سارک کانفرنس ملتوی کرانا اور سرجیکل سٹرائیک کا بھارتی ڈرامہ
’’پاک بھارت کشیدگی ‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی انتہا پسندانہ سوچ اور رویے کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر پاک بھارت تعلقات کشیدہ ہیں۔ مودی نے کشمیر میں مظالم کی انتہا کردی ہے، وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں جس طرح مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا ہے ، اس پر بھارت تلملا اٹھا ہے۔ اس کے جواب میں بھارت نے پاکستان پر، بلوچستان میں مظالم کا الزام لگایا ہے حالانکہ بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور اس کی خفیہ ایجنسی ''را'' کا کردارکسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
بھارت نے سارک کانفرنس ملتوی کرا کے اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی کوشش سے پاکستان دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت نے اڑی واقعہ کا ڈرامہ رچا کر اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا جبکہ بعد ازاں لائن آف کنٹرول کی خلاف وزری کرکے سرجیکل سٹرائیک کا جھوٹا دعویٰ کیا جسے پاکستان نے مسترد کردیا اور بھارت کو لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کا منہ توڑ جواب دیا۔ ''پاک بھارت کشیدگی اور عالمی برادری کا کردار'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کی گیا جس میںمختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
جنرل (ر) غلام مصطفی
(دفاعی تجزیہ نگار)
بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر حملے غیر متوقع نہیں تھے، ایسا خیال کیا جارہا تھا کہ وہ ایسی حرکت ضرورکرے گا جس سے دنیا کو یہ پیغام ملے کہ بھارت بدلہ لینے کے لیے تیار بھی ہے اور قابل بھی۔بھارتی ڈی جی ایم او ، دفاع کمیٹی اور سیاسی قیادت کے بیانات پہلے سے ہی طے تھے، بھارت اس ڈرامے سے دنیا کو یہ بتا رہا ہے کہ اس نے اڑی واقعہ کا بدلہ لیا ہے۔ حالیہ واقعہ لائن آف کنٹرول کی نارمل خلاف ورزی تھی، بھارت نے آزاد کشمیر میں چار جگہ ایساکیا جس کا ہماری فوج نے بھرپور جواب دیا، ابھی تک بھارت مقبوضہ کشمیر میں پڑی اپنے فوجیوں کی لاشیں نہیں اٹھا سکا۔
بھارت اپنی عوام کو بے وقوف بنا رہا ہے اور اسے سرجیکل سٹرائیک کا نام دے کر بڑا کارنامہ ثابت کرنا چاہتا تھا مگر اسے منہ کی کھانا پڑی ہے۔ پاکستانی افواج نے نہ صرف اس کی چھاؤنیاں تباہ کی ہیں بلکہ اس کے فوجیوں کو مارا بھی ہے۔جان کیری نے سشما سوراج کو دو مرتبہ فون کیا جس کا مطلب پاکستان کو تسلی دینا ہے کہ ہم نے بھارت کو روک دیا ہے لہٰذا پاکستان اب کارروائی نہ کرے جبکہ پاکستانی افواج اس میں بالکل واضح ہیں کہ بھارت اگر ایسی کوئی خلاف ورزی کرے تو اسے کیسے جواب دینا ہے ۔
اس معاملے پر وزیراعظم پاکستان نے جو بیانات دیے ہیں وہ بہت پہلے دیے جانے چاہیے تھے تاکہ دنیا کوعلم ہوتا کہ پاکستان بھی اس حوالے سے تیار بیٹھا ہے اور اپنا بھرپور دفاع کرنا جانتا ہے۔ پاکستان کو بیرونی سے زیادہ اندرونی مسائل کا سامنا ہے ،ہمارے اندرونی مسائل دو طرح کے ہیں، پہلا یہ کہ ہماری لیڈر شپ باصلاحیت نہیں ہے ، دوسرا یہ کہ اس کی ساکھ بری طرح متاثر ہے لہٰذا جب قیادت کی ساکھ اچھی نہ ہو تو معاملات بہتر نہیں چلتے۔ ہماری سفارتکاری بہت کمزور ہے، دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کیا ہے، ہمارا قومی ایجنڈا کیا ہے؟ افسوس ہے کہ نہ ہی ہماری کوئی خارجہ پالیسی ہے اور نہ قومی ایجنڈا، اگر خارجہ پالیسی ہے تو کسی کو علم نہیں ہے کہ اسے آگے کیسے بڑھانا ہے۔
ہم نے یمن اور سعودیہ کے مسئلے کو بگاڑدیا، ہم بہتر طریقے سے مسئلہ حل کرتے اورسعودی عرب کو اس مسئلے سے بچا لیتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ بھارت نے اڑی واقعہ کا الزام پاکستان پر لگایا گیا ہے لیکن ایسی صورتحال میں وزیراعظم ملک سے باہر رہے۔مودی اپنے ملک میں پاکستان مخالف ایجنڈے پر سرگرم ہے، اس نے سندھ طاس معاہدے کے خاتمے کے لیے اجلاس بھی بلایا لیکن ہم نے اس پر کیا کیا؟ ایسی صورتحال میں وزیراعظم کو ملک فوراََ واپس آجانا چاہیے تھا مگر وہ اس وقت نہیں آئے۔18ستمبر کو اڑی واقعہ ہوا، آرمی چیف نے اس دن ہی تمام کورکمانڈرز کا اجلاس بلایا اور 19ستمبر کو فوج نے اس حوالے سے بیان دیا لیکن سول حکومت نے کچھ نہیں کیا۔
ایسی صورتحال میں اس موقف کو ہوا دی جارہی ہے کہ حکومت اور فوج کی سوچ مختلف ہے، بھارت عالمی سطح پر اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے لہٰذا وزیراعظم کو سنجیدگی سے معاملات کو آگے بڑھانا چاہیے۔ کشمیر ہمارا حصہ ہے لیکن اقوام متحدہ میں ہم اتنے کمزور رہے کہ برہان وانی کا نام تو لیا لیکن اسے شہید نہیں کہہ سکے، وزیراعظم وہاں یہ نہیں کہہ سکے کہ کشمیر میں بے گناہ لوگوں کا خون بہایا جارہا ہے، ان کا قتل عام ہورہا ہے جبکہ سشما سوراج نے بلوچستان کے حوالے سے کہا کہ پاکستان وہاں قتل عام کررہا ہے ۔
افسوس ہے کہ ہم یکسو نہیں ہیں، ہمارے اندر بہت بڑی خلاء ہے، ہمارے رویے درست نہیںہیں اور پالیسی کا فقدان ہے جبکہ حکومت نے حق حکمرانی ادا کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ہماری اندرونی صورتحال بہت خراب ہوچکی ہے، ہم اسلامی دنیا سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کھڑی ہوگی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہم آپس میں کتنے متحد ہیں؟ ہم تو خود تقسیم ہیں۔ مشکل مسئلہ بیرونی نہیں اندرونی ہے۔
بیرونی مسئلہ تو بالکل واضح ہے کہ دنیا بحر ہند کنٹرول کرنا چاہتی ہے، دنیا چاہتی ہے کہ گوادر نہ بنے اور اگر بنے تو اس پر ان کا قبضہ ہو۔ گوادر سے نکلنے والے راستوں پر صورتحال کشیدہ بنا دی گئی ہے، یمن کی صورتحال بھی اسی لیے خراب کی گئی، بھارت، امریکا بیس معاہدہ، پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ بھی اسی لیے ہوا ہے۔ مسئلہ بھارت کا نہیں ہے،مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہم خود کو ٹھیک کرلیں گے، کیا ہم قومی سطح پر وہ پالیسی بنا لیں گے جو پاکستان کے مفاد میں ہے، اگر ہم پاکستان کے مفادات کی نگہداشت کے لیے پالیسی بنا لیں تو آگے چل سکتے ہیں۔
گوادر کے معاملے پر عرب ممالک کو بھی تحفظات ہیں، اگر ہمارے کسی دوست ملک اور ہمارے مفادات میں ٹکراؤ ہے تو ہمیں تمام معاملات کو بہتر طریقے سے حل کرنا چاہیے۔ کشمیر علاقائی نہیں نظریاتی مسئلہ ہے، اگر ہم اسے پس پشت ڈالیں گے تو یہ مسئلہ ختم ہوجائے گا۔ ہمیں چین کی مثال دی جاتی ہے لیکن چین اور ہمارے حالات مختلف ہیں، چین کے متنازعہ علاقوں سے اس کے وجود کو فرق نہیں پڑتا مگر آج ہم کشمیر کے مسئلے کو چھوڑ دیںتو پاکستان کے وجود پر سوالیہ نشان آجائے گا لہٰذاہمیں کشمیر کے موضوع پر اپنا قومی بیانیہ درست کرنا ہوگا، تب ہی دنیا ہماری بات سنے گی۔
مولانا طاہر محمود اشرفی
( چیئرمین پاکستان علماء کونسل)
اقوام متحدہ کے دورہ کے دوران سعودی ولی عہد اور ترک صدر نے وزیراعظم نوازشریف کو ہر مشکل حالات میں ساتھ کھڑا رہنے کی یقین دہانی کرائی ہے لہٰذا اگر پاکستان پر جنگ مسلط کی جاتی ہے تو ماسوائے بنگلہ دیش کے تمام اسلامی ممالک پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
''رابطہ عالم اسلامی'' اور ''او آئی سی'' میں کشمیر سیل موجود ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی مسئلہ کشمیر موجود ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس مسئلے کو بہتر طریقے سے اجاگر کرنے کے لیے ہماری حکومت کیا کررہی ہے؟ افسوس ہے کہ پاکستانی سفارتخانوں نے مسئلہ کشمیر پر بھرپور آواز نہیں اٹھائی، صرف سرتاج عزیز یا سیکرٹری خارجہ کی بنیاد پر سفارتکاری کو بہتر قرار نہیں دیا جاسکتا۔پوری دنیا اور عالم اسلام میں کشمیر کے حوالے سے ہمدردی موجود ہے، ضرورت یہ ہے کہ ہم عالمی سطح پر بھرپور مہم چلائیں اور دیگر ممالک کو بھی اپنے ساتھ ملائیں تاکہ مسئلہ کشمیر حل کیا جاسکے۔
اس وقت عالم اسلام مسائل میں پھنسا ہوا ہے، ہر ملک میں صورتحال خراب ہے،سعودی عرب پر یمن کے حوثی حملے کر رہے ہیں، شام، عراق، یمن، تیونس و کوئی بھی ایسا اسلامی ملک نظر نہیں آتا جو اپنی طاقت پر کھڑا ہو بلکہ اندرونی و بیرونی مسائل بہت بڑھ گئے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہمیں خود ان کے پاس جانا چاہیے کہ ہمارے لیے بھی وقت نکالیں، پاکستان کو اس صورتحال میں سعودی عرب، قطر، ایران، ترکی و دیگر دوست ممالک کو ساتھ ملانا چاہیے لیکن افسوس ہے کہ عالم اسلام میں مسئلہ کشمیر پیچھے چلا گیا ہے اور ہمیں ابھی تک سفارتی محاذ پر کوئی بڑی کامیابی دکھائی نہیں دی۔
ہم نے یمن اور سعودی عرب کے مسئلے کو اچھے انداز میں حل نہیں کیا بلکہ نئے اختلافات کو جنم دیا ہے، اگر اسے درست طریقے سے حل کیا جاتاتو عرب دنیا میں یہ احساس کبھی پیدا نہ ہوتا کہ پاکستان مشکل حالات میں ان کی مدد کے لیے ہچکچاہٹ کا شکار ہے یا ان کے ساتھ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود شاہ سلمان نے مودی کی سازش کو ناکام بنایا ہے کہ وہ عرب ممالک کو اسلحہ اور فوج دینے کو تیار تھا۔ یہ چیزیں پھر جنرل راحیل شریف نے درست کیں لہٰذا اگر فوجی قیادت معاملات درست کرسکتی ہے تو وزارت خارجہ کیوں نہیں ۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے، کشمیری اپنی آزادی کی تحریک لڑ رہے ہیں جسے برہان وانی شہید نے نئی زندگی دی ہے۔
وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں اس کا نام لے کر درست کیا بلکہ انہیں مزید بہتر طریقے سے مسئلہ کشمیر اٹھانا چاہیے تھا۔ بلوچستان میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن بھارت عالمی سطح پر پراپیگنڈہ کررہا ہے تو پھر ہم مسئلہ کشمیر پر ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہیں جو اقوام متحدہ کی قراردادوں میں موجود ہے۔ہم ہمیشہ سے امن کی بات کرتے آئے ہیں لیکن اس کے بدلے میں بھارت نے ہمیں کیا دیا، وزیراعظم پاکستان کی مودی کی حلف برادی کی تقریب میں شرکت، مودی کا پاکستان میں استقبال ،کارگل میں جنگ بندی وہ دیگر معاملات سے ہم نے بھارت کو امن دیا لیکن اس نے کونسا امن قائم کیا، اگر کارگل کی جنگ مزید چار دن چلتی تو آج بھارت کی صورتحال مختلف ہوتی۔ ''را'' افغانستان میں کام کررہی ہے اوربھارت کے وہاں 14کونسل خانے ہیں ۔
کل بھوشن بھارتی ایجنٹ ہے، شیعہ ،سنی اور بلوچ، غیر بلوچ فسادات اس نے کرائے، اس کے علاوہ بھارت کے سیکورٹی ایڈوائزر نے اعتراف کیا کہ تحریک طالبان پاکستان اس نے بنائی، ہمارے 80ہزار لوگ انہوں نے ماردیے لیکن ہم نے تو کسی بھارتی کو نہیں مارا۔ بھارت امن کو ہماری کمزوری سمجھتا ہے، اب ہمیں سخت رویہ اپنانا ہوگا۔
سلمان عابد
(دانشور)
پاک، بھارت تناؤ نیا نہیں ہے مگر حالیہ کشیدگی بھارت کی سیکولر سیاست میں تبدیلی کی وجہ سے ہے۔ مودی ہندوآتہ کی بنیاد پر اقتدار میں آئے اوروہ اسے فروغ دے رہے ہیں ۔مودی نے کشمیر کے حوالے سے جارحانہ رویہ اپنایا، کشمیر اٹوٹ انگ ہے کی شق متعارف کرائی جس کا کشمیر میں سخت ردعمل آیا، اس وجہ سے بھارت کی اندرونی سیاست تناؤ کا شکار ہے اور یہی تناؤ، پاک، بھارت کشیدگی کی وجہ بن رہا ہے۔
اس وقت بھارت دنیا کو یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی آماجگاہ ہے اور پاکستان کی ریاست ان کی سہولت کار ہے، اس لیے جب پاکستان یا دنیا کی طرف سے مذاکرات کی بات کی جاتی ہے تو وہ یہ کہہ کر مذاکرات کا دروازہ بھی بند کردیتے ہیں کہ آپ دہشت گردوں کو سپورٹ کرتے ہیں، پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کی جو جنگ لڑ رہا ہے، اس پر بھی سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی ''را'' اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی کے درمیان گٹھ جوڑ سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا اور اس میں بلوچستان اور کراچی میں مداخلت کے معاملات ہیں۔
بھارت میں اعتدال پسند لوگ کمزور جبکہ جارحانہ رویہ رکھنے والے طاقت میں نظر آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس وقت فضا کشیدہ ہے، مودی نے اپنے اس طرز سیاست سے خود ہندوستان کے لیے مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں حملے کرکے بنیادی طور نہ صرف لفظوں کی جنگ چھیڑ دی ہے بلکہ عملی جنگ کا آغاز بھی کردیا ہے۔ جس طرح بھارتی ڈی جی ایم او اور حکومتی عہدیداران نے پریس کانفرنس کرکے سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کیا ہے اس سے نہ صرف وہ اپنی قوم بلکہ اپنے وزیراعظم کو بھی بیوقوف بنا رہے ہیں۔
بھارت کا یہ جنگی عمل ہمارے لیے کسی بھی طور قابل قبول نہیں ہے اور اس صورتحال میں پاکستان کا رویہ مثبت ہے۔ بھارتی میڈیا بھی اپنی قوم کو گمراہ کررہا ہے اور کشیدگی کی صورتحال کو کم کرنے کے بجائے ماحول کو مزید خراب کررہا ہے جبکہ پاکستانی میڈیا کا ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت سیکورٹی کونسل کا اجلاس انتہائی اہم ہے، اس میں سول ملٹری قیادت کی طرف سے واضح پیغام گیا ہے کہ فوج اور سول حکومت بھارتی جارحیت کو کسی بھی طور قبول نہیں کریں گے بلکہ اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔اپوزیشن کی جانب سے قومی اتفاق رائے مثبت ڈویلپمنٹ ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے یہ پیغام آیا ہے کہ وہ بھارتی جارحیت کے خلاف اپنے سیاسی اختلافات بھلا کر متحد ہے اور عمران خان نے بھی اپنے جلسے میں مودی کو واضح پیغام دیا۔ حالیہ صورتحال میں بھارتی سیاسی اشرافیہ کو بھی چاہیے کہ بھارت میں جو کچھ غلط ہورہا ہے اس حوالے سے اپنی حکومت پر دباؤ ڈالے کیونکہ موجودہ حالات بھارت کے مفاد میں بھی نہیں ہیں۔مودی سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد میں بھی رکاوٹ بن رہا ہے اس کے علاوہ سارک کانفرنس ملتوی کرا کر اس نے نہ صرف اپنی دشمنی کا ثبوت دیا ہے بلکہ دیگر سارک ممالک کو بھی پاکستان مخالفت پر اکسایا ہے حالانکہ سارک ایسا پلیٹ فارم ہے جس سے اس خطے کے مسائل حل ہوسکتے ہیں لہٰذا مود ی نے اپنے اس اقدام سے خطے کی سیاست کو نقصان پہنچایا ہے۔
اس وقت بھارت ہتھیاروں کی جنگ چاہتا ہے جبکہ ہمیں سفارتی محاذ پر جنگ لڑنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں تجربہ کار لوگوں سے سفارتکاری کاکام لے کر دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ بھارت خطے کی صورتحال خراب کررہا ہے۔ افسوس ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی میں خامیاں ہیں، ہم کشمیر اور بھارت کے مسئلے کو علیحدہ تناظر میں دیکھتے ہیں حالانکہ یہ مسئلہ ایک ہے، ہم کشمیر کے حوالے سے تو عالمی فورمز پر بات کرتے ہیں لیکن پاکستان میں بھارتی مداخلت و جارحیت پر بات نہیں کی جاتی لہٰذا ہمیں صرف مسئلہ کشمیر پر ہی نہیں بلکہ بھارت کی مجموعی پالیسی پر بات کرنی چاہیے۔
وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں صرف کشمیر پر بات کی، انہیں کل بھوشن یادو اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت سمیت دیگر مسائل پر بھی بات کرنی چاہیے تھی۔ ہم امن اور مذاکرات کی بات کرتے ہیں لیکن بھارت اسے ہماری کمزوری سمجھتا ہے جبکہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر علاقائی سیاست کو مضبوط کرنا ہے تو پھر ہمیں ایک دوسرے کے مسائل کو دیکھنا ہوگا اور دہشت گردی کے خلاف مل کر کام کرنا ہوگا۔
نریندر مودی سی پیک منصوبے، کشمیر اور پاکستان کے خلاف بیانات سے اپنے لوگوں کو اشتعال دلا رہے ہیں، وہ اپنی اندرونی ناکامی کو پاک، بھارت کشیدگی کی آڑ میں چھپانا چاہتے ہیں اور آنے والے چار، پانچ ریاستی انتخابات میں پاکستان مخالف جذبات سے اپنی سیاست کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں۔ افسوس ہے کہ ہم بھارت پر عالمی دباؤ ڈالنے میں ناکام رہے ہیں۔بھارت دنیا میں یہ تاثر پھیلا رہا ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت نہیں ہے جبکہ یہاں معاملات فوج کے کنٹرول میں ہیں، فوج حکومت کو کام نہیں کرنے دے رہی لہٰذا ہم کس سے بات کریں۔
ایسے حالات میں جب ہم اقوام متحدہ، او آئی سی یا کسی اور عالمی فورم پر جاتے ہیں تو ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ماضی میں ان فورمز کے ذریعے کتنے مسائل حل ہوئے ؟عالمی دنیا سفارتکاری اور طاقت کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہے، چین اور بھارت دنیا کی دو بڑی منڈیاں ہیں لہٰذا عالمی برادری مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت پر دباؤ ضرور ڈالے گی لیکن اس حد تک نہیں جائے گی کہ بھارت ناراض ہو لہٰذا ہمیں عالمی دنیا سے زیادہ توقعات نہیں رکھنی چاہئیں۔ہمیں اس وقت اپنی اندورنی سیاست کو درست کرنا ہوگا، بھارت کے حوالے سے اپنا بیانیہ درست کرنا ہوگا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی۔
بھارت، پاکستان کو دیوار سے لگانے کی کوشش کررہا ہے ، اس پر جنگی جنون سوار ہے، جبکہ ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ پاک، بھارت ایٹمی طاقتیں ہیں لہٰذا اب ان کے درمیان جنگ مسائل کا حل نہیں ہے۔ اس وقت ہمیں جارحانہ رویے کے بجائے سنجیدگی کے ساتھ پاکستان کو مستحکم کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا کیونکہ خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال میں بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی بھرپور کوشش کرے گا تاکہ ایران، چین، افغانستان و دیگر ممالک پاکستان کے ساتھ معاملات کو بہتر طریقے سے آگے نہ بڑھا سکیں۔
پروفیسر شبیراحمد خان
( پروفیسر شعبہ سیاسیات،جامعہ پنجاب)
وزیراعظم نوازشریف کے بارے میں تاثر تھا کہ وہ بھارت کے معاملے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں کیونکہ بہت سارے معاملات میں انہوں نے وہ موقف نہیں اپنایا جو اپنانا چاہیے تھا۔ اقوام متحدہ کے خطاب سے یہ تاثر ذائل ہوگیا ہے اور وزیراعظم اس دباؤ سے نکل آئے ہیں جس کا انہیں سیاسی طور پر بھی فائدہ ہوگا۔ وزیراعظم کے خطا ب سے ایسا تاثر ملا کہ شایدہماری پالیسی کا مرکز بھارت ہے۔
پاکستان کا مسئلہ صرف بھارت اور کشمیر نہیں ہے، مسئلہ کشمیر اہم ہے لیکن ماضی میں بھی اسے پس پشت ڈالا گیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو دیگر معاملات پر بھی کام کرنا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہمیں ٹریپ کیا گیا کہ ہم اتنے بڑے فورم پر اپنے معاشی مقاصد و دیگر معاملات پر بات نہیں کرسکے، حالانکہ پاکستان اس فورم کو دیگر ممالک کے سربراہان سے تجارت و دیگر معاملات کے لیے استعمال کرسکتا تھا۔ میرے نزدیک اس فورم پر پاکستان کی توجہ اقتصادی ترقی ہونی چاہیے تھی۔ ہم دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب کررہے ہیں لیکن ہم امریکا سمیت دنیا کو یہ باور کرانے میں ناکام ہوئے ہیں کہ ہم دہشت گردی نہیں کر رہے۔
ماضی کی کچھ پالیسیوں کی وجہ سے ہم دفاعی پوزیشن میں ہیں جبکہ بھارت کا رویہ جارحانہ ہے حالانکہ وہ کشمیر میں ظلم کررہا ہے۔ ہمیں مسئلہ کشمیر کو سیاسی مسئلے کے طور پر اور اس بحث سے نکل کر کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، انسانی ہمدردی کے طور پر لڑنا چاہیے اور اس میں پوری دنیا ہمارا ساتھ دینے پر تیار ہوسکتی ہے۔ بھارتی جنتا پارٹی کو مقامی سطح پر ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، مودی گجرات کے سیاستدان ہیں، وہ اسی پالیسی پر کام کررہے ہیں اور اب وہ پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دے کر ملکی سیاست میں فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ بھارتی پالیسی کا مرکز پاکستان نہیں ہے بلکہ وہ اپنے تمام معاملات کو ساتھ لے کر چل رہا ہے، وہ چین، ایران، امریکا، افغانستان و دیگر ممالک کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھا رہا ہے،ہمیں بھی اپنے تمام مسائل کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔
پاکستان اور بھارت ، ایٹمی طاقتیں ہیں، اب ان کے درمیان جنگ کی آپشن نہیں ہے، بھارت بخوبی جانتا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ جنگ نہیں کر سکتا کیونکہ دفاع کے حوالے سے پاکستان کا شمار مضبوط طاقتوں میں ہوتا ہے، وہ صرف ہماری توجہ معاشی ترقی و دیگر معاملات سے ہٹانا چاہتا ہے۔ ہمیں دنیا کو باور کرانا چاہیے کہ ہم پر امن ملک ہیں، ہم جنگ نہیں امن چاہتے ہیں لیکن بھارت ہم پر جارحیت مسلط کررہا ہے۔ موجودہ حالات میں سول، ملٹری ملاقاتیں زیادہ ہونی چاہئیں تھی، دفاع کمیٹی کا اجلاس ہونا چاہیے تھا اور اس پر بھرپور موقف آنا چاہیے تھا۔
بھارت نے سارک کانفرنس ملتوی کرا کے اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی کوشش سے پاکستان دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت نے اڑی واقعہ کا ڈرامہ رچا کر اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا جبکہ بعد ازاں لائن آف کنٹرول کی خلاف وزری کرکے سرجیکل سٹرائیک کا جھوٹا دعویٰ کیا جسے پاکستان نے مسترد کردیا اور بھارت کو لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کا منہ توڑ جواب دیا۔ ''پاک بھارت کشیدگی اور عالمی برادری کا کردار'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کی گیا جس میںمختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
جنرل (ر) غلام مصطفی
(دفاعی تجزیہ نگار)
بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر حملے غیر متوقع نہیں تھے، ایسا خیال کیا جارہا تھا کہ وہ ایسی حرکت ضرورکرے گا جس سے دنیا کو یہ پیغام ملے کہ بھارت بدلہ لینے کے لیے تیار بھی ہے اور قابل بھی۔بھارتی ڈی جی ایم او ، دفاع کمیٹی اور سیاسی قیادت کے بیانات پہلے سے ہی طے تھے، بھارت اس ڈرامے سے دنیا کو یہ بتا رہا ہے کہ اس نے اڑی واقعہ کا بدلہ لیا ہے۔ حالیہ واقعہ لائن آف کنٹرول کی نارمل خلاف ورزی تھی، بھارت نے آزاد کشمیر میں چار جگہ ایساکیا جس کا ہماری فوج نے بھرپور جواب دیا، ابھی تک بھارت مقبوضہ کشمیر میں پڑی اپنے فوجیوں کی لاشیں نہیں اٹھا سکا۔
بھارت اپنی عوام کو بے وقوف بنا رہا ہے اور اسے سرجیکل سٹرائیک کا نام دے کر بڑا کارنامہ ثابت کرنا چاہتا تھا مگر اسے منہ کی کھانا پڑی ہے۔ پاکستانی افواج نے نہ صرف اس کی چھاؤنیاں تباہ کی ہیں بلکہ اس کے فوجیوں کو مارا بھی ہے۔جان کیری نے سشما سوراج کو دو مرتبہ فون کیا جس کا مطلب پاکستان کو تسلی دینا ہے کہ ہم نے بھارت کو روک دیا ہے لہٰذا پاکستان اب کارروائی نہ کرے جبکہ پاکستانی افواج اس میں بالکل واضح ہیں کہ بھارت اگر ایسی کوئی خلاف ورزی کرے تو اسے کیسے جواب دینا ہے ۔
اس معاملے پر وزیراعظم پاکستان نے جو بیانات دیے ہیں وہ بہت پہلے دیے جانے چاہیے تھے تاکہ دنیا کوعلم ہوتا کہ پاکستان بھی اس حوالے سے تیار بیٹھا ہے اور اپنا بھرپور دفاع کرنا جانتا ہے۔ پاکستان کو بیرونی سے زیادہ اندرونی مسائل کا سامنا ہے ،ہمارے اندرونی مسائل دو طرح کے ہیں، پہلا یہ کہ ہماری لیڈر شپ باصلاحیت نہیں ہے ، دوسرا یہ کہ اس کی ساکھ بری طرح متاثر ہے لہٰذا جب قیادت کی ساکھ اچھی نہ ہو تو معاملات بہتر نہیں چلتے۔ ہماری سفارتکاری بہت کمزور ہے، دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کیا ہے، ہمارا قومی ایجنڈا کیا ہے؟ افسوس ہے کہ نہ ہی ہماری کوئی خارجہ پالیسی ہے اور نہ قومی ایجنڈا، اگر خارجہ پالیسی ہے تو کسی کو علم نہیں ہے کہ اسے آگے کیسے بڑھانا ہے۔
ہم نے یمن اور سعودیہ کے مسئلے کو بگاڑدیا، ہم بہتر طریقے سے مسئلہ حل کرتے اورسعودی عرب کو اس مسئلے سے بچا لیتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ بھارت نے اڑی واقعہ کا الزام پاکستان پر لگایا گیا ہے لیکن ایسی صورتحال میں وزیراعظم ملک سے باہر رہے۔مودی اپنے ملک میں پاکستان مخالف ایجنڈے پر سرگرم ہے، اس نے سندھ طاس معاہدے کے خاتمے کے لیے اجلاس بھی بلایا لیکن ہم نے اس پر کیا کیا؟ ایسی صورتحال میں وزیراعظم کو ملک فوراََ واپس آجانا چاہیے تھا مگر وہ اس وقت نہیں آئے۔18ستمبر کو اڑی واقعہ ہوا، آرمی چیف نے اس دن ہی تمام کورکمانڈرز کا اجلاس بلایا اور 19ستمبر کو فوج نے اس حوالے سے بیان دیا لیکن سول حکومت نے کچھ نہیں کیا۔
ایسی صورتحال میں اس موقف کو ہوا دی جارہی ہے کہ حکومت اور فوج کی سوچ مختلف ہے، بھارت عالمی سطح پر اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے لہٰذا وزیراعظم کو سنجیدگی سے معاملات کو آگے بڑھانا چاہیے۔ کشمیر ہمارا حصہ ہے لیکن اقوام متحدہ میں ہم اتنے کمزور رہے کہ برہان وانی کا نام تو لیا لیکن اسے شہید نہیں کہہ سکے، وزیراعظم وہاں یہ نہیں کہہ سکے کہ کشمیر میں بے گناہ لوگوں کا خون بہایا جارہا ہے، ان کا قتل عام ہورہا ہے جبکہ سشما سوراج نے بلوچستان کے حوالے سے کہا کہ پاکستان وہاں قتل عام کررہا ہے ۔
افسوس ہے کہ ہم یکسو نہیں ہیں، ہمارے اندر بہت بڑی خلاء ہے، ہمارے رویے درست نہیںہیں اور پالیسی کا فقدان ہے جبکہ حکومت نے حق حکمرانی ادا کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ہماری اندرونی صورتحال بہت خراب ہوچکی ہے، ہم اسلامی دنیا سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کھڑی ہوگی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہم آپس میں کتنے متحد ہیں؟ ہم تو خود تقسیم ہیں۔ مشکل مسئلہ بیرونی نہیں اندرونی ہے۔
بیرونی مسئلہ تو بالکل واضح ہے کہ دنیا بحر ہند کنٹرول کرنا چاہتی ہے، دنیا چاہتی ہے کہ گوادر نہ بنے اور اگر بنے تو اس پر ان کا قبضہ ہو۔ گوادر سے نکلنے والے راستوں پر صورتحال کشیدہ بنا دی گئی ہے، یمن کی صورتحال بھی اسی لیے خراب کی گئی، بھارت، امریکا بیس معاہدہ، پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ بھی اسی لیے ہوا ہے۔ مسئلہ بھارت کا نہیں ہے،مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہم خود کو ٹھیک کرلیں گے، کیا ہم قومی سطح پر وہ پالیسی بنا لیں گے جو پاکستان کے مفاد میں ہے، اگر ہم پاکستان کے مفادات کی نگہداشت کے لیے پالیسی بنا لیں تو آگے چل سکتے ہیں۔
گوادر کے معاملے پر عرب ممالک کو بھی تحفظات ہیں، اگر ہمارے کسی دوست ملک اور ہمارے مفادات میں ٹکراؤ ہے تو ہمیں تمام معاملات کو بہتر طریقے سے حل کرنا چاہیے۔ کشمیر علاقائی نہیں نظریاتی مسئلہ ہے، اگر ہم اسے پس پشت ڈالیں گے تو یہ مسئلہ ختم ہوجائے گا۔ ہمیں چین کی مثال دی جاتی ہے لیکن چین اور ہمارے حالات مختلف ہیں، چین کے متنازعہ علاقوں سے اس کے وجود کو فرق نہیں پڑتا مگر آج ہم کشمیر کے مسئلے کو چھوڑ دیںتو پاکستان کے وجود پر سوالیہ نشان آجائے گا لہٰذاہمیں کشمیر کے موضوع پر اپنا قومی بیانیہ درست کرنا ہوگا، تب ہی دنیا ہماری بات سنے گی۔
مولانا طاہر محمود اشرفی
( چیئرمین پاکستان علماء کونسل)
اقوام متحدہ کے دورہ کے دوران سعودی ولی عہد اور ترک صدر نے وزیراعظم نوازشریف کو ہر مشکل حالات میں ساتھ کھڑا رہنے کی یقین دہانی کرائی ہے لہٰذا اگر پاکستان پر جنگ مسلط کی جاتی ہے تو ماسوائے بنگلہ دیش کے تمام اسلامی ممالک پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
''رابطہ عالم اسلامی'' اور ''او آئی سی'' میں کشمیر سیل موجود ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی مسئلہ کشمیر موجود ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس مسئلے کو بہتر طریقے سے اجاگر کرنے کے لیے ہماری حکومت کیا کررہی ہے؟ افسوس ہے کہ پاکستانی سفارتخانوں نے مسئلہ کشمیر پر بھرپور آواز نہیں اٹھائی، صرف سرتاج عزیز یا سیکرٹری خارجہ کی بنیاد پر سفارتکاری کو بہتر قرار نہیں دیا جاسکتا۔پوری دنیا اور عالم اسلام میں کشمیر کے حوالے سے ہمدردی موجود ہے، ضرورت یہ ہے کہ ہم عالمی سطح پر بھرپور مہم چلائیں اور دیگر ممالک کو بھی اپنے ساتھ ملائیں تاکہ مسئلہ کشمیر حل کیا جاسکے۔
اس وقت عالم اسلام مسائل میں پھنسا ہوا ہے، ہر ملک میں صورتحال خراب ہے،سعودی عرب پر یمن کے حوثی حملے کر رہے ہیں، شام، عراق، یمن، تیونس و کوئی بھی ایسا اسلامی ملک نظر نہیں آتا جو اپنی طاقت پر کھڑا ہو بلکہ اندرونی و بیرونی مسائل بہت بڑھ گئے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہمیں خود ان کے پاس جانا چاہیے کہ ہمارے لیے بھی وقت نکالیں، پاکستان کو اس صورتحال میں سعودی عرب، قطر، ایران، ترکی و دیگر دوست ممالک کو ساتھ ملانا چاہیے لیکن افسوس ہے کہ عالم اسلام میں مسئلہ کشمیر پیچھے چلا گیا ہے اور ہمیں ابھی تک سفارتی محاذ پر کوئی بڑی کامیابی دکھائی نہیں دی۔
ہم نے یمن اور سعودی عرب کے مسئلے کو اچھے انداز میں حل نہیں کیا بلکہ نئے اختلافات کو جنم دیا ہے، اگر اسے درست طریقے سے حل کیا جاتاتو عرب دنیا میں یہ احساس کبھی پیدا نہ ہوتا کہ پاکستان مشکل حالات میں ان کی مدد کے لیے ہچکچاہٹ کا شکار ہے یا ان کے ساتھ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود شاہ سلمان نے مودی کی سازش کو ناکام بنایا ہے کہ وہ عرب ممالک کو اسلحہ اور فوج دینے کو تیار تھا۔ یہ چیزیں پھر جنرل راحیل شریف نے درست کیں لہٰذا اگر فوجی قیادت معاملات درست کرسکتی ہے تو وزارت خارجہ کیوں نہیں ۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے، کشمیری اپنی آزادی کی تحریک لڑ رہے ہیں جسے برہان وانی شہید نے نئی زندگی دی ہے۔
وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں اس کا نام لے کر درست کیا بلکہ انہیں مزید بہتر طریقے سے مسئلہ کشمیر اٹھانا چاہیے تھا۔ بلوچستان میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن بھارت عالمی سطح پر پراپیگنڈہ کررہا ہے تو پھر ہم مسئلہ کشمیر پر ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہیں جو اقوام متحدہ کی قراردادوں میں موجود ہے۔ہم ہمیشہ سے امن کی بات کرتے آئے ہیں لیکن اس کے بدلے میں بھارت نے ہمیں کیا دیا، وزیراعظم پاکستان کی مودی کی حلف برادی کی تقریب میں شرکت، مودی کا پاکستان میں استقبال ،کارگل میں جنگ بندی وہ دیگر معاملات سے ہم نے بھارت کو امن دیا لیکن اس نے کونسا امن قائم کیا، اگر کارگل کی جنگ مزید چار دن چلتی تو آج بھارت کی صورتحال مختلف ہوتی۔ ''را'' افغانستان میں کام کررہی ہے اوربھارت کے وہاں 14کونسل خانے ہیں ۔
کل بھوشن بھارتی ایجنٹ ہے، شیعہ ،سنی اور بلوچ، غیر بلوچ فسادات اس نے کرائے، اس کے علاوہ بھارت کے سیکورٹی ایڈوائزر نے اعتراف کیا کہ تحریک طالبان پاکستان اس نے بنائی، ہمارے 80ہزار لوگ انہوں نے ماردیے لیکن ہم نے تو کسی بھارتی کو نہیں مارا۔ بھارت امن کو ہماری کمزوری سمجھتا ہے، اب ہمیں سخت رویہ اپنانا ہوگا۔
سلمان عابد
(دانشور)
پاک، بھارت تناؤ نیا نہیں ہے مگر حالیہ کشیدگی بھارت کی سیکولر سیاست میں تبدیلی کی وجہ سے ہے۔ مودی ہندوآتہ کی بنیاد پر اقتدار میں آئے اوروہ اسے فروغ دے رہے ہیں ۔مودی نے کشمیر کے حوالے سے جارحانہ رویہ اپنایا، کشمیر اٹوٹ انگ ہے کی شق متعارف کرائی جس کا کشمیر میں سخت ردعمل آیا، اس وجہ سے بھارت کی اندرونی سیاست تناؤ کا شکار ہے اور یہی تناؤ، پاک، بھارت کشیدگی کی وجہ بن رہا ہے۔
اس وقت بھارت دنیا کو یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی آماجگاہ ہے اور پاکستان کی ریاست ان کی سہولت کار ہے، اس لیے جب پاکستان یا دنیا کی طرف سے مذاکرات کی بات کی جاتی ہے تو وہ یہ کہہ کر مذاکرات کا دروازہ بھی بند کردیتے ہیں کہ آپ دہشت گردوں کو سپورٹ کرتے ہیں، پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کی جو جنگ لڑ رہا ہے، اس پر بھی سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی ''را'' اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی کے درمیان گٹھ جوڑ سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا اور اس میں بلوچستان اور کراچی میں مداخلت کے معاملات ہیں۔
بھارت میں اعتدال پسند لوگ کمزور جبکہ جارحانہ رویہ رکھنے والے طاقت میں نظر آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس وقت فضا کشیدہ ہے، مودی نے اپنے اس طرز سیاست سے خود ہندوستان کے لیے مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں حملے کرکے بنیادی طور نہ صرف لفظوں کی جنگ چھیڑ دی ہے بلکہ عملی جنگ کا آغاز بھی کردیا ہے۔ جس طرح بھارتی ڈی جی ایم او اور حکومتی عہدیداران نے پریس کانفرنس کرکے سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کیا ہے اس سے نہ صرف وہ اپنی قوم بلکہ اپنے وزیراعظم کو بھی بیوقوف بنا رہے ہیں۔
بھارت کا یہ جنگی عمل ہمارے لیے کسی بھی طور قابل قبول نہیں ہے اور اس صورتحال میں پاکستان کا رویہ مثبت ہے۔ بھارتی میڈیا بھی اپنی قوم کو گمراہ کررہا ہے اور کشیدگی کی صورتحال کو کم کرنے کے بجائے ماحول کو مزید خراب کررہا ہے جبکہ پاکستانی میڈیا کا ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت سیکورٹی کونسل کا اجلاس انتہائی اہم ہے، اس میں سول ملٹری قیادت کی طرف سے واضح پیغام گیا ہے کہ فوج اور سول حکومت بھارتی جارحیت کو کسی بھی طور قبول نہیں کریں گے بلکہ اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔اپوزیشن کی جانب سے قومی اتفاق رائے مثبت ڈویلپمنٹ ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے یہ پیغام آیا ہے کہ وہ بھارتی جارحیت کے خلاف اپنے سیاسی اختلافات بھلا کر متحد ہے اور عمران خان نے بھی اپنے جلسے میں مودی کو واضح پیغام دیا۔ حالیہ صورتحال میں بھارتی سیاسی اشرافیہ کو بھی چاہیے کہ بھارت میں جو کچھ غلط ہورہا ہے اس حوالے سے اپنی حکومت پر دباؤ ڈالے کیونکہ موجودہ حالات بھارت کے مفاد میں بھی نہیں ہیں۔مودی سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد میں بھی رکاوٹ بن رہا ہے اس کے علاوہ سارک کانفرنس ملتوی کرا کر اس نے نہ صرف اپنی دشمنی کا ثبوت دیا ہے بلکہ دیگر سارک ممالک کو بھی پاکستان مخالفت پر اکسایا ہے حالانکہ سارک ایسا پلیٹ فارم ہے جس سے اس خطے کے مسائل حل ہوسکتے ہیں لہٰذا مود ی نے اپنے اس اقدام سے خطے کی سیاست کو نقصان پہنچایا ہے۔
اس وقت بھارت ہتھیاروں کی جنگ چاہتا ہے جبکہ ہمیں سفارتی محاذ پر جنگ لڑنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں تجربہ کار لوگوں سے سفارتکاری کاکام لے کر دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ بھارت خطے کی صورتحال خراب کررہا ہے۔ افسوس ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی میں خامیاں ہیں، ہم کشمیر اور بھارت کے مسئلے کو علیحدہ تناظر میں دیکھتے ہیں حالانکہ یہ مسئلہ ایک ہے، ہم کشمیر کے حوالے سے تو عالمی فورمز پر بات کرتے ہیں لیکن پاکستان میں بھارتی مداخلت و جارحیت پر بات نہیں کی جاتی لہٰذا ہمیں صرف مسئلہ کشمیر پر ہی نہیں بلکہ بھارت کی مجموعی پالیسی پر بات کرنی چاہیے۔
وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں صرف کشمیر پر بات کی، انہیں کل بھوشن یادو اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت سمیت دیگر مسائل پر بھی بات کرنی چاہیے تھی۔ ہم امن اور مذاکرات کی بات کرتے ہیں لیکن بھارت اسے ہماری کمزوری سمجھتا ہے جبکہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر علاقائی سیاست کو مضبوط کرنا ہے تو پھر ہمیں ایک دوسرے کے مسائل کو دیکھنا ہوگا اور دہشت گردی کے خلاف مل کر کام کرنا ہوگا۔
نریندر مودی سی پیک منصوبے، کشمیر اور پاکستان کے خلاف بیانات سے اپنے لوگوں کو اشتعال دلا رہے ہیں، وہ اپنی اندرونی ناکامی کو پاک، بھارت کشیدگی کی آڑ میں چھپانا چاہتے ہیں اور آنے والے چار، پانچ ریاستی انتخابات میں پاکستان مخالف جذبات سے اپنی سیاست کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں۔ افسوس ہے کہ ہم بھارت پر عالمی دباؤ ڈالنے میں ناکام رہے ہیں۔بھارت دنیا میں یہ تاثر پھیلا رہا ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت نہیں ہے جبکہ یہاں معاملات فوج کے کنٹرول میں ہیں، فوج حکومت کو کام نہیں کرنے دے رہی لہٰذا ہم کس سے بات کریں۔
ایسے حالات میں جب ہم اقوام متحدہ، او آئی سی یا کسی اور عالمی فورم پر جاتے ہیں تو ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ماضی میں ان فورمز کے ذریعے کتنے مسائل حل ہوئے ؟عالمی دنیا سفارتکاری اور طاقت کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہے، چین اور بھارت دنیا کی دو بڑی منڈیاں ہیں لہٰذا عالمی برادری مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت پر دباؤ ضرور ڈالے گی لیکن اس حد تک نہیں جائے گی کہ بھارت ناراض ہو لہٰذا ہمیں عالمی دنیا سے زیادہ توقعات نہیں رکھنی چاہئیں۔ہمیں اس وقت اپنی اندورنی سیاست کو درست کرنا ہوگا، بھارت کے حوالے سے اپنا بیانیہ درست کرنا ہوگا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی۔
بھارت، پاکستان کو دیوار سے لگانے کی کوشش کررہا ہے ، اس پر جنگی جنون سوار ہے، جبکہ ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ پاک، بھارت ایٹمی طاقتیں ہیں لہٰذا اب ان کے درمیان جنگ مسائل کا حل نہیں ہے۔ اس وقت ہمیں جارحانہ رویے کے بجائے سنجیدگی کے ساتھ پاکستان کو مستحکم کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا کیونکہ خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال میں بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی بھرپور کوشش کرے گا تاکہ ایران، چین، افغانستان و دیگر ممالک پاکستان کے ساتھ معاملات کو بہتر طریقے سے آگے نہ بڑھا سکیں۔
پروفیسر شبیراحمد خان
( پروفیسر شعبہ سیاسیات،جامعہ پنجاب)
وزیراعظم نوازشریف کے بارے میں تاثر تھا کہ وہ بھارت کے معاملے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں کیونکہ بہت سارے معاملات میں انہوں نے وہ موقف نہیں اپنایا جو اپنانا چاہیے تھا۔ اقوام متحدہ کے خطاب سے یہ تاثر ذائل ہوگیا ہے اور وزیراعظم اس دباؤ سے نکل آئے ہیں جس کا انہیں سیاسی طور پر بھی فائدہ ہوگا۔ وزیراعظم کے خطا ب سے ایسا تاثر ملا کہ شایدہماری پالیسی کا مرکز بھارت ہے۔
پاکستان کا مسئلہ صرف بھارت اور کشمیر نہیں ہے، مسئلہ کشمیر اہم ہے لیکن ماضی میں بھی اسے پس پشت ڈالا گیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو دیگر معاملات پر بھی کام کرنا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہمیں ٹریپ کیا گیا کہ ہم اتنے بڑے فورم پر اپنے معاشی مقاصد و دیگر معاملات پر بات نہیں کرسکے، حالانکہ پاکستان اس فورم کو دیگر ممالک کے سربراہان سے تجارت و دیگر معاملات کے لیے استعمال کرسکتا تھا۔ میرے نزدیک اس فورم پر پاکستان کی توجہ اقتصادی ترقی ہونی چاہیے تھی۔ ہم دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب کررہے ہیں لیکن ہم امریکا سمیت دنیا کو یہ باور کرانے میں ناکام ہوئے ہیں کہ ہم دہشت گردی نہیں کر رہے۔
ماضی کی کچھ پالیسیوں کی وجہ سے ہم دفاعی پوزیشن میں ہیں جبکہ بھارت کا رویہ جارحانہ ہے حالانکہ وہ کشمیر میں ظلم کررہا ہے۔ ہمیں مسئلہ کشمیر کو سیاسی مسئلے کے طور پر اور اس بحث سے نکل کر کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، انسانی ہمدردی کے طور پر لڑنا چاہیے اور اس میں پوری دنیا ہمارا ساتھ دینے پر تیار ہوسکتی ہے۔ بھارتی جنتا پارٹی کو مقامی سطح پر ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، مودی گجرات کے سیاستدان ہیں، وہ اسی پالیسی پر کام کررہے ہیں اور اب وہ پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دے کر ملکی سیاست میں فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ بھارتی پالیسی کا مرکز پاکستان نہیں ہے بلکہ وہ اپنے تمام معاملات کو ساتھ لے کر چل رہا ہے، وہ چین، ایران، امریکا، افغانستان و دیگر ممالک کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھا رہا ہے،ہمیں بھی اپنے تمام مسائل کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔
پاکستان اور بھارت ، ایٹمی طاقتیں ہیں، اب ان کے درمیان جنگ کی آپشن نہیں ہے، بھارت بخوبی جانتا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ جنگ نہیں کر سکتا کیونکہ دفاع کے حوالے سے پاکستان کا شمار مضبوط طاقتوں میں ہوتا ہے، وہ صرف ہماری توجہ معاشی ترقی و دیگر معاملات سے ہٹانا چاہتا ہے۔ ہمیں دنیا کو باور کرانا چاہیے کہ ہم پر امن ملک ہیں، ہم جنگ نہیں امن چاہتے ہیں لیکن بھارت ہم پر جارحیت مسلط کررہا ہے۔ موجودہ حالات میں سول، ملٹری ملاقاتیں زیادہ ہونی چاہئیں تھی، دفاع کمیٹی کا اجلاس ہونا چاہیے تھا اور اس پر بھرپور موقف آنا چاہیے تھا۔