پلیجو صاحب کی واپسی

رسول بخش پلیجو سے ہزاروں لوگوں کی طرح میرا تعلق بھی نیاز مندانہ ہے

رسول بخش پلیجو سے ہزاروں لوگوں کی طرح میرا تعلق بھی نیاز مندانہ ہے۔شائد ہمارے مابین ایک غیر تحریری معاہدہ ہے کہ جب بھی ملاقات ہوگی سیاست کے سوا ہر موضوع پر بات ہوگی۔خیر بات کیا ہوتی ہے میں تو انھیں بس ایک آدھ سوال کر کے چھیڑ دیتا ہوں اور پھر ساٹھ برس سے زائد پر پھیلے سیاسی ، سماجی ، عمرانی ، نظریاتی ، ادبی و رومانی مشاہدہ کار کی گفتگو کے دانے اپنی ذہنی مالا میں پروتا چلا جاتا ہوں۔اس تعلق کی کیمسٹری کچھ ایسی ہے کہ پلیجو صاحب کو کبھی یہ نہیں پوچھنا پڑتا کہ یہ جو تم نے سوال اٹھایا ہے اس کی مزید وضاحت کرو۔یا مجھے کہنا پڑے کہ آپ کی یہ بات پوری طرح میری سمجھ میں نہیں آئی اس سے آپ کی کیا مراد ہے۔

اسی کمیسٹری کے ساتھ دو ہزار تیرہ کے کسی دن حیدرآباد کے نسیم نگر کے پلیجو ہاؤس میں علیل پلیجو صاحب کی عیادت کے لیے گیا تو بنا سیاق و سباق میں نے پہلی بار ایک سیاسی سوال پوچھا۔آپ تو ایسے نہ تھے یہ آپ نے کیا کیا ؟کہنے لگے انسان سے کچھ باتیں سرزد ہو جاتی ہیں وجہ بعد میں ڈھونڈتا پھرتا ہے۔اب آپ پوچھیں گے کہ سوال کا سیاق و سباق کیا تھا اور پھر جواب میں کیا پوشیدہ تھا۔عرض یہ ہے کہ یہ سوال اپنے صاحبزادے ایاز لطیف پلیجو کو پارٹی قیادت سونپنے کے بارے میں تھا۔نہ میں نے سوال میں کسی کا نام لیا نہ پلیجو صاحب نے جواب میں کسی کا نام لیا اور بات بھی ہوگئی۔یہ تھی کیمسٹری۔

گذشتہ روز اس سوال کا تفصیلی جواب بغیر پوچھے ایک بار پھر مل گیا۔جب اچانک رسول بخش پلیجو نے ایک پریس کانفرنس میں یہ بم پھوڑا کہ قومی عوامی تحریک پر دشمن قوتوں کا براہِ راست و بلا واسطہ قبضہ ہو چکا ہے۔لہذا اب سابق عوامی تحریک کو بحال کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ آج کے بعد میرا اور ساتھیوں کا ایاز لطیف سے کوئی تنظیمی تعلق نہیں رہا۔بیان میں مزید کہا گیا کہ ہم کشمیریوں کے حقِ خوداردایت کے لیے جاری جدوجہد کی مکمل حمائت کرتے ہیں۔چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور منصوبے میں سندھ کو شامل کرتے ہوئے اس کا دائرہ کیٹی بندر تک بڑھایا جائے۔پاکستان کو کثیر قومی ریاست قرار دے کر سندھی ، پشتو ، پنجابی ، بلوچی اور سرائیکی کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔بحال شدہ عوامی تحریک کا تنظیمی کنونشن اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں حیدرآباد میں ہوگا وغیرہ وغیرہ...

مجھے پارٹی کے اندرونی حالات تو نہیں معلوم مگر ایک نہ ایک دن باپ کے آئیڈیل ازم اور بیٹے کی سیاسی عملیت پسندی میں ٹکراؤ ہونا ہی تھا سو ہوگیا۔اس ٹکراؤ اور طلاق کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کے ڈائنو سار کے سامنے موہن جو دڑو کے آثار کی طرح بکھری پڑی پیر پرست ، قوم پرست و لبرل سیکولر تنظیموں اور گروہوں کی سیاست مزید کمزور ہوگی یا اس میں طاقت کا انجکشن لگے گا فوری طور پر بتانا کسی کے لیے بھی مشکل ہے۔

جنرل ضیا الحق کے دور تک سندھ کی سیاست میں صف بندی شیشے کی صاف تھی۔پیپلز پارٹی سندھ کا سیاسی چہرہ تھی اور اب بھی ہے مگر عوامی تحریک جیسی تنظیمیں سندھ کی امنگوں کا چہرہ تھیں۔اس کا واضح ترین اظہار انیس سو تراسی کی تحریکِ بحالیِ جمہوریت میں سندھ کے مجموعی جدو جہدی کردار کی شکل میں اب تاریخ کا حصہ ہے۔مگر جب مشترکہ دشمن سامنے سے ہٹ گیا تو سیاست بھی پتوں کی طرح اڑنے لگی۔پیپلز پارٹی تو اپنی روائیتی قلعہ بندی بچانے میں کامیاب رہی البتہ فاضل راہو کی شہادت کے سبب عوامی تحریک جیسی منظم جماعت گویا انجن سے محروم ہوگئی اور جوش و جذبہ اور چہروں پر مستقبل کی چمک ماند پڑتی گئی۔

جی ایم سید کی زندگی میں ہی یہ ہوگیا کہ جئے سندھ کے مختلف دھڑے کیا چاہتے ہیں ؟ کچھ پتہ نہیں چلتا تھا اور آج تو جئے سندھ کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ کہاں سے آیا کدھر گیا وہ۔قادر مگسی کیوں آئے ، کیا کیا ، کیوں سائیڈ لائن ہوگئے۔عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ۔


پیسے کی چمک ، قبائلی عصبیت ، بھتہ خوری ، جرم اور سیاست کی انڈر ہینڈ ڈیلنگ، ایجنسیوں کا کردار، زرداریانہ پیپلز پارٹی کی منڈیانہ و کاروباری حکمتِ عملی ، با اثر روحانی و سیاسی خانوادوں کی نئی نسل کی تیزی سے بدلتی ترجیحات ، ٹنل ویژن ، کتاب سے اجنبیت ، غرض آج کا سندھ اس سیاسی گودام جیسا ہے جہاں تاروں کے گھچے کچھ اس طرح پڑے ہیں کہ کچھ پتہ نہیں چلتا کونسی تار کا کنکشن کہاں جڑا ہوا ہے ، کونسی بیچ میں سے ٹوٹی ہوئی ہے اور کونسی بالکل ناکارہ ہوچکی ہے اور کون سی نہ نظر آنے والی تار سے کس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔

اس گودام کی چھت دیکھیں تو اس پر پیسے ، موقع پرستی اور شارٹ کٹ کی چمگادڑیں الٹی لٹکی دکھائی دیں گی۔چمگادڑ کی تشبیہہ میں اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ اس کے بارے میں یہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ پرندہ ہے یا جانور یا کوئی بیچ کی چیز۔چمگادڑ اندھیرے میں رہنے کی عادی ہوتی ہے۔روشنی کو دشمن سمجھتی ہے۔گویا چمگادڑ کے لیے اندھیرا ہی روشنی ہے۔

مجھے رسول بخش پلیجو جیسے کلاسیکی دور کے سیاستدان و عالم کے متحرک ہونے پر خوشی بھی ہے اور یہ دکھ بھی کہ جو عمر گاؤ تکیے سے ٹیک لگا کر نوجوانوں کا جمگھٹا آراستہ کر کے انھیں تاریخ ، سیاست اور ادب کے اسباق و تجربات منتقل کرنے کی ہے ، انھیں یہ بتانے کی ہے کہ جدوجہد کے راستے میں قید و بند انسان کو کتنا کمزور یا طاقت ور بناتی ہے اور سیاست محض لیپ ٹاپ ، ٹویٹر ، فیس بک ، کنسرٹس اور آٹھ تا بارہ بجے تک کے چینلی اکھاڑوں میں زور آزمائی سے آگے نہیں بڑھتی بلکہ پیدل چلنے ، دروازہ کھٹکھٹانے ، کسی محروم کو گلے لگانے اور بغیر ٹوکے پوری بات سننے سے ہی آگے بڑھتی ہے۔اس عمر میں رسول بخش پلیجو کو ایک بار پھر گھر سے باہر نکلنا پڑ رہا ہے۔

لوگ کہتے ہیں سندھ اب ستر ، اسی اور نوے کی دہائی کا سندھ نہیں رہا۔نئی نسل اپنی مالک آپ ہے۔اس کے آدرش اور خیالات بالکل مختلف ہیں۔اس کی زندگی میں آئیڈیل ازم بس اتنا باقی ہے جو کسی کیرئیرسٹ نسل کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔پلیجو صاحب کو چھیاسی برس کی عمر میں یہ سب نہیں کرنا چاہیے۔ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔لیکن اگر انھوں نے یہ انتہائی قدم اٹھایا ہے تو سوچئے ناامیدی کا اندھیرا کس قدر گہرا ہے۔ بقول جون ایلیا

ہم جو دنیا سے تنگ آئے ہیں

تنگ آتے چلے گئے ہوں گے

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)
Load Next Story