انوکھے جوش و خروش
راجہ صاحب اب جلسوں اور تقریبات کو روزانہ رونق بخشنا اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔
بے یقینی کی فضا اپنی جگہ موجود ہے لیکن سچا سیاستدان وہی ہوتا ہے جو بے یقینی میں سے یقین کشید کر کے ہر وقت اپنی انتخابی مہم شروع رکھے۔ یہ فرض کر کے کہ فضا پریقین ہو گئی ہے.
پچھلے دو تین روز سے مرکزی جماعتوں کے اہم رہنمائوں نے مزے دار اور دھواں دار تقریریں شروع کر رکھی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے اکثر تقریریں اور پریس کانفرنسیں اپنی گھن گرج کے اعتبار سے مزاحیہ تھیں،اتنی مزاحیہ کہ لوگوں کی ہنسی تو نہیں نکلی لیکن آنکھیں آبدیدہ ہوتے ہوتے رہ گئیں۔
ابتدا وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سے کی جا سکتی ہے۔ فیصل آباد کے اسٹیڈیم میں ان کا جلسہ اس لحاظ سے اہم واقعہ تھاکہ وہاں راجہ صاحب نے فن خطابت دکھایا۔ راجہ صاحب اب جلسوں اور تقریبات کو روزانہ رونق بخشنا اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔
''پرویز اشرف بڑے رہنما بن چکے ہیں۔'' راجہ صاحب کی تقریر سن کر عام لوگوں کا پہلا تاثر یہ تھا کہ آخر کار ان کو یہ یقین آ گیا ہے کہ وہ وزیر اعظم ہیں۔اب یہ پتہ نہیں کہ انہیں یہ یقین فیصل آباد کے جلسے میں پہنچ کر آیا یا ایک دو روز پہلے ہی وارد ہوا۔ نیا یقین آنے کی ایک نشانی یہ تھی کہ جوش وخروش زیادہ ہونے کی وجہ سے پرویز اشرف صاحب یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ موضوع تقریر کیا ہے اور انھیں کس کو ہٹ کرنا ہے اور جوش وخروش ہی کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے نام لیے بغیر اصغر خان کیس کے حوالے سے نوازشریف کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور کہا کہ اس کیس نے ایجنسیوں کے پروردہ لوگ بے نقاب کر دیے ہیں لیکن اب وہ دور نہیں رہا، اب انتخابات ایجنسیوں کی مدد سے نہیں جیتے جا سکتے۔ شبہ پڑتا ہے کہ راجہ صاحب کا اشارہ دو تین دن پہلے ہونے والے ضمنی انتخابات کی طرف تھا۔ جوش وخروش کی فراوانی میں وہ یہ بات بھول گئے کہ چند روز پہلے ہی ان کے وزیر خورشید شاہ نے کابینہ کے فیصلوں کی بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اصغر خان کیس کو دفن کر دیا گیا ہے۔ دفن کرنے والی بات وزیر اعظم بھول گئے یا پھر انھوں نے دفن شدہ مردے کو دوبارہ قبر سے برآمد کرنے کی کوشش کی۔ بات کچھ بھی ہو، جو لوگ خطاب سن رہے تھے، ان کی ''ٹکٹ'' کے پیسے پورے ہو گئے۔جوش وخروش کی ضرورت سے زیادہ فراوانی کی وجہ سے وہ یہ بھی بھول گئے کہ ابھی دو ہی روز پہلے ان کے ''حریف'' نے پنجاب کے ضمنی الیکشن جیتے تھے اور ان انتخابات میں کوئی اور قسم کی دھاندلی ہوئی ہو یا نہیں، ایجنسیاں بہرحال استعمال نہیں ہوئی ہوں گی کیونکہ کچھ ایجنسیاں براہ راست وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور کچھ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں۔ پنجاب میں پولنگ اسٹیشنوں پر محکمہ تعلیم کا عملہ منصفانہ اور آزادانہ نتائج نکالنے پر مامور ہوتا ہے۔ فیصل آباد پیپلزپارٹی کا گڑھ ہوا کرتا تھا اور یہ گڑھ اب بہت چھوٹا ہو گیا ہے لیکن پارٹی کی قیادت نے جوش وخروش میں اس بات پر غور نہیں کیا کہ اس گڑھ میں حاضرین جلسہ کی تعداد اتنی کم ہوا کرتی تھی، نہ ہی لوگ گز گز کی لمبی زبانوں سے حکومتوں پر تنقید کرتے تھے ''کہ اس نے کچھ نہیں کیا۔'' آج کل ہر طرف اس طرح کی باتیں کرتے ہیں اور عام طور پر پتہ نہیں چلنے دیتے کہ ان کا اشارہ اپوزیشن کی طرف ہے یا حکومت کی طرف۔
ضمنی انتخابات 9 نشستوں (2 قومی اور 7 صوبائی نشستوں پر) تھے۔ مجموعی نتائج کسی بھی پارٹی کے لیے حیرت انگیز نہیں تھے۔ مسلم لیگ ن پر ضمنی انتخابات میں فتح کا جوش وخروش اتنا زیادہ طاری ہو گیا ہے کہ اس نے آنے والے الیکشن میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ بھی کر دیا ہے۔ جوش وخروش میں اسے یاد نہیں رہا کہ ساہیوال کی ایک سیٹ کو چھوڑ کر اس نے جتنی بھی سیٹیں جیتی ہیں، وہ اس کی اپنی ہی چھوڑی ہوئی تھیں۔ اپنی ہی چھوڑی ہوئی سیٹوں پر فتح اس حوالے سے قابل مبارک ضرور ہے کہ ''ن'' لیگ کی 2008ء والی نشستیں ابھی تک محفوظ ہیں۔ ان میں کوئی کمی یا بیشی نہیں ہوئی۔ دو تہائی اکثریت کا دعویٰ شاید وقت سے کچھ پہلے ہی کر دیا گیا۔ہار اور جیت دونوں طرف کے جوش وخروش کا رخ پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر منظور وٹو کی طرف بھی ہے۔ کہا گیا ہے کہ منظور وٹو کی وجہ سے پیپلز پارٹی پنجاب میں ضمنی الیکشن ہار گئی اور اگلا الیکشن بھی منظور وٹو کی وجہ سے ہار جائے گی۔ جوش وخروش کے عالم میں دوسری سانس میں منظور وٹو کے مخالفین ایسے ریمارکس بھی دے جاتے ہیں جنھیں غیر مہذب نہ کہا جائے تو شائستہ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ اگر پیپلزپارٹی منظور وٹو کی وجہ سے ہاری ہے تو اپوزیشن کو منظور وٹو کیلیے تو تعریفی کلمات کہنے چاہئیں تھے۔ سیاستدانوں کی باتیں سیاستدان ہی جان سکتے ہیں۔
جوش وخروش مسلم لیگ ق پر بھی کم طاری نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ بدترین اور ریکارڈ دھاندلی ہوئی لیکن جوش وخروش کی وجہ سے وہ اس دھاندلی کی شکایت الیکشن کمیشن سے کرنا بھول گئی۔ ہونا یوں چاہیے تھا کہ الیکشن کمیشن میں شکایات درج کرانے کے بعد دھاندلی کی مشہوری کی جاتی تو الیکشن کمیشن کو یہ شکایت نہ کرنا پڑتی کہ یہ کیسی دھاندلی تھی کہ ہمارے پاس کوئی درخواست بھی نہیں آئی۔ لیکن بات وہی ہے کہ جوش وخروش میں لوگ ضروری باتیں بھول جاتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کی بحث نے سندھ اور خیبر پختونخوا میں جوش وخروش کی لہر دوڑا دی ہے۔ سندھ اسمبلی میں تو ایسا جوش وخروش دیکھا گیا کہ سرکار کے رکن ایک دوسرے پر ہی چڑھ دوڑے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قرارداد پیش ہونے کے اگلے روز منظور ہوئی۔ بہرحال اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ دل کا غبار نکالنے کے لیے ارکان اسمبلی کو دو روز مل گئے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں جوش خروش کا مظاہرہ کچھ زیادہ ہی انوکھا تھا۔ کالاباغ پر غصہ نکالتے نکالتے اے این پی کے کارکنوں نے اردو زبان کو دشمن قرار دے دیا۔ شاید ان کا خیال تھا کہ عدالت نے یہ فیصلہ اردو زبان میں سنایا ہے، اس لیے اردو دشمن زبان ہے حالانکہ فیصلہ اردو زبان میں بھی سنایا ہو تب بھی قصور انگریزی زبان کا ہے جس میں فیصلہ لکھا گیا تھا۔ اس لحاظ سے دشمن زبانیں دو ہوئیں، اردو اور انگریزی۔ جوش وخروش میں اے این پی کے دوست یہ بھی بھول گئے کہ اردو قومی زبان ہے۔ ہو سکتا ہے انھوں نے یہ بات ایم کیو ایم کی ضد میں کہی ہو۔ لیکن ایسی ضد ہمارے بزرگ کرتے تو آج پاکستان میں کوئی بھی انگریزی پڑھا ہوا نہ ہوتا اور پاکستان ساری دنیا سے کٹ کر رہ گیا ہوتا۔ ایم کیو ایم سے جنگ کو اردو سے جنگ بنا دینا انوکھا ماجرا ہے لیکن اسے بھی جوش وخروش کا نتیجہ سمجھ کر نظر انداز کر دینا ہی بہتر ہے۔
ان سارے فریقوں پر جوش وخروش طاری ہے لیکن حیرت کی بات ہے۔ تحریک انصاف کا جوش وخروش اترے ہوئے سونامی کی طرح نیچے ہی نیچے بیٹھ رہا ہے۔ شاید وقت سے پہلے ضرورت سے زیادہ جوش دکھانے کا نتیجہ ہے کہ اب تھکن طاری ہو گئی ہے۔ بہرحال دعا کرنی چاہیے کہ جتنا بھی جوش وخروش سب پر طاری ہے، وہ اتنا ہی رہے اس سے زیادہ نہ ہو۔ اس لیے کہ زیادہ ہوا تو ان طاقتوں کو جوش وخروش میں آنے کا بہانہ مل جائے گا جو اس دستر خوان ہی کو تہہ کرنے کیلیے تیار بیٹھی ہیں جس کے دم سے یہ سارا جوش وخروش قائم ہے۔
پچھلے دو تین روز سے مرکزی جماعتوں کے اہم رہنمائوں نے مزے دار اور دھواں دار تقریریں شروع کر رکھی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے اکثر تقریریں اور پریس کانفرنسیں اپنی گھن گرج کے اعتبار سے مزاحیہ تھیں،اتنی مزاحیہ کہ لوگوں کی ہنسی تو نہیں نکلی لیکن آنکھیں آبدیدہ ہوتے ہوتے رہ گئیں۔
ابتدا وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سے کی جا سکتی ہے۔ فیصل آباد کے اسٹیڈیم میں ان کا جلسہ اس لحاظ سے اہم واقعہ تھاکہ وہاں راجہ صاحب نے فن خطابت دکھایا۔ راجہ صاحب اب جلسوں اور تقریبات کو روزانہ رونق بخشنا اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔
''پرویز اشرف بڑے رہنما بن چکے ہیں۔'' راجہ صاحب کی تقریر سن کر عام لوگوں کا پہلا تاثر یہ تھا کہ آخر کار ان کو یہ یقین آ گیا ہے کہ وہ وزیر اعظم ہیں۔اب یہ پتہ نہیں کہ انہیں یہ یقین فیصل آباد کے جلسے میں پہنچ کر آیا یا ایک دو روز پہلے ہی وارد ہوا۔ نیا یقین آنے کی ایک نشانی یہ تھی کہ جوش وخروش زیادہ ہونے کی وجہ سے پرویز اشرف صاحب یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ موضوع تقریر کیا ہے اور انھیں کس کو ہٹ کرنا ہے اور جوش وخروش ہی کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے نام لیے بغیر اصغر خان کیس کے حوالے سے نوازشریف کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور کہا کہ اس کیس نے ایجنسیوں کے پروردہ لوگ بے نقاب کر دیے ہیں لیکن اب وہ دور نہیں رہا، اب انتخابات ایجنسیوں کی مدد سے نہیں جیتے جا سکتے۔ شبہ پڑتا ہے کہ راجہ صاحب کا اشارہ دو تین دن پہلے ہونے والے ضمنی انتخابات کی طرف تھا۔ جوش وخروش کی فراوانی میں وہ یہ بات بھول گئے کہ چند روز پہلے ہی ان کے وزیر خورشید شاہ نے کابینہ کے فیصلوں کی بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اصغر خان کیس کو دفن کر دیا گیا ہے۔ دفن کرنے والی بات وزیر اعظم بھول گئے یا پھر انھوں نے دفن شدہ مردے کو دوبارہ قبر سے برآمد کرنے کی کوشش کی۔ بات کچھ بھی ہو، جو لوگ خطاب سن رہے تھے، ان کی ''ٹکٹ'' کے پیسے پورے ہو گئے۔جوش وخروش کی ضرورت سے زیادہ فراوانی کی وجہ سے وہ یہ بھی بھول گئے کہ ابھی دو ہی روز پہلے ان کے ''حریف'' نے پنجاب کے ضمنی الیکشن جیتے تھے اور ان انتخابات میں کوئی اور قسم کی دھاندلی ہوئی ہو یا نہیں، ایجنسیاں بہرحال استعمال نہیں ہوئی ہوں گی کیونکہ کچھ ایجنسیاں براہ راست وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور کچھ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں۔ پنجاب میں پولنگ اسٹیشنوں پر محکمہ تعلیم کا عملہ منصفانہ اور آزادانہ نتائج نکالنے پر مامور ہوتا ہے۔ فیصل آباد پیپلزپارٹی کا گڑھ ہوا کرتا تھا اور یہ گڑھ اب بہت چھوٹا ہو گیا ہے لیکن پارٹی کی قیادت نے جوش وخروش میں اس بات پر غور نہیں کیا کہ اس گڑھ میں حاضرین جلسہ کی تعداد اتنی کم ہوا کرتی تھی، نہ ہی لوگ گز گز کی لمبی زبانوں سے حکومتوں پر تنقید کرتے تھے ''کہ اس نے کچھ نہیں کیا۔'' آج کل ہر طرف اس طرح کی باتیں کرتے ہیں اور عام طور پر پتہ نہیں چلنے دیتے کہ ان کا اشارہ اپوزیشن کی طرف ہے یا حکومت کی طرف۔
ضمنی انتخابات 9 نشستوں (2 قومی اور 7 صوبائی نشستوں پر) تھے۔ مجموعی نتائج کسی بھی پارٹی کے لیے حیرت انگیز نہیں تھے۔ مسلم لیگ ن پر ضمنی انتخابات میں فتح کا جوش وخروش اتنا زیادہ طاری ہو گیا ہے کہ اس نے آنے والے الیکشن میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ بھی کر دیا ہے۔ جوش وخروش میں اسے یاد نہیں رہا کہ ساہیوال کی ایک سیٹ کو چھوڑ کر اس نے جتنی بھی سیٹیں جیتی ہیں، وہ اس کی اپنی ہی چھوڑی ہوئی تھیں۔ اپنی ہی چھوڑی ہوئی سیٹوں پر فتح اس حوالے سے قابل مبارک ضرور ہے کہ ''ن'' لیگ کی 2008ء والی نشستیں ابھی تک محفوظ ہیں۔ ان میں کوئی کمی یا بیشی نہیں ہوئی۔ دو تہائی اکثریت کا دعویٰ شاید وقت سے کچھ پہلے ہی کر دیا گیا۔ہار اور جیت دونوں طرف کے جوش وخروش کا رخ پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر منظور وٹو کی طرف بھی ہے۔ کہا گیا ہے کہ منظور وٹو کی وجہ سے پیپلز پارٹی پنجاب میں ضمنی الیکشن ہار گئی اور اگلا الیکشن بھی منظور وٹو کی وجہ سے ہار جائے گی۔ جوش وخروش کے عالم میں دوسری سانس میں منظور وٹو کے مخالفین ایسے ریمارکس بھی دے جاتے ہیں جنھیں غیر مہذب نہ کہا جائے تو شائستہ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ اگر پیپلزپارٹی منظور وٹو کی وجہ سے ہاری ہے تو اپوزیشن کو منظور وٹو کیلیے تو تعریفی کلمات کہنے چاہئیں تھے۔ سیاستدانوں کی باتیں سیاستدان ہی جان سکتے ہیں۔
جوش وخروش مسلم لیگ ق پر بھی کم طاری نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ بدترین اور ریکارڈ دھاندلی ہوئی لیکن جوش وخروش کی وجہ سے وہ اس دھاندلی کی شکایت الیکشن کمیشن سے کرنا بھول گئی۔ ہونا یوں چاہیے تھا کہ الیکشن کمیشن میں شکایات درج کرانے کے بعد دھاندلی کی مشہوری کی جاتی تو الیکشن کمیشن کو یہ شکایت نہ کرنا پڑتی کہ یہ کیسی دھاندلی تھی کہ ہمارے پاس کوئی درخواست بھی نہیں آئی۔ لیکن بات وہی ہے کہ جوش وخروش میں لوگ ضروری باتیں بھول جاتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کی بحث نے سندھ اور خیبر پختونخوا میں جوش وخروش کی لہر دوڑا دی ہے۔ سندھ اسمبلی میں تو ایسا جوش وخروش دیکھا گیا کہ سرکار کے رکن ایک دوسرے پر ہی چڑھ دوڑے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قرارداد پیش ہونے کے اگلے روز منظور ہوئی۔ بہرحال اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ دل کا غبار نکالنے کے لیے ارکان اسمبلی کو دو روز مل گئے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں جوش خروش کا مظاہرہ کچھ زیادہ ہی انوکھا تھا۔ کالاباغ پر غصہ نکالتے نکالتے اے این پی کے کارکنوں نے اردو زبان کو دشمن قرار دے دیا۔ شاید ان کا خیال تھا کہ عدالت نے یہ فیصلہ اردو زبان میں سنایا ہے، اس لیے اردو دشمن زبان ہے حالانکہ فیصلہ اردو زبان میں بھی سنایا ہو تب بھی قصور انگریزی زبان کا ہے جس میں فیصلہ لکھا گیا تھا۔ اس لحاظ سے دشمن زبانیں دو ہوئیں، اردو اور انگریزی۔ جوش وخروش میں اے این پی کے دوست یہ بھی بھول گئے کہ اردو قومی زبان ہے۔ ہو سکتا ہے انھوں نے یہ بات ایم کیو ایم کی ضد میں کہی ہو۔ لیکن ایسی ضد ہمارے بزرگ کرتے تو آج پاکستان میں کوئی بھی انگریزی پڑھا ہوا نہ ہوتا اور پاکستان ساری دنیا سے کٹ کر رہ گیا ہوتا۔ ایم کیو ایم سے جنگ کو اردو سے جنگ بنا دینا انوکھا ماجرا ہے لیکن اسے بھی جوش وخروش کا نتیجہ سمجھ کر نظر انداز کر دینا ہی بہتر ہے۔
ان سارے فریقوں پر جوش وخروش طاری ہے لیکن حیرت کی بات ہے۔ تحریک انصاف کا جوش وخروش اترے ہوئے سونامی کی طرح نیچے ہی نیچے بیٹھ رہا ہے۔ شاید وقت سے پہلے ضرورت سے زیادہ جوش دکھانے کا نتیجہ ہے کہ اب تھکن طاری ہو گئی ہے۔ بہرحال دعا کرنی چاہیے کہ جتنا بھی جوش وخروش سب پر طاری ہے، وہ اتنا ہی رہے اس سے زیادہ نہ ہو۔ اس لیے کہ زیادہ ہوا تو ان طاقتوں کو جوش وخروش میں آنے کا بہانہ مل جائے گا جو اس دستر خوان ہی کو تہہ کرنے کیلیے تیار بیٹھی ہیں جس کے دم سے یہ سارا جوش وخروش قائم ہے۔