اچھی اورمعیاری فلم بنا کر ہی مقابلہ کیا جاسکتا ہے
اداکارو پروڈیوسر ہمایوں سعید کاصحافیوں کے پروگرام ’’گپ شپ‘‘ میں اظہار خیال
ٹی وی ڈراموں سے شہرت حاصل کرنے والے معروف اداکار ہمایوں سعید نے چند سال قبل اس عزم کا اظہار کیا تھا، میرا خواب بڑی سکرین ہے ، خواہش ہے کہ پاکستان میں بھی اچھی اور معیاری فلمیں بنیں۔ زیادہ سے زیادہ سے زیادہ سنیما ہالز ہونے چاہیئں۔
ایک تقریب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ فلم بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہوں۔ہمایوں سعید کا یہ خواب اس وقت پورا ہوا جب جدید سنیما گھر بننا شروع ہوئے،انہوں نے برملا اظہار بھی کیا کہ بھارتی فلموں کی نمائش سے ہی جدید سینما بنے ہیں ۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان سنیماؤں کے بننے سے فلم بین خصوصا فیملیاں واپس آئیں ، جس کا فائدہ پاکستانی فلمیں بنانے والوں کو بھی ہوا ۔آج اگر پاکستانی فلمیں بن رہی ہیں تو اس کا کریڈٹ جدید سینما کے ساتھ بولی وڈ فلموں کو بھی جاتا ہے،جن کی وجہ سے ناراض فلم بین سینماؤں میں آنے لگے ہیں۔
ہمایوں سعید نے طویل عرصہ کے بعد صحافیوں سے تفصیلی ملاقات کی جس میں انہوں نے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فلم کا اچھا اور معیاری ہونا ضروری ہے، بری فلم کو کوئی سپر اسٹار بھی کامیاب نہیں بناسکتا، پاکستانی فلمیں اچھی بناکر ہی ہم مقابلہ کرسکتے ہیں۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار پاکستان فلم ٹی وی جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے پروگرام '' گپ شپ'' میں اپنی رہائشگاہ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ہمایوں سعید نے بتایا کہ ہ6فلمیں بنانے کی پلاننگ کررہے ہیں، جن میں سے ایک فلم ''میں پنجاب نہیں جاؤں گی '' کی رواں ہفتے میں عکس بندی کا آغاز کررہے ہیں، کاسٹ میں مہوش حیات، سہیل احمد، احمد بٹ اور خود بھی شامل ہیں جبکہ دیگر فنکاروں کا انتخاب بھی جلد مکمل کرلیا جائے گا ۔
انہوں نے کہا کہ میں ذاتی طور پر بھارتی فلموں پر پابندی عائد کرنے کے حق میں نہیں بلکہ مقابلے کے ذریعے انہیں آوٹ کرنے کے حق میں ہوں۔ میں بھارتی فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کی جانب سے پاکستانی فنکاروں پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے کی مذمت کرتا ہوں، اگر بھارتی تنظیمیں تعصب پسندی کررہی ہیں تو ضروری نہیں کہ ہم بھی جواب میں ویسا ہی کریں۔
انہوں نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلم سازوں کو فلم بنانے کی سہولیات فراہم کریں، فلم سازوں کو فلم بنانے پر ٹیکس معاف کیا جائے جس طرح سینماؤں پر تفریح ٹیکس معاف کیا گیا ہے، اس وقت ملک میں92 جدید سینما اسکرین ہیں، پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے500 اسکرین ہونے چاہیں، مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جدید اسکرین کا بزنس بھارتی فلموں کی وجہ سے ہے اور نئے جدید اسکرین بھی ان دنوں زیرتکمیل ہیں۔
پاکستانی فلمیں اس وقت موجود اسکرین کی سالانہ کھپت پوری نہیں کرسکتی ہیں اس وجہ سے ہمیں اچھی اور معیاری فلمیں زیادہ سے زیادہ بنانا ہوں گی، تاکہ ہم اپنے سینماؤں کی ضرورت پورا کرسکیں، ہمایوں سعید نے کہا فلم اور ٹی وی ڈرامے ایک دوسرے سے قریب ہوتے جارہے ہیں، پاکستان کی پہچان ڈرامہ سیریلز ہیں، گزشتہ 3سے5 سالوں میں پاکستان میں فلم'' بول''، ''خدا کے لئے'' نے فلم کی بحالی میں اہم رول ادا کیا ہے، جس کے بعد دیگر فلم سازوں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ ابھی تک بنائی جانے والی پاکستانی فلموں ''وار'' ، ''میں ہوں شاہد آفریدی'' ، '' جوانی پھر نہیں آنی'' ، ''نامعلوم افراد '' کا بزنس بہت اچھا رہا۔ عیدالضحی پر تینوں پاکستانی فلموں نے اچھا بزنس کیا ۔
پاکستانی فلموں کو بولی وڈ کے مقابلے میں جس طرح کا رسپانس مل رہا ہے اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اگر ہم نے اسی طرح معیاری فلمیں بنانے کا سلسلہ جاری رکھا تو انشاء اللہ ہماری فلمیں بیرون ممالک بھی بولی وڈ فلموں کو ٹف ٹائم دیں گئیں۔ بھارت میں بھی سالانہ 1200/1000 فلمیں بنتی ہیں مگر کامیاب فلموں کا تناسب سب کے سامنے ہے اسی طرح فلمی صنعت تو بہت بڑی ہوتی ہے مگرمقبول اداکار چند ہی ہوتے ہیں، بھارت میں مقبول اداکار کی تعداد تقریبا دس ہوگی ، پاکستان میں بھی اتنے ہی مقبول فنکار ہوں گے۔
ہمایوں سعید نے کہا کہ صحافیوں اور اداکاروں کے مابین رابطے بڑھنے چاہیں۔میں نے جس دور میں شوبز میں قدم رکھا تھا تو اسے اچھی نگاہ سے بھی نہیں دیکھا جاتا تھا، بلکہ مالی مسائل بھی درپیش رہتے تھے، چینلز کی وجہ سے آج کل فنکار بہت مصروف ہیں جس سے فنکار مالی طور پر مستحکم ہوگئے ہیں البتہ زیادہ کام سے فنکار کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں مگر اس کی مثال یہ ہے کہ ایک طالب علم تمام مضامین میں اچھے نمبرحاصل کرتا ہے، اسی کلاس کا دوسرا طالب علم کم نمبر حاصل کرتا ہے اسی طرح بعض فنکار بہت سے ڈراموں کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ کامیاب ہوجاتے ہیں۔
آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے بلاگرز بھی صحافی بن گئے ہیں، جس کی وجہ سے صحافت کو نقصان ہوا ہے، ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں اسی ٹیلنٹ نے آج فلم انڈسٹری کی بحالی میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ جب ٹی وی ڈرامہ شروع ہوا تو کوئی فنکار کسی تربیتی ادارے سے تربیت حاصل کرکے نہیں آیا تھا ، بلکہ اس نے اپنی صلاحیتوں سے ثابت کیا کہ اگر موقع دیا جائے تو وہ بہت اچھا کام کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ٹی وی کے ہی لوگوں نے فلم انڈسٹری کو دوبارہ پاؤں پر کھڑا کردیا ہے، کراچی اور لاہورکی فلم انڈسٹری کو اس طرح نہ دیکھا جائے کہ وہاں کیا کام ہورہا ہے اور کون بہتر کام کررہا ہے دونوں شہروں میں بہت اچھا کام ہورہا ہے،فلمیں بننی چاہیں۔کراچی میں بنے یا لاہور میں،ہمارا مقصد صرف فلم انڈسٹری کا فروغ ہے،اچھی فلم بنے گی تو وہ پاکستانی فلم ہی کہلائے گی،اس وقت ہمیں بہتر سوچ اور معیاری فلموں کو بنانے کی ضرورت ہے اچھی فلم ہوگی تو ضرور چلے گی بری ہوگی تو اسے مسترد کردیا جائے گا۔
ہمیں عالمی مارکیٹ میں جگہ بنانے کے لیے کوششیں کرنی ہوں گی جو لوگ اس پر کام کررہے ہیں، انہیں سراہا جانا چاہیے ، انھوں نے کہا ،مستقبل پاکستانی فلموں کا ہے جو فلمیں زیر تکمیل ہیں وہ فلم انڈسٹری کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گی اب ہمیں عید اور بقرعید پر لگانے کے بجائے عام دنوں میں بھی اس کی نمائش کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں، انھوں نے اس موقع پر پاکستان فلم ٹی وی جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے ممبران کا شکریہ بھی ادا کیا۔
ایک تقریب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ فلم بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہوں۔ہمایوں سعید کا یہ خواب اس وقت پورا ہوا جب جدید سنیما گھر بننا شروع ہوئے،انہوں نے برملا اظہار بھی کیا کہ بھارتی فلموں کی نمائش سے ہی جدید سینما بنے ہیں ۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان سنیماؤں کے بننے سے فلم بین خصوصا فیملیاں واپس آئیں ، جس کا فائدہ پاکستانی فلمیں بنانے والوں کو بھی ہوا ۔آج اگر پاکستانی فلمیں بن رہی ہیں تو اس کا کریڈٹ جدید سینما کے ساتھ بولی وڈ فلموں کو بھی جاتا ہے،جن کی وجہ سے ناراض فلم بین سینماؤں میں آنے لگے ہیں۔
ہمایوں سعید نے طویل عرصہ کے بعد صحافیوں سے تفصیلی ملاقات کی جس میں انہوں نے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فلم کا اچھا اور معیاری ہونا ضروری ہے، بری فلم کو کوئی سپر اسٹار بھی کامیاب نہیں بناسکتا، پاکستانی فلمیں اچھی بناکر ہی ہم مقابلہ کرسکتے ہیں۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار پاکستان فلم ٹی وی جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے پروگرام '' گپ شپ'' میں اپنی رہائشگاہ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ہمایوں سعید نے بتایا کہ ہ6فلمیں بنانے کی پلاننگ کررہے ہیں، جن میں سے ایک فلم ''میں پنجاب نہیں جاؤں گی '' کی رواں ہفتے میں عکس بندی کا آغاز کررہے ہیں، کاسٹ میں مہوش حیات، سہیل احمد، احمد بٹ اور خود بھی شامل ہیں جبکہ دیگر فنکاروں کا انتخاب بھی جلد مکمل کرلیا جائے گا ۔
انہوں نے کہا کہ میں ذاتی طور پر بھارتی فلموں پر پابندی عائد کرنے کے حق میں نہیں بلکہ مقابلے کے ذریعے انہیں آوٹ کرنے کے حق میں ہوں۔ میں بھارتی فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کی جانب سے پاکستانی فنکاروں پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے کی مذمت کرتا ہوں، اگر بھارتی تنظیمیں تعصب پسندی کررہی ہیں تو ضروری نہیں کہ ہم بھی جواب میں ویسا ہی کریں۔
انہوں نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلم سازوں کو فلم بنانے کی سہولیات فراہم کریں، فلم سازوں کو فلم بنانے پر ٹیکس معاف کیا جائے جس طرح سینماؤں پر تفریح ٹیکس معاف کیا گیا ہے، اس وقت ملک میں92 جدید سینما اسکرین ہیں، پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے500 اسکرین ہونے چاہیں، مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جدید اسکرین کا بزنس بھارتی فلموں کی وجہ سے ہے اور نئے جدید اسکرین بھی ان دنوں زیرتکمیل ہیں۔
پاکستانی فلمیں اس وقت موجود اسکرین کی سالانہ کھپت پوری نہیں کرسکتی ہیں اس وجہ سے ہمیں اچھی اور معیاری فلمیں زیادہ سے زیادہ بنانا ہوں گی، تاکہ ہم اپنے سینماؤں کی ضرورت پورا کرسکیں، ہمایوں سعید نے کہا فلم اور ٹی وی ڈرامے ایک دوسرے سے قریب ہوتے جارہے ہیں، پاکستان کی پہچان ڈرامہ سیریلز ہیں، گزشتہ 3سے5 سالوں میں پاکستان میں فلم'' بول''، ''خدا کے لئے'' نے فلم کی بحالی میں اہم رول ادا کیا ہے، جس کے بعد دیگر فلم سازوں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ ابھی تک بنائی جانے والی پاکستانی فلموں ''وار'' ، ''میں ہوں شاہد آفریدی'' ، '' جوانی پھر نہیں آنی'' ، ''نامعلوم افراد '' کا بزنس بہت اچھا رہا۔ عیدالضحی پر تینوں پاکستانی فلموں نے اچھا بزنس کیا ۔
پاکستانی فلموں کو بولی وڈ کے مقابلے میں جس طرح کا رسپانس مل رہا ہے اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اگر ہم نے اسی طرح معیاری فلمیں بنانے کا سلسلہ جاری رکھا تو انشاء اللہ ہماری فلمیں بیرون ممالک بھی بولی وڈ فلموں کو ٹف ٹائم دیں گئیں۔ بھارت میں بھی سالانہ 1200/1000 فلمیں بنتی ہیں مگر کامیاب فلموں کا تناسب سب کے سامنے ہے اسی طرح فلمی صنعت تو بہت بڑی ہوتی ہے مگرمقبول اداکار چند ہی ہوتے ہیں، بھارت میں مقبول اداکار کی تعداد تقریبا دس ہوگی ، پاکستان میں بھی اتنے ہی مقبول فنکار ہوں گے۔
ہمایوں سعید نے کہا کہ صحافیوں اور اداکاروں کے مابین رابطے بڑھنے چاہیں۔میں نے جس دور میں شوبز میں قدم رکھا تھا تو اسے اچھی نگاہ سے بھی نہیں دیکھا جاتا تھا، بلکہ مالی مسائل بھی درپیش رہتے تھے، چینلز کی وجہ سے آج کل فنکار بہت مصروف ہیں جس سے فنکار مالی طور پر مستحکم ہوگئے ہیں البتہ زیادہ کام سے فنکار کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں مگر اس کی مثال یہ ہے کہ ایک طالب علم تمام مضامین میں اچھے نمبرحاصل کرتا ہے، اسی کلاس کا دوسرا طالب علم کم نمبر حاصل کرتا ہے اسی طرح بعض فنکار بہت سے ڈراموں کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ کامیاب ہوجاتے ہیں۔
آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے بلاگرز بھی صحافی بن گئے ہیں، جس کی وجہ سے صحافت کو نقصان ہوا ہے، ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں اسی ٹیلنٹ نے آج فلم انڈسٹری کی بحالی میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ جب ٹی وی ڈرامہ شروع ہوا تو کوئی فنکار کسی تربیتی ادارے سے تربیت حاصل کرکے نہیں آیا تھا ، بلکہ اس نے اپنی صلاحیتوں سے ثابت کیا کہ اگر موقع دیا جائے تو وہ بہت اچھا کام کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ٹی وی کے ہی لوگوں نے فلم انڈسٹری کو دوبارہ پاؤں پر کھڑا کردیا ہے، کراچی اور لاہورکی فلم انڈسٹری کو اس طرح نہ دیکھا جائے کہ وہاں کیا کام ہورہا ہے اور کون بہتر کام کررہا ہے دونوں شہروں میں بہت اچھا کام ہورہا ہے،فلمیں بننی چاہیں۔کراچی میں بنے یا لاہور میں،ہمارا مقصد صرف فلم انڈسٹری کا فروغ ہے،اچھی فلم بنے گی تو وہ پاکستانی فلم ہی کہلائے گی،اس وقت ہمیں بہتر سوچ اور معیاری فلموں کو بنانے کی ضرورت ہے اچھی فلم ہوگی تو ضرور چلے گی بری ہوگی تو اسے مسترد کردیا جائے گا۔
ہمیں عالمی مارکیٹ میں جگہ بنانے کے لیے کوششیں کرنی ہوں گی جو لوگ اس پر کام کررہے ہیں، انہیں سراہا جانا چاہیے ، انھوں نے کہا ،مستقبل پاکستانی فلموں کا ہے جو فلمیں زیر تکمیل ہیں وہ فلم انڈسٹری کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گی اب ہمیں عید اور بقرعید پر لگانے کے بجائے عام دنوں میں بھی اس کی نمائش کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں، انھوں نے اس موقع پر پاکستان فلم ٹی وی جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے ممبران کا شکریہ بھی ادا کیا۔