بڑھاپا
ہر انسان کا ایک بچپن ہوتا ہے اور خوبصورت دور کی سہانی یادیں ہوتی ہیں
ISLAMABAD:
ہر انسان کا ایک بچپن ہوتا ہے اور خوبصورت دور کی سہانی یادیں ہوتی ہیں، ماضی کے ہر بچے کو ایک چیز یاد آتی ہے، اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے بچپن میں کچھ بزرگ ہوا کرتے تھے۔ سفید لباس اور سفید بالوں والے بابے، لکڑی ٹیکتے، کبھی کھانستے اور کبھی ڈانٹتے۔ اسے یاد آتا ہے بچپن میں ہر کوئی ان بزرگوں کی عزت کرتا، ان کا کہا آخری ہوتا۔ بچپن میں بچے محسوس کرتے ہیں کہ یہ بزرگ ہمیشہ سے ایسے ہی ہوتے ہونگے، جب لڑکپن کی حد میں آتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ نہیں یہ بابے بھی کبھی جوان ہوا کرتے تھے، اب تصویروں نے، البم نے اور مووی فلموں نے بہت کچھ ظاہر کر دیا ہے۔ بچے جب اپنے دور کے بزرگوں کی جوانی کی تصاویر دیکھتے ہیں حیران رہ جاتے ہیں۔
جب ان بزرگوں کو جوانی میں میدان میں کھیلتے، تھری پیس یا سفاری سوٹ پہنے اور دوڑتے بھاگتے انداز کی تصویر دیکھتے ہیں تو کچھ سوچتے ہیں۔ سب کچھ سوچتے ہیں لیکن ایک بات نہیں سوچتے، بچپن کے لوگ تو چھوڑیں جو لوگ عمر کی پچپن بہاریں دیکھ چکے ہیں وہ بھی نہیں سوچتے۔ یہ بالکل نہیں سوچتے کہ ہمیں بھی ایسا ہونا ہے۔
ایس ایم لا کالج کے دور میں پرنسپل جسٹس حازق الخیری نے کالج کے بانی پرنسپل کے اعزاز میں استقبالیے کا اہتمام کیا۔ سووینئر کی اشاعت ہوئی اور ہال کا نام ''حسن عبدالرحمن ہال''رکھا گیا۔ جب تصاویر دیکھیں تو بانی پرنسپل کو جوان، متحرک اور تازہ دم دیکھا پھر وہ دن آگیا جس کا سب کو انتظار تھا۔
مہمان خصوصی کو دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔ وہ بڑی مشکل سے چل سکتے تھے۔ تقریر بھی وہ خود نہ کرسکے بلکہ ان کی بیٹی شیری رحمان نے ان کی جانب سے تقریر پڑھی۔ مستقبل کے وکلا تقریباً بائیس چوبیس سال کے نوجوان حیران رہ گئے، انھیں پندرہ بیس سال قبل کی تصاویر اور ہر وقت گزرنے کے بعد والی شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ حیران رہ گئے زندگی کے اس المیے کو دیکھ کر واقعی بچپن، لڑکپن، جوانی، ادھیڑعمری، بڑھاپا اور شدید بڑھاپا زندگی کی حقیقتیں ہیں۔ طاقت اور جوانی کے دور میں ہم آنے والے وقت کو بھلائے رکھتے ہیں۔
بھارتی چینل سے ایک سکھ کا انٹرویو آرہا تھا۔ سردار جی کی عمر ساٹھ سال تھی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ انھوں نے اپنی عمر بھر کی کمائی اپنے بچوں پر لگادی۔ انھیں پڑھانے میں، مکان بنانے کے لیے اور اولاد کی شادیوں پر، اب ان کے پاس نہ پیسے ہیں نہ وقت، نہ طاقت اور نہ جاب، وہ ایک اور المیہ کا اظہار کر رہے تھے۔ ان کا کہناتھا کہ اب اوسط عمر بڑھ گئی ہے، صحت کا خیال رکھنے، دواؤں اور ٹیکنالوجی کے سبب وہ خوفزدہ تھے کہ اب ان کا آگے کا وقت کیسے گزرے گا۔ پرائیویٹ جاب ہو تو پنشن بھی نہیں ملتی۔ ایسا المیہ دو قریبی جاننے والوں کو دیکھ کر ہوا ہے۔
چھوٹی موٹی نوکری کے باوجود اپنے باس اور مخیر حضرات کی مدد سے دو بیٹوں کو ڈاکٹر بنایا۔ دینے والے جانتے تھے کہ اس آدمی کے بیٹے اچھے پڑھنے والے ہیں۔ اپنی تمام جمع پونجی اور عمر کی نقدی دو بچوں پر جھونکنے والا اب المیہ کا شکار ہے اس کے بعد میں آنے والے تین بچے اپنے والد کی کم توجہ کم پیسوں، کم کوالٹی ٹائم دینے کے سبب پریشانی کا شکار ہے۔
ایسا ہی المیہ ایک درمیانی درجے کے کاروباری شخص کے ساتھ پیش آیا، صرف امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار کرنے والے کی ظاہری جائیداد کم ہوتی ہے نہ دکان نہ فیکٹری اور نہ گودام، ایسے شخص نے اپنے دو بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ اور امریکا بھیجا۔ روپوں میں کمانے والے نے ڈالر اور پاؤنڈ بناکر بچوں کو پڑھایا۔ آج بچے تو پڑھ لکھ کر بڑے عہدوں پر فائز ہیں لیکن یہ شخص اپنی رقم گنوا بیٹھا ہے، وہ اپنی اولاد پر سرمایہ کاری کرچکا ہے۔
اب اس کے پاس کسی کو دینے کے لیے پانچ ہزار بھی نہیں ہیں۔ جو شخص پندرہ بیس سال قبل پچاس لاکھ فوراً نکال کر دے سکتا تھا اس کا یہ حال ہے کہ اب اس کے پاس نہ طاقت ہے، نہ وقت، جوانی اور نہ پیشہ یا پیسہ۔ اب اولاد اس کی ضروریات پوری کرے گی تو ہوگا۔ پانچ سال بعد اس شخص کو دیکھا تو وقت سے پندرہ سال زیادہ بوڑھا لگ رہا تھا۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہر شخص کو اپنے بچوں پر اخراجات کے لیے اپنے چادر اور اپنے کم عمر بچوں یا اپنی آنے والی اولاد کو نہیں دیکھنا چاہیے؟
ماموں یا چچا کے ساتھ جب کوئی فلم دیکھتے تو وہ ایک جملہ کہتے۔ ''بچپن میں یہ جملہ تو سمجھ میں آتا لیکن اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے''۔ وہ کسی اداکار کے بارے میں کہتے کہ یہ تو بالکل بوڑھا ہوگیا ہے۔ یہ تو اندازہ ہوتا کہ فنکار کسی بزرگ کا رول ادا کررہا ہے، اسکرین پر ایکٹر کو دیکھتے لیکن مفہوم سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ جن لوگوں نے اداکار کو بھرپور جوانی میں دیکھا ہو اور اب بڑھاپے کی طرف بڑھتے دیکھ رہے ہوں تو وہ ضرور فرق محسوس کرتے ہونگے۔
ہم نے امیتابھ بچن اور اداکار ندیم کو 70 اور 80 کے عشرے میں دیکھا تو وہ بڑے ہینڈسم اور اسمارٹ نظر آتے، اب دیکھتے ہیں تو فرق صاف دکھائی دیتا ہے۔ یہ انسانی مجبوری ہے کہ نہ کوئی ہمیشہ جوان رہتا ہے اور نہ صحت مند، نہ کوئی آب حیات پی کر آیا ہے کہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ یہ سب سمجھنے کے باوجود بھی انسان جوانی اور طاقت کے نشے میں چور رہتا ہے جب کہ وقت تو اچھے اچھوں کو پچھاڑ دیتا ہے۔
اداکاروں کی زندگی بوڑھاپے کی حقیقت کو جتنا سمجھا سکتی ہے اتنا کوئی نہیں سمجھاسکتا۔ کھلاڑی اور سیاستدان بھی یہ کام کرسکتے ہیں لیکن اداکاروں کی بات ہی کچھ اور ہے ان کی وقت گزرتے آنیوالی فلمیں صاف صاف ظاہر کردیتی ہیں کہ عمر بڑھ رہی ہے۔ نوجوان سے جوانی اور ادھیڑ عمری سے بڑھاپا اور پھر بالکل کمزوری چند تصویریں وہ کام دکھاسکتی ہیں جو شاید چند لائبریریاں بھی نہ کرسکیں۔ کامیاب اداکاروں نے خوب پیسہ اور ہر لمحے وقت کے گزرنے کی رفتار بتانیوالی فلمیں، فٹ رکھنے کے وسائل چوکس رہنے کی ترکیبیں اور ہر دم متحرک رکھنے والے اور آٹو گراف لیتے پرستار ان تمام تر سہولتوں کے باوجود اگر اداکار وقت کی رفتار کو نہیں روک سکتے تو کوئی اور کیسے روک سکتا ہے۔
مسئلہ یہاں آکر اٹکتا ہے۔ انسان جوانی میں بوڑھاپے کو محسوس نہیں کرتا اور نہ کرسکتا ہے وہ آنیوالے دس بیس سال بعد اپنی ہونے والی کمزوری، جسمانی طاقت کا اندازہ نہیں لگاتا پھر اسے لگتا ہے کہ جو طاقت، توانائی اسے چالیس پچاس سال کی عمر میں حاصل ہے وہ ستر اور 80 سال کی عمر میں بھی حاصل رہے گی۔ ایسا ہوتا نہیں۔ اس لیے ہم اپنی طاقت کے دور میں کسی سینئر سٹیزن کا خیال نہیں رکھتے، نہ قانون سازی کرتے ہیں اور نہ انھیں سہولتویں بہم پہنچانے کے اقدام کرتے ہیں، اسی لیے کہ ہم اپنے آپ کو ہر دم توانا سمجھنے کے خواب میں مگن رہتے ہیں نہ ریٹائرڈ لوگوں کے بارے میں کوئی سوچ اور نہ پنشن یافتہ لوگوں کے بارے میں بچار۔
کہتے ہیں کہ انسان دولت کمانے کی کوشش کرتا ہے اتنی کوشش کہ اس میں اپنی صحت برباد کر بیٹھتا ہے پھر صحت پانے کے لیے وہی دولت خرچ کرتا ہے زندہ اسی طرح رہتا ہے کہ کبھی مرنا نہیں ہے اور جب مرنے لگتا ہے تو یوں ظاہر کرتا ہے کہ جیسے اس نے کچھ دیکھا ہی نہیں یہ ناشکری انسانی زندگی میں اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ وہ آنے والے بڑھاپے اور موت کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتا۔ بڑھاپے کو آنے سے صرف ایک طریقے سے روکا جاسکتا ہے صرف ایک طریقہ کہ کوئی شخص جوانی میں ہی فوت ہوجائے حیرت ہے کہ لوگ جنت میں تو جانا چاہتے ہیں لیکن مرنا نہیں چاہتے۔
کیا کریں کہ نہ کوئی مرنا چاہتاہے اور نہ بوڑھا ہونا۔ یہ تو ہو نہیں سکتا اس کا حل کیا ہے؟ تصاویر کو غور سے دیکھیں مشہور شخصیات کی اخبار میں آنے والی مختلف ادوار کی مختلف تصاویر اس سے کیا ہوگا؟ ہم ہر دم اپنے والدین، عزیزوں، رشتے داروں اور جاننے والے بزرگوں کی خدمت پر کمر بستہ رہیںگے اس سے ہمیں یاد رہے گا اپنا آنے والا بڑھاپا۔ اخبارات میں دسمبر کے آخر میں سال بھر میں دنیا سے رخصت ہونے والوں کی تصاویر بھی شایع ہوتی ہیں انھیں دیکھ کر بھی ہمیں اپنی موت تو یاد رہے گی اور ساتھ ہی ساتھ اس سے قبل کا بڑھاپا۔