ججز کا تقرر صدارتی ریفرنس پر فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد

مسئلہ صرف جسٹس ریاض اور جسٹس کاسی کی سنیارٹی کا ہے، دیگر معاملات کیوں اٹھائے گئے؟ سپریم کورٹ


News Agencies/Numainda Express December 11, 2012
جسٹس ریاض عمرمیں بڑے ہیں، جسٹس کاسی کمیشن میں نہیں بیٹھ سکتے، وسیم سجاد،سنیارٹی کا معیار عمر ہے، یہ رول ابتک چیلنج نہیں ہوا، عدالت، جوڈیشل کمیشن کا ریکارڈ طلبفوٹو فائل

سپریم کورٹ کے5رکنی لارجر بینچ نے ججوں کی تقرری کے بارے میں صدارتی ریفرنس کی سماعت کیلیے فل کورٹ تشکیل دینے کی حکومتی استدعا مسترد کر دی اور مخدوم علی خان اور خواجہ حارث کو عدالت کا معاون مقرر کردیا ہے

عدالت نے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کر دیا اور ان سے وضاحت طلب کی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے رکن ہونے کے باعث کیا ان کیلیے عدالت کی معاونت کرنا ممکن ہوگا؟ مزید سماعت کل ہوگی۔ جسٹس خلجی عارف حسین کی سربراہی میں بینچ نے صدارتی ریفرنس کی سماعت کی، وسیم سجاد ریفرنگ اتھارٹی کے وکیل کے طور پر پیش ہوئے اور استدعا کی کہ سماعت کیلیے جوڈیشل کمیشن میں شامل5 ججوں کے علاوہ دیگر ججوں پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیا جائے،عدالت نے اس سے اتفاق نہیں کیا، جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ بینچ کی تشکیل چیف جسٹس کا اختیار ہوتا ہے اور چیف جسٹس نے تمام پہلوئوں کومدنظر رکھ کر بینچ تشکیل دیا، جج جب کمیشن میں ہوتے ہیں تو ان کا کردار کچھ اور ہوتا ہے۔ وسیم سجاد نے کہا ریفرنس میں اٹھائے گئے سوالات انتہائی اہم ہیں، جسٹس گلزار احمد نے کہا اس بارے میں ایک آئینی پٹیشن پہلے سے زیر سماعت ہے۔

عدالت نے یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کیا ریفرنس عدالتی عمل کو غیر مؤثر کر سکتا ہے کیونکہ ریفرنس کا مقصد عدالتی پراسس کو روکنا ہے ۔ جسٹس خلجی عارف کا کہنا تھا کہ پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ اٹھائے گئے سوالات کاتعلق مفاد عامہ سے بنتا ہے یا نہیں؟ ان میں سے بیشتر سوالات کا جواب آئین میں موجود ہے جبکہ منیر بھٹی کیس کے فیصلے نے بہت سارے سوالات کا جواب دیا ہے، آئی این پی کے مطابق جسٹس گلزار نے نے کہا کہ صدارتی ریفرنس میں اٹھائے گئے آٹھویں، نویں اور دسویں سوال کے جواب آئین میں موجود ہیں، ریفرنس صرف جسٹس ریاض اور جسٹس کاسی کی سینیارٹی سے متعلق ہے۔ باقی معاملات کیوں اٹھائے گئے؟ ایک موقع پرریمارکس میں جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ صدر مملکت نے سوال بھیجے جن کا ہمیں جواب دینا ہے۔ کیا صدارتی ریفرنس آرٹیکل 186پر پورا اترتا ہے؟ جسٹس اعجاز نے کہا کہ آرٹیکل 175اے میں لکھا ہے کہ جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کا کیا کردار ہوگا۔

3

وسیم سجاد کا کہناتھا کہ انور کاسی کو سینئر سمجھا گیا حالانکہ قواعد کے مطابق اگر تقرری ایک ساتھ ہوتو عمر کو سنیارٹی میں ترجیح دی جاتی ہے۔ آن لائن کے مطابق وسیم سجاد نے کہا کہ جسٹس ریاض عمر میں جسٹس انور کاسی سے بڑے ہیں، اس لیے وزارت قانون نے انھیں سینئر قرار دیا مگر جوڈیشل کمیشن میں جسٹس ریاض کی جگہ جسٹس انور کاسی نے شرکت کی جبکہ وہ جونیئر ہونے کے باعث کمیشن میں نہیں بیٹھ سکتے، آئی این پی کے مطابق وسیم سجاد نے کہاکہ ریفرنس اسی لیے دائر کیا گیا کہ عدالت بتائے جسٹس کاسی کو شامل کرنے کے بعد جوڈیشل کمیشن کی آئینی حیثیت برقرار رہی یا نہیں؟ جسٹس طارق پرویز نے کہا کہ سنیارٹی کیلیے عمر کو معیار مقرر کیا گیاہے۔

یہ مسئلہ اس وقت طے کیا گیا تھا جب ارشاد حسن خان سیکریٹری قانون تھے اور اس فیصلے کوکسی نے اب تک چیلنج نہیں کیا، وسیم سجاد کا موقف تھا کہ ریفرنس سے آئینی پٹیشن غیر موثر نہیں ہوتی لیکن صدر مملکت اس پٹیشن میں فریق نہیں، جسٹس خلجی نے کہا پھر ریفرنس اور پٹیشن ساتھ ساتھ سن لیتے ہیں، آئی این پی کے مطابق جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ معاملے کی سماعت کرکے جلد نمٹانا چاہیے، درخواست گزار کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ اس ریفرنس کا مقصد اسلام آباد کے شہریوں کو انصاف تک رسائی کے حق سے محروم کرنا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ عملاً بند ہو چکی ہے۔ بعد ازاں عدالت نے ریفرنس ابتدائی سماعت کیلیے منظور کرکے نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا۔ آن لائن اور آئی این پی کے مطابق عدالت نے جوڈیشل کمیشن کے29ستمبراور22اکتوبرکے اجلاسوں کا ریکارڈ، جسٹس ریاض احمد اور جسٹس انور کاسی کی تقرری کا نوٹیفکیشن بھی طلب کرلیا۔ آئی این پی کے مطابق عدالت نے سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو بھِی نوٹس جاری کر دیا تاہم قراردیا کہ جوڈیشل کمیشن کے رکن کی حیثیت سے موجودہ کیس میں ان کے بیٹھنے سے متعلق فیصلہ آئندہ سماعت پرہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں