کتابی چہرہ اور ہماری حرکتیں
اپنی تمام معلومات اور معمولات کو دنیا بھر سے بانٹنے میں ذرا احتیاط کی ضروت ہوتی ہے۔
''جتنے اُجلے جتنے حسینِ جتنے پیارے، مسکراتے پیار بانٹتے فیس بُک پر نظر آتے ہو اتنے گھر میں کیوں نہیں آخر۔۔۔؟''
میرا یہ سوال خود سے ہے، آپ سے ہے۔ ہمارا ظاہر کتنا شاندار ہے، فیس بُک پر ہماری وال کتنے پیارے کور فوٹو اور ڈسپلے پکچر سے سجی ہوئی ہے، دن بھر ہم کتنی مشقّت، کتنی کوشش سے نجانے کہاں کہاں سے ڈھونڈھ ڈھانڈھ کر معلومات لاتے ہیں، تصاویر کھنگالتے ہیں اپنی وال، اپنے پیجز پر شیئر کرنے کیلئے۔ جس کا مقصد یا تو کسی اچھائی کو معاشرتی سطح پر پھیلانا ہوتا ہے یا پھر اکثر اوقات صرف دوستوں کو متاثر کرنا۔
دن بھر جہاں جائیں، جو بھی عمل انجام دیں۔ اُٹھیں بیٹھیں، کھائیں پیئیں، دوستوں کے ساتھ ہوں، کسی تقریب میں شرکت کررہے ہوں یا سوکر ہی اُٹھے ہوں۔ بس فیس بُک پر اسٹیٹس ضرور پوسٹ کردیں تاکہ واہ واہ میرا مطلب ہے لائکس کی بوچھاڑ آن پہنچے۔
بڑی حاوی ہوگئی ہے یہ کتابی چہرہ سماجی ویب سائٹ، نجی زندگی میں اس قدر عمل دخل تو گھر والوں کا بھی نہیں جتنا فیس بُک کا ہے۔ اس کو کھول کر بیٹھیں تو جیسے وقت کو پر لگ جاتے ہیں۔ بند کرنا چاہ بھی رہے ہوں تو نہیں کر پاتے۔ ہائے! نہ اُگلا جائے نہ نِگلا جائے۔
ساری پوسٹس پڑھ بھی نہیں رہے ہوتے اور لائکس کے ڈھیر بھی لگائے جا رہے ہوتے ہیں۔ آخر کو یہی لائکس کل ہمارے کام آنے ہیں اور ان ہی دوستوں نے ہماری حلوہ، فالودہ، کھجور، گیدڑ، شیر اور نجانے کون کون سی پوسٹس کو لائک کرنا ہوتا ہے۔ یعنی سیدھی سی بات ہے وہ محاورہ بدل لیجئے، 'جیسا کرو گے ویسا بھرو گے' ۔ اب کچھ رد و بدل کے ساتھ یوں ہے، جتنے لائک کرو گے اتنے لائک ملیں گے۔
مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ کافی یا چائے فیس بک پر ہی کیوں پی جاتی ہے؟ پورے گھر میں کوئی کرسی کوئی میز خالی نہیں کہ جس پر آرام سے بیٹھ کر کافی شافی پی لی جائے۔ مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ ساری خریداری فیس بک پر ہی کیوں کر کی جاتی ہے؟ ایک ٹافی خریدنے سے لے کر ہوائی جہاز کے ٹکٹ تک سب کچھ ہی سوشل ہوگیا ہے۔
امی، ابو، بھائی، بہن، چچا، تایا، ماموں، خالو سارے بڑے ہی پیارے، ایک ہی فوٹو میں سج گئے تارے۔ جی ہاں! گھر بھر کی تصویریں فیس بک پر، منے کا ڈائپر خراب ہونے سے بدلنے تک فیس بک پر، اسکوٹر پنکچر ہونے سے گھر کے دروازے تک پہنچنا فیس بک پر، کلاس میں لیکچر شروع ہونے سے ٹیچر کے ڈانٹنے تک کی کہانی اپنی زبانی، فیس بُک پر۔
اب تو معاملہ کچھ یوں ہے کہ اگر دن بھر مصروفیت کی وجہ سے اپنے سوشل اکاؤنٹ پر نظر ڈالنے کا موقع نہیں مل سکا تو ملاحظہ کیجئے۔ السلام و علیکم، یہ ہے فیس بک! اس وقت رات کے 9 بجے ہیں، پہلے خاص خبروں کا خلاصہ۔
صُبح اٹھتے ہی کیا دیکھا؟ اسجد کی چپل غائب ہے، فوراً اسٹیٹس اپ ڈیٹ کیا۔ 'ہائے میری چپل ظالمو'۔
ناشتے میں رفیق کی پلیٹ میں انڈے اُس کے رفیق نہ تھے۔ اسٹیٹس داغ دیا گیا، 'انڈے نہیں ملے آج'۔
پڑھنے جاتے ہوئے حارث بس سے لٹکا ہوا تھا۔ اسٹیٹس اپ ڈیٹ، 'بائی ایئر جا رہا ہوں آج تو'۔
دفتر میں باس کا مزاج گرم ہونے پر اسٹیٹس 'تینوں اللہ پُوچھے'۔
بیوی کی فرمائشی کال آنے پر تیمور صاحب کا اسٹیٹس 'ایک شادی ہی تو کی تھی۔۔ آخر کون سی خطا ہوئی'۔
یہ اکثریت کی کہانی ہے۔ میری، آپ کی، اور بہت سارے لوگوں کو ایسی صورتحال کا سامان ہے۔ فیس بُک کا بخار ہمیں بہت چڑھ گیا ہے۔ اچھی بات ہے کہ سماجی رابطے بڑھائیں جائیں اور سوشل میڈیا کو اظہار رائے کے لئے استعمال کیا جائے لیکن اظہار رائے کی ایک حد اور میعار بھی ہے۔ اس میں رہتے ہوئے اگر سوشل میڈیا، فیس بک، ٹویٹر وغیرہ کو استعمال کیا جائے تو یقیناً اپنی اور اپنی فہرست دوستاں میں موجود بہت سے فیس بُکیے دوستوں کی زندگی اجیرن ہونے سے بچائی جاسکتی ہے۔
یاد رکھیں! فیس بک ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے، یعنی اپنی تمام معلومات اپنے معمولات کو دنیا بھر سے بانٹنا۔ ایسے میں بہت احتیاط کی ضروت ہوتی ہے کہ بعض اوقات ہم اپنی نادانی میں کسی پوسٹ پر کچھ ایسا کہہ بیٹھتے ہیں جو کہ کسی سے بالمشافہ ملاقات میں شاید کبھی نہ کہہ پائیں۔ اس لئے اپنے الفاظ کو تول کر لکھیں۔ یہ بہت ضروری ہے، جس پر ہم توجہ بالکل ہی نہیں دیتے۔ آخر کار وہ بیچارہ دوست جس کی پوسٹ پر درگت بن رہی ہوتی ہے تنگ آکر رائے کا اظہار کرنا ہی بند کردیتا ہے، ہم اگر پھر بھی باز نہ آئیں تو اسے وہ پوسٹ ہٹانا پڑتی ہے۔ ایسے میں دوست کی دل آزاری ہوتی ہے اور ہم شرمندہ ہوتے ہیں۔
مثبت باتوں کو فروغ دینے، علمی معلومات شئیر کرنے، صحت مندانہ سرگرمیاں کرنے اور بہت سے اچھے مقاصد کے لئے سوشل میڈیا استعمال کرنے میں اچھائی ہی اچھائی ہے۔ بس ذرا احتیاط سے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
میرا یہ سوال خود سے ہے، آپ سے ہے۔ ہمارا ظاہر کتنا شاندار ہے، فیس بُک پر ہماری وال کتنے پیارے کور فوٹو اور ڈسپلے پکچر سے سجی ہوئی ہے، دن بھر ہم کتنی مشقّت، کتنی کوشش سے نجانے کہاں کہاں سے ڈھونڈھ ڈھانڈھ کر معلومات لاتے ہیں، تصاویر کھنگالتے ہیں اپنی وال، اپنے پیجز پر شیئر کرنے کیلئے۔ جس کا مقصد یا تو کسی اچھائی کو معاشرتی سطح پر پھیلانا ہوتا ہے یا پھر اکثر اوقات صرف دوستوں کو متاثر کرنا۔
دن بھر جہاں جائیں، جو بھی عمل انجام دیں۔ اُٹھیں بیٹھیں، کھائیں پیئیں، دوستوں کے ساتھ ہوں، کسی تقریب میں شرکت کررہے ہوں یا سوکر ہی اُٹھے ہوں۔ بس فیس بُک پر اسٹیٹس ضرور پوسٹ کردیں تاکہ واہ واہ میرا مطلب ہے لائکس کی بوچھاڑ آن پہنچے۔
بڑی حاوی ہوگئی ہے یہ کتابی چہرہ سماجی ویب سائٹ، نجی زندگی میں اس قدر عمل دخل تو گھر والوں کا بھی نہیں جتنا فیس بُک کا ہے۔ اس کو کھول کر بیٹھیں تو جیسے وقت کو پر لگ جاتے ہیں۔ بند کرنا چاہ بھی رہے ہوں تو نہیں کر پاتے۔ ہائے! نہ اُگلا جائے نہ نِگلا جائے۔
ساری پوسٹس پڑھ بھی نہیں رہے ہوتے اور لائکس کے ڈھیر بھی لگائے جا رہے ہوتے ہیں۔ آخر کو یہی لائکس کل ہمارے کام آنے ہیں اور ان ہی دوستوں نے ہماری حلوہ، فالودہ، کھجور، گیدڑ، شیر اور نجانے کون کون سی پوسٹس کو لائک کرنا ہوتا ہے۔ یعنی سیدھی سی بات ہے وہ محاورہ بدل لیجئے، 'جیسا کرو گے ویسا بھرو گے' ۔ اب کچھ رد و بدل کے ساتھ یوں ہے، جتنے لائک کرو گے اتنے لائک ملیں گے۔
مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ کافی یا چائے فیس بک پر ہی کیوں پی جاتی ہے؟ پورے گھر میں کوئی کرسی کوئی میز خالی نہیں کہ جس پر آرام سے بیٹھ کر کافی شافی پی لی جائے۔ مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ ساری خریداری فیس بک پر ہی کیوں کر کی جاتی ہے؟ ایک ٹافی خریدنے سے لے کر ہوائی جہاز کے ٹکٹ تک سب کچھ ہی سوشل ہوگیا ہے۔
امی، ابو، بھائی، بہن، چچا، تایا، ماموں، خالو سارے بڑے ہی پیارے، ایک ہی فوٹو میں سج گئے تارے۔ جی ہاں! گھر بھر کی تصویریں فیس بک پر، منے کا ڈائپر خراب ہونے سے بدلنے تک فیس بک پر، اسکوٹر پنکچر ہونے سے گھر کے دروازے تک پہنچنا فیس بک پر، کلاس میں لیکچر شروع ہونے سے ٹیچر کے ڈانٹنے تک کی کہانی اپنی زبانی، فیس بُک پر۔
اب تو معاملہ کچھ یوں ہے کہ اگر دن بھر مصروفیت کی وجہ سے اپنے سوشل اکاؤنٹ پر نظر ڈالنے کا موقع نہیں مل سکا تو ملاحظہ کیجئے۔ السلام و علیکم، یہ ہے فیس بک! اس وقت رات کے 9 بجے ہیں، پہلے خاص خبروں کا خلاصہ۔
صُبح اٹھتے ہی کیا دیکھا؟ اسجد کی چپل غائب ہے، فوراً اسٹیٹس اپ ڈیٹ کیا۔ 'ہائے میری چپل ظالمو'۔
ناشتے میں رفیق کی پلیٹ میں انڈے اُس کے رفیق نہ تھے۔ اسٹیٹس داغ دیا گیا، 'انڈے نہیں ملے آج'۔
پڑھنے جاتے ہوئے حارث بس سے لٹکا ہوا تھا۔ اسٹیٹس اپ ڈیٹ، 'بائی ایئر جا رہا ہوں آج تو'۔
دفتر میں باس کا مزاج گرم ہونے پر اسٹیٹس 'تینوں اللہ پُوچھے'۔
بیوی کی فرمائشی کال آنے پر تیمور صاحب کا اسٹیٹس 'ایک شادی ہی تو کی تھی۔۔ آخر کون سی خطا ہوئی'۔
یہ اکثریت کی کہانی ہے۔ میری، آپ کی، اور بہت سارے لوگوں کو ایسی صورتحال کا سامان ہے۔ فیس بُک کا بخار ہمیں بہت چڑھ گیا ہے۔ اچھی بات ہے کہ سماجی رابطے بڑھائیں جائیں اور سوشل میڈیا کو اظہار رائے کے لئے استعمال کیا جائے لیکن اظہار رائے کی ایک حد اور میعار بھی ہے۔ اس میں رہتے ہوئے اگر سوشل میڈیا، فیس بک، ٹویٹر وغیرہ کو استعمال کیا جائے تو یقیناً اپنی اور اپنی فہرست دوستاں میں موجود بہت سے فیس بُکیے دوستوں کی زندگی اجیرن ہونے سے بچائی جاسکتی ہے۔
یاد رکھیں! فیس بک ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے، یعنی اپنی تمام معلومات اپنے معمولات کو دنیا بھر سے بانٹنا۔ ایسے میں بہت احتیاط کی ضروت ہوتی ہے کہ بعض اوقات ہم اپنی نادانی میں کسی پوسٹ پر کچھ ایسا کہہ بیٹھتے ہیں جو کہ کسی سے بالمشافہ ملاقات میں شاید کبھی نہ کہہ پائیں۔ اس لئے اپنے الفاظ کو تول کر لکھیں۔ یہ بہت ضروری ہے، جس پر ہم توجہ بالکل ہی نہیں دیتے۔ آخر کار وہ بیچارہ دوست جس کی پوسٹ پر درگت بن رہی ہوتی ہے تنگ آکر رائے کا اظہار کرنا ہی بند کردیتا ہے، ہم اگر پھر بھی باز نہ آئیں تو اسے وہ پوسٹ ہٹانا پڑتی ہے۔ ایسے میں دوست کی دل آزاری ہوتی ہے اور ہم شرمندہ ہوتے ہیں۔
مثبت باتوں کو فروغ دینے، علمی معلومات شئیر کرنے، صحت مندانہ سرگرمیاں کرنے اور بہت سے اچھے مقاصد کے لئے سوشل میڈیا استعمال کرنے میں اچھائی ہی اچھائی ہے۔ بس ذرا احتیاط سے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔