پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کی تلقین

اڑی فوجی ہیڈ کوارٹر پر حملہ 17 ستمبر کو ہوا۔ اس حوالے سے فوری اہم ترین تاریخ 25 ستمبر تھی

www.facebook.com/shah Naqvi

NEW DELHI:
اڑی فوجی ہیڈ کوارٹر پر حملہ 17 ستمبر کو ہوا۔ اس حوالے سے فوری اہم ترین تاریخ 25 ستمبر تھی۔ جس میں پتہ چلنا تھا کہ مودی حکومت کے آیندہ کے ارادے کیا ہیں۔ اڑی حملے کے بعد بھارتی حکومت شدید دباؤ میں آ گئی۔ بھارتی میڈیا اور عوام اپنی حکومت پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ پاکستان پر فوری حملہ کر دیا جائے۔ بھارتی وزیراعظم کو دہرے دباؤ کا سامنا تھا کہ ایک طرف اندرونی دباؤ تھا تو دوسری طرف بیرونی دباؤ تھا جو بھارت کو کسی مہم جوئی سے باز رکھتے ہوئے پاکستان کے خلاف جنگ سے روک رہا تھا ۔مودی بڑے دباؤ کا شکار تھے۔

ایک طرف بھارتی میڈیا تھا جو پاکستان پر شدید الزام تراشی کرتے ہوئے جنگ کا ڈھول پیٹ کر ہسٹریائی کیفیت میں مبتلا کر رہا تھا۔ پوری دنیا خاص طور پر برصغیر کی پونے دو ارب کی آبادی اس خوف میں مبتلا تھی کہ کہیں جنگ نہ چھڑ جائے۔ لیکن 24 ستمبر کی شام نے اس جنگی مومنٹم کو توڑ دیا جب بھارتی وزیراعظم نے کیرالہ میں ہزاروں افراد کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ڈرامائی انداز میں کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہیں (مجمعے نے تالیاں بجائیں) لیکن یہ جنگ سرحدوں پر نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ غربت اور بیروز گاری کے خلاف لڑی جائے گی۔

دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ غربت بیروز گاری اور بیماری کے خلاف لڑیں۔ دیکھتے ہیں اس محاذ پر پہلے کون جیتتا ہے۔ جلسے میں موجود لوگوں نے اس بات پر خوب تالیاں بجائیں۔ دیکھا سیاستدان عوام کو کس آسانی سے بے وقوف بناتے ہیں۔ تقریر کو بیلنس کرنے کے لیے مودی کو پاکستان پر الزام تراشیاں بھی کرنا پڑیں۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی تاریخوں کے اثرات کی۔ یعنی 25 تاریخ کے اثرات 24 تاریخ کی شام سے ہی آنا شروع ہو گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی تاریخ کے اثرات ایک دن پہلے یا خاص طور پر 8 سے 12 گھنٹے پہلے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ 24 کی شام کیرالہ میں مودی کی تقریر نے جنگ کے فوری خطرے کو ٹال دیا۔ لیکن منفی شدید اثرات بدستور ہیں۔ کیونکہ اس وقت ممبئی دہشتگرد حملے کے اثرات اپنے عروج پر ہیں۔

یہ منفی اثرات ہی تھے کہ پہلے بھارتی حکومت نے 29,28 ستمبر کو اسلام آباد میں منعقدہ سارک کانفرنس کا بائیکاٹ کیا اس کے بعد انڈیا کی تقلید میں بنگلہ دیش' نیپال'بھوٹان 'افغانستان نے بھی آنے سے انکار کر دیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اس وقت برصغیر کے سارے ممالک بھارت کے ساتھ ہیں۔ ہمارے ہمسایے افغانستان سمیت سوائے ایران اور چین کے۔ نریندر مودی کے بیان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کانگریس کے مرکزی رہنما نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم بڑھکیں مارنے کے بجائے اپنے گھر کی طرف توجہ دیں۔ انھوں نے کہا کہ مودی کی طرف سے اچانک پاکستان کے عوام کو لیکچر بازی سے لگتا ہے کہ وہ اگلا الیکشن پاکستان میں لڑنا چاہتے ہیں۔

جہاں تک وزیراعظم مودی کے پاکستان کو دیے گئے اس چیلنج کا تعلق ہے کہ غربت بیروز گاری ناخواندگی کے خلاف لڑائی لڑی جائے اور دیکھتے ہیں یہ لڑائی کون جیتتا ہے۔ پاکستان یا ہندوستان۔ اس حوالے سے عالمی بینک کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان کی45 فیصد آبادی یعنی 8 کروڑ کے قریب افراد خط غربت سے نیچے ہیں جب کہ بھارت میں یہی شرح 58 فیصد ہے یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارت کے 70 کروڑ سے زائد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔


عوام کے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں ملکوں کے تقریباً ایک ارب انسانوں کو روزانہ ایک وقت کی روٹی بڑی مشکل سے میسر آتی ہے۔ جب انسانوں کی اتنی بڑی تعداد کا یہ حال ہو آزادی پانے کے ستر سال بعد بھی تو ان میں اور جانوروں میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ دونوں ملکوں میں اس غربت کی بنیادی اور سب سے بڑی وجہ ہتھیاروں پر خرچ ہونے والا پیسہ ہے۔ ضروری ہے کہ ان بدترین حالات کے پیش نظر بھارت مسئلہ کشمیر جلد از جلد پرامن طور پر حل کریں تا کہ ہتھیاروں پر خرچ ہونے والا پیسہ انسانوں کی اتنی بڑی تعداد کو خط غربت سے باہر نکالنے پر صرف ہو۔

پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ تنازعہ کشمیر ہے جس نے دونوں ملکوں کو ایٹمی جنگ کے دھانے پر پہنچا دیا ہے۔ پوری دنیا اس صورت حال پر پریشان ہے۔

اوڑی حملے کے حوالے سے امریکا کا کہنا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کے خاتمے کے لیے بہترین حل مذاکرات ہیں پاکستان اور بھارت اپنے اختلافات کا حل سفارتکاری سے نکالیں تشدد سے نہیں۔ وہائٹ ہاؤس کے ترجمان نے اس حوالے سے بڑا اہم انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران اس سلسلے میں ''اہم پیشرفت ہوئی ہے'' جس سے خطے میں استحکام آئے گا۔ امید ہے دونوں ملک ایسی پیشرفت جاری رکھیں گے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ترجمان وہائٹ ہاؤس نے اوڑی حملے کی براہ راست مذمت سے گریز کرتے ہوئے کہا وہ دنیا بھر میں جہاں دہشتگردی ہو اس کی مذمت کرتے ہیں۔

تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ امریکا نے پاکستان اور بھارت کو خبردار کیا ہے کہ دونوں ایٹمی ملک کسی بھی تنازع میں ایک دوسرے کو جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی نہ دیں۔ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ایٹمی طاقت کی حامل ریاستوں کو جوہری ہتھیاروں اور میزائل ٹیکنالوجی کے استعمال کے سلسلے میں ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یہی بات روس نے بھی کہی ہے کہ دونوں ملک تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے باہمی تنازعات کو سیاسی اور سفارتی ذرایع سے حل کریں۔

چین نے بھی مذاکرات کے ذریعے تنازعات کو حل کرنے پر زور دیا ہے۔ دوسری طرف ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے پاکستان اور بھارت سے اپیل کی ہے کہ دونوں ملک مکمل طور پر صبر و تحمل سے کام لیں۔ آخری اطلاع یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ایک سینئر مشیر نے اسلام آباد میں ایک اہم شخصیت سے رابطہ کر کے وزیراعظم نواز شریف تک پیغام پہنچایا ہے کہ بھارت کشیدگی میں مزید اضافہ نہیں چاہتا۔ آخری بات یہ کہ گزشتہ کالم میں اڑی حملے کے حوالے سے جو تاریخیں دی گئی تھیں وہ تمام کی تمام پوری ہوئیں' چاہے وہ کیرالہ میں مودی کی تقریر ہو یا سارک کانفرنس کی منسوخی یا نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک اور بھارت کا مزید کشیدگی سے باز آنا۔

اس سال کا دسمبر اور اگلے سال کی پہلی سہ ماہی بتائے گی کہ پاکستان اور بھارت کے مقدر میں جنگ ہے یا امن۔

سیل فون:0346-4527997
Load Next Story