خلیوں میں ری سائیکلنگ کا نظام دریافت کرنے پر طب کا نوبل انعام جاپانی سائنسدان کے نام

2016 میں نوبل انعام برائے میڈیسن اور فزیالوجی کے لئے نوبل اسمبلی کو 273 نامزدگیاں موصول ہوئیں

2016 میں نوبل انعام برائے میڈیسن اور فزیالوجی کے لئے نوبل اسمبلی کو 273 نامزدگیاں موصول ہوئیں. فوٹو: سی این این

ISLAMABAD:
2016 کے نوبل انعام برائے طب/ فعلیات (میڈیسن/ فزیالوجی) کا اعلان کردیا گیا ہے جس کے مطابق یونیورسٹی آف ٹوکیو/ ٹوکیو انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے یوشینوری اوسومی کو خلیوں میں خود خوری (autophagy) کے نظام کی تفصیلات دریافت کرنے پر نوبل انعام کا تنہا حقدار قرار دیا گیا ہے۔

کئی سال بعد یہ پہلا موقعہ آیا ہے جب کسی سائنسدان کو تنِ تنہا پورے نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔ طب/ فعلیات میں اوسومی سے پہلے تنہا نوبل انعام پانے کا اعزاز صرف 38 سائنسدانوں کو حاصل ہوسکا ہے۔



نوبل فاؤنڈیشن کے مطابق اس سال طب/ فعلیات کے نوبل انعام کےلئے 273 نامزدگیاں موصول ہوئیں۔ کیرولنسکا انسٹی ٹیوٹ، سولنا میں 50 ارکان پر مشتمل نوبل اسمبلی نے سویڈن کے مقامی وقت کے مطابق صبح 9 بجے (پاکستان میں دوپہر 12 بجے) اس سال طب/ فعلیات کے نوبل انعام کا فیصلہ کرلیا تھا، جس کا اعلان صحافیوں سے کھچاکھچ بھری ہوئی پریس کانفرنس میں کچھ ہی دیر پہلے کیا گیا ہے۔

پس منظر


آٹو فیجی/ آٹو فیگی یا ''خود خوری'' کا انکشاف 1960 کے عشرے میں ہوا جب سائنسدانوں نے مشاہدہ کیا کہ کوئی خلیہ اپنے اجزاء کو عجیب و غریب انداز سے خود ہی تباہ کرسکتا ہے؛ اور وہ بھی اس طرح کہ پہلے ان اجزاء کو جھلیوں کے اندر، تھیلیوں جیسی شکل میں بند کرے اور پھر انہیں ''لائسوسومز'' (lysosomes) نامی حصوں میں بھیج دے جنہیں خلئے کی ''ری سائیکلنگ فیکٹریاں'' بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہیں پر ان اجزاء کو چھوٹے چھوٹے سالمات میں توڑ کر کسی اور مقصد میں استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ساری کارروائی خلئے کے اندر ہی انجام پاتی ہے۔

ان ابتدائی معلومات کے بعد ماہرین اس بارے میں طویل عرصے تک مزید کچھ نہیں جان پائے کیونکہ اتنی باریک بینی سے خلئے کا جائزہ لینا ان کےلئے بے حد مشکل ثابت ہورہا تھا۔ بالآخر یوشینوری اوسومی (Yoshinori Ohsumi) نے 1990 کی دہائی میں خمیر کے خلیات پر تحقیق کی اور وہ جین شناخت کئے جو ''خود خوری'' کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

مزید تحقیق کرتے ہوئے اوسومی نے نہ صرف خمیر کے خلیات میں خود خوری کے پورے نظام کی تفصیلات دریافت کیں بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ انسانی خلیوں میں بھی خود خوری کا ایسا ہی نظام کارفرما ہوتا ہے۔

اوسومی کی ان ہی دریافتوں کی بدولت ہمیں معلوم ہوا کہ کوئی خلیہ اپنے اجزاء کو کس طرح سے بازیافت (ری سائیکل) کرکے دوبارہ سے استعمال کے قابل بناتا ہے؛ اور یہ کہ خود خوری سے استفادہ کرتے ہوئے ہمارے جسمانی خلیات کس طرح فاقہ یا متعدی بیماری (انفیکشن) کے ردِعمل میں خود کو تبدیل کرتے ہیں اور زندہ رہنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔

خود خوری یا آٹوفیجی/ آٹوفیگی کے جین میں خرابی ہوجائے تو اس سے کینسر اور اعصابی امراض سمیت کئی طرح کی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں کیونکہ اندرونی (خلوی) دباؤ پر ہمارا جسم صحیح ردِعمل کا مظاہرہ کرنے کے قابل نہیں رہتا۔


سوانح

یوشینوری اوسومی 1945 میں جاپان کے شہر فوکؤکا میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف ٹوکیو سے 1974 میں پی ایچ ڈی کیا۔ نیویارک میں راک فیلر یونیورسٹی میں تین سال تک تحقیق کے بعد وہ جاپان واپس آئے اور 1988 میں یونیورسٹی آف ٹوکیو میں اپنا ریسرچ گروپ قائم کیا۔ 2009 سے اب تک وہ ٹوکیو انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہیں۔

طب/ فعلیات کے نوبل انعامات: دلچسپ معلومات



  • 1901 سے 2015 تک اس شعبے میں 106 نوبل انعامات دیئے جاچکے ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران نو سال ایسے تھے جن میں کوئی نوبل انعام نہیں دیا گیا: 1915 سے 1918 تک، 1921، 1925، اور 1940 سے لے کر 1942 تک۔

  • ان 115 سال میں کُل 210 افراد کو نوبل انعام برائے طب/ فعلیات دیا جاچکا ہے۔

  • ان 210 نوبل انعام یافتگان برائے طب/ فعلیات میں صرف 12 خواتین شامل ہیں۔

  • ان میں سے 38 نوبل انعامات برائے طب/ فعلیات ایک ایک سائنسدان کو (بلا شرکتِ غیرے)؛ 32 انعامات دو دو ماہرین کو مشترکہ طور پر؛ جبکہ اس زمرے کے 36 نوبل انعامات میں تین تین تحقیق کاروں کو حقدار قرار دیا گیا۔

  • باربرا مکلنٹاک وہ واحد خاتون تھیں جنہیں متحرک جینیاتی اجزاء کی دریافت پر بلا شرکتِ غیرے 1983 کا نوبل انعام برائے طب/ فعلیات دیا گیا۔

  • اسمبلی نے اصولی طور پر طے کیا ہوا ہے کہ کسی بھی نوبل انعام میں تین سے زیادہ افراد کو شریک قرار نہیں دیا جائے گا۔

  • 2015 تک طب/ فعلیات کا نوبل انعام حاصل کرنے والوں کی اوسط عمر 58 سال رہی ہے۔

  • اس کٹیگری میں سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ سائنسدان فریڈرک گرانٹ بینٹنگ تھے جنہیں صرف 32 سال کی عمر میں 1923 کے نوبل انعام برائے طب/ فعلیات دیا گیا۔ انسولین کی دریافت پر انہیں اور جان جیمس رکارڈ میکلیوڈ کو مشترکہ طور پر نوبل انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔

  • اسی شعبے کے معمر ترین نوبل انعام یافتہ ماہر پیٹن روس تھے جنہیں 87 سال کی عمر میں 1966 کے نوبل انعام برائے طب/ فعلیات کا نصف حصہ دیا گیا۔ انہوں نے رسولیاں پیدا کرنے والے وائرسوں پر تحقیق کی تھی۔ نوبل انعام کی رقم کا باقی نصف حصہ چارلس برینٹن ہگنز کو دیا گیا کیونکہ انہوں نے ہارمونز کے ذریعے پروسٹیٹ کینسر کے علاج پر اہم کام کیا تھا۔

  • نوبل انعام صرف زندہ افراد کو دیا جاتا ہے یعنی اگر اس کےلئے کسی ایسے شخص کو نامزد نہیں کیا جاسکتا جو مرچکا ہو۔

  • 1974 میں نوبل فاؤنڈیشن کے آئین میں تبدیلی کے ذریعے فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ سے کسی بھی شخص کو بعد از مرگ (مرنے کے بعد) نوبل انعام نہیں دیا جائے گا؛ لیکن اگر نوبل انعام کا اعلان ہونے کے بعد متعلقہ انعام یافتہ فرد کا انتقال ہوجائے تو وہ نوبل انعام اسی کے نام رہے گا۔ 1974 سے پہلے صرف 2 افراد کو بعد از مرگ نوبل انعام دیا گیا تھا لیکن اس سال کے بعد سے اب تک کسی کو مرنے کے بعد نوبل انعام نہیں دیا گیا ہے۔

Load Next Story