کیا اندر کیا باہر

اڑی میں انسانی جانیں ضایع ہوئیں، اس کاہمیں افسوس ہے

shehla_ajaz@yahoo.com

اڑی میں انسانی جانیں ضایع ہوئیں، اس کاہمیں افسوس ہے۔ یہ کس طرح ہوا؟ کس نے کروایا؟ یہ ایک ابہام ہے۔ شک بلاشبہ موجود ہے لیکن اس ابہام اور شک کی بنیاد پر کمر کس کر جنگ لڑلینے کی بات کرنا حماقت ہے، لیکن ایسا ہورہا ہے۔ جب سے یہ حادثہ ہوا ہے بیانات کا ایک بازار گرم ہے۔ اسے اگر ہم سیاسی ہتھکنڈے کہہ لیں تو زیادہ بہتر رہے گا۔ اس کے دو فائدے ہیں، ایک تو عوام اپنے غموں اور مسائل سے نکل کر صرف ملک کی حفاظت اورجنگی تراکیب کے معاملات میں الجھ جاتی ہے، ملک کا موسم اندرونی طور پر خاصا خوشگوار ہوجاتا ہے، دو تین چار پانچ کی جگہ ہم ایک ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے، ہم بہت بہادر ہیں، فلاں فلاں۔ دوسرا فائدہ یہ کہ بین الاقوامی طور پر جو بڑے مسائل ہیں ان میں ایک بڑا کشمیر کا مسئلہ ہے، جس کا سوئچ اب خاصا گرم ہوچکا ہے۔

پچھلی تمام حکومتوں نے اس سلسلے میں کچھ نہ کیا اور کرتی بھی کیسے کہ جو بھی کچھ کرتا اس کے خلاف عوام اور سیاسی اداکار پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑجاتے، لہٰذا اس گرم سوئچ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بھی کوئی نہ کوئی نسخہ تو آزمانا ہی تھا۔

بہرحال کشمیر کے فارمولے میں جہاں پہلے ہی ایک جنگ کے ذریعے اس کے ایک حصے کو آزاد کرایا گیا تو ظاہر ہے کہ اس دور میں صرف تو تو، میں میں، وہ اتنی بڑی وادی ایسے ہی چھوڑدیں، اس کے ساتھ ساتھ مودی صاحب کے دل پر اثر کرنے والے تاریخی جملے مثلاً ''کشمیری عوام نے ملک کے خلاف سرگرم عناصر کو پہچاننا شروع کردیا'' یہ سب ایک چٹپٹی سی سیاسی کھچڑی کی مانند ہے، جس میں پاکستان کاپانی بند کردینے کی دھمکی سے لے کر معصوم پاکستانی فنکاروں کو بھارت میں کام نہ کرنے کی دھمکی تک شامل ہے۔ گویا ہاتھ لگے سارے دل کے پھپھولے پھوڑ لیے جائیں تاکہ معاملات اندرونی طور پر بھی بہترہوجائیں کہ پیسہ ہمارا اور اڑا کر لے جائیں پاکستانی فنکار۔ یہ کڑوی گولی پہلے بھی کیسے نگلی جاتی رہی لیکن عوام کی پسند اور مزاج کے ہاتھ مجبور اسے برداشت کرتے رہے تھے۔


ہم ہمیشہ اپنی غلطیاں نکالتے رہتے ہیں، یہ درست ہے کہ غلطیاں تو ہوئی ہیں لیکن بات پھر وہی کہ اپنی جگہ درست کرو۔ قائداعظم کی مثال سامنے ہے جنھوں نے اپنی کمزوری بیماری کو اپنے جذبوں پر غالب نہ آنے دیا، دو ٹوک وضاحت اور بیباکی سے اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ پچھلے برسوں میں کس طرح پڑوس میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلے گئے، مثلاً کسی افسانے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملات شدید گرم تھے، جنگ کی صدائیں ابھر رہی تھیں، پاکستان اور انڈیا کا کرکٹ میچ ہورہا تھا اور مرحوم ضیا الحق بڑی بہادری اور بیباکی سے میچ دیکھنے انڈیا پہنچ گئے۔

یہ انڈین عوام کے لیے حیران کن مقام تھا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ہماری سرکار صرف اس شخص کی خاطر اس کے ملک کو نیست و نابود کرنے کے لیے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی، جیسے بیانات سن سن کر پوری طرح سے پک چکی تھی لیکن جنرل صاحب کا یہ اقدام پوری قوم کے لیے ایک خوشگوار جذبہ لے کر ابھرا۔ بھارتی میڈیا نے انھیں سر آنکھوں پر بٹھایا ہوتا ہو، لیکن جس کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا تھا وہ کامیاب ہوگیا، اپنے درمیان دشمن ملک کے سب سے بڑے ذمے دار شخص کو مسکراتے بیٹھا دیکھ کر وہ بھی مسرور ہوگئے۔

سننے میں یہ بھی آیا تھا کہ بھاگ دوڑ میں ایک خاتون صحافی گر پڑی تھیں تو جنرل صاحب نے کہ جن کی خاطر بھاگ دوڑ کی جارہی تھی آگے بڑھ کر ان کو اٹھایا، محبت، ممنونیت اور تشکر کے جذبات ہی بڑے منفرد ہوتے ہیں، جو دل سے ابھرتے ہیں۔ مودی صاحب نے شروع شروع میں ایسا ہی کیا، وزیراعظم کی نواسی کی شادی میں ایسے پہنچ گئے جیسے ان کی اپنی نواسی ہو لیکن وہ اپنے وجود میں وہ محبت، سچائی اور اپنائیت نہ لاسکے، کیوںکہ ٹوپی ڈرامہ کبھی یاد نہیں رکھا جاتا، ان کے دل میں کچھ اور، زبان پر کچھ تھا، انھوں نے اپنا رنگ بدلالیکن گرگٹ کی طرح اور اب جو کچھ وہ کررہے ہیں وہ بھی ایک رنگ ہے کہ آیندہ انتخابات میں انھیں بری طرح شکست نہ ہو۔ کسی بڑے سے بڑے ایسے ایشو پر گرم گرم کارروائی کہ جس سے دنیا دہل کر رہ جائے کہ واہ مودی صاحب کس طرح آپ نے انڈیا کا نام بلند کیا ہے۔ بدقسمتی سے مودی صاحب نے انڈیا کا نام ضرور بلند کیا ہے لیکن کشمیر میں حالیہ ہونے والی ہولناک زیادتیوں اور قتل و غارت گری کے حوالے سے جو کچھ آپ اور میں نیٹ کے ذریعے ان مظالم کو دیکھ رہے ہیں، اسے دیکھ کر آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں اور دل سے دعا ابھرتی ہے کہ خدایا اب بس کر دیجیے، کرم کردیں۔

بھارتی فنکاروں کا اپنی حکومتی کارروائیوں پر کیا کہنا ہے لیکن پاکستانی فنکاروں کے بین کردینے اوربھارت سے نکالے جانے کے عمل اور دھمکیوں کے سلسلے میں ناپسندیدگی کے جذبات دیکھے جارہے ہیں۔یہ فنکار اپنے عوام کے جذبات کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نکال لیا جائے کہ اڑی کے مقام پر کسی ناکام فلم کے ناکام ڈائریکٹر کی احمقانہ کوشش کے نتیجے میں آکر انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے تو اس کا خون دراصل کس کس کی گردنوں پر ہے۔ اس کا فیصلہ مودی خود کریں، کیوںکہ ان کے ہاتھ ایک ناکام اسکرپٹ لگا ہے۔
Load Next Story