ڈاکٹر کا بہیمانہ قتل
کراچی کے علاقے گڈاپ میں پولیو مہم کی نگرانی کرنے والے ڈاکٹر کو کلینک میں نامعلوم افراد نے گولی مارکر شہید کردیا
FAISALABAD:
ملک میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی مہم تشدد کا شکار ہوگئی۔کراچی کے مضافاتی علاقے گڈاپ میں اس مہم کی نگرانی کرنے والے ڈاکٹر کو ان کے کلینک میں نامعلوم افراد نے گولی مارکر شہید کردیا، یوں کراچی میں قبائلی علاقوں جیسی صورتحال پید اہوگئی۔
اس سے قبل عالمی ادارہ صحت کے کراچی میں نگراں ڈاکٹر فوسٹن ڈیڈو کو الآصف اسکوائر کے علاقے میں اس وقت گولیوں کی بوچھاڑ کا سامنا کرنا پڑا تھا جب وہ اپنے ڈرائیور کے ساتھ گڈاپ میں پولیو کی مہم کی نگرانی کے لیے جارہے تھے۔ ڈاکٹر فوسٹن اس حملے میں زخمی ہوئے مگر 45 سالہ ڈاکٹر اسحاق کو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے ان کے کلینک میں اس وقت قتل کیا جب وہ مریضوں کا معائنہ کررہے تھے۔ ڈاکٹر اسحاق صحت کے بین الاقوامی ادارے W.H.O سے گزشتہ 10 سال سے منسلک تھے۔اسلام آباد میں اس مہم کے دوران جب ایک ویکسی لیٹر ایک پسماندہ بستی کے ایک مکان میں پہنچا تو صاحب خانہ نے لوہے کی سلاخ مار کر ان کی ناک کی ہڈی توڑ دی۔ ان صاحب کا کہنا تھا کہ پولیو کے قطرے بچوں کو نامرد بنانے کے لیے پلائے جارہے ہیں اور یہ شریعت کے خلاف ہے۔
یہ سب کچھ عیسائیوں اور یہودیوں کی سازش ہے۔ اگرچہ حملہ کرنے والے شخص کو گرفتار کیا گیا مگر اس بستی کے بیشتر مکین اس مہم میں تعاون کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اسی طرح شمالی وزیرستان میں حکومت کے حامی لشکر کی قبائل کو پولیو کی مہم میں تعاون کی کوشش ناکام ہوگئی۔ ان قبائل نے کہا کہ اس وقت تک بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی اجازت نہیں ہوگی جب تک امریکا ڈرون حملے بند نہیں کردیتا۔ 80 کی دھائی میں یونیسیف اور ڈبلیو ایچ او نے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم شرو ع کی تھی۔ اس مہم کے نتیجے میں بھارت اور بنگلہ دیش کے بچوں میں یہ مرض ختم ہوگیا مگر پاکستان میں یہ مرض بڑھ رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے فیصلہ کیا ہے کہ اس مرض کو دنیا کے دوسرے ممالک میں پھیلنے سے بچانے کے لیے پاکستان پر پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔
پولیو کا معاملہ پاکستانیوں کی سوچ و فکر سے منسلک ہے۔ تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ بیماریوں کے خاتمے کے لیے ویکسینیشن ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب شہری علاقوں میں بچوں کی پیدائش زیادہ تر اسپتالوں میں ہوتی ہے اور اسپتالوں میں نوزائیدہ بچوں کو ضروری ٹیکے لگا دیے جاتے ہیں اور پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔ اسپتالوں میں بچوں کی پیدائش سے زچہ اور بچہ کے مرنے کی شرح کم ہوئی ہے۔ اب سیزیرین آپریشن کے دوران بہت کم اموات ہوتی ہیں۔ اب تو بچوں کو Hepatitis C اور Hepatitis B کے انجیکشن بھی شروع ہی میں لگادیے جاتے ہیں۔
یوں بچے صحت مند زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ مگر شہروں کے پسماندہ علاقوں، دیہاتوں اور دور دراز علاقوں میں اسپتال نہ موجود ہونے یا ان میں تربیت یافتہ عملے تعینات نہ ہونے کی بناء پر رجعت پسندانہ تصورات کی بناء پر اب بھی گھروں میں ڈیلیوری کی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے روایتی دائیوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ یوں زچہ اور بچہ کے مرنے کی شرح کم نہیں ہورہی ہے۔ یہ شرح افغانستان سے کم، بھارت ، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال سے بہت زیادہ ہے۔ بچوں کو بنیادی ٹیکے نہ لگانے اور پولیو کے قطرے نہ پلانے کی بناء پر 5 سال تک کی عمر تک پہنچنے والے بچوں میں شرح اموات خطرناک حد تک زیادہ ہیں۔ گزشتہ30 برسوں کے دوران برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے بچوں کو ٹیکے لگانے اور پولیو کے قطرے پلانے کی بار بار مہمیں چلائی تھیں۔
عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او اور یونیسیف نے ان مہموں کی نگرانی کے لیے غیر ملکی ڈاکٹروں کو تعینات کیا ہے مگر ان ڈاکٹروں کی نگرانی اور پاکستانی ڈاکٹروں اور طبی عملے کی کوششوں کے بہت زیادہ مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ یوں تو قبائلی علاقوں ،خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں پولیو کی مہم کے خلاف ہمیشہ سے مزاحمت کی جاتی ہے اور اس مہم کو نام نہاد عالمی سازش سے منسلک کردیا جاتا تھا۔مگر 1995 کے بعد طالبان کے عروج اور ان کے کابل پر قبضے کے بعد صورتحال زیادہ خراب ہوتی چلی گئی۔ 2000میں نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکا اور اتحاد ی افواج نے کابل کی طالبان حکومت کے خلاف فوجی کارروائی کی تو طالبان اور ان کے حامی اس حملے کا مقابلہ تو نہیں کرپائے مگر مزاحمتی تنظیموں نے صحت عامہ کی مہموں اور غیر سرکاری تنظیموں NGO's کے خلاف تشدد کی مہم شروع کردی۔
ان لوگوں کا کہنا تھا کہ امریکی ایجنٹ ڈاکٹروں اور این جی اوز کے ذریعے خواتین کو گمراہ کررہے ہیں اور پولیو کے قطرے پلا کر بچوں کو نامرد بنایا جارہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار کے دوران پشاور کے ایک سرجن پولیو کی مہم کی نگرانی کے دوران بم دھماکے میں شہید کردیے گئے۔ جب پختون خوا اور قبائلی علاقوں میں پولیو کی مہم کے خلاف مزاحمت ہورہی تھی اور غیر سرکاری تنظیموں کے اراکین کو قتل کیا جارہا تھا تو پختون خوا اور وفاقی حکومت نے اس بارے میں خاموشی اختیار کرلی تھی۔ اس زمانے میں رجعت پسند عناصر ایف ایم ریڈیو کی ٹیکنالوجی کے ذریعے لوگوں میں زہریلا پروپیگنڈہ کرتے تھے، مگر کبھی فوج اور قانون نافذ کرنے والی دوسری ایجنسیوں نے ان عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ یوں انھیں خوب پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ ریاستی اداروں کی حکمت عملی کا جائزہ لینے والے بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس وقت عسکری مقتدرہ اس صورتحال کو اپنے مقاصد کے لیے مناسب سمجھتی تھی۔
یوں رجعت پسندی کی ایک گہری فضا بن گئی۔ اس ضمن میں صوفی محمد ، مولانا فضل اﷲ ریڈیو ، منگل باغ وغیرہ کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ جب ان عناصر کے زہریلے پیغامات نے عام آدمی کے ذہن کو پراگندہ کرلیا تو پھر حکومت اور عسکری قوتوں کو کارروائی کا خیال آیا۔ اس علاقے میں رپورٹنگ کرنے والے صحافی کہتے ہیں کہ گزشتہ 10 برسوں کے دوران رجعت پسند عناصر نے قبائلی علاقوں میں اسکولوں کی عمارتوں کو تباہ کیا۔ خواتین اساتذہ، ڈاکٹروں، نرسوں اور سماجی کارکنوں کو قتل کرنے ، ان کے دفاتر کو بموں کے حملوں میں تباہ کرنے پر خصوصی توجہ دی۔ اس کے ساتھ ہی خواتین کے اسپتالوں میں بچوں کی ڈلیوری اور نوزائیدہ بچوں کو بنیادی ٹیکے لگانے اور پولیو کے مہم کو غیر اسلامی قرار دینے کو اپنی حکمت عملی میں خصوصی توجہ دی گئی۔
یہ معاملہ قبائلی علاقوں سے سرایت کرتا ہوا خیبر پختون خوا کے شہروں میں داخل ہوا اور اب تو اس کے اثرات کراچی میں بھی نظر آنے لگے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او سے تعلق رکھنے والے ایک غیر ملکی ڈاکٹر پر حملے اور ایک پاکستانی ڈاکٹر کی شہادت سے صورتحال بہت زیادہ سنگین ہوگئی ہے۔ بعض اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ گڈاپ ٹائون اور اطراف کے علاقوں میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم رک گئی ہے۔ کراچی کا یہ علاقہ شمالی وزیرستان اور قبائلی علاقوں کا پس منظر لگا۔ حکومت سندھ اور برسراقتدار جماعتوں کو اس مسئلے کی طرف فوری توجہ دینی چاہیے۔
ڈاکٹر اسحاق کے قاتلوں اور ڈاکٹر فوسٹن پر حملہ کرنے والے افراد کو فوری طور پر گرفتار ہونا چاہیے اور طالبان کی کمین گاہوں کے خاتمے پر توجہ دینا بھی اشد ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے بارے میں اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے۔ ان جماعتوں کے رہنمائوں کو اخبارات اور دوسرے ذرایع ابلاغ کے علاوہ اخباری مضامین، پمفلٹ اور پوسٹر لگانے پر بھی خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ رائے عامہ کو حقائق کا علم ہوسکے۔ آصفہ زرداری کا کہنا ہے کہ پولیو کی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے سیاسی خواہش Political Will کی ضرورت ہے۔ کیا وفاقی اور صوبائی حکومتیں آصفہ زرداری کی اس خواہش کا احترام کریں گی؟ اس بارے میں صورتحال واضح ہونی چاہیے۔