دیکھا تیرا امریکا پہلی قسط

لوگوں سے بہت کچھ سنا تھا، ایئرپورٹ پر بدسلوکی ہوتی ہے لیکن میرا آج کا تجربہ تھوڑا مختلف تھا۔


رضاالحق صدیقی October 10, 2016
، ایک امریکی امیگریشن افسر کے پاس بڑے اختیار ہوتے ہیں، وہ بغیر کسی وجہ کے باقاعدہ ویزہ ہونے کے باوجود آپ کو امریکہ میں داخل ہونے سے روک سکتا ہے۔

فڈلر لین، سلور اسپرنگ، میری لینڈ


عدیل کے ساتویں منزل پر واقع فلیٹ کی دیوار گیر کھڑکی سے باہر کا منظر بہت حسین لگ رہا تھا۔ میں نے ایک نظر اُدھر ڈالی، پاس کھڑے عدیل نے ہمارا سامان فرش پر رکھتے ہوئے کہا کہ پاپا وہ سامنے سڑک کے اُس پار جو سفید بلڈنگ نظر آرہی ہے وہ دنیا کے مشہور و معروف چینل ڈسکوری کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ اس کے دائیں جانب والی بلڈنگ میں میرا دفتر ہے، میرے اس فلیٹ سے چند منٹ کی دوری پر۔

سلور اسپرنگ ایک بہت چھوٹا سا شہر تھا اب سے دس بارہ سال پہلے یعنی سن 2003ء تک جب ڈسکوری چینل نے اپنا ہیڈ کوارٹر یہاں بنانے کا فیصلہ کیا تو اس کے 4 ہزار ملازمین کو بسانے کے لئے رہائش گاہوں کی ضرورت بھی محسوس ہوئی یوں یہ شہر پھیلتا چلا گیا۔
میں نے بتیس (32) گھنٹے کے سفر کی تھکان سے بوجھل آنکھوں کے ساتھ ایک بار پھر باہر کی جانب دیکھا اور اس کی ہاں میں ہاں ملا دی۔

میری بہو رابعہ نے تھکان میری آنکھوں میں پڑھ لی تھی اس نے کہا کہ ابو آپ تھوڑا آرام کرلیں، جیٹ لاگ سے نکلنے میں کچھ وقت لگے گا۔

جہاز کی رفتار کچھ کم ہونے لگی اور وہ بلندی سے نیچے آنے لگا، پہلے عربی اور پھر ساتھ ہی انگریزی میں اناؤنسمنٹ ہوئی کہ ہم چند منٹ میں ابوظہبی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترنے والے ہیں۔ اسی کے ساتھ جہاز میں ہلچل شروع ہوگئی۔ لوگ اپنا اپنا سامان ہاتھوں میں پکڑنے لگے۔ اوپر والی کیبنٹ سے بیگ، بریف کیس اور بنڈل اتارنے لگے، نجانے ہمارے لوگوں میں اتنا اتاؤلا پن کیوں ہے؟

اب جہاز ابوظہبی کے رن وے پر اتر گیا تھا اور تیزی سے دوڑ رہا تھا۔ کچھ لوگ ابھی سے باہر نکلنے کی بیتابی میں اٹھ کھڑے ہوئے تھے جبکہ کچھ آرام سے بیٹھے جہاز کے رکنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ابو ظہبی کا ہوائی اڈہ کافی بڑا ہے جگہ جگہ جہاز کھڑے تھے۔ رن وے بھی خاصا بڑا لگتا تھا۔ آج جہاز سے اس کی وسعت کا اندازہ ہو رہا تھا، اس سے پہلے متحدہ عرب امارات آنا ہوا تھا تو دبئی سے میرا بھانجا اویس عزیز ہمیں ایک روز ابو ظہبی اپنے گھر لے گیا تھا، وہاں ابو ظہبی دیکھا تھا لیکن ایئرپورٹ اب دیکھ رہے تھے۔

ابوظہبی، متحدہ عرب امارات کا آبادی کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا شہر اور امارات کا دارالخلافہ ہے۔ اس کے علاوہ امارات میں شامل 7 ریاستوں میں سے سب سے بڑی ریاست بھی ہے۔ ابوظہبی ٹی شکل کے ایک جزیرے پرشین گلف کے ایک سرے پر واقع ہے۔ اس خطے میں یہ شہر چوتھا اور دنیا میں 68واں مہنگا ترین شہر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بقول فارچون میگزین اور سی این این ابوظہبی دنیا کا امیر ترین شہر ہے جس کی فی کس آمدنی 61 ہزار امریکی ڈالر ہے۔ یہاں تیل کی دریافت کا کام سن 1930ء میں شروع ہوا لیکن تیل کے کنوؤں کی کھدائی کا اصل کام 1939ء میں ایک 75 سالہ معاہدے کے تحت ہوا۔ یہاں کے ریگستانوں میں تیل کے ذخائر کی دریافت نے ابوظہبی کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ خلیج کے قیمتی (Pearls) موتی یہاں کی مصنوعات ہیں جو دنیا بھر میں اپنی خوبصورتی اور قیمت کی وجہ سے مشہور ہیں۔ تیل کی دریافت سے پہلے ابوظہبی کی آمدن کا یہی واحد ذریعہ تھا۔

یہاں موسم گرما مئی سے شروع ہوکر ستمبر تک جاری رہتا ہے، جس میں درجہ حرارت 40 ڈگری سے 42 ڈگری تک رہتا ہے۔ ان دنوں کے علاوہ موسم بہتر ہی رہتا ہے۔ یہاں کی کرنسی درہم، زبان عربی اور مذہب اسلام ہے۔

ہمارا جہاز اب آہستہ آہستہ جیٹی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ جب جہاز کا دروازہ جیٹی کے دروازے میں فٹ ہوجاتا ہے تو جہاز کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ جیٹی اس ٹنل کو کہتے ہیں جس میں جہاز کا دروازہ کھلتا ہے اور مسافر اس ٹنل میں سے گذر کر لاؤنج میں پہنچتے ہیں۔

جہاز جب رن وے پر اتر کر جیٹی کی جانب بڑھ رہا تھا تو میں نے بھی اٹھ کر سامان نکالنے کے لئے اتاؤلا ہونے کی کوشش کی لیکن ساتھ بیٹھی ہماری بیگم نے ہمیں اٹھنے سے روک دیا کہ جہاز رک جائے تو اتاریں گے لیکن تقریباََ سارے ہی مسافر اُس وقت تک سامان اتار کر کھڑے ہوچکے تھے حالانکہ جہاز کے کپتان کی جانب سے بار بار اناؤنسمنٹ ہو رہی تھی کہ جب تک جہاز مکمل طور پر رک نہ جائے مسافر اپنی سیٹوں پر ہی بیٹھے رہیں۔

جہاز رکنے پر ہم نے بھی سامان اوپر کیبن سے اتارا اور لائن میں کھڑے ہوگئے، کچھ ہی دیر میں جہاز کا دروازہ کھول دیا گیا۔ ہمارے آگے لائن بنائے کھڑے لوگ آگے کو چلے تو ہم بھی چل دئیے اور کچھ ہی دیر میں جیٹی سے ہوتے ہوئے لائونج میں آگئے۔ ہمارا جہاز ابوظہبی کے وقت کے مطابق رات ساڑھے بارہ بجے پہنچا تھا۔ وقت کی گنتی کے لحاظ سے اگلا دن شروع ہوچکا تھا۔

لاؤنج بہت بڑا اور کافی لمبا تھا۔ صاف ستھرا، ہرچیز چمک رہی تھی۔ لاؤنج میں کافی چھوٹی بڑی ڈیوٹی فری شاپس تھیں، جہاں چاکلیٹس اور دیگر سویٹس عام پڑی نظر آرہی تھیں۔ اس کے علاوہ ہر طرح کی اشیاء جن میں گھڑیاں، کرسٹل کے ڈیکوریشن پیسز، الیکٹرونک کا سامان، کاسمیٹکس، غرضیکہ ہر قسم کا سامان اسٹوز میں موجود تھا۔ پرفیومز کی تو بہت ساری دکانیں تھیں۔ میں کم اور ہماری بیگم دکانوں میں پڑی چیزوں کو بغور دیکھ رہی تھیں۔

میں نے پوچھا، 'لبینہ'

'جی'

'کچھ خریدنا ہے'؟ میں نے پوچھا

'نہیں کچھ نہیں'

تو چلو گیٹ نمبر 60 کی طرف چلتے ہیں جہاں پری کلیئرنس ہونی ہے۔ ہم گیٹ 60 کی تلاش میں چل دیئے۔

ابوظہبی کے ایئرپورٹ پر گزرے ساڑھے گیارہ گھنٹے بڑے بوریت بھرے تھے۔ بیٹے نے یہ سوچ کر آگے امریکہ تک کی فلائیٹ گیارہ گھنٹے بعد کی لی تھی کہ ابوظہبی ایئرپورٹ پر پری کلیئرنس میں کہیں ہماری فلائیٹ چھوٹ نا جائے۔ ایک لحاظ سے ہماری عمر کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے درست ہی سوچا تھا لیکن ابوظہبی ایئرپورٹ پر امریکی کسٹم اور بارڈر پروٹیکشن کے دفتر میں فلائیٹ کی روانگی سے 3 سے 4 گھنٹے سے پہلے چیکنگ شروع نہیں ہوتی۔ اس چیکنگ کا ایک فائدہ ہوتا ہے کہ امریکی ایئر پورٹ پر کسی قسم کی چیکنگ نہیں ہوتی۔ ہم رات ساڑھے بارہ بجے ابوظہبی پہنچے تھے جبکہ ہماری امریکہ کی فلائیٹ دن میں ساڑھے گیارہ بجے تھی۔

ہمارا اور عدیل کا بھی یہی خیال تھا کہ پری کلیئرنس سے فارغ ہوکر ہم لاؤنج میں وقت گزار لیں گے۔ اسی خیال کے تحت ہم گیٹ 60 کے سامنے لگی لائن میں جا لگے۔ اپنی باری پر جب ہم اتحاد ایئرلائن کے ہیلپ کاؤنٹر پر پہنچے جہاں موجود افسر امریکی پری کلیئرنس کی جانب رہنمائی کر رہا تھا، اُس نے ہمارے بورڈنگ کارڈ دیکھتے ہی کہا کہ ہم صبح 7 بجے کاؤنٹر پر آئیں۔ میں اور میری اہلیہ واپس آگئے اور گیٹ 60 سے تھوڑے فاصلے پر پڑے ایک صوفے پر دراز ہوگئے۔ نیند آنکھوں سے غائب تھی، رات آنکھوں ہی آنکھوں میں کاٹ کر ہم ساڑھے 6 بجے ہی ہیلپ کاؤنٹر پر جاکر کھڑے ہوگئے۔

شیشے کے گھر میں براجمان امریکی امیگریشن افسر نے ہم سے پاسپورٹ لے لئے اور اپنے کمپیوٹر میں کھو گیا۔ اُس کے اس اِنداز سے مجھے لوگوں سے سنے ہوئے روایتی امتیازی سلوک کی توقع ہونے لگی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ مسکراتے چہرے کے ساتھ اس نے چند سوال کئے۔

آپ کی عمر کیا ہے؟ اس نے پوچھا

باسٹھ (62) برس

امریکہ کس لئے جارہے ہیں؟ اس نے سوال کیا۔

اپنے بیٹے سے ملنے جو امریکہ میں سافٹ وئیر انجینئر ہے، میں نے بڑی رسانت سے جواب دیا۔

وہ کب سے وہاں ہے؟

چار، پانچ سال ہوگئے ہیں۔ میں نے جواب دیا۔

آپ کیا کرتے ہیں؟

میں ایک ریٹائرڈ افسر ہوں، میرا جواب تھا۔

یہ سامان آپ کا ہے؟ اس نے ہمارے سوٹ کیس اسکرین پر دکھاتے ہوئے کہا۔

جی ہاں! یہ دو براؤن، ایک گرین اور ایک ریڈ سوٹ کیس ہمارے ہی ہیں۔ میں نے اپنے سامان کی تصدیق کی۔

یہ گرین سوٹ کیس میں کچھ بکس نما چیزیں نظر آ رہی ہیں یہ پیکٹس کیا ہیں؟ اس نے پوچھا

یہ میری کالموں اور مضامین پر مبنی کتاب ہے، میں نے جواب دیا۔

اوہ، تو آپ رائیٹر ہیں۔

جی ایک چھوٹا سا لکھاری ہوں، میں نے جواب دیا۔

اوکے سر! میں آپ کے پاسپورٹ کسٹم افسر کو دینے جا رہا ہوں۔ آپ اس سامنے والے کمرے میں تشریف رکھیں۔

وہ ویٹنگ روم سادہ سا کمرہ تھا جس میں صوفے بچھے ہوئے تھے، پانی کی بوتلوں کے کریٹ پڑے تھے، اخبارات کا ایک ریک تھا اور ہم چند مسافر۔

سوال و جواب میں کچھ نہیں تھا لیکن ایک ڈر تھا، ایک امریکی امیگریشن افسر کے پاس بڑے اختیار ہوتے ہیں، وہ بغیر کسی وجہ کے باقاعدہ ویزہ ہونے کے باوجود آپ کو امریکہ میں داخل ہونے سے روک سکتا ہے۔ سوال و جواب کا یہ سلسلہ اگرچہ پانچ چھ منٹ سے زیادہ کا نہیں تھا لیکن اس سوال جواب کے سلسلے نے میرا حلق خشک کردیا تھا۔ میں نے پانی کی بوتل کھولی اور ایک ہی سانس میں پوری بوتل پی گیا۔ ابھی میں نے بوتل ختم کرکے خالی بوتل ڈسٹ بن میں ڈالی ہی تھی کہ کسٹم افسر نے اپنے کمرے میں بلا لیا۔ وہ وہاں تنہا ہی تھا، ہمارے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے پوچھا،

کتنے عرصے کے لئے جارہے ہیں؟

میں نے فوراََ کہا کہ تقریباََ 2 ماہ رہیں گے۔

پکی بات؟

جی، میں نے مختصر سا جواب دیا۔

سامان میں کھانے پینے کی تو کوئی چیز نہیں ہے، اس نے پوچھا۔

جی نہیں، میرا پھر مختصر سا جواب تھا

''اوکے! انجوائے یور اسٹے ان یو ایس اے''۔ یہ کہتے ہوئے اس نے ہمارے پاسپورٹ ہمارے حوالے کئے اور دوسری جانب کا دروازہ کھول دیا جس سے گزر کر ہم ڈیپارچر لاؤنج میں آبیٹھے۔

لوگوں سے بہت کچھ سنا تھا، ایئرپورٹ پر بدسلوکی ہوتی ہے، لوگوں کے کپڑے اتروا کر تلاشی لی جاتی ہے لیکن میرا آج کا تجربہ تھوڑا مختلف تھا۔ شاید ہمارے ساتھ ان کا سلوک کچھ اس وجہ سے بھی بہتر تھا کہ انہیں چہرہ شناسی کا ملکہ حاصل ہے۔ تجربہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اس پری کلیرنس کے بعد ہم ایک طرح سے امریکی حدود میں داخل ہوگئے تھے اگرچہ ابھی ہمیں پندرہ گھنٹے کا اور سفر کرنا تھا۔

جہاز ابوظہبی ایئرپورٹ سے بلند ہوا تو مجھے باہر نیچے کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا کیونکہ ہماری سیٹیں جہاز کے پر کے نزدیک والی تھیں۔ کھڑکی سے باہر جہاز کا طویل و عریض پر نظر آ رہا تھا۔ میں نے باہر سے نظر ہٹا کر جہاز کے اندر نظر ڈالی، میرے ساتھ والی سیٹ پر جو صاحب براجمان تھے انہوں نے جہاز کے اڑتے ہی اپنے سامنے لگی اسکرین پر تلاش کرکے کوئی انڈین فلم لگا لی اور ہیڈ فون کانوں پر چڑھالئے جس کا شاید یہ مطلب تھا کہ ڈونٹ ڈسٹرب۔ میں نے تھوڑی دیر بعد ان کی جانب دیکھا تو وہ آنکھیں بند کئے نیند کی آغوش میں جاچکے تھے، فلم کے میوزک نے انہیں لوری دے کر سلا دیا تھا۔

کھڑکی کی جانب سیٹ پر ہماری بیگم آدھی سوئی آدھی جاگتی محسوس ہو رہی تھیں۔ میں نے اپنے دائیں بائیں ایک بار پھر دیکھا پھر سیٹ کی پشت سے ٹیک لگالی۔ سوچا تھا دونوں جانب نیند کی دیوی اپنا اثر دکھا چکی ہے شاید مجھ پر بھی کر جائے لیکن نیند کی دیوی مجھ سے ناراض لگتی تھی گزشتہ ساری رات جاگنے کے باوجود نیند میری آنکھوں سے دور تھی۔

وقت تھا کہ گزرنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ میں نے بھی اپنے برابر بیٹھے ہمسائے کی تقلید میں کوئی پاکستانی ڈرامہ یا فلم تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ وہاں فلم کے نام پر یا انگریزی فلمیں تھیں یا انڈین، مجبوراََ میں نے انڈین فلم لگالی۔ بڑے افسوس کی بات ہے اتحاد ایئر لائن ہمارے برادر مسلم ملک کی ایئر لائن ہے لیکن پاکستان کا وہاں کوئی اثر رسوخ نا تھا، یہ فلم بھی ختم ہوگئی، میں نے ہیڈ فون اتار کر پھر کوشش کی کہ نیند آجائے لیکن بے سود۔

میں نے کھڑکی کی طرف تھوڑا آگے ہو کر باہر پیچھے کی جانب دیکھا، ادھر جہاز کا پر حائل نہ تھا، نیچے نیلگوں سطح نظر آئی، اوپر کی جانب دیکھا تو وہاں بھی تقریباََ ویسا ہی منظر تھا لیکن نیچے سے تھوڑا مختلف یعنی بادلوں سے آنکھ مچولی کرتی نیلگوں فضا۔ میرے لئے اندازہ کرنا مشکل نا تھا کہ جہاز بحراوقیانوس پر سے گزر رہا ہے۔ بحراوقیانوس کے پار نیویارک کے اوپر سے پرواز کرتا ہوا جہاز واشنگٹن ڈی سی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترے گا جہاں میرے بچے عدیل، رابعہ اور ننھی سی عنایہ ہمارے منتظر ہوں گے۔

جہاز دھیرے دھیرے نیچے آرہا تھا، ایک خاص سطح پر آ کر ایسا لگا جیسے جہاز رک گیا ہو، میں نے گھڑی کی جانب دیکھا، ابھی بھی بیس منٹ باقی تھے۔ امریکہ کے تمام ایئرپورٹس پر جہازوں کا ایک سلسلہ لگا رہتا ہے اس لئے جہاز اپنی باری کے انتظار میں فضا میں منتظر رہتے ہیں۔

جہاز جوں جوں نیچے آ رہا تھا، زمین پر ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے سبزے کے تختے بچھے ہوئے ہوں، انہیں دیکھ کر میں نے بیگم سے بے ساختہ کہا کہ امریکہ کتنا سرسبز ہے۔ جہاز سے نکل کر ہم دو منزل نیچے آئے، وہاں سے ٹرین میں بیٹھے جو ہمیں لگیج لاؤنج تک لے آئی۔ سامنے متحرک بیلٹ کے ساتھ میرے بچے کھڑے تھے۔ ننھی عنایہ ابو، دادی کی آوازیں نکالتی ہماری جانب بھاگتی چلی آ رہی تھی۔

عدیل نے مجھے گلے لگاتے ہوئے پوچھا، پاپا سفر کیسا رہا؟ عنایہ اپنی دادی سے لپٹ گئی اور میں ماضی میں کھوگیا۔ عدیل پہلی بار اسکول ٹرپ کے ساتھ مری گیا ہوا تھا رات 11 بجے اس کی واپسی تھی، میں اور اُس کی ماں اُسے لینے بہت پہلے اسکول پہنچ گئے تھے، جب بس اسکول پہنچی اور عدیل بس سے باہر آیا تو میں نے اسے گلے لگاتے ہوئے یہی پوچھا تھا۔ عدیل سفر کیسا رہا؟ آج برسوں بعد منظر ویسا ہی تھا لیکن میں اسے نہیں، وہ مجھے لینے آیا تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں