لکھنے کی مسرت
چپ چاپ، ساکت، شام اترنے کا انتظار کرتا ہوا
وہ کمرے کے تاریک گوشے میں خاموش کھڑا رہتا۔
چپ چاپ، ساکت، شام اترنے کا انتظار کرتا ہوا۔اس وقت کا انتظار، جب اس سے ہونے والی گزشتہ ملاقات میرے ذہن سے مکمل طور پر محوہوچکی ہو اورمیں لکھنے کی میز پر بیٹھوں، انگلیاں کی بورڈ پرٹکا کر لیب ٹاپ کی سفید اسکرین کے سامنے اپنے ذہن کو خالی چھوڑ دوں، تاکہ ایک کہانی بن سکوں۔ کہانی، جو پڑھنے والوں کوگرویدہ بنا لے اور وہ بار بار پلٹ کر اِس کی سمت آئے۔۔۔ تو وہ کمرے کے تاریک گوشے میں خاموش کھڑا رہتا ۔کئی کئی ہفتوں تک، تاکہ اس سے ہونے والی گزشتہ ملاقات میرے ذہن سے محوجائے اور پھر ایک روزجب میں لکھنے کی میز پر بیٹھے بیٹھے تھک جاؤں، اورلیپ ٹاپ بند کرکے اٹھنے لگوں، تو وہ میرے سامنے آجائے اور میں جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجاؤں۔
وہ ایک سایہ ہے۔۔۔ وہ ایک سوال ہے۔سوال، جو وقفے وقفے سے میرا سامنے آن کھڑا ہوتا ہے اور پوچھتاہے'' تم کیوں لکھتے ہو؟دن رات ورق سیاہ کرنے کا سبب کیا ہے ؟ لفظوں کی اِس انجمن کا آخرمقصد کیا ؟ ''
بظاہر یہ سادہ سا سوال ہے، مگرحقیقتاً انتہائی دشوار۔ یہ کہنا آسان ہے کہ اِس عمل کا مقصد اصلاح معاشرہ ہے، مگر کیا یہی مقصد میرے قلم میں روح بن کر دوڑتا ہے؟ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ لکھنے کا عمل اظہارذات کی ایک شکل ہے۔ بات میں وزن ہے، پر یہاں ایک اورسوال پیدا ہوتا ہے کہ لکھنا ہی کیوں؟ گائیکی، رقص یا مصوری کیوں نہیں؟کوئی کھیل کیوں نہیں؟ طب یا تعمیرا ت کا شعبہ کیوں نہیں؟بات یہ ہے کہ قدرت ہر انسان کو ایک اچھوتی اہلیت کے ساتھ پیدا کرتی ہے، ایک ہنر، جس میں آپ ماہر ہوتے ہیں۔۔۔ ایک کام، جو آپ دیگر کاموں سے بہتر کرسکتے ہیں۔انسان پر لازم ہے کہ اپنی اس اہلیت کو شناخت کرے کہ اسی کے وسیلے وہ سماج کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرسکتا ہے اور قدرت کے تعمیری منصوبے کا حصہ بن سکتا ہے۔ یعنی جسے قدرت نے لکھنے کی صلاحیت عطا کی ہے، اس پر لازم ہے کہ وہ لکھے، سو یہی کر رہا ہوں، مگر یہ سوال ہنوز باقی ہے کہ آخر میں لکھتا کیوں ہوں؟
سادہ ترین الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ وہ عمل ہے، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔ شاید ہر لکھنے والا اس بات سے اتفاق کرے۔ اپنی ذات کی گہرائیوں میںلکھاری کو ادراک ہوتا ہے کہ یہ خوشی کا احساس ہے، جو اسے لکھنے اور مسلسل لکھتے رہنے پر اکساتا ہے۔ یہ مسرت کا جذبہ ہے، جو تحریر کا جوہر ہے۔ راحت ہے، جو الفاظ کو پراثر بناتی ہے۔یہ مصنف کے دل میں جنم لینے والا تسکین کا احساس ہے، جو قاری کو تسخیرکرتا ہے۔ چاہے لکھاری مزاح لکھے، طربیہ یا حزنیہ، وہ درحقیقت اپنی روح کے لیے لکھتا ہے اور یہی عمل الفاظ کو قوت بخشتا ہے،کہانی کو طلسماتی بنتا ہے، اگر یہ عنصر نہ ہو، تو تحریر بے اثر ٹھہرے۔لکھنے اور پڑھنے والے؛ دونوں کے لیے لاحاصل۔
آج ہمارے قلم کار، ادیب، شاعر، محقق اور اساتذہ زندگی کے مرکزی دھارے سے کٹ گئے ہیں، رائے عامہ کی نمایندگی کا اعزاز ان سے چھن گیا، ان کا نقطۂ نظر بے وقت ہوا۔ اِس کا ایک سبب توہمارے سماج کی شکست وریخت ہے۔ ناخواندگی عروج پر، معاشی مسائل، بنیادی سہولیات کا فقدان،عدم تحفظ کا احساس۔کسی حس سے پیدا ہونے والا عقلی تاثر، جسے آگاہی کہا جاتا ہے، اِس ماحول میں پنپ ہی نہیں سکتی۔ یعنی وہ آئیڈیل صورت حال میسر نہیں ، جہاں اہل علم اپنا کردار ادا کرسکیں۔۔۔تو یہ بات درست کہ ہمارے ہاں حالات قلم کاروںکے لیے کٹھن،مطالعے کاشوق پہلے جیسا نہیں رہا، کتابوں کی اہمیت گھٹ گئی،غوروفکر کی اب کسے فرصت نہیں، معلومات کی بھرمار نے معلومات کا فقدان پیدا کر دیا ۔ ایسے میں اہل قلم کی اثر پذیری کم ہوجائے، تو حیرت کیسی۔ مگر اس بدبختی کا، ہمارے نزدیک ایک سبب اور ۔
شاید اب قلم کار اپنی خوشی کے لیے نہیں لکھتا۔اس کے قلم سے وہ الفاظ نہیں جھڑتے، جو پہلے مرحلے میں اُس کے اپنے درد کی دوا بنیں، وہ شعر جو اس کے اپنے زخم بھر دے، وہ کہانی، جو اسے تکلیف میں راحت دے، وہ مضمون، جو غم کی فضا میں مسرت کا دیا جلا سکے۔اب اس کی تحریرکا تعلق اس کے اندرون سے نہیں ہوتا۔ یہ اب کوئی روحانی معاملہ نہیں۔آج لکھنے والے ان تحریروں کو ترجیح دیتے ہیں، جنھیں ہاتھوں ہاتھ لیا جائے، جو فوری توجہ حاصل کرلیں، تنازعات کو جنم دے سکیں۔ تحریر، جو چاہے قاری کے شعور میں نہ اترے، مگر جذبات کے ساحل پرکچھ لہریں ضرور پیدا کردے اورکچھ نہیں، توکچھ پیروکار پیدا ہوجائیں۔ جب لکھنے کے عمل سے مسرت نہیں، فقط مفاد جڑا ہو، تو وہ قاری پر دیرپا تاثر نہیں چھوڑ تی اورشاید آج ہمارے قلمکاروں کو اسی دقت کا سامنا ہے۔اِسی باعث ان کے الفاظ بے معنی ہوئے۔۔۔ قلم بے توقیر ٹھہرا۔۔۔ ادیب اور شاعر اپنے منصب سے محروم ہوئے۔۔۔ مرکزی دھارے سے کٹ گئے۔ ہم بھول گئے کہ ہمارے لکھنے کا مقصدکیا ہے۔ ہم نے مقبولیت اور پزیرائی کو، قارئین کی تسکین کو معیار بنا لیا ،لکھنے کے عمل سے جڑی روحانی خوشی کو پس پشت ڈال دیا۔
شاعرجب کوئی کرب منظر دیکھتا ہے، جو اس کے دل میں کھب جائے، تو شعرکی صورت راحت تلاش کرتا ہے۔۔۔ کہانی کارکے سامنے جب کوئی سانحہ گزرتاہے، جو اس کی روح کو جھلسا دے، تو وہ افسانہ لکھ کر اپنے سکون کا سامان کرتا ہے۔۔۔ مضمون نگار جب سماجی المیہ دیکھتا ہے، جو اسے بے چین کر دے، تو وہ اسے بیان کرکے اپنا اطمینان بازیافت کرتا ہے۔ جب قلمکار کوئی ظلم دیکھتا ہے، جو دل پر بوجھ بن جائے، تو وہ اس کے خلاف آواز اٹھا کراس وزن سے نجات حاصل کرتا ہے۔تو صاحب، اِس کالم کولکھنے کا مقصد بھی گمشدہ مسرت کا تعاقب تھا، جو اس سوال کے باعث روٹھ گئی تھی، جو وقفے وقفے سے میرے سامنے آن کھڑا ہوتا'' تم کیوں لکھتے ہو؟ورق سیاہ کرنے کا مقصد کیا ہے؟''
ممکن ہے، آپ ادیب یا شاعر نہ ہوں، نہ توقلم سے آپ کا ناتا ہو ،نہ ہی مضمون نویسی سے دل چسپی، ممکن ہے، آپ تاجر ہوں، دکان دار ہوں، انجینئر یا بزنس ایگزیکٹو ہوں، شیف یا ڈرائیور ہوں، یا پھر ہاؤس وائف، ممکن ہے، آپ سیاست داں ہوں، وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم ہوں،مجھے یقین ہے، اس بظاہر سادہ، مگر انتہائی پرپیچ سوال سے کبھی نہ کبھی آپ کا بھی سامنا ہوا ہوگا۔کبھی ایک سایہ، تنہائی میں چپکے سے آ پ کے سامنے آن کھڑا ہوا ہوگا اور آپ سے پوچھا ہوگا:،جو عمل آپ روز انجام دیتے ہیں، جس کام میں آپ صبح سے شام تک جٹے رہتے ہیں، کیا اُس کے پیچھے روحانی خوشی کا مقصد متحرک ہے؟
ممکن ہے، یہ سادہ سا سوال آپ کے کئی غموں کا مداوا کردے۔