38 ارب ڈالر کا دفاعی معاہدہ
دنیا جن سنگین مسائل سے دوچار ہے، ان میں کشمیر اور فلسطین سرفہرست ہیں
دنیا جن سنگین مسائل سے دوچار ہے، ان میں کشمیر اور فلسطین سرفہرست ہیں۔ بدقسمتی سے ان دونوں مسائل کا تعلق مذہبی تقسیم سے ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ ان مسائل کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کرتی کہ 68 سال سے جاری خون خرابہ ختم ہوتا، لیکن ترقی یافتہ دنیا کے سیاسی اور اقتصادی مفادات ان دونوں مسائل کی راہ کا پتھر بنے ہوئے ہیں۔
روس کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بنا ہوا ہے۔ اس حوالے سے امریکا کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ بھارت اور اسرائیل پر ہر ممکنہ دباؤ ڈالے کہ وہ ان مسائل کو حل کرنے پر مجبور ہو جائیں لیکن امریکا ان ملکوں پر دباؤ ڈالنے کے بجائے ایسے اقدامات کر رہا ہے جو ان ملکوں کو اپنے اپنے موقف پر اڑے رہنے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدے، سول نیوکلیئر معاہدے اور تجارتی حجم میں اضافے کی کوششیں ایسے اقدامات ہیں جن سے بھارت مسئلہ کشمیر پر اپنے غیر جمہوری موقف پر اور زیادہ مضبوط ہو رہا ہے۔
ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ایران پر جو اقتصادی پابندیاں لگائیں وہ ایرانی معیشت کی ترقی کی راہ میں ایسی رکاوٹ بن گئیں کہ ایران کو اپنے ایٹمی پروگرام سے دستبردار ہونا پڑا۔ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری دنیا کے لیے یقیناً ایک ایسا خطرہ ہے کہ اسے روکنا بالکل جائز ہے، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ایران کے حریف اسرائیل کو تو ایٹمی ملک بننے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی اور ایران کو ایٹمی راستے پر آگے بڑھنے سے روک دیا گیا اور اسرائیل کی قدم قدم پر اس طرح سرپرستی کی گئی کہ اس کا رویہ مسئلہ فلسطین پر اور سخت ہو گیا۔
اس حوالے سے امریکا نے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو منی سپر پاور بنانے کے لیے پچھلے ہفتے اسرائیل سے ایک ایسا دفاعی معاہدہ کیا ہے کہ اسرائیل مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اور زیادہ مضبوط بلکہ خطرناک پوزیشن میں آ گیا ہے۔
اس تازہ معاہدے کے تحت واشنگٹن تل ابیب کو دس سال کے دوران 38 ارب ڈالر فوجی امداد کے طور پر ادا کرے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکا کا یہ معاہدہ دفاعی معاہدوں کی تاریخ کا سب سے بڑا معاہدہ ہو گا۔ اس معاہدے کے مطابق 38 ارب ڈالر کی اس بھاری رقم کو اسرائیل ہتھیار خریدنے کے علاوہ اپنی دفاعی صنعت کو فروغ دینے میں بھی استعمال کر سکے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تاریخ کے اس سب سے بڑے معاہدے کی وجہ سے مسئلہ فلسطین کے حل کرنے میں کوئی مدد ملے گی یا مسئلہ فلسطین پر اسرائیل کی پالیسی میں اور زیادہ سختی آئے گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا نوٹس دنیا کی بھلائی چاہنے والوں اور دنیا میں امن قائم کرنے کی خواہش رکھنے والوں کو لینا چاہیے۔
کشمیر اور فلسطین دو ایسے ایشو ہیں جو دنیا میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ اور پھیلاؤ کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ دنیا میں اب تک جو قتل وغارت گری ہوتی رہی ہے اس میں مذہبی تضادات ایک اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں جن کا سلسلہ صلیبی جنگوں سے لے کر کشمیر اور فلسطین تک پھیلا ہوا ہے یہ کتنی بڑی حماقت یا عیاری ہے کہ مذہبی انتہاپسندی المعروف دہشتگردی کے خلاف کھربوں ڈالر لگا کر جنگ لڑنے والا امریکا بذاتِ خود بالواسطہ طور پر مذہبی انتہا پسندی کے فروغ اور اس میں شدت کا باعث بن رہا ہے۔ دنیا کے 7 ارب غریب عوام دو وقت کی روٹی کے محتاج بنے ہوئے ہیں اور امریکا 38 ارب ڈالر کی بھاری رقم اسرائیل کو ہتھیار خریدنے اور ہتھیاروں کی صنعت لگانے کے لیے دے رہا ہے۔
دور حاضر کا سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی ہے اگر کشمیر اور فلسطین کے مسائل حل ہو جاتے تو مذہبی انتہا پسندی اور دہشتگردی کے لیے کوئی جواز نہ ہوتا۔ اس حقیقت کے پس منظر میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ کشمیر اور فلسطین کے مسائل دنیا میں دہشتگردی اور مذہبی انتہا پسندی کے فروغ اور پھیلاؤ میں سب سے اہم اور بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں امریکا سمیت تمام مغربی ملک اقتصادی مفادات کے لیے دنیا کے امن کو جس طرح خطرات میں دھکیل رہے ہیں اگر اس رویے کو نہ روکا گیا تو آنے والے دنوں میں مغربی ملکوں کا حال بھی پاکستان اور افغانستان جیسا ہو جائے گا۔
کشمیر میں آزادی کی جنگ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے پچھلے دو ماہ کے دوران پورا مقبوضہ کشمیر کرفیو کی زد میں ہے سو سے زیادہ کشمیری عوام بھارتی فوجوں کی گولیوں اور ایک خطرناک ہتھیار پیلٹ گن سے جاں بحق اور ہزاروں کشمیری زخمی ہو گئے ہیں اور صورت حال دن بدن بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے پاکستان کی حکومت کشمیری عوام کے جانی نقصان پر شدید احتجاج کر رہی ہے مگر پاکستان کی مذہبی انتہا پسند طاقتوں کو کشمیر کی قتل و غارت گری سے تقویت حاصل ہو رہی ہے اور لبرل اور اعتدال پسند طاقتیں کمزور ہو رہی ہیں اور عام آدمی بھی کشمیر اور فلسطین میں ہونے والے مظالم کی وجہ انتہا پسندی کی طرف مائل ہو رہا ہے۔
یہ دھماکا خیز صورت حال مذہبی انتہا پسندی کے لیے بہت بڑی تقویت کا باعث بن رہی ہے مسلم ملکوں خصوصاً پاکستان کے عوام جیسا صبح سے شام تک ٹی وی چینلوں پر کشمیری عوام کو بھارتی فوجوں کی گولیوں کی زد میں دیکھتے ہیں تو خود بخود ان میں مذہبی جنون فروغ پانے لگتا ہے جو کسی حوالے سے بھی اس خطے اور دنیا کے مفاد میں نہیں ہے۔
مغرب کے حکمرانوں کو تو دنیا کے مستقبل کی کوئی پروا نہیں ہے لیکن مغرب کے اہل علم، اہل دانش یقیناً اس خطرناک صورت حال سے سخت مضطرب ہوں گے کیا یہ صورت حال دنیا کو تباہی کی طرف لے جانے کا ذریعہ نہیں بن رہی ہے۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اگر خدانخواستہ صورتحال دونوں ملکوں کو 1965ء اور 1971ء کی طرف لے جاتی ہے تو کیا ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے خطرات پیدا نہیں ہو نگے۔؟ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں خصوصاً امریکا کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ کشمیر اور فلسطین میں سلگنے والی آگ کو شعلوں میں بدلنے سے روکیں اور اپنی اندھی سیاست اور اقتصادی مفادات کے حصار سے باہر نکل کر دنیا کے حل طلب مسئلوں کشمیر اور فلسطین کو بلا تاخیر اور بلا امتیاز حل کروانے کی ٹھوس تدابیر کریں۔