افغانستان انقلاب اور رد انقلاب

بیسویں صدی میں امان اللہ خان کی قیادت میں افغانستان میں ریڈیکل انقلاب آیا، بادشاہت کا خاتمہ کیا،


Zuber Rehman October 02, 2016
[email protected]

انیسویں صدی میں افغانستان پرجب بیرونی حملہ ہوا توکارل مارکس نے اس حملے کی مخالفت کی تھی ہرچندکہ افغانستان میں بادشاہت تھی۔

بیسویں صدی میں امان اللہ خان کی قیادت میں افغانستان میں ریڈیکل انقلاب آیا، بادشاہت کا خاتمہ کیا، جاگیرداری مخالف قوانین پاس ہوئے اور خود کوسامراجی بندھنوں سے آزاد کیا لیکن کچھ عرصے کے بعد امریکی سی آئی اے کی سازشوں کے نتیجے میں یہ انقلاب، رد انقلاب میں تبدیل ہوگیا۔ جس طرح ایران میں ڈاکٹر مصدق کی قیادت میں ریڈیکل انقلاب آیا جنھوں نے تیل کے کنوؤں کو قومی ملکیت میں لے لیا تھا۔

بعد ازاں امریکی سامراج کی سازشوں اورمداخلت کے نتیجے میں ردانقلاب آیا اور بادشاہت کو بحال کردیا گیا۔ افغانستان میں انیس سواٹھتر میں خلق پارٹی کے پرچم دھڑے کے عظیم رہنما استاد اکبرخیبرخان کو قتل کردیا گیا، جس کے خلاف وہاں کے محنت کش، دانشور، وکلاء، طلبہ، کسان اورفوجی سپاہیوں نے اپنے اتحادکے ذریعے تیس ہزارعوام کا جلوس نکالا اور ثورانقلاب (اپریل انقلاب) اٹھائیس اپریل انیس سواٹھتر میں برپا کر دیا۔

فوج نے انقلاب برپا کرنے کے فوری بعدخلق پارٹی کی انقلابی کونسل کو اقتدار منتقل کردیا ۔اب ملک کے صدرکامریڈ نور محمد ترکئی منتخب ہوئے۔انھوں نے افغانستان سے جاگیرداری، بردہ فروشی،افیون کی کاشت، سود خوری اور سامراجی بندھنوں سے ملک کو آزادکردیا۔اب بادشاہت کا نام ونشان باقی نہ رہا۔ تعلیم اور صحت کے بجٹ میں خاطرخواہ اضافہ کردیا۔

شرح تعلیم دس فیصد سے بڑھ کرچالیس فیصد ہو گئی۔ سڑکوں کے جال بچھائے جانے لگے اور ریلوے لائن بچھانے کی منصوبہ بندی ہونے لگی ۔ یہ عوام دوست اور سامراج مخالف اقدامات امریکی سامراج کو نہ بھائے ، پھر وہ درجن بھر مذہبی جماعتوں کے کارکنان کو مسلح تربیت دینے لگے۔ مدارس سے طلبہ کو افغانستان بھیجاگیا۔

پاکستان میں اس سارے عمل کی خازن ایک مذہبی جماعت ٹھہری، جس کی برادرتنظیم افغانستان میں حزب اسلامی ہے۔بعد ازاں جب یہ جماعتیں آپس میں گتھم گتھا ہوگئیں تو طالبان کو صلح کروانے کے لیے افغانستان میں داخل کروایا گیا۔انھوں نے صلح کے بجائے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور اس حکومت کو دنیا کے صرف دوملکوں سعودی عرب اورپا کستان نے تسلیم کیا۔ وہاں انھوں نے قتل وغارت گری شروع کردی اور آخری افغان صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کو شہیدکردیا۔

اس وقت سے آج تک افغانستان میں قتل وغارت گری جاری ہے۔ جب ملا عمرکی حکومت تھی توامریکا نے افغانستان میں اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کے بہانے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ بعدازاں امریکا میں مقیم سامراجی آلہ کار حامدکرزئی کو امپورٹ کر کے افغانستان کا صدربنا دیا گیا، جس طرح عراق میں مالکی کو امریکا نے لابٹھایا ۔اسی تسلسل میں اشرف غنی اورعبداللہ عبد اللہ بھی سامراجی آلہ کار ہیں ۔

مضحکہ خیزبات یہ ہے کہ حزب اسلا می جوکہ کل تک سامراج مخالف ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرتے تھی،اب خود سامراجی آلہ کاروں کے ساتھ شامل ہوگئی ہے (یعنی افغان حکومت کے ساتھ ) یہ ان کا پہلا موقع نہیں بلکہ بار بارایسا ہی ہوتا آرہا ہے ۔ ایک مذہبی جماعت نے جنرل ضیاالحق کو مرد مومن کا خطاب دیا ، جب کہ حالات اب بدلتے جا رہے ہیں۔

ہندوستان میں کمیونسٹ اتحاد کی جانب سے کال دینے والی ہڑتال میں اٹھارہ کروڑلوگ شریک ہوئے۔ عالم عرب میں داعش،النصرۃِ ،احرارالسلام شکست سے دوچار ہیں ۔ شام اور یمن میں سامراجی مداخلت کاروں کی پسپائی ہو رہی ہے۔ پاکستان میں طالبان سے عوام نفرت کرنے لگے ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی سامراج کی تخلیق کردہ ہے۔ پا کستان میں اس طرح کی مذہبی انتہا پسندی پہلے نہیں تھی اورنہ طالبان کا وجود تھا جسے خود ہمارے حکمرانوں نے موقع فراہم کیا۔

جنرل ضیا الحق نے باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ کلاشنکوف میں نے مصرکے انوار السادات سے حاصل کی ہے۔ ایک مذہبی جم پوسٹر چھاپ کے دیواروں پر چسپاں کرتی تھی اور اس پوسٹر پرکلاشنکوف کی تصویر بھی ہوتی تھی۔ دکھایا جاتا تھا کہ مجاہدین کس شان سے کلاشنکوف گلے میں لٹکائے، افغانستان میں داخل ہورہے ہیں اورسامراج مخالف ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے خلاف لڑرہے ہیں۔ یہ لڑائی بعد ازاں ڈالرجہاد کے نام سے مشہورہوئی۔

بعض صاحبان نے اقرارکیا کہ ریاست کی مدد سے ہم نے طالبان کی مددکی ۔ کچھ مولانا کہتے ہیں کہ میرا دل طالبان کے ساتھ دھڑکتا ہے ۔ان تمام واقعات اورحرکات سے کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ امریکی منشا اورمفادات کی تکمیل کی خاطر ہماری حکومت اور دائیں بازوکی مذہبی جماعتیں استعمال ہوئیں اوراب وہی طالبان ہمارے ملک کے معصوم عوام اورفوجی سپاہیوں کا قتل عام کررہے ہیں۔

اب تک لا کھوں پاک افغان شہری مارے جاچکے ہیں۔ اب تو دائرہ داعش تک پھیل گیا ہے مگر یہ سارا سلسلہ افغانستان کی بائیں بازوکی سامراج مخالف حکومت کے خاتمے کی امریکی سازشوں اورکارروائیوں سے شروع ہوا، درحقیقت سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکی سامراج نے سمجھا تھا کہ اب دنیا یونی پولر ہوگئی ہے ہم جوچاہیں کرلیں گے، مگر اب نتیجہ اس کے برعکس نکل رہا ہے۔

کینیڈا جو بہت سوشل ویلفئراسٹیٹ کہلاتا تھا، اب وہاں کی شرح نمو ایک اعشاریہ آٹھ فیصد ہے۔ یہاں منظم جرائم کے نوسوپچاس سے زیادہ گروہ سرگرم ہیں جس میں اسی فیصد آمدنی کا ذریعہ منشیات کا دھندا ہے۔ایک معمولی ایکسرے اور سٹی اسکین کے لیے اکثرہفتوں اورمہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔

اسپیشلسٹ ڈاکٹروں سے تاریخ ملتے ملتے نو، نو ماہ لگ جاتے ہیں۔ پچھلے سال'اونٹاریو'کے بورڈزکے اساتذہ ہڑتال پرگئے جس سے سڑسٹھ ہزار بچے متاثر ہوئے۔ جس کے نتیجے میں نیو ڈیموکریٹک پارٹی، سوشلسٹ پارٹی اورکمیونسٹ پارٹی تیزی سے عوام میں مقبول ہورہی ہیں۔

ہندوستان، چین، امریکا اوربرطانیہ میں سوشلسٹ اورکمیونسٹ تحریک عوام میں پذیرائی حاصل کررہی ہے۔ان تمام بدلتے ہوئے حالات میں عالمی سامراج عوامی جدوجہد سے خائف ہے ۔اس لے 'ہیٹ اینڈ لو' نفرت اور محبت والا فارمولا استعمال کرنے پر مجبورہے، مگر سامراج کی یہ ساری ترکیبیں اکارت جائیں گی اور دنیا میں ایک غیر طبقاتی امداد باہمی یا کمیونسٹ سماج قائم ہوکر عوام کے سارے مسائل حل ہونگے۔

اس کے سوا سارے راستے بندگلی میں پھنس جاتے ہیں ۔افغانستان، کابل میں بائیں بازوکی پیپلزڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کا دفتر باقاعدہ سرگرم ہے۔ ان کا ہفت روزہ رسالہ 'خلق' شائع ہورہا ہے۔ نورمحمد ترکئی کی چارکتابیں پشتو اور فارسی میں شائع ہوچکی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں