پاکستان نااُمید نہیں ہے

مودی اینڈ کمپنی کو مگر اپنے ہی ملک میں شرمندگی اٹھانا پڑی ہے

tanveer.qaisar@express.com.pk

اگر عالمی سطح پر دروغ گوئی کا کوئی مقابلہ ہوتا تو یقینا بھارت پہلی پوزیشن لیتا۔ جھوٹ بولنے کا مقابلہ جیتنے پر اسے سونے کا تمغہ بھی مل سکتا تھا۔ نریندر مودی کی قیادت میں آج کا بھارت سمجھتا ہے کہ کذب گوئی سے وہ عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرکے اپنے کئی دیگر مقاصد بھی حاصل کر سکتا ہے۔ اس کام کے لیے مودی نے سشما سوراج، راجناتھ سنگھ اور اجیت ڈوول کو بھرتی کر رکھا ہے۔

ان تینوں نے خصوصی طور پر گزشتہ تین ہفتوں کے دوران پاکستان کے خلاف جھوٹ بولنے کے ریکارڈ قائم کیے ہیں لیکن دنیا ان کی دروغ گوئی پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ تازہ واقعہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سشما سوراج کی جھوٹ پر مبنی تقریر ہے جسے دنیا کے کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔ اٹھارہ ستمبر 2016ء کو مقبوضہ کشمیر میں اُڑی کے واقعہ پر اڑائی گئی بھارتی دھول پر بھی عالمی برادری میں سے کوئی یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا ہے۔

بھارت کو یقین تھا کہ وہ یو این او کے عالمی فورم پر پاکستان کے خلاف اتنی گرد اڑائے گا کہ حقیقت نظروں سے اوجھل ہو کر رہ جائے گی اور وہ اسی کے پردے میں پاکستان کے خلاف اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اب اس میدان میں اسے ناکامی اور نامرادی کا منہ دیکھنا پڑا ہے تو بھارت پر پاگل پن کے دورے پڑ رہے ہیں۔ اسی پاگل پَن میں اس نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے خلاف اس کا ''سرجیکل اسٹرائیک'' کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے۔

مودی اینڈ کمپنی کو مگر اپنے ہی ملک میں شرمندگی اٹھانا پڑی ہے جب بھارتی اپوزیشن رہنماؤں نے اس بارے میں ثبوت مانگے تو ثبوت نہ مودی کے پاس تھے، نہ سشما سوراج کے پاس، نہ بھارتی آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ سہاگ کے پاس اور نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں متعین بھارتی قابض فوجوں کے سربراہ جنرل رنویر سنگھ کے پاس؛ چنانچہ بھارتی اپوزیشن لیڈر سیتا رام یچری ایسے سیاستدانوں کو کہنا پڑا ہے کہ نریندر مودی نے جھوٹ تو بولا لیکن سوچ سمجھ کر نہیں۔ اجئے شکلا ایسے بھارتی دانشوروں نے بھی اپنی تازہ تحریروں میں اپنے ملک کی فیصلہ ساز قوتوں سے سخت مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان سے دشمنی کے جذبات سے مغلوب ہو کر بھارت اپنے حواس میں نہیں رہا۔ اُڑی کے واقعہ نے، جس میں اٹھارہ بھارتی فوجی ہلاک ہوئے، اسے حواس باختہ کر دیا ہے۔ اسی کیفیت میں بھارتی مقتدر پارٹی اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ متضاد بیانات مسلسل داغتی چلی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر ایک طرف تو بھارت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے پاکستان کے خلاف، ایل او سی کے ساتھ، سرجیکل اسٹرائیکس میں ''کامیابی'' حاصل کی ہے اور دوسری طرف جب اسی علاقے میں جدید اسلحے سے لیس ایک بھارتی فوجی (چندوبابو لال) پاکستان کے خلاف حملے کی نیت سے سرحد پار کرتا ہوا پاکستان فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہو جاتا ہے تو بھارت واویلا مچاتے ہوئے کہنا شروع کر دیتا ہے: ''نہیں، نہیں، چندو بابو لال تو ''غلطی سے'' سرحد پار کر گیا ہے۔'' اب چندو بابو لال کی گرفتاری کے کارن مودی، ڈوول، سشما سوراج ہی پوری بھارتی قوم کے سامنے شرمندہ نہیں ہو رہے بلکہ پوری بھارتی فوج کا بھی سر شرم سے جھک گیا ہے۔


اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں اور پاکستانی فورسز نے اس سارے بھارتی تماشے میں صبر اور تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ بھارت کی تو حتمی کوشش اور خواہش تھی کہ وزیراعظم نواز شریف اور سپہ سالار جنرل راحیل شریف انگیخت کا شکا ہو جائیں لیکن پاکستان بھارتی غچے میں نہ آ سکا اور وہ مسلسل امن پسندی اور صلح جوئی کا مظاہرہ کرتا رہا۔ پاکستان اس کوشش میں ہے کہ جنوبی ایشیا کا یہ خطہ جنگ کے مہیب اور مہلک بادلوں سے محفوظ ہی رہے۔

جنرل اسمبلی میں وزیراعظم نواز شریف کا تازہ خطاب اسی کوشش کی ایک کڑی تھی جس میں متحمل لہجے میں کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و تشدد کا راستہ روکنے اور کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دینے کا بہترین اور شریفانہ عالمی طریقہ یہی ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سرپرستی میں ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن مقبوضہ کشمیر بھیجا جائے۔ پاکستان کسی بھی طرح بھارت سے جنگ نہیں چاہتا، بلکہ مستقل بنیادوں پر اپنے اس بڑے ہمسائے سے پائیدار امن کا متمنی ہے۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی صاحبہ نے بھی اقوامِ متحدہ سے خطاب کرتے ہوئے اقوامِ عالم کو پاکستان کی انھی امن کوششوں کا پیغام پہنچایا ہے۔

بھارت پاکستان کو دیے گئے ''ایم ایف این'' اسٹیٹس کو بھی منسوخ کرنا چاہتا ہے۔ وہ پچاس سالہ پرانے سندھ طاس معاہدے پر بھی خطِ تنسیخ کھینچنے کی باتیں کرتا سنائی دے رہا ہے۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران پاکستان نے 67 کروڑ ڈالر کا سامنا بھارت کو بھیجا جب کہ اسی عرصے میں بھارت نے پاکستان کو دو ارب ڈالر کا سامان بھجوایا۔بھارتی اشتعال انگیز حرکتوں کے باوجود پاکستان کو امید ہے کہ امن ہی کا پھریرا لہراتا رہے گا۔ جنگ کی نوبت آئے گی نہ آنی ہی چاہیے۔ یکم اکتوبر 2016ء کو بھی پاکستان نے قیامِ امن اور امن کے پھیلاؤ کی ایک اور اعلیٰ سطحی کوشش کی ہے۔

پاکستان کے سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے اسلام آباد میں بروئے کار اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے پانچوں رکن ممالک (امریکا، چین، فرانس، برطانیہ، روس) کے سفیروں سے تفصیلی ملاقات کی ہے۔ ان کے ساتھ پاکستان آرمی کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا بھی تھے۔ دونوں صاحبان نے محترم سفیروں کو بتایا ہے کہ بھارت کس طرح پاکستان اور مقبوضہ کشمیر میں زیادتیوں کا مرتکب ہو رہا ہے اور یہ کہ پاکستان خود دہشتگردی کا ہدف بنتے ہوئے بھی ہر حالت میں امن کا خواہاں ہے۔

میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا نے مذکورہ سفارتکاروں کو حقائق کی روشنی میں بریف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ بھارت کی طرف سے ''سرجیکل اسٹرائیکس'' کا دعویٰ بالکل بے بنیاد ہے اور یہ کہ بھارت نے 28/29 ستمبر 2016ء کی درمیانی رات آزاد کشمیر میں، ایل او سی پر، کئی مقامات پر پاکستان کے خلاف بے تحاشہ فائرنگ کی، حالانکہ پاکستان نے کوئی اشتعال انگیزی کی ہی نہ تھی۔ ان پانچوں سفیروں کو دی گئی بریفنگ میں جنرل شمشاد مرزا نے سوال اٹھایا کہ بھارت نے پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ تین سطحی (Layers) سیکیورٹی کا انتظام کر رکھا ہے، ایسے میں یہ بھلا کیونکر ممکن ہے کہ پاکستان سے کوئی درانداز اُڑی جا کر بھارتی فوجی بیرکوں کو اڑا دے؟ پاکستان کی طرف سے امن کے لیے یہ تازہ ترین کوشش اس امر کی آئینہ دار ہے کہ پاکستان ابھی بھارت سے ناامید نہیں ہوا ہے، حالانکہ بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف شیطانیاں مسلسل جاری ہیں۔
Load Next Story