’’شیاطین برق‘‘
اس ماہ پاکستان میں پہلی بار فرشتوں کی زیادہ مصروفیت کی وجہ...
ہم مسلمان رمضان المبارک کے عادی ہیں۔ روزے کی بھوک پیاس کو ہم ثواب سمجھتے ہیں اور اس مہینے کی گرمی سردی کو کھلے دل سے برداشت کرتے ہیں لیکن جب کچھ شیطان فرشتوں کے اوور ورک کی وجہ سے بند ہونے سے رہ جائیں تو وہ ہمارے لیے رمضان کا مہینہ مشکل بنا دیتے ہیں اور اس کی برکات کو آزمائش بنا دیتے ہیں۔ اس ماہ پاکستان میں پہلی بار فرشتوں کی زیادہ مصروفیت کی وجہ شیطانوں کی ایک بڑی تعداد باہر رہ گئی ہے جو ہمیں تنگ کر رہی ہے'
جو شیطان محکمہ بجلی میں گھس گئے ہیں وہ عیش میں ہیں' آرام سے بیٹھے رہتے ہیں' گھڑی کا الارم لگا دیتے ہیں اور لاہور کی حد تک ہر گھنٹے کے بعد غنودگی سے اٹھ کر بٹن بند کر دیتے ہیں اور پھر سو جاتے ہیں لیکن جو لاہور سے باہر کی ڈیوٹی پر ہیں انھیں کچھ زحمت کرنی پڑتی ہے کہ ان کے اوقات مقرر نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ مسلمانوں کو تنگ کر کے خوش ہیں اور ہماری حکومت کو دعائیں دیتے ہیں۔
حکومت کو کیا وزیر اعظم کو دعائیں دیتے ہیں جو وزارت عظمیٰ تک آنے سے پہلے اسی بجلی کے وزیر تھے چنانچہ وہ اس کی جڑوں میں بیٹھ گئے۔ اب ان کا وزن بلحاظ منصب بہت بڑھ گیا ہے اس لیے ان جڑوں کے برآمد ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔ بہرکیف جو شیاطین بجلی کے محکمے میں متعین ہیں وہ کامیاب بھی ہیں اور آرام سے بھی ہیں۔ یہ شیاطین جو آزاد پھر رہے ہیں زندگی کے ہر شعبے میں سرگرم ہیں لیکن میرا واسطہ چونکہ بجلی سے زیادہ ہے اس لیے میں نے شیاطین برق کا زیادہ ذکر کیا ہے ویسے ملک بھر میں شیاطین کا یہی گروہ وہ کام کر رہا ہے جو پوری اپوزیشن مل کر نہیں کر سکی اور زرداری صاحب سے مات پر مات کھاتی رہی۔
شیاطین کی وجہ سے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کا ذکر آیا ہے تو ایک نظر ان پر بھی ڈال دیتے ہیں کیونکہ بعض بدظن لوگوں کے خیال میں دونوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ ہمارے ہاں جو بڑی جماعتیں ہیں ان کا ذکر حال ہی میں شیطان اعظم امریکا کے نمایندے مقیم پاکستان نے جاتے جاتے کر دیا ہے۔ منٹر صاحب نے ان لیڈروں سے الوداعی ملاقاتیں کیں اور انھوں نے ان پر جو سرمایہ کاری کی ہے اس کے پھل فروٹ کا جائزہ لیا۔
امریکی سفیر یہاں سے مطمئن گئے ہیں اور انھوں نے ان ملاقاتوں کا مختصر ترین الفاظ میں ذکر بھی کر دیا ہے۔ کئی ایک کے بارے میں تو انھوں نے اتنا ہی کہا کہ وہ امریکا کے دوست ہیں اور اس کے پرجوش ساتھی ہیں لیکن ایک مولانا کے بارے میں انھوں نے چند تعریفی کلمات بھی کہہ دیے ہیں جن پر افسوس کرنے اور امریکا سے ان کی شکایت کرنے کے بجائے ان کے پیروکار بہت خوش ہیں اور اپنے لیڈر کی عظمتوں میں ان الفاظ اور اعتراف کو شامل کر رہے ہیں۔ کل کلاں اس لیڈر کا کوئی پیروکار جب اس پر کتاب لکھے گا تو اس کے پہلے صفحے پر امریکی سفیر کے ان الفاظ کو نقل کرے گا۔
ان الفاظ سے بڑھ کر اعتراف اور کیا ہو سکتا ہے وہ بھی دنیا کی سپر پاور اور پاکستان کی مالک اور حکمران سے۔ افسوس کہ ہمارے دوسرے لیڈروں کو امریکی سفیر نے اس قدر قابل اعتناء نہیں سمجھا اور صرف چند الفاظ پر ہی اکتفا کر لی جب کہ پاکستان میں ووٹ ان کے زیادہ ہیں مگر لگتا ہے امریکا کے مقاصد کچھ اور ہیں اور وہ بھارت پاکستان تعلقات کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ ہمارے قائدین امریکی عزائم سے ناواقف نہیں ہیں چنانچہ وہ بھارت کی تعریف اور اس کے ساتھ تعلقات کا اکثر ذکر خیر کرتے رہتے ہیں بلکہ ہمارے صدر صاحب نے تو آتے ہی کہہ دیا تھا کہ ہر پاکستانی کے دل میں ایک تھوڑا سا بھارتی اور ہر بھارتی کے دل میں ایک تھوڑا سا پاکستانی بسا ہوا ہے' بات ختم۔ جناب صدر کے ان الہامی کلمات کے بعد تو مزید کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
اس کی ایک مثال تو اتفاق سے راجیش کھنہ کی موت پر پاکستانی قوم کا سوگ سامنے ہے اور انھی دنوں بھارتی پرستاروں کا سوگ بھی گویا دونوں قومیں ایک ہی غم میں سوگوار رہیں۔ اب اگر امریکی سفیر مولانا کی خصوصی تعریف کرتا ہے تو غلط نہیں کرتا۔ یہ اعزاز مولانا کو ہی حاصل ہے کہ ان کے اور ان کے بزرگوں کے بقول وہ پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے۔ امریکی سفیر کوئی لاعلم آدمی نہیں تھا وہ ہر پاکستانی کی اس کی جڑوں تک سے واقف تھا۔ اس نے جاتے جاتے جو جس قابل تھا اس کو اس کے مطابق سند عطا کر دی اب اسے کوئی دل میں رکھ لے یا اپنی دیوار پر کندہ کرا لے اس کی مرضی۔
بات بجلی کے شیطانوں یعنی شیاطین برق سے شروع ہوئی تھی تو شیطان اکبر امریکا کی طرف نکل گئی' شاید شیطانیت کے رشتے کی وجہ سے۔ میں شیاطین برق کی کامیابی کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔ پاکستان کی حد تک انھوں نے مسلسل کامیابی حاصل کی ہے اور کرتے چلے جا رہے ہیں بلکہ حالات ایسے رہے اور ایسے ہی رہیں گے تو وہ یہ کامیابی مستقبل میں بھی حاصل کرتے چلے جائیں گے اور یہ شیطان ہماری زندگی کا حصہ بن جائیں گے،
امریکا کی طرح۔ امریکا رفتہ رفتہ آگے بڑھتا ہوا ہمارے اندر آ گیا ہے۔ یوں تو وہ پاکستان کی حدوں سے باہر افغانستان میں ہے لیکن ضرورت کے وقت پاکستان کو بھی اپنی تحویل میں لے لیتا ہے، وہ ڈرون حملے کرتا ہے، ہمیں مار مار کر دنبہ بنا دیتا ہے مگر 'سوری' بھی بمشکل کہتا ہے۔ ہمارے چوٹی کے لٹیروں کو وہ ان کی سیاسی حیثیت کے سرٹیفکیٹ دیتا ہے اور ہم اسے فخر کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔
یہ کہانی بہت طویل ہے امریکا کی اور ہماری رشتے داری پر ایک عمر گزر گئی ہے، اب یہ بہت پختہ ہو گئی ہے مگر پاکستانی عوام اپنے لیڈروں کی اس محبت کو قبول نہیں کرتے جس کی وجہ سے اس میں الجھنیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ انھی الجھنوں کو امریکی سفیر نے جاتے جاتے صاف کر دیا ہے کہ ہمارے سب لیڈر اس کے دوست ہیں۔ اس کے بعد تو وہی پرانا فارسی شعر یاد آتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ میں تم ہو جائوں تو میں ہو جائے تا کہ پھر کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ میں کوئی اور ہوں اور تو کوئی اور ہے۔ اب ہم یا تو خمینی وغیرہ بن جائیں یا پھر اسی تنخواہ پر کام کرتے رہیں۔