جنگ اٹل نہیں جنگ ٹل بھی سکتی ہے
زندگی کی وکالت کرنے والے اور محبت کے داعی، موت کے گیت پر تعصب کا ناچ ناچ رہے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جنگ انسانی تاریخ کی ناقابل تردید حقیقت ہے۔ پر کیا یہ سچ نہیں کہ انسان نے امن کی خاطر سینکڑوں جنگیں ٹالی ہیں۔ مذاکرات کے لیے عالمی سطح کے پلیٹ فارم بنائے ہیں۔ رابطوں کو آسان بنا کر ایک دوسرے کو قریب سے دیکھا اور جانا ہے۔ ہم آہنگی کے لیے ایک دوسرے کی ثقافت کو عزت بخشی ہے۔
رکیے! اس سے پہلے کہ میں اپنی بات کو مکمل کروں میں جانتا ہوں کہ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر انسان نے یہ سب کیا ہے تو اس کے پیچھے اس کا معاشی مفاد تھا ناں۔ اس نے کونسا کسی پر کوئی احسان کیا ہے؟ ٹھیک ہے مان لیا، احسان نہیں کیا، پیسہ کمایا ہے۔ آپ نے بلکل سہی نشان دہی کی لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیسہ تو اسلحہ اور بارود بیچ کر بھی کمایا جاسکتا ہے اس کے لیے یہی کیوں کہ کوئی امن کی بات کرے؟ ایسا ہی کیوں کہ کوئی زبان کا عالمی دن منائے یا کسی کے ثقافت کی تشہیر کرے؟ مسائل کو حل کرنے کے لئے پُرامن طریقے سے مذاکرات کی وکالت کرے؟
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ دنیا میں وسائل کی کمی ہے اس لیے جنگیں زیادہ سے زیادہ وسائل کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ اس بات کو اگر مکمل طور پر درست مان لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ وسائل محدود ہیں اور ان کے حصول کے لئے لڑنے والے زیادہ اس لیے جنگ کبھی بھی ٹل نہیں سکتی لیکن چونکہ جنگیں ہمشہ وسائل کے حصول کے لیے نہیں لڑی جاتیں اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنگ کوئی مکمل اٹل شے نہیں ہے۔ یہ ٹل سکتی ہے اور خاص طور ایسی صورتِ حال میں تو 100 فیصد جب یہ وسائل کے حصول کے لیے نہ لڑی جا رہی ہو بلکہ جب یہ سیدھا سیدھا ناکامیاب سیاست کا نتیجہ ہو۔
جون ہورگن اپنی تصنیف ''اینڈ آف وار'' میں لکھتے ہیں کہ حیاتیات کی رو سے انسان جتنا لڑاکا ہے اتنا ہی پُرامن بھی ہے۔ اس لیے جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ صرف جنگ و جدل ہی انسانی جبلت کی اصل ہے وہ سائنسی اعتبار سے غلطی پر ہیں۔ جنگ کو ٹالا جاسکتا اور ایسا اس لیے ہے کہ ہر انسان ریشنل تِھنکر ہے۔ اسے اپنے نفع و نقصان کی سمجھ ہے۔ ریشنل تھنکنگ کی بدولت ہی آپ کو اپنے آس پاس اکثریت ایسے لوگوں کی ملے گی جنہوں نے اپنی ساری زندگی میں کبھی کسی کا گلہ نہیں کاٹا ہوگا اور نہ ہی کسی سے ایسی لڑائی کی ہو جس سے ان کی یا ان کے مخالف کی ہڈی پسلی ٹوٹی ہو۔
(عمران خوشحال)
کشمیر کے اوپر پاکستان اور بھارت کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی سے ایسا لگتا ہے کہ جنگ ہو کر ہی رہے گی اور اور یہ ٹل نہیں سکتی۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ اگر دونوں میں سے ایک بھی اس جنگ کو ٹالنا چاہے تو یہ پھر بھی ہو کر ہی رہے گی۔ یہ درست ہے کہ گزشتہ 70 سالوں سے پاکستان اور بھارت کے بیچ کئی جنگیں ہوئی ہیں لیکن ان جنگوں کے درمیانی سالوں میں باہمی تجارت بھی ہوئی ہے، کھیل بھی کھیلے گئے ہیں اور ثقافتی اور تمدنی سرگرمیاں بھی ہوتی رہی ہیں۔ آج بھی کوئی بعید نہیں کہ پاکستان اور بھارت اگر سنجیدگی سے مسائل پر بات کرنا چاہیں تو نوبت جنگ تک پہنچے۔
مگر المیہ یہ ہے کہ ڈیڑھ ارب انسانوں کے اس جنگل میں جو کہ پاکستان اور بھارت پر مشتمل ہے، امن کے لیے ایک بھی بلند آواز نہیں ہے۔ اور تو اور یہاں قلم اور کتاب والے، آرٹ اور کلچر والے، ہنسی اور مزاح والے، شاعر اور ادیب غرض کہ ہر طرح سے زندگی کی وکالت کرنے والے اور محبت کے داعی، موت کے گیت پر تعصب کا ناچ ناچ رہے ہیں۔
بلاشبہ پاکستان اور بھارت کے بیچ جنگ کا خطرہ ہمیشہ کہ لیے ٹل سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسائل کو حل کرنے کے لیے ادارے بنائے جائیں مسائل پر تجارت نہ کی جائے۔ کشمیر کے مسئلے پر کشمیریوں کو ایک فریق کے طور پر لیا جائے۔ مذاکرات کیے جائیں اور درمیانی صورت نکالی جائے۔ ہٹ دھرمی سے باز رہا جائے، مستقبل کے لیے پڑھے لکھے عوام سیاست میں آئیں، سنجیدہ اور قائدانہ صلاحیتں رکھنے والوں کے ہاتھ میں ملک کی بھاگ دوڑ دی جائے، ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں، انتہاپسندی کا خاتمہ کیا جائے اور باہمی تجارت کو فروغ دے کر غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور ایسے ہی سینکڑوں مسائل کا حل نکالا جائے۔
[poll id="1233"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
رکیے! اس سے پہلے کہ میں اپنی بات کو مکمل کروں میں جانتا ہوں کہ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر انسان نے یہ سب کیا ہے تو اس کے پیچھے اس کا معاشی مفاد تھا ناں۔ اس نے کونسا کسی پر کوئی احسان کیا ہے؟ ٹھیک ہے مان لیا، احسان نہیں کیا، پیسہ کمایا ہے۔ آپ نے بلکل سہی نشان دہی کی لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیسہ تو اسلحہ اور بارود بیچ کر بھی کمایا جاسکتا ہے اس کے لیے یہی کیوں کہ کوئی امن کی بات کرے؟ ایسا ہی کیوں کہ کوئی زبان کا عالمی دن منائے یا کسی کے ثقافت کی تشہیر کرے؟ مسائل کو حل کرنے کے لئے پُرامن طریقے سے مذاکرات کی وکالت کرے؟
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ دنیا میں وسائل کی کمی ہے اس لیے جنگیں زیادہ سے زیادہ وسائل کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ اس بات کو اگر مکمل طور پر درست مان لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ وسائل محدود ہیں اور ان کے حصول کے لئے لڑنے والے زیادہ اس لیے جنگ کبھی بھی ٹل نہیں سکتی لیکن چونکہ جنگیں ہمشہ وسائل کے حصول کے لیے نہیں لڑی جاتیں اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنگ کوئی مکمل اٹل شے نہیں ہے۔ یہ ٹل سکتی ہے اور خاص طور ایسی صورتِ حال میں تو 100 فیصد جب یہ وسائل کے حصول کے لیے نہ لڑی جا رہی ہو بلکہ جب یہ سیدھا سیدھا ناکامیاب سیاست کا نتیجہ ہو۔
جون ہورگن اپنی تصنیف ''اینڈ آف وار'' میں لکھتے ہیں کہ حیاتیات کی رو سے انسان جتنا لڑاکا ہے اتنا ہی پُرامن بھی ہے۔ اس لیے جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ صرف جنگ و جدل ہی انسانی جبلت کی اصل ہے وہ سائنسی اعتبار سے غلطی پر ہیں۔ جنگ کو ٹالا جاسکتا اور ایسا اس لیے ہے کہ ہر انسان ریشنل تِھنکر ہے۔ اسے اپنے نفع و نقصان کی سمجھ ہے۔ ریشنل تھنکنگ کی بدولت ہی آپ کو اپنے آس پاس اکثریت ایسے لوگوں کی ملے گی جنہوں نے اپنی ساری زندگی میں کبھی کسی کا گلہ نہیں کاٹا ہوگا اور نہ ہی کسی سے ایسی لڑائی کی ہو جس سے ان کی یا ان کے مخالف کی ہڈی پسلی ٹوٹی ہو۔
جنگ اٹل نہیں، جنگ ٹل بھی سکتی ہے
قسمت نوعِ بشربدل بھی سکتی ہے
خوف ذہنوں میں زندہ رہ سکتا ہے تو
محبت سینوں میں پل بھی سکتی ہے
خون کے پیاسے لوگو تمھاری پیاس
آگ پینے سے جل بھی سکتی ہے
آج جیت پر سراٹھائی ہوئی مخلوق
کل ہار پہ ہاتھ مل بھی سکتی ہے
جنگ کے جنون سے جان چھڑا کر
امن کی صورت نکل بھی سکتی ہے
(عمران خوشحال)
کشمیر کے اوپر پاکستان اور بھارت کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی سے ایسا لگتا ہے کہ جنگ ہو کر ہی رہے گی اور اور یہ ٹل نہیں سکتی۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ اگر دونوں میں سے ایک بھی اس جنگ کو ٹالنا چاہے تو یہ پھر بھی ہو کر ہی رہے گی۔ یہ درست ہے کہ گزشتہ 70 سالوں سے پاکستان اور بھارت کے بیچ کئی جنگیں ہوئی ہیں لیکن ان جنگوں کے درمیانی سالوں میں باہمی تجارت بھی ہوئی ہے، کھیل بھی کھیلے گئے ہیں اور ثقافتی اور تمدنی سرگرمیاں بھی ہوتی رہی ہیں۔ آج بھی کوئی بعید نہیں کہ پاکستان اور بھارت اگر سنجیدگی سے مسائل پر بات کرنا چاہیں تو نوبت جنگ تک پہنچے۔
مگر المیہ یہ ہے کہ ڈیڑھ ارب انسانوں کے اس جنگل میں جو کہ پاکستان اور بھارت پر مشتمل ہے، امن کے لیے ایک بھی بلند آواز نہیں ہے۔ اور تو اور یہاں قلم اور کتاب والے، آرٹ اور کلچر والے، ہنسی اور مزاح والے، شاعر اور ادیب غرض کہ ہر طرح سے زندگی کی وکالت کرنے والے اور محبت کے داعی، موت کے گیت پر تعصب کا ناچ ناچ رہے ہیں۔
بلاشبہ پاکستان اور بھارت کے بیچ جنگ کا خطرہ ہمیشہ کہ لیے ٹل سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسائل کو حل کرنے کے لیے ادارے بنائے جائیں مسائل پر تجارت نہ کی جائے۔ کشمیر کے مسئلے پر کشمیریوں کو ایک فریق کے طور پر لیا جائے۔ مذاکرات کیے جائیں اور درمیانی صورت نکالی جائے۔ ہٹ دھرمی سے باز رہا جائے، مستقبل کے لیے پڑھے لکھے عوام سیاست میں آئیں، سنجیدہ اور قائدانہ صلاحیتں رکھنے والوں کے ہاتھ میں ملک کی بھاگ دوڑ دی جائے، ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں، انتہاپسندی کا خاتمہ کیا جائے اور باہمی تجارت کو فروغ دے کر غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور ایسے ہی سینکڑوں مسائل کا حل نکالا جائے۔
[poll id="1233"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔