حکمران قوم پانامہ لیکس اور جنگ
موجودہ وقت ملک کی سالمیت کے لیے سوچ بچار کا ہے
موجودہ وقت ملک کی سالمیت کے لیے سوچ بچار کا ہے۔ سی پیک بھڑوں کا چھتا ثابت ہوا۔ کوئی شک نہیں ملک کی تعمیروترقی کے لیے بہترین منصوبہ ثابت ہوگا۔ بہت سارے راستے کھل جائیں گے لیکن امریکا، انڈیا اورکچھ یورپی ممالک اس منصوبے کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں۔
لہٰذا ان دنوں پاکستان پرچاراطراف سے دباؤ ڈالااور ڈلوایا جا رہا ہے۔ سرخیل وہی جو ہمیشہ ہوتا ہے امریکا بہادر۔ لہٰذا ان دنوں عمران خان کا احتجاجی پروگرام وہ عوامی اہمیت حاصل نہ کر پایا جو ماضی میں کرتا رہا۔ فلمی دنیا میں سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کی جوڑی بڑی مقبول ہوئی۔ جہاں وہ دونوں ملے فلم کامیاب۔ سلطان راہی کے مرحوم ہوجانے پر جوڑی ٹوٹ گئی جس کے بعد ناختم ہونے والا خلا موجود رہتا اگر خان صاحب اور علامہ طاہر القادری کی جوڑی نے اسے بھر نہ دیا ہوتا تو ان کی تقاریر، دھمکیاں، ریلیاں، دھرنے ،دو بھائیوں کا ملاپ، جدائی محسوس ہی نہیں ہوئی۔
سلطان راہی اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ یہ تو خیر ایک مذاق ہوا۔ لیکن Situation عمران خان کو Favour نہیں کر رہی۔ بہرحال وہ اعلان کرچکے اب دعا ہی کی جاسکتی ہے وہ معاملات کو اس قدر ضرور پرامن رکھیں کہ انڈیا جیسے پڑوسی کو کوئی موقع نہ مل جائے۔ وہاں سے غالباً ایک ایسے حملے کی تیاری کی جا رہی ہے جو خفیہ طور پرکیا جائے یا کرایا جائے۔ جس کے لیے پاک فوج و حکومت بالکل الرٹ دکھائی دیتے ہیں۔ اگر آپ لاکھوں لوگوں کا مجمع لے کر رائے ونڈ کی جانب سفر کریں گے تو صورتحال نازک ہوسکتی ہے۔ دشمن اس سے فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے لہٰذا موقع نہیں تھا لیکن آپ کو سمجھانا مشکل ہے۔ اللہ ہم سب کی پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔ یعنی ایسے سیاستدان ہیں کہ ایک کھربوں روپے ملک سے باہر لے گئے انھیں رتی برابر احساس نہ ہوا۔ کہا جائے کہ وہ ایماندار نہیں۔ دوسرے جو ایمانداری کے لیے شہرت رکھتے ہیں وہ اس وقت اس رقم پر احتجاج کررہے ہیں جب ملک بیرونی خطرات سے دوچار ہے۔
بدقسمتی دیکھیے اپنے بے ایمان ۔ وجہ نقصان۔ اپنے ایماندار۔ عقل سے بے کار۔ خیر سے خیر نہ ملا۔ شر نے بھی کام پورا کیا۔ دیکھ سبھی آرمی کی طرف رہے ہیں کہ ادھر سے کیا جواب آتا ہے۔ اہم بات ہے لیکن ادھر سے کیا جواب آنا ہے وہاں موجود سربراہ شہدا کے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انتہائی فرض شناس اور پیشہ ور جنرل ہیں وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے تیار نہیں حالانکہ 20 کروڑ پاکستانیوں کی آج یہ سب سے بڑی خواہش ہے جس کا وہ مسلسل اظہار کر رہے ہیں، حکومت و حکومتوں کا علم نہیں کہ وہ اس معاملے میں کیا موقف رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ بڑے لوگ ہیں۔ محب وطن، ایماندار، جو بھی کام کرتے ہیں بڑا کرتے ہیں۔ دنیا کا کوئی اسکینڈل ایسا نہیں جس میں ہمارے حکمران شامل نہ ہوں۔ دل کی ہمیشہ تمنا رہی کہ کاش اس بار ان کا نام نہ ہو۔ تمنا، تمنا ہی رہی کیونکہ پانامہ لیکس کی عزت افزائی ہی ان کے نام سے ہوئی۔ ورنہ تو اسے کوئی پوچھ ہی نہیں رہا تھا۔
دوسرا کوئی ان فریقین سے پوچھے جن میں سے ایک کا دعویٰ 2013 کے الیکشن میں تھا کہ وہ حکومت میں آکر علی بابا چالیس چوروں کو پکڑ کر لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ وہ حکومت میں آکر ان کے اتحادی ہیں بلکہ ایک صوبہ ہی انھیں یہ کہہ کر سونپ دیا کہ تم یہاں ہم وہاں۔ دوسرے فریق نے ہمیشہ کہا پاکستان میں زرداری سے بڑا کرپٹ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ بھی موجودہ احتجاج میں PPP کے اتحادی ہیں اور روز بلاول بھٹو زرداری کو تحریک میں شمولیت کی دعوت یہ کہہ کر دیتے ہیں جلدی آجاؤ، وقت نکل جائے گا۔ ماشا اللہ کیا حکمران ہیں ہمارے۔ ہمارے لیے بھی یہی کہتے ہیں باغیرت قوم ہے۔ دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار۔ جنگ ہوئی تو 20 کروڑ لوگ بھی انڈیا سے لڑیں گے۔
ارے بھائی! مجھے تو دیوار ہی نظر نہیں آرہی۔ سیسہ کہاں تلاش کریں۔ جو قوم سندھی، پنجابی، بلوچ، پختون بن کر فیصلے کرتی ہو اپنے حکمران چنتی ہو اور جس کے حکمران کہتے ہیں پہلے ہم افغان ہیں پہلے ہم بلوچ ہیں اس نے کون سا سیسہ پیا ہے۔ حکمران ہی جانتے ہوں گے۔ اور جنگ میں یہ کیا بن کر لڑیں گے اللہ جانتا ہے۔ میرے حساب سے ابھی ہم منزل سے بہت دور ہیں ایک قوم کی صورت ڈھلنے میں ہمیں نجانے کتنا وقت مزید درکار ہے۔ میرے کالم لکھتے لکھتے سارک سربراہ کانفرنس جو اس مرتبہ پاکستان میں ہونی تھی ملتوی ہوگئی۔ ٹی وی چینلز کا بھلا ہوا انھیں آج کی خبر ملی۔ لیکن اس سے فرق کیا پڑتا ہے۔ انڈیا کے بعد بنگلہ دیش جو اب انڈیا سے بھی بڑا دشمن ہے نے معذرت کرلی۔ میرے حساب سے تو حکومت کو ایسی کانفرنس نہیں کرنی چاہیے جس میں منافقت کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہمیں تو سنجیدگی سے اپنے مسائل پر نظر ڈالنی چاہیے۔ لیکن سنجیدگی...میں کس سے کہہ رہا ہوں۔ یہاں سنجیدہ کون ہے۔ میری پھوپھی کا نام تھا۔ وہ عرصہ ہوا انتقال کرگئیں۔
لہٰذا ان دنوں پاکستان پرچاراطراف سے دباؤ ڈالااور ڈلوایا جا رہا ہے۔ سرخیل وہی جو ہمیشہ ہوتا ہے امریکا بہادر۔ لہٰذا ان دنوں عمران خان کا احتجاجی پروگرام وہ عوامی اہمیت حاصل نہ کر پایا جو ماضی میں کرتا رہا۔ فلمی دنیا میں سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کی جوڑی بڑی مقبول ہوئی۔ جہاں وہ دونوں ملے فلم کامیاب۔ سلطان راہی کے مرحوم ہوجانے پر جوڑی ٹوٹ گئی جس کے بعد ناختم ہونے والا خلا موجود رہتا اگر خان صاحب اور علامہ طاہر القادری کی جوڑی نے اسے بھر نہ دیا ہوتا تو ان کی تقاریر، دھمکیاں، ریلیاں، دھرنے ،دو بھائیوں کا ملاپ، جدائی محسوس ہی نہیں ہوئی۔
سلطان راہی اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ یہ تو خیر ایک مذاق ہوا۔ لیکن Situation عمران خان کو Favour نہیں کر رہی۔ بہرحال وہ اعلان کرچکے اب دعا ہی کی جاسکتی ہے وہ معاملات کو اس قدر ضرور پرامن رکھیں کہ انڈیا جیسے پڑوسی کو کوئی موقع نہ مل جائے۔ وہاں سے غالباً ایک ایسے حملے کی تیاری کی جا رہی ہے جو خفیہ طور پرکیا جائے یا کرایا جائے۔ جس کے لیے پاک فوج و حکومت بالکل الرٹ دکھائی دیتے ہیں۔ اگر آپ لاکھوں لوگوں کا مجمع لے کر رائے ونڈ کی جانب سفر کریں گے تو صورتحال نازک ہوسکتی ہے۔ دشمن اس سے فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے لہٰذا موقع نہیں تھا لیکن آپ کو سمجھانا مشکل ہے۔ اللہ ہم سب کی پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔ یعنی ایسے سیاستدان ہیں کہ ایک کھربوں روپے ملک سے باہر لے گئے انھیں رتی برابر احساس نہ ہوا۔ کہا جائے کہ وہ ایماندار نہیں۔ دوسرے جو ایمانداری کے لیے شہرت رکھتے ہیں وہ اس وقت اس رقم پر احتجاج کررہے ہیں جب ملک بیرونی خطرات سے دوچار ہے۔
بدقسمتی دیکھیے اپنے بے ایمان ۔ وجہ نقصان۔ اپنے ایماندار۔ عقل سے بے کار۔ خیر سے خیر نہ ملا۔ شر نے بھی کام پورا کیا۔ دیکھ سبھی آرمی کی طرف رہے ہیں کہ ادھر سے کیا جواب آتا ہے۔ اہم بات ہے لیکن ادھر سے کیا جواب آنا ہے وہاں موجود سربراہ شہدا کے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انتہائی فرض شناس اور پیشہ ور جنرل ہیں وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے تیار نہیں حالانکہ 20 کروڑ پاکستانیوں کی آج یہ سب سے بڑی خواہش ہے جس کا وہ مسلسل اظہار کر رہے ہیں، حکومت و حکومتوں کا علم نہیں کہ وہ اس معاملے میں کیا موقف رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ بڑے لوگ ہیں۔ محب وطن، ایماندار، جو بھی کام کرتے ہیں بڑا کرتے ہیں۔ دنیا کا کوئی اسکینڈل ایسا نہیں جس میں ہمارے حکمران شامل نہ ہوں۔ دل کی ہمیشہ تمنا رہی کہ کاش اس بار ان کا نام نہ ہو۔ تمنا، تمنا ہی رہی کیونکہ پانامہ لیکس کی عزت افزائی ہی ان کے نام سے ہوئی۔ ورنہ تو اسے کوئی پوچھ ہی نہیں رہا تھا۔
دوسرا کوئی ان فریقین سے پوچھے جن میں سے ایک کا دعویٰ 2013 کے الیکشن میں تھا کہ وہ حکومت میں آکر علی بابا چالیس چوروں کو پکڑ کر لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ وہ حکومت میں آکر ان کے اتحادی ہیں بلکہ ایک صوبہ ہی انھیں یہ کہہ کر سونپ دیا کہ تم یہاں ہم وہاں۔ دوسرے فریق نے ہمیشہ کہا پاکستان میں زرداری سے بڑا کرپٹ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ بھی موجودہ احتجاج میں PPP کے اتحادی ہیں اور روز بلاول بھٹو زرداری کو تحریک میں شمولیت کی دعوت یہ کہہ کر دیتے ہیں جلدی آجاؤ، وقت نکل جائے گا۔ ماشا اللہ کیا حکمران ہیں ہمارے۔ ہمارے لیے بھی یہی کہتے ہیں باغیرت قوم ہے۔ دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار۔ جنگ ہوئی تو 20 کروڑ لوگ بھی انڈیا سے لڑیں گے۔
ارے بھائی! مجھے تو دیوار ہی نظر نہیں آرہی۔ سیسہ کہاں تلاش کریں۔ جو قوم سندھی، پنجابی، بلوچ، پختون بن کر فیصلے کرتی ہو اپنے حکمران چنتی ہو اور جس کے حکمران کہتے ہیں پہلے ہم افغان ہیں پہلے ہم بلوچ ہیں اس نے کون سا سیسہ پیا ہے۔ حکمران ہی جانتے ہوں گے۔ اور جنگ میں یہ کیا بن کر لڑیں گے اللہ جانتا ہے۔ میرے حساب سے ابھی ہم منزل سے بہت دور ہیں ایک قوم کی صورت ڈھلنے میں ہمیں نجانے کتنا وقت مزید درکار ہے۔ میرے کالم لکھتے لکھتے سارک سربراہ کانفرنس جو اس مرتبہ پاکستان میں ہونی تھی ملتوی ہوگئی۔ ٹی وی چینلز کا بھلا ہوا انھیں آج کی خبر ملی۔ لیکن اس سے فرق کیا پڑتا ہے۔ انڈیا کے بعد بنگلہ دیش جو اب انڈیا سے بھی بڑا دشمن ہے نے معذرت کرلی۔ میرے حساب سے تو حکومت کو ایسی کانفرنس نہیں کرنی چاہیے جس میں منافقت کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہمیں تو سنجیدگی سے اپنے مسائل پر نظر ڈالنی چاہیے۔ لیکن سنجیدگی...میں کس سے کہہ رہا ہوں۔ یہاں سنجیدہ کون ہے۔ میری پھوپھی کا نام تھا۔ وہ عرصہ ہوا انتقال کرگئیں۔