سرگرم سفارت کاری کی ضرورت
پاک امریکا تعلقات کافی عرصے سے انحطاط کا شکار ہیں
پاک امریکا تعلقات کافی عرصے سے انحطاط کا شکار ہیں اورہرچندکہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے لیکن امریکا ''ڈو مور'' کی رٹ لگانے سے باز نہیں آرہا۔ پاکستان نے کابل حکومت اورطالبان کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے ہر ممکنہ کوشش کی لیکن اس کوشش میں ناکامی کے نتیجے میں امریکا نے ڈرون حملہ کرکے طالبان رہنما ملا منصور کو ہلاک کردیا۔ امریکا کی برہمی کا سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوا بلکہ امریکی کانگریس نے وہ رقم بھی بلاک کردی جس سے پاکستان کے لیے آٹھ ایف۔16ہوائی جہاز خریدے جانے والے تھے۔ پاکستان کو سزا دینے کا سلسلہ اس پر ختم نہیں ہوا بلکہ امریکی وزیر دفاع نے ''کولیشن سپورٹ فنڈ'' سے پاکستان کو دی جانے والی کئی ملین ڈالرز کی ادائیگی بھی رکوادی۔
گزشتہ جولائی میں امریکی سینیٹ کی ایک سماعت کے دوران کی امریکی سینیٹرز اور ماہرین نے یہ الزام عائد کرتے ہوئے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک اورلشکر طیبہ وجیش محمد کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام ہے انتہائی غم و غصے کا بھی اظہار کیا۔ اس موقعے پر پاکستان کے خلاف نئی پابندیاں عائدکرنے کی تجاویز بھی پیش کی گئیں جن کے سلسلے میں افغانستان، عراق اور اقوام متحدہ میں امریکا کے افغان نژاد سابقہ سفیر زلمے خلیل زاد کا سب سے بڑا ہاتھ تھا۔
کیپٹل ہل میں پاکستان سے شدید بغض وعناد رکھنے کے لیے بدنام دو امریکی قانون سازوں ٹیڈپو اور روہرابیکر نے امریکی کانگریس میں ایک بل پیش کیا ہے جس میں پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کا انتہائی شرانگیز مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ دونوں اس مہم کے سب سے زیادہ سرگرم اور فعال سرغنہ ہیں جس کا مقصد پاکستان کے لیے ہر قسم کی دفاعی امداد پر پابندیاں عائد کرانا ہے۔
پاکستان کو ایف 16 ہوائی جہازوں کی فراہمی اسی مہم کے نتیجے میں روکی گئی تھی۔ امریکی سینیٹ میں مذکورہ بل متعارف کراتے ہوئے امریکی کانگریس کے رکن ٹیڈپو نے یہ الزام تراشی بھی کی کہ پاکستان کئی سالوں سے امریکا کے دشمنوں کی پشت پناہی اورمدد بھی کر رہا ہے۔ اگرچہ عام طور پر امریکی قانون ساز پاکستان مخالف ان دونوں قانون سازوں کے متعارف کرائے جانے والے بلوں کو کوئی گھاس نہیں ڈالتے اور نتیجتاً ان بلوں کا بھی وہی حشر ہوگا لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس حرکت سے یہ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا میں پاکستان مخالف لابی بہت سرگرم ہے جس کا حکومت پاکستان کو بڑی سختی سے نوٹس لینا چاہیے اور امریکا میں متعین پاکستانی سفیر کو اس کا بلاتاخیر توڑ کرنا چاہیے۔
اس کے بعد ماہ ستمبر کے اوائل میں ہونے والی امریکی سینیٹ کی سماعت کسی قدر متوازن اور معتدل تھی۔ تاہم سینیٹر کروکر اور ان کے بعض ہمنواؤں نے پاکستان کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے حق میں اپنی آوازیں بلند کیں۔ اس کے بعد امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ یقین دہانی کرائی کہ امریکی انتظامیہ پاکستان کے خلاف کوئی پابندیاں لگانے کا ارادہ نہیں رکھتی اور وہ اس کی علاقائی سالمیت کا احترام کرتی ہے۔
امریکی سینیٹ کے پہلے اور بعد کے اجلاسوں میں پائی جانے والی تبدیلی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ امریکی اپروچ میں کوئی نہ کوئی فرق ضرور آیا ہے۔ شاید واشنگٹن میں بعض سنجیدہ مزاج لوگوں کو یہ احساس ہوا ہو کہ پاکستان کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا سودا امریکا کے قلیل اور طویل مدتی مفاد میں نہ ہونے کے سبب بڑا مہنگا پڑے گا۔پاکستان کے بارے میں امریکی سوچ اور رویے میں تبدیلی کا بنیادی سبب بھارت کی پاکستان مخالف سفارت کاری ہے جس کی جارحیت میں کمی آنے کے بجائے روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکی سینیٹ کی دوسری شنوائی کے دوران اسلام آباد میں متعین امریکی سی آئی اے کے سابقہ چیف رابرٹ گرینئر نے یہ انکشاف کیا کہ 1994 میں پاکستان دہشت گرد ریاست قرار دیا جانے سے بال بال بچ گیا۔ پاکستان نے اس وقت امریکا کو یہ باورکرادیا کہ مقبوضہ کشمیر کی حق خود ارادیت کے لیے جاری جدوجہد کو دہشت گردی نہیں قرار دیا جاسکتا اور یہ نہیں ہوسکتا کہ قابض بھارتی فوجیں نہتے کشمیریوں پر ظلم وتشدد کے پہاڑ ڈھاتی رہیں اور پاکستان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے۔ 1994 میں پاکستان پر پریسلر نیوکلیئر پابندیاں عائد تھیں لیکن اس کے باوجود بے نظیر بھٹو کے دور حکمرانی میں واشنگٹن میں پاکستان کے بہت سے دوست موجود تھے۔
تاہم اس وقت تک بھارت امریکا گٹھ جوڑ معرض وجود میں نہیں آیا تھا۔ موجودہ صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ کیونکہ اب واشنگٹن میں پاکستان کے دوست کم اور دشمن زیادہ ہیں۔اگرچہ امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے پاکستان کو متعدد یقین دہانیاں کرائی جاچکی ہیں لیکن بھارت اور امریکا کی ملی بھگت سے اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف فائل تیارکی جارہی ہے اس سلسلے کا پہلا قدم حقانی گروپ، لشکر طیبہ اور جیش محمد کو سلامتی کونسل کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کروانا ہے۔ دوسرا قدم ان تنظیموں کو خلاف قانون قرار دلوانا اور ان کے اثاثوں کو ضبط کروانا ہے۔
اس صورت حال میں پاکستان کو اپنا ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا چاہیے۔ بقول شاعر:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
پاکستان کو سفارتی محاذ پر ہر آن چوکس اور چوکنا رہنا ہوگا اور بین الاقوامی برادری کو یہ باور کرانا ہوگا کہ کابل اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کے بغیر افغانستان میں قیام امن کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کو موجودہ حالات میں چومکھی لڑنا ہوگی اور اقوام عالم کو یہ باور کرانا ہوگا کہ اصل دہشت گرد بھارت ہے جو مقبوضہ کشمیر میں کھلم کھلا ریاستی دہشت گردی کا سب سے بڑا مجرم ہے۔ اس سے پہلے کہ امریکی ایوان صدر میں آیندہ تبدیلی آئے پاکستان کو اپنے بچاؤ کے لیے مختلف محاذوں پر اپنے دفاع کے لیے جنگ لڑنا پڑے گی۔
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھرکبھی
دیکھو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
گزشتہ جولائی میں امریکی سینیٹ کی ایک سماعت کے دوران کی امریکی سینیٹرز اور ماہرین نے یہ الزام عائد کرتے ہوئے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک اورلشکر طیبہ وجیش محمد کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام ہے انتہائی غم و غصے کا بھی اظہار کیا۔ اس موقعے پر پاکستان کے خلاف نئی پابندیاں عائدکرنے کی تجاویز بھی پیش کی گئیں جن کے سلسلے میں افغانستان، عراق اور اقوام متحدہ میں امریکا کے افغان نژاد سابقہ سفیر زلمے خلیل زاد کا سب سے بڑا ہاتھ تھا۔
کیپٹل ہل میں پاکستان سے شدید بغض وعناد رکھنے کے لیے بدنام دو امریکی قانون سازوں ٹیڈپو اور روہرابیکر نے امریکی کانگریس میں ایک بل پیش کیا ہے جس میں پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کا انتہائی شرانگیز مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ دونوں اس مہم کے سب سے زیادہ سرگرم اور فعال سرغنہ ہیں جس کا مقصد پاکستان کے لیے ہر قسم کی دفاعی امداد پر پابندیاں عائد کرانا ہے۔
پاکستان کو ایف 16 ہوائی جہازوں کی فراہمی اسی مہم کے نتیجے میں روکی گئی تھی۔ امریکی سینیٹ میں مذکورہ بل متعارف کراتے ہوئے امریکی کانگریس کے رکن ٹیڈپو نے یہ الزام تراشی بھی کی کہ پاکستان کئی سالوں سے امریکا کے دشمنوں کی پشت پناہی اورمدد بھی کر رہا ہے۔ اگرچہ عام طور پر امریکی قانون ساز پاکستان مخالف ان دونوں قانون سازوں کے متعارف کرائے جانے والے بلوں کو کوئی گھاس نہیں ڈالتے اور نتیجتاً ان بلوں کا بھی وہی حشر ہوگا لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس حرکت سے یہ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا میں پاکستان مخالف لابی بہت سرگرم ہے جس کا حکومت پاکستان کو بڑی سختی سے نوٹس لینا چاہیے اور امریکا میں متعین پاکستانی سفیر کو اس کا بلاتاخیر توڑ کرنا چاہیے۔
اس کے بعد ماہ ستمبر کے اوائل میں ہونے والی امریکی سینیٹ کی سماعت کسی قدر متوازن اور معتدل تھی۔ تاہم سینیٹر کروکر اور ان کے بعض ہمنواؤں نے پاکستان کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے حق میں اپنی آوازیں بلند کیں۔ اس کے بعد امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ یقین دہانی کرائی کہ امریکی انتظامیہ پاکستان کے خلاف کوئی پابندیاں لگانے کا ارادہ نہیں رکھتی اور وہ اس کی علاقائی سالمیت کا احترام کرتی ہے۔
امریکی سینیٹ کے پہلے اور بعد کے اجلاسوں میں پائی جانے والی تبدیلی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ امریکی اپروچ میں کوئی نہ کوئی فرق ضرور آیا ہے۔ شاید واشنگٹن میں بعض سنجیدہ مزاج لوگوں کو یہ احساس ہوا ہو کہ پاکستان کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا سودا امریکا کے قلیل اور طویل مدتی مفاد میں نہ ہونے کے سبب بڑا مہنگا پڑے گا۔پاکستان کے بارے میں امریکی سوچ اور رویے میں تبدیلی کا بنیادی سبب بھارت کی پاکستان مخالف سفارت کاری ہے جس کی جارحیت میں کمی آنے کے بجائے روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکی سینیٹ کی دوسری شنوائی کے دوران اسلام آباد میں متعین امریکی سی آئی اے کے سابقہ چیف رابرٹ گرینئر نے یہ انکشاف کیا کہ 1994 میں پاکستان دہشت گرد ریاست قرار دیا جانے سے بال بال بچ گیا۔ پاکستان نے اس وقت امریکا کو یہ باورکرادیا کہ مقبوضہ کشمیر کی حق خود ارادیت کے لیے جاری جدوجہد کو دہشت گردی نہیں قرار دیا جاسکتا اور یہ نہیں ہوسکتا کہ قابض بھارتی فوجیں نہتے کشمیریوں پر ظلم وتشدد کے پہاڑ ڈھاتی رہیں اور پاکستان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے۔ 1994 میں پاکستان پر پریسلر نیوکلیئر پابندیاں عائد تھیں لیکن اس کے باوجود بے نظیر بھٹو کے دور حکمرانی میں واشنگٹن میں پاکستان کے بہت سے دوست موجود تھے۔
تاہم اس وقت تک بھارت امریکا گٹھ جوڑ معرض وجود میں نہیں آیا تھا۔ موجودہ صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ کیونکہ اب واشنگٹن میں پاکستان کے دوست کم اور دشمن زیادہ ہیں۔اگرچہ امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے پاکستان کو متعدد یقین دہانیاں کرائی جاچکی ہیں لیکن بھارت اور امریکا کی ملی بھگت سے اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف فائل تیارکی جارہی ہے اس سلسلے کا پہلا قدم حقانی گروپ، لشکر طیبہ اور جیش محمد کو سلامتی کونسل کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کروانا ہے۔ دوسرا قدم ان تنظیموں کو خلاف قانون قرار دلوانا اور ان کے اثاثوں کو ضبط کروانا ہے۔
اس صورت حال میں پاکستان کو اپنا ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا چاہیے۔ بقول شاعر:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
پاکستان کو سفارتی محاذ پر ہر آن چوکس اور چوکنا رہنا ہوگا اور بین الاقوامی برادری کو یہ باور کرانا ہوگا کہ کابل اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کے بغیر افغانستان میں قیام امن کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کو موجودہ حالات میں چومکھی لڑنا ہوگی اور اقوام عالم کو یہ باور کرانا ہوگا کہ اصل دہشت گرد بھارت ہے جو مقبوضہ کشمیر میں کھلم کھلا ریاستی دہشت گردی کا سب سے بڑا مجرم ہے۔ اس سے پہلے کہ امریکی ایوان صدر میں آیندہ تبدیلی آئے پاکستان کو اپنے بچاؤ کے لیے مختلف محاذوں پر اپنے دفاع کے لیے جنگ لڑنا پڑے گی۔
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھرکبھی
دیکھو زمانہ چال قیامت کی چل گیا