انور احسن صدیقی کی یاد میں
انور احسن صدیقی کے کالم ترقی پسند خیالات کے ترجمان رہے
مجھے زمانہ طالب علمی میں ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ امربیل' انکا' صدیوں کا بیٹا' بازی گر' جانگلوس اور اقابلا اب بھی ذہن کے کسی گوشے میں موجود ہیں۔ ان ناقابل فراموش کہانیوں میں اقابلا ایک ایسی سحر انگیز سلسلہ وار کہانی تھی جسے پڑھ کر قاری دم بخود رہ جاتا تھا' یہ انور احسن صدیقی کے ذہن اور قلم کا شاہکار تھی۔ انھی انور احسن صدیقی سے میرا تعارف کوئی دس برس قبل اس وقت ہوا جب میں نے ایکسپریس جوائن کیا۔ یہ تعارف بذریعہ کالم تھا۔ میں ان سے بالمشافہ تو نہ مل سکا لیکن ٹیلی فون پر گفتگو ہوتی رہی۔ وہ بائیں بازو کے نظریات سے متاثر تھے۔
ان کے کالم ترقی پسند خیالات کے ترجمان رہے۔ وہ پسماندہ طبقات کی بات کرتے اور اشرافیہ کو جھنجوڑتے تھے۔ 20 جولائی2012ء کو لکھے گئے اپنے کالم میں ان کے قلم سے یہ الفاظ نکلے ''آج بھی انصاف غریب کے دروازے سے اتنا ہی دور ہے جتنا میرے بچپن میں، انگریز کے زمانے میں تھا۔ جیسی خراب معاشی و معاشرتی صورتحال میرے بچپن کے اس دور میں تھی، آج کی صورتحال اس سے کہیں زیادہ خراب ہے، کیونکہ سامراجیوں کی گرفت کی قوت میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ محنت کشوں کی دولت اشرافیہ کے خزانوں میں جمع ہوتی جا رہی ہے۔ لوٹ کھسوٹ کے ایک غیر انسانی اسلوب حکمرانی کو قائم کیا اور مسلسل فروغ دیا جا رہا ہے''۔
ایک اور کالم ''انسان اور پتھر'' میں لکھتے ہیں ''فنون لطیفہ وہ شے ہیں جو انسان کے نازک اور لطیف جذبات کو مہمیز کرتے ہیں' جو ظلم، استحصال اور ناانصافی سے نفرت کرنے اور نرمی مہربانی، نیکوکاری، شگفتگی اور حلاوت کے محسوسات کو اجاگر کرنے کا کام کرتے ہیں۔ فنون لطیفہ کی تذلیل اور اس سے محرومی انسان کو حیوان بنا دیتی ہے تو پھر اس کے اندر کا سارا وحشی پن ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ تب ایک کُتے کے بھونکنے پر تو تو میں میں ہوتی ہے اور پھر بندوقیں نکل آتی ہیں۔'' یہ کالم آج کے پاکستانی سماج میں پیدا ہونے والے وحشی پن کے تناظر میں لکھا گیا تھا۔ اس طرح کے کئی دردانگیز کالم وہ 2000سے ایکسپریس کے ادارتی صفحہ پر رقم کرتے آ رہے تھے۔
انور احسن صدیقی صاحبِ طرز ادیب، افسانہ نویس، شاعر اور مترجم تھے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے انھوں نے اپنے کالم میں اہل اقتدار کی کبھی چمچہ گیری نہیں کی، وہ اہل اقتدار سے ہمیشہ دور رہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے کبھی کسی حکومت سے کوئی پلاٹ یا پرمٹ لیا ہو۔ اہل قلم قبیلے میں وہ ایک بااصول، دیانت دار اور انسان دوست ادیب کے طور پر یاد رکھے جائیں گے،
ان کا قلم زندگی بھر سامراج دشمنی، عدم مساوات، ناانصافی، اہل اقتدار کی ستم رانیوں کے خلاف ستیزہ کار رہا۔ ہجرت کا دکھ ان کی تحریروں سے نمایاں تھا۔ ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران میں نے ان سے پوچھا، کیا آپ کے خیال میں تقسیم سے مسلمانوں کو فائدہ ہوا''۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد انھوں نے صرف اتنا کہا، میرا خیال ہے کہ مولانا ابوالکلام کا راستہ درست تھا''۔ میں بھی ایسے والدین کی اولاد ہوں جو مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے آئے تھے، میں اپنے والد کی باتیں سنتا رہتا تھا، اس لیے انور احسن کی باتوں میں چھپے ''وچھوڑے'' کے درد کو بخوبی سمجھتا تھا۔ ان کا تعلق کیونکہ لکھنو سے تھا، ہندوستان کے اس تہذیبی مرکز سے بچھڑ کر ان کی روح بے سکون رہی، وہ ماضی کو یاد کرتے تھے اور ان کے اکثر کالموں میں بھی اس کا ذکر ہوتا تھا۔
مرحوم پروسٹیٹ کینسر میں مبتلا ہوئے، جو ریڑھ کی ہڈی تک پھیل چکا تھا۔ اس کے باوجود لکھنے پڑھنے کا کام جاری رکھا۔ مجھے جب ان کی علالت کا پتہ چلا تو میں نے خیریت دریافت کرنے کے لیے فون کیا۔ بڑی محبت سے باتیں کرتے رہے، کسی موقعے پر انھوں نے ایسا محسوس نہیں ہونے دیا کہ انھیں کسی چیز کی ضرورت ہے۔ اس وقت بھی پاک بھارت تعلقات پر بات ہوتی رہی۔ میں سوچتا رہا کہ جنم بھومی کیا چیز ہوتی ہے۔ آخری سانس تک پیچھا نہیں چھوڑتی۔ بہت سے لوگوں کو شاید یہ معلوم نہ ہو کہ طالب علمی کے زمانے میں انھوں نے بھر پور سیاست کی اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، وہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ رہے۔ اس وقت وہ طالب علموں کے ماہ نامہ لوح وقلم کے مدیر تھے۔ ایوب خان کے دور میں این ایس ایف کے جن بارہ طالب علموں کو کراچی بدر کیا گیا ان میں انور احسن صدیقی بھی شامل تھے۔ کالعدم نیپ اور این ڈی پی سے وابستہ رہے۔ مارشل لائوں کے دور میں زیر زمیں سرگرمیوں کے باعث گھریلو زندگی متاثر رہی مگر اپنے آدرش سے کبھی غداری کا نہیں سوچا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کتنے کمیٹڈ انسان تھے۔
مرحوم کا پورا گھرانہ ادبی تھا۔ انور احسن متعدد ڈائجسٹوں اور ایک ممتاز ہفتہ وار جریدے میں قسط وار کہانیاں لکھتے رہے، انھوں نے کینسر کے جان لیوا اور اذیت ناک لمحوں میں اپنی خود نوشت ''دل ِپر خوں کی اک گلابی سے'' اپریل میں مکمل کی، جو اب زیر طبع ہے۔ ان کے 8 ناول چھپ چکے ہیں، انھوں نے ''عظیم پاکستانی عبد الستار ایدھی'' کے نام سے گراں قدر کتاب لکھی، جب کہ افسانوں کا مجموعہ ''ایک خبر ایک کہانی'' کے عنوان سے اشاعت پذیر ہوا۔
وہ 70 کی دہائی میں کراچی میں روسی قونصل خانہ کے شعبہ اطلاعات کے تحت نکلنے والے خوشنما جریدہ ''طلوع'' کے مدیر بھی رہے جس میں انھوں نے غیر ملکی ادب اور پاکستان کی علاقائی زبانوں کی چیدہ چیدہ تخلیقات اور شاعری کے تراجم قارئین کی نذر کیے، صنعت و تجارت اور بینکاری سے متعلق اصطلاحات کی انتہائی ضخیم اردو لغت کی تیاری میں سرگرمی سے حصہ لیا اور ان کے منفرد ترجمے، تحقیق اور تجارتی اصطلاحات کی تشکیلات کے حوالے سے قائم ماہرین کے پینل میں ان کا نام شامل تھا۔ ممتاز ادیب اور نقاد ڈاکٹر اسلم فرخی ان کے چھوٹے بھائی ہیں۔
معروف مترجم آصف فرخی ان کے بھتیجے ہیں۔ ان کی اولاد نہیں ہے، اس لیے وہ آصف فرخی کو بہت پیار کرتے تھے جو اپنے خاندان کے علمی ورثہ کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ دوستوں نے بتایا ہے کہ آصف فرخی کراچی کی ادبی اور تنقیدی محفلوں کی جان ہیں، انھیں ادب کے شعبے میں حسن کارکردگی کا صدارتی ایوارڈ بھی ملا ہے۔ قارئین ان ذاتی نوعیت کی باتوں کا مقصد صرف یہ باور کرانا ہے کہ نفسانفسی، بے حسی اور برادر کشی کے اس کلجگ میں انور احسن صدیقی جیسے اکھل کھرے انسان بھی موجود رہے ہیں۔ زندگی کا سفر ایک روز ختم ہونا ہے، لیکن بقول فیض جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے۔ الوداع محترم انور احسن صدیقی صاحب۔
ان کے کالم ترقی پسند خیالات کے ترجمان رہے۔ وہ پسماندہ طبقات کی بات کرتے اور اشرافیہ کو جھنجوڑتے تھے۔ 20 جولائی2012ء کو لکھے گئے اپنے کالم میں ان کے قلم سے یہ الفاظ نکلے ''آج بھی انصاف غریب کے دروازے سے اتنا ہی دور ہے جتنا میرے بچپن میں، انگریز کے زمانے میں تھا۔ جیسی خراب معاشی و معاشرتی صورتحال میرے بچپن کے اس دور میں تھی، آج کی صورتحال اس سے کہیں زیادہ خراب ہے، کیونکہ سامراجیوں کی گرفت کی قوت میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ محنت کشوں کی دولت اشرافیہ کے خزانوں میں جمع ہوتی جا رہی ہے۔ لوٹ کھسوٹ کے ایک غیر انسانی اسلوب حکمرانی کو قائم کیا اور مسلسل فروغ دیا جا رہا ہے''۔
ایک اور کالم ''انسان اور پتھر'' میں لکھتے ہیں ''فنون لطیفہ وہ شے ہیں جو انسان کے نازک اور لطیف جذبات کو مہمیز کرتے ہیں' جو ظلم، استحصال اور ناانصافی سے نفرت کرنے اور نرمی مہربانی، نیکوکاری، شگفتگی اور حلاوت کے محسوسات کو اجاگر کرنے کا کام کرتے ہیں۔ فنون لطیفہ کی تذلیل اور اس سے محرومی انسان کو حیوان بنا دیتی ہے تو پھر اس کے اندر کا سارا وحشی پن ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ تب ایک کُتے کے بھونکنے پر تو تو میں میں ہوتی ہے اور پھر بندوقیں نکل آتی ہیں۔'' یہ کالم آج کے پاکستانی سماج میں پیدا ہونے والے وحشی پن کے تناظر میں لکھا گیا تھا۔ اس طرح کے کئی دردانگیز کالم وہ 2000سے ایکسپریس کے ادارتی صفحہ پر رقم کرتے آ رہے تھے۔
انور احسن صدیقی صاحبِ طرز ادیب، افسانہ نویس، شاعر اور مترجم تھے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے انھوں نے اپنے کالم میں اہل اقتدار کی کبھی چمچہ گیری نہیں کی، وہ اہل اقتدار سے ہمیشہ دور رہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے کبھی کسی حکومت سے کوئی پلاٹ یا پرمٹ لیا ہو۔ اہل قلم قبیلے میں وہ ایک بااصول، دیانت دار اور انسان دوست ادیب کے طور پر یاد رکھے جائیں گے،
ان کا قلم زندگی بھر سامراج دشمنی، عدم مساوات، ناانصافی، اہل اقتدار کی ستم رانیوں کے خلاف ستیزہ کار رہا۔ ہجرت کا دکھ ان کی تحریروں سے نمایاں تھا۔ ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران میں نے ان سے پوچھا، کیا آپ کے خیال میں تقسیم سے مسلمانوں کو فائدہ ہوا''۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد انھوں نے صرف اتنا کہا، میرا خیال ہے کہ مولانا ابوالکلام کا راستہ درست تھا''۔ میں بھی ایسے والدین کی اولاد ہوں جو مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے آئے تھے، میں اپنے والد کی باتیں سنتا رہتا تھا، اس لیے انور احسن کی باتوں میں چھپے ''وچھوڑے'' کے درد کو بخوبی سمجھتا تھا۔ ان کا تعلق کیونکہ لکھنو سے تھا، ہندوستان کے اس تہذیبی مرکز سے بچھڑ کر ان کی روح بے سکون رہی، وہ ماضی کو یاد کرتے تھے اور ان کے اکثر کالموں میں بھی اس کا ذکر ہوتا تھا۔
مرحوم پروسٹیٹ کینسر میں مبتلا ہوئے، جو ریڑھ کی ہڈی تک پھیل چکا تھا۔ اس کے باوجود لکھنے پڑھنے کا کام جاری رکھا۔ مجھے جب ان کی علالت کا پتہ چلا تو میں نے خیریت دریافت کرنے کے لیے فون کیا۔ بڑی محبت سے باتیں کرتے رہے، کسی موقعے پر انھوں نے ایسا محسوس نہیں ہونے دیا کہ انھیں کسی چیز کی ضرورت ہے۔ اس وقت بھی پاک بھارت تعلقات پر بات ہوتی رہی۔ میں سوچتا رہا کہ جنم بھومی کیا چیز ہوتی ہے۔ آخری سانس تک پیچھا نہیں چھوڑتی۔ بہت سے لوگوں کو شاید یہ معلوم نہ ہو کہ طالب علمی کے زمانے میں انھوں نے بھر پور سیاست کی اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، وہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ رہے۔ اس وقت وہ طالب علموں کے ماہ نامہ لوح وقلم کے مدیر تھے۔ ایوب خان کے دور میں این ایس ایف کے جن بارہ طالب علموں کو کراچی بدر کیا گیا ان میں انور احسن صدیقی بھی شامل تھے۔ کالعدم نیپ اور این ڈی پی سے وابستہ رہے۔ مارشل لائوں کے دور میں زیر زمیں سرگرمیوں کے باعث گھریلو زندگی متاثر رہی مگر اپنے آدرش سے کبھی غداری کا نہیں سوچا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کتنے کمیٹڈ انسان تھے۔
مرحوم کا پورا گھرانہ ادبی تھا۔ انور احسن متعدد ڈائجسٹوں اور ایک ممتاز ہفتہ وار جریدے میں قسط وار کہانیاں لکھتے رہے، انھوں نے کینسر کے جان لیوا اور اذیت ناک لمحوں میں اپنی خود نوشت ''دل ِپر خوں کی اک گلابی سے'' اپریل میں مکمل کی، جو اب زیر طبع ہے۔ ان کے 8 ناول چھپ چکے ہیں، انھوں نے ''عظیم پاکستانی عبد الستار ایدھی'' کے نام سے گراں قدر کتاب لکھی، جب کہ افسانوں کا مجموعہ ''ایک خبر ایک کہانی'' کے عنوان سے اشاعت پذیر ہوا۔
وہ 70 کی دہائی میں کراچی میں روسی قونصل خانہ کے شعبہ اطلاعات کے تحت نکلنے والے خوشنما جریدہ ''طلوع'' کے مدیر بھی رہے جس میں انھوں نے غیر ملکی ادب اور پاکستان کی علاقائی زبانوں کی چیدہ چیدہ تخلیقات اور شاعری کے تراجم قارئین کی نذر کیے، صنعت و تجارت اور بینکاری سے متعلق اصطلاحات کی انتہائی ضخیم اردو لغت کی تیاری میں سرگرمی سے حصہ لیا اور ان کے منفرد ترجمے، تحقیق اور تجارتی اصطلاحات کی تشکیلات کے حوالے سے قائم ماہرین کے پینل میں ان کا نام شامل تھا۔ ممتاز ادیب اور نقاد ڈاکٹر اسلم فرخی ان کے چھوٹے بھائی ہیں۔
معروف مترجم آصف فرخی ان کے بھتیجے ہیں۔ ان کی اولاد نہیں ہے، اس لیے وہ آصف فرخی کو بہت پیار کرتے تھے جو اپنے خاندان کے علمی ورثہ کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ دوستوں نے بتایا ہے کہ آصف فرخی کراچی کی ادبی اور تنقیدی محفلوں کی جان ہیں، انھیں ادب کے شعبے میں حسن کارکردگی کا صدارتی ایوارڈ بھی ملا ہے۔ قارئین ان ذاتی نوعیت کی باتوں کا مقصد صرف یہ باور کرانا ہے کہ نفسانفسی، بے حسی اور برادر کشی کے اس کلجگ میں انور احسن صدیقی جیسے اکھل کھرے انسان بھی موجود رہے ہیں۔ زندگی کا سفر ایک روز ختم ہونا ہے، لیکن بقول فیض جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے۔ الوداع محترم انور احسن صدیقی صاحب۔