں چھپا ہوا تھا۔ ایسا ہی دوسرے کالم نگاروں کے ساتھ بھی ہوتا ہو گا۔ ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے۔
غرض یہ کہ زندگی کے ہر پہلو میں اور ہر سطح پر ہم تنزل کی طرف جا رہے ہیں، کیونکہ جھوٹ کی پذیرائی ہو رہی ہے اور سچ کسی کال کوٹھڑی میں پڑا اپنے نصیبوں کو رو رہا ہے۔
ماضی کی دلکش اور مہذب یادوں نے اپنے حلقے میں لے لیا، لیکن ساتھ ہی ایک مایوس کن رویہ بھی ان کی ای میل میں جھلکتا نظر آیا کہ دنیا علم و ادب اور ترقی میں آگے جا رہی ہے لیکن ہم پاکستانی مسلسل انحطاط کی جانب رواں دواں ہیں۔ کہنے کو امتحانات میں پرسنٹیج بڑھتی جا رہی ہے لیکن حقیقی معنوں میں علمی ترقی قابلیت اورکردار سازی زوال پذیر ہے۔
تنخواہوں میں اضافے کی خاطر اب پی ایچ ڈی کی بھرمار نظر آتی ہے۔کھمبیوں کی طرح آپ کو ہر سبجیکٹ میں ڈاکٹریٹ کرتے لوگ نظر آئیں گے لیکن قابلیت بالکل صفر۔ کیونکہ اب نہ گائیڈ ویسے رہے جو پی ایچ ڈی کے لیے ریسرچ اسکالرز کا تیل نکال دیتے تھے۔ نہ وہ لوگ جو قابلیت میں اضافے کے لیے ریسرچ کرتے تھے۔ صرف ببلیوگرافی بنانے میں جان نکل جاتی تھی۔
لائبریریوں میں جانا، متعلقہ موضوع پر پرانی کتابوں اور رسائل کو کھنگالنا، پھر صفحہ نمبر سے لے کر تمام تر ذیلی معلومات کا مہینہ اور سال سمیت اندراج کیا جانا ضروری تھا۔ کوئی اندراج غلط نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ گائیڈ پڑھے لکھے اور وسیع المطالعہ ہواکرتے تھے۔ وہ ببلیوگرافی میں مندرج کتب، رسائل اور مضامین کا نہایت باریکی سے جائزہ لیتے تھے۔
جہاں کہیں شک ہوتا وہ پکڑ لیتے۔ لہٰذا ریسرچ اسکالرز بھی پوری دیانتداری سے کام کرتے تھے کہ جعلی معلومات پکڑے جانے پر انھیں شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔ اسی لیے موجودہ پی ایچ ڈی اور بیس سال پہلے کے پی ایچ ڈی میں آپ کو معلومات کے حوالے سے نمایاں فرق نظر آئے گا، کیونکہ اب سب کچھ تیار مختلف ریٹ پر باآسانی دستیاب ہے۔
گائیڈ حضرات کی اکثریت ببلیوگرافی کے حوالے سے کوئی زحمت نہیں اٹھاتی۔ صرف کتابوں کے ناموں کی فہرست دیکھی اور سائن کر دیے۔ ریسرچ اسکالرز بھی اپنے اپنے گائیڈکی تن آسانی سے واقف ہیں۔ رہی سہی کسر انٹرنیٹ سے چوری شدہ مواد نے پوری کر دی اور وہ لوگ جو میٹرک کو پڑھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ یونیورسٹیوں میں پڑھا رہے ہیں اور جہل بانٹ رہے ہیں۔
دوسری طرف طب کے شعبے کو دیکھیے جنھیں کبھی مسیحا کہا جاتا تھا اب وہ صرف تاجر ہیں۔ جو اپنے پیشے کی تجارت کر رہے ہیں۔ 98 فیصد صرف دولت کمانے میں مصروف ہیں۔ جعلی ڈگریاں، رشوت اور سفارشوں کے عوض یہاں بھی نوکریوں کی بندربانٹ ہو رہی ہے۔ اسی لیے زیادہ تر لوگ سینئر ڈاکٹر کو ترجیح دیتے ہیں۔
سینئر نے اپنے تجربے کا یہ فائدہ اٹھایا کہ صرف معائنہ فیس کم ازکم 500 روپے رکھ دی۔ ناک، کان، حلق، آنکھ کے اسپیشلسٹ الگ الگ۔ صرف اور صرف کمائی کا دھندہ۔ اس پہ بھی یہ عالم کہ مریض نے ابھی اپنی بیماری کے متعلق بتانے کے لیے منہ ہی کھولا کہ موصوف نے نسخہ گھسیٹنا شروع کر دیا۔ کیونکہ انھیں ایک گھنٹے میں پچیس مریض نمٹانے ہوتے ہیں۔ بالکل وہی کیفیت ہوتی ہے۔ ''آتے جاؤ پھنستے جاؤ''۔
کوئی دن جاتا ہے جب یہ لٹیرے دائیں ٹانگ، بائیں ٹانگ، گھٹنا، کہنی اور دائیں بائیں ہاتھ کے اسپیشلسٹ بھی وجود میں لے آئیں گے۔ سب سے زیادہ منافع بلکہ منافع ہی منافع صرف طب کے شعبے میں ہے۔ انسانیت تو ہر سطح پہ رخصت ہو چکی ہے۔ لہٰذا دوائیں بنانے والی کمپنیاں بھی کمر کس کے منافعے کے سمندر میں غوطہ زن ہیں۔ ایکسپائری ڈیٹ کی دواؤں کے لیبل بدل کر دوبارہ مارکیٹوں میں لایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ زندگی بچانے والی دواؤں کے ساتھ بھی یہی کھلواڑ جاری ہے۔
دل کے دورے میں جو پیلا انجکشن دیا جاتا ہے تاکہ مریض کو بچایا جا سکے وہ بھی جعلی۔ جو گولی زبان کے نیچے رکھنے کو دی جاتی ہے وہ بھی جعلی۔ سرکاری اسپتالوں کا حال نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔ سب سے زیادہ نااہل ڈاکٹرز آپ کو یہیں ملیں گے۔ بیٹھے بٹھائے تنخواہیں اور مراعات مل رہی ہیں تو سوائے ایک گھنٹہ بے زاری سے ڈیوٹی دینے اور مریضوں کو جھڑکنے کے یہ کچھ نہیں کرتے۔
البتہ اپنے اپنے پرائیویٹ کلینک میں یہ بھاری فیس لے کر فرعونیت سے معائنہ کرتے ہیں اور اپنے من پسند میڈیکل اسٹور اور لیبارٹری سے دوائیں لینے اور ٹیسٹ کروانے پر زور دیتے ہیں کیونکہ ان میں ان ڈاکٹرز کا باقاعدہ کمیشن طے ہوتا ہے اور تو اور دوائیں بنانے والی کمپنیاں ڈاکٹرز کو مختلف پیکیج دیتی ہیں یہ ان کی مہنگی ترین دواؤں کو مریض کے نسخے میں لکھ دیتے ہیں اور مسلسل استعمال پر زور بھی دیتے ہیں۔ میرے ایک سابق اسٹوڈنٹ نے جوکہ اب ایک فارماسیوٹیکل کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر ہے۔
بتایا کہ جب وہ میڈیکل نمائندہ تھا تو ڈاکٹرز کو ایک دوا کو مریضوں کے نسخے میں لکھنے کے لیے جو آفر دی گئی تھی وہ کچھ اس قسم کی تھی کہ اگر متعلقہ دوا کی مطلوبہ مقدار ایک ہفتے میں بیچ دی گئی تو اس کے عوض بے انتہائی پرکشش آفر بھی ساتھ تھی۔ میرے اسٹوڈنٹ نے بتایا کہ وہ اس وقت حیرت زدہ رہ گیا جب ڈاکٹر نے آفر قبول کرتے ہوئے کہا کہ ''ایسی آفر کے لیے تو وہ تین چار دن میں مطلوبہ تعداد میں یہ دوا مریضوں کے نسخے میں لکھ سکتا ہے۔''
اب ذرا ادب کی طرف بھی جھانک لیں۔ دو نمبر کے کاغذی ادیب، شاعر اور شاعرات ہر طرف نظر آئیں گے۔ نثر لکھنا مشکل ہے۔ آنکھیں جلانا پڑتی ہیں، موضوع سوچنا پڑتا ہے۔ وسیع مطالعہ اور الفاظ کا ذخیرہ ہونا بھی لازمی ہے، لیکن کسی بھی گاڈ فادر سے دو دو مصرعوں کی پانچ سات اشعار پہ مبنی غزل لکھوانا معقول معاوضے پر خاصا آسان ہے۔ جو نثر میں نام بنانا چاہتے ہیں ان کے لیے بھی مال دستیاب ہے۔
دو چارکتابیں سامنے رکھیں پہلا صفحہ اورآخری صفحہ بدلا اورکتاب کھٹ سے کمپیوٹر سے نکل آئی اور موصوف یا موصوفہ کو نثر نگار بنا گئی۔ معاوضے پر چھپنے والی کتابوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ حروف کی توہین اور سراسر چوری ہے بلکہ سینہ زوری ہے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ کسی کی تحریر اپنے نام سے دھڑلے سے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پہ ڈال دی جاتی ہے۔
کسی کا بھی افسانہ معمولی رد و بدل کے ساتھ ادبی چور اپنے نام سے شایع کروا دیتا ہے۔ حتیٰ یہ کہ کالموں کی بھی چوری ہو رہی ہے۔ کسی کا پرانا کالم کسی اور کے نام سے شایع ہو رہا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس کا تجربہ ہوا، جب دو تین لوگوں نے بتایا کہ میرا کالم صرف چند الفاظ بدل کر کسی اور کے نام سے کسی دوسرے اخبار میں چھپا ہوا تھا۔ ایسا ہی دوسرے کالم نگاروں کے ساتھ بھی ہوتا ہو گا۔ ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے۔
غرض یہ کہ زندگی کے ہر پہلو میں اور ہر سطح پر ہم تنزل کی طرف جا رہے ہیں، کیونکہ جھوٹ کی پذیرائی ہو رہی ہے اور سچ کسی کال کوٹھڑی میں پڑا اپنے نصیبوں کو رو رہا ہے۔