بے مقصد لاتعداد پارٹیاں اور امیدوار
رجسٹرڈ پارٹیوں میں تقریباً دودرجن مشہور سیاسی پارٹیوں کے علاوہ باقی جو تین سو پارٹیاں ہیں
ملک بھر میں سوا تین سو سے زائد مختلف پارٹیاں الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہیں جن میں اکثریت انتخابات میں حصہ لینے کے لیے انتخابی نشانات بھی حاصل کرتی ہیں۔ ان رجسٹرڈ پارٹیوں میں تقریباً دودرجن مشہور سیاسی پارٹیوں کے علاوہ باقی جو تین سو پارٹیاں ہیں ۔ ان کے ملک کے عوام نام تک نہیں جانتے کہ یہ کون سی پارٹیاں ہیں۔ کہاں اپنا وجود رکھتی ہیں اور انھیں کس بنیاد پر رجسٹریشن دی گئی ہے اور ان کے ارکان کس دنیا میں بستے ہیں۔
تمام رجسٹرڈ پارٹیوں کو الیکشن کمیشن کے پاس اپنے مالی گوشوارے قانونی طور پر پیش کرنا پڑتے ہیں مگر چھوٹی اورنام نہاد پارٹیاں تو رہیں اپنی جگہ بلکہ بڑی سیاسی اور حکمران پارٹیاں بھی وقت پر گوشوارے جمع نہیں کراتیں جیسے اب بھی ہوا ہے اور ستمبر میں مقررہ مدت گزر جانے کے بعد بھی بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی یہ قانونی ذمے داری پوری نہیں کی، جس پر الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ ایسا نہ کرنے والی سیاسی پارٹیوں کو انتخابی نشان الاٹ نہیں کیے جائیں گے۔
سیاسی پارٹیوں کے ساتھ منتخب عوامی نمایندوں پر بھی الیکشن کمیشن کی یہی پابندی عائد ہے اور سینیٹر اور ارکان اسمبلی بھی باقاعدگی سے اپنے مالی گوشوارے جمع نہیں کراتے اور الیکشن کمیشن کو ایسے منتخب ارکان کی رکنیت معطل کرنا پڑتی ہے جو جمع کرانے کے بعد بحال کردی جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن کو صرف گوشوارے جمع کرانے سے غرض ہے مالی گوشواروں کے غلط یا درست ہونے سے کوئی غرض نہیں ہے اور کبھی غلط گوشوارے جمع کرانے پر اعتراض نہیں کیا گیا۔ منتخب نمایندوں کے مالی گوشواروں کی جب جھوٹی تفصیلات میڈیا میں آتی ہیں تو لوگ ہنستے ہیں کہ ہمارے یہاں کیسے کیسے کنگلے منتخب نمایندے ہیں جو الیکشن جیتنے پر توکروڑوں روپے خرچ کردیتے ہیں اور گوشواروں میں اکثر ارکان خود کو متوسط طبقے سے خود کو غریب ظاہر کرتے ہیں۔
ایک سابق وزیر اعظم نے اپنے دور میں پیش کیے جانے والے مالی گوشوارے میں ظاہر کیا تھا کہ ان کے پاس اپنی گاڑی تک نہیں ہے جب کہ ان پر اربوں کی کرپشن کے الزامات ہیں اور کیس بھی چل رہے ہیں۔ ان پر اپنی حکومت میں اپنے خاندان اور سسرال کے افراد تک پر بدعنوانیوں کے الزامات ہیں۔ بہت سے ارکان یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے پاس اپنا گھر تک نہیں ہے اور اگر گھر اور جائیداد ظاہر بھی کی جاتی ہے تو اس کی مالیت اتنی کم دکھاتے ہیں کہ پڑھ کر ہنسی آتی ہے جب کہ اصل قیمت کئی سو گنا زیادہ ہوتی ہے۔
اگر منتخب ارکان کے خلاف غلط مالی گوشوارے جمع کرانے پر کارروائی کی گئی ہوتی تو ان کی نااہلیت کے کیس نہ آتے۔ الیکشن کمیشن صرف متعلقہ منتخب ادارے کے اسپیکروں اور چیئرمین کی طرف سے بھیجے گئے کیسوں کو ہی سنتا ہے اور ان کے ووٹروں کو یہ حق حاصل نہیں۔ ملک میں قومی اور صوبائی سطح پر کام کرنے والی سیاسی جماعتوں کی تعداد بمشکل دو درجن ہوگی جن کے ارکان قومی وصوبائی اسمبلیوں میں موجود ہیں اور باقی تین سو ایسی رجسٹرڈ پارٹیاں ہیں جن کا کونسلر بھی کہیں منتخب نہیں ہوتا مگر وہ الیکشن کمیشن کے پاس بطور سیاسی پارٹی رجسٹرڈ ہیں اور انتخابی نشانات بھی لیتی ہیں اور اس بہتات کی وجہ سے الیکشن کمیشن کے پاس انتخابی نشانات بھی کم پڑگئے ہیں اور مجبوراً ڈمی پارٹیوں کو ڈمی انتخابی نشانات دینے پڑتے ہیں۔
چند مفاد پرستوں پر مشتمل اکثر پارٹیاں انتخابات میں بلیک میلنگ کے لیے حصہ لیتی ہیں اور مفاد پورا ہونے پر دستبردار ہوجاتی ہیں اور مفاد پورا نہ ہونے پر دستبردار نہیں ہوتیں کہ چلو انھیں ووٹ ملیں نہ ملیں مگر لاکھوں کی تعداد میں سرکاری طور پر چھپنے والے انتخابی بیلٹ پیپروں پر ان کا نام چند ہزار روپے کی ضمانت کے عوض چھپ جاتا ہے اور ان کی ضمانت تو ویسے ہی ضبط ہوجاتی ہے۔
زیادہ امیدواروں والا بیلٹ پیپر ایک چوتھائی صفحے کا ہوتا ہے جس کے لیے صرف کاغذ کی خریداری اور پرنٹنگ، بائنڈنگ پر سرکاری اخراجات لاکھوں روپے آتے ہیں جب متعلقہ الیکشن پر الیکشن کرانے پر نہ صرف ایک کروڑ سے زائد اخراجات ہوجانے پر اتنی رقم بطور زر ضمانت بھی وصول نہیں ہوتی جو صرف اسٹیشنری پر خرچ ہوجاتی ہے جب کہ متعین کیے جانے والے انتخابی عملے، سیکیورٹی اور ٹرانسپورٹ پر بھی خطیر رقم خرچ ہوجاتی ہے جو قومی نقصان ہے ۔ الیکشن کمیشن کو ملنے والا فنڈ عوام کے ٹیکسوں سے ہی ملتا ہے۔
لاتعداد سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ الیکشن میں حصہ لینے والے آزاد امیدوار بھی ہیں جن کی وجہ سے قومی خزانے کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے اور امیدواروں کی طویل فہرستوں سے ووٹروں کے لیے بھی ووٹ دیتے وقت مسائل بڑھتے ہیں۔
یہ آزاد امیدوار شوقیہ طور پر ذاتی شہرت کے لیے امیدوار بنتے ہیں جس کا ایک ثبوت پی ایس 127 ہے جہاں آزاد امیدواروں کی تعداد 15 تھی اور بعض امیدواروں کو صرف نو سے 93 تک ووٹ ملے۔ اس حلقے میں امیدواروں کی تعداد بیس تھی اور سیاسی پارٹیوں کے امیدوار صرف پانچ تھے۔ ساہیوال کے حلقے این اے 162 کے ضمنی انتخاب میں بھی آزاد امیدواروں کی تعداد سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں سے زیادہ تھی جہاں ایک آزاد امیدوار کو صرف 73 ووٹ ملے اور کامیاب (ن) لیگی امیدوار نے 73813 ووٹ لیے۔
جہاں کامیابی کے لیے پون لاکھ ووٹ ضروری ہوں وہاں آزاد امیدوار سو ووٹ بھی نہ لے سکے تو ایسے آزاد امیدواروں کے الیکشن میں حصہ لینے کو مذاق کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ ملک میں جو تین سو کے قریب نام نہاد پارٹیاں رجسٹرڈ ہیں انھیں رجسٹر کرانے والوں کی کوئی سیاسی تو کیا ذاتی حیثیت بھی نہیں ہوتی۔ یہ عہدیدار صرف اخبارات میں کچھ دے دلا کر چھپنے کے شوقین ہوتے ہیں اور چند افراد پر مشتمل اپنی نام نہاد پارٹی کے پولیس اور سرکاری دفاتر میں اہمیت حاصل کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں اور اپنا کام نہ کرنے والے افسروں کو بلیک میل کرتے ہیں اور اخبارات میں ان کے خلاف بے بنیاد خبریں شایع کراتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے پاس جو آتا ہے الیکشن کمیشن اس کی سیاسی حیثیت دیکھے بغیر اسے سیاسی پارٹی تسلیم کرکے رجسٹرڈ کرلیتا ہے جس کے بعد ایسی نام نہاد سیاسی پارٹیوں کو انتخابی نشان بھی مل جاتا ہے جس کا سربراہ زندگی میں کبھی یوسی کونسلر بھی منتخب نہ ہوا ہو۔
ایسی خود ساختہ سیاسی پارٹیاں رجسٹرڈ کرانے والوں سے جواب طلب نہیں کیا گیا کہ انھوں نے انتخابی نشانات لے کر بھی الیکشن میں حصہ کیوں نہیں لیا تو وہ وہاں دوبارہ قریب بھی نہیں پھٹکیں گے۔ ملک میں لاتعداد نام نہاد سیاسی پارٹیوں کا وجود کرپشن کا باعث بن رہا ہے۔ ہر الیکشن میں حصہ لینے والے آزاد امیدواروں کی اکثریت قومی خزانے پر بوجھ بن رہی ہے۔ جو امیدوار دو لاکھ سے زائد ووٹروں کے صوبائی حلقے میں صرف نو ووٹ لے، کیا ایسے امیدوار کار سرکار کو مذاق نہیں بنا رہے۔ نو ووٹ لینے والے کا نام دو لاکھ بیلٹ پیپروں پر چھپ رہا ہے اور بے شمار امیدواروں کے بیلٹ پیپر پر اپنے امیدوار کو تلاش کرنا ووٹر کے لیے بھی درد سر اور وقت کا ضیاع بنا ہوا ہے اس لیے الیکشن کمیشن کو خود ساختہ سیاسی پارٹیوں اور شہرت کے خواہاں آزاد امیدواروں کے سدباب کے لیے اقدامات پر توجہ دینی چاہیے۔