خبطی خواتین

ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں،اچھے دوست اللہ کی نعمت ہوتے ہیں

Shireenhaider65@hotmail.com

HUBLI:
ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں،اچھے دوست اللہ کی نعمت ہوتے ہیں اور چند اچھے دوست ہوں تو انسان کی زندگی سہل ہو جاتی ہے۔ میں بھی اس معاملے میں خوش قسمت ہوں کہ چند بہت اچھی اور پرانی سہیلیاں ہیں جن کے ساتھ دوستی قدامت کی حدوں کو چھو کر اب antique کے درجے تک پہنچ گئی ہے، ان میں سے نیلما میری بہت اچھی سہیلی ہے۔

اگر وہ کپڑوں کی یا خریداری کی کوئی بات نہ کرے۔ خریداری اور بالخصوص کپڑوں کی خریداری کا اسے بہت شوق ہے، مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں مگر وہ مجھے اپنے ساتھ جانے کو کہے تو مجھے بخار ہو جاتا ہے۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ میں کیسی خود غرض دوست ہوں کہ بے چاری کے ساتھ خریداری پر بھی نہیں جاتی، مگر آپ میری جگہ ہوں تو آپ بھی ایسا ہی سوچیں کہ اس کے ساتھ خریداری پر جانے سے بہتر ہے کہ انسان!!

میں آپ کو نیلما کی چند عادات بتاؤں تو آپ بہتر سمجھ سکیں گے بجائے اس کے کہ میں طویل تمہید باندھوں۔ اس کی الماریاں سلے اور ان سلے کپڑوں سے بھری ہوئی ہیں، کسی الماری کا پٹ کھولو تو ایک ڈھیر قدموں میں ڈھیر ہو جاتا ہے اور وہ ان خواتین میں سے ایک ہے جن کے پاس کہیںجاتے ہوئے پہننے کو کپڑے نہیں ہوتے اور گھر پر یہ شکایت کہ کپڑے رکھنے کو الماریاں کم ہیں۔ وہ سستے کپڑے کی خریداری کے لیے چاہے جتنا بھی دور جانا پڑے جاتی ہے، بسا اوقات ٹیکسی پر دو ہزار روپے کرایہ لگا کر چھ سو روپے کی بچت کرنے کے لیے بھی جاتی ہے۔

جس کسی کو کچھ پہنے ہوئے دیکھے وہ ضرور پوچھتی ہے کہ کہاں سے لیا اور کتنے کا لیا، اگلے دن وہ وہیں پہنچ جاتی ہے اور ویسا ہی کپڑا ضرور خرید کر لاتی ہے اور اس سے سو پچاس روپے سستا تاکہ اسے فخر سے بتا سکے کہ اس نے کیا معرکہ سر انجام دیا، چاہے وہ رنگ اس پر جچے یا نہ جچے، کپڑا اس کی عمر اور شخصیت کے مطابق ہو یا نہ ہو۔

جو پرنٹ اچھا لگے وہ ضرور لیتی ہے اور جو نہ اچھا لگے وہ بھی ضرور لیتی ہے۔ اول الذکر اس لیے کہ وہ اپنی بہنوں یا بھابیوں کو تحفتاً دے سکتی ہے اور آخر الذکر نندوں، دیورانیوں اور جٹھانیوں کو تحائف دینے کے کام آجاتے ہیں۔

برانڈڈ کپڑے پہننے کا اس کو خبط ہے، چونکہ ہر کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس نے مہنگا کپڑا پہن رکھا ہے تو اس کی خاطر وہ برانڈ کی مہر کو سلائی کے وقت کٹواتی نہیں بلکہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی نمایاں جگہ پر نظر آئے ورنہ اسے بول کر بتانا پڑتا ہے کہ کون سے برانڈ کا کپڑا پہن رکھا ہے، ہر برانڈ کا ایک نہ ایک لباس ہونا لازم ہے۔

جہاں سیل لگی ہو وہاں جا کر وہ خبطی ہو جاتی ہے اور اندھا دھند خریداری کرتی ہے، کٹ پیس بھی لے لیتی ہے کہ سو جگہ کام آ جاتے ہیں دینے دلانے کے، مگر سالوں تک وہ خریداری اسی طرح پڑے رہتی ہے اور بالآخر گھر میں جھاڑ پونچھ کے لیے وہ برانڈڈ کپڑے استعمال ہوتے ہیں۔

اپنی شادی کا جوڑا اس نے اب تک سنبھال کر رکھا ہوا ہے کہ پرانے زمانے کی ماؤں کی طرح وہ اپنی بیٹی کو اس کی شادی کے وقت پہنائے گی، اللہ نے ابھی تک اسے بیٹی نہیں دی اور اب اس کا چھوٹا بیٹا بھی بائیس برس کا ہو چکا ہے مگر اس نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔

بہت سے جوڑے گھر پر سلے ہوئے رکھے ہیں مگر نہ انھیں استعمال کرتی ہے کہ وہ درزی نے اچھے نہیں سیے اور نہ ہی کسی کو دیتی ہے کہ اس نے شوق سے خریدے تھے۔ کچھ ایسے لباس بھی ہیں جو اس کو تنگ ہو چکے ہیں مگرانھیں بھی سینت سینت کر رکھتی ہے کہ کبھی نہ کبھی وہ ان میں فٹ ہوجائے گی، مگر خلاف توقع اس کا وزن اس ملک میں مہنگائی کی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔


کئی ایسے لباس ہیں جو سل کر آتے ہیں اور پہن کر ٹرائل لیتی ہے تو کہتی ہے کہ یہ مجھ پر جچ نہیں رہا اور کسی کام والی کو دے دیتی ہے، جب اس سے کہا جائے کہ انھیں سلوا کر دینے کی بجائے ان سلا دے دیتیں تو وہ اپنے ناپ کے مطابق سلوا لیتی نہ کہ وہ تمہار ے ناپ کے کھلے کھلے کپڑے پہنیں تو کہتی ہے کہ اچھا ہے ان کو سلائی کے لیے رقم نہیں خرچ کرنا پڑی۔

گھر سے سبزی لینے بھی جائے تو جانے کیسے اس کے قدم کپڑوں کی دکان میں جا کر رکتے ہیں، خو اہ مخواہ کی خریداری کر لیتی ہے، اپنے پاس رقم نہ ہو تو ساتھ والے سے مستعار لے لیتی ہے، خریداری کر کے گھر پہنچتی ہے تو علم ہوتا ہے کہ جو کچھ لینے گئی تھی وہ لائی ہی نہیں، جو نہیں لینا تھا وہ لے آئی، باقی مہینے کا اللہ ہی حافظ ہے!

جب اس سے پوچھو کہ کیوں اتنے کپڑے خریدے جا رہی ہو تو کہتی ہے کسی کو دینے ہیں مگر جب کسی کو دینے کا وقت آتا ہے تو اس کا حوصلہ نہیں پڑتا اور وہ کہیں سے پرانے جمع کیے ہوئے کپڑے نکال کر دے دلا دیتی ہے اور ان کی جگہ نئے خریدے گئے کپڑے الماریوں میں بھر لیتی ہے۔

بہت سے قیمتی ملبوسات کئی سالوں سے میں اس کی الماریوںمیںلٹکے ہوئے دیکھتی ہوں جو کہ بقول اس کے کہیں آنے جانے کے لیے ہیں، اس نے جانا کہاں ہوتا ہے بھلا، مزید خریداری کے لیے زیادہ سے زیادہ بازار!! جس برانڈ کے کپڑے پہنے ہوں اس برانڈ کی دکان میں نہیں جاتی، کہتی ہے کہ وہ سوچیں گے کہ اس کے پاس ہمارے کپڑوں کے علاوہ اور کوئی کپڑے ہی نہیں ( جیسے وہ کپڑے انھوں نے اسے مفت میں دئے ہوں)

وہ کپڑوں کو مختلف کیٹیگریوں میں بناتی ہے، مثلا سوتے وقت پہننے والے کپڑے... مگر عملی طور پر وہ ان ہی کپڑوں میں سو جاتی ہے جو اس نے پہنے ہوئے ہوتے ہیں خواہ وہ شادی پر پہن کر گیا ہوا گوٹے اور تلے کے کام والا سوٹ ہو یا کوئی اور قیمتی کپڑا اور اگر کسی دن قسمت سے سلیپنگ سوٹ پہن لے تو اگلا سارا دن گھر میں اسی سلیپنگ سوٹ میں گزار دیتی ہے۔

اچھا سوٹ وہ اس وقت پہنتی ہے جب اسے کسی کی فوتیدگی پر جانا پڑے کہ وہاں عورتوںمیں مقابلہ سخت ہوتا ہے، وہ جس کام کے لیے جمع ہوتی ہیں اس کی بجائے وہ دوسروں پر تنقید کر کے خوشی محسوس کرتی ہیں۔

کہیں باہر جانے کا پروگرام بناؤ تو وہ دو منٹ میں تیار ہو جاتی ہے، جب اسے لباس بدلنے کو کہا جائے تو کہتی ہے کہ کون سا کسی کو نظر آنا ہے کہ میں نے عبایہ کے نیچے کیا پہن رکھا ہے!! تو جب ایسی صورت ہے تو پھر اتنے کپڑے بنانے کا فائدہ کیا پیاری؟؟ کہتی ہے اپنے دل کی تسلی تو ہوتی ہے نا! بہت سے جوڑے اس لیے نہیں پہنتی کہ وہ بہت مہنگے ہیں اور انھیں دھویا بھی نہیں جا سکتا جو حادثاتی طور پر کچھ گر گیا ان پر تو انھیں ڈرائی کلین کروانا پڑے گا سو اس خرچے سے بچنے کے لیے وہ انھیں پہنتی ہی نہیں۔

کہیں جاتے وقت مہنگے کپڑے پہننے کا کہو تو اس کی نرالی منطق ہوتی ہے، کسی غریب کے گھر پہن کر جاتے ہوئے وہ اسے غرور اور تکبر سمجھتی ہے اپنے سے امیر کے گھر پر پہن کر جاتے ہوئے اسے لگتا ہے کہ ان رشتہ داروں کے ملبوسات کے مقابلے میں اس کے لباس کی کوئی حیثیت نہیں اسی احساس کمتری سے و ہ وہاں بھی نہیں پہن کر جاتی۔

کہیں گھومنے پھرنے جاؤ تو بھی اس کا سارا دھیان اسی طرف ہوتا ہے، بادلوں کو دیکھے گی تو کہے گی کہ کتنا اچھا پرنٹ ہے، درختوں اور پودوں کو دیکھ کر کہتی ہے، ''سبز رنگ کے کتنے پیارے شیڈ ہیں!! ''شفق کے رنگ دیکھ کر کہتی ہے ، ''کیا زبردست کنٹراسٹ ہے، اورنج کے ساتھ گلابی یوں تو کبھی پہنا نہیں مگر لگ خوبصورت رہا ہے! ''پاس سے کوئی انوکھے رنگ کی گاڑی گزرے تو ہم ساری سہیلیاں اس پر تبصرے کرتی ہیں مگر اس کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ اس کے پاس ایسے انوکھے رنگ کا کوئی جوڑا نہیں ہے۔

میاں کے لیے کپڑوں کی خریداری کے لیے ان سے رقم وصولتی ہے اور کئی گھنٹے تک بازار کی خاک چھان کر جب لوٹتی ہے تو اپنے ایک آدھے جوڑے کے ساتھ، میاں سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہیں تو کہتی ہے کہ مردانہ کپڑوں کی ورائٹی کچھ خاص نہ تھی، اس لیے میں زنانہ سوٹ لے آئی ہوں، آپ کی بیوی کے لیے...اگر چہ میں نیلما سے بہت چڑتی ہوں، بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ اس کی کپڑوں کے بارے میں عادات سے، مگر کئی بار سوچا تو اندازہ ہوا کہ میری بھی بہت سی عادات ویسی ہی ہوتی جا رہی ہیں لیکن شاید مجھے احساس نہیں ہوتا، آپ خود کو چیک کریں، کہیں آپ میں بھی تو نیلما جیسے جراثیم نہیں ہیں؟؟؟
Load Next Story