وسیلہ خبر و آگہیآخری حصہ

یہ آفاقی سچ ہے کہ اصلاح کے لیے ایک رہ نما قدرت ہمیشہ انسان کے...

زاہدہ جاوید

اس جادوئی ڈبّے کا ایک طریقۂ واردات یہ تھا کہ وہ ایک مفروضہ نما خیال پیش کرتا اور پھر اثبات و نفی کی ساری بحثیں اسی مفروضے کے گرد گردش کرتی رہتیں۔ بستی والوں کی سادہ مزاجی میں ان کے طرزِ زندگی و معمولات سے متعلق اتنا احساسِ کمتری پیدا کردیا گیا تھا کہ مجال ہے جو سادہ لوح افراد اس مفروضے سے ہٹ کر سوچنے کی ہمت کر سکتے۔ فرد کی ذات اور زندگی کے حوالے سے معیار اور کامیابی کا تصّور اس شان و شوکت سے پیش کیا گیا کہ افراد اپنے دائرے اور فطری پن کو فراموش کر کے اس تصّوراتی چڑیا کی جستجو میں لگ گئے۔

ہر کوئی اپنے حالات اور ماحول سے شاکی نظر آنے لگا حتیٰ کہ لوگ اپنے آپ سے بھی ناخوش ہوگئے۔ انھیں اپنے حسب نسب کے ساتھ اپنے خدوخال اور قدوقامت سے بھی خفّت محسوس ہونے لگی۔ انھوں نے ڈبّے کو ایسی کسوٹی قرار دے لیا تھا جو ان کے نزدیک دُرستی، اصلاح اور معیار کا پیمانہ تھا۔ اب بستی میں باہم شِیروشکر رہنے والوں کے درمیان امتیاز وضع ہونا شروع ہوگیا۔ انسانوں کی بستی میں تفریق، تضاد اور تصادم کی کشاکش نے لوگوں کے دل و دماغ کو ایسا جکڑا کہ ہر کوئی اپنے بارے میں احساسِ شرمندگی اور ناکردہ احساسِ جرم سے دوچار رہتا۔

شخصیت پرستی کا رحجان، خود نمائی کی وبا اور نمود و نمائش کے چلن کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ اپنی حقیقت کے منکر ہوگئے۔ اپنی سچائی کی عدم قبولیت کی وجہ سے ہر کوئی اس سے سوا نظر آنے کی کوشش کرنے لگا جو کہ در حقیقت وہ تھا۔ ایک اور مہلک بیماری جو بستی والوں میں وقوع پذیر ہوئی وہ خاص ہونے کا مرض تھا، ہر فرد کی جستجو یا کم از کم خواہش یہی ہونے لگی کہ وہ کچھ خاص کرے اور خاص ہوجائے، والدین اپنے بچوںکو، بڑے اپنے چھوٹوں کو، استاد اپنے شاگردوں کو غرض سب ایک دوسرے کو ''کچھ کر دکھانے کی'' ترغیب دیتے نظر آتے۔

حالانکہ بستی میں لوگ عام پیدا ہوتے، عام جیتے اور عام ہی مرجاتے لیکن اپنی پوری عام سی زندگی میں احساسِ کم مائیگی ان کی جان نہ چھوڑتا۔ انھیں کوئی یہ بات سمجھانے والا نہ تھا کہ خاص لوگ پیدا ہوتے ہیں اور جو اپنے بل بوتے پر خاص ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ بھی دراصل قدرت کے منتخب شدہ ہوتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ اس انتخاب کی وجوہات وہ اپنی ذات میں تلاش کرلیں۔ غرض یہ کہ ترقی اور کامیابی کے پیش کردہ تصّور نے ان کی عزّت نفس کو اتنا مجروح اور پامال کیا کہ وہ اپنے عام ہونے کے'' خصوصی وصف'' کو بھول کر تاعمر خیالی خصوصیت کی عدم حصولی پر افسردہ رہتے۔

ڈبّے سے ابلاغ کے نام پر خبر اور معلومات کا وہ انبار انسانی شعور میں انڈیلا گیا کہ اس کی سکت ہی جواب دے گئی اور وہ ہیجان نما خلجان میں مبتلا ہوگیا جس کے سبب بچے وقت سے پہلے بالغ، جوان عمر رسیدہ اور بوڑھے قابلِ رحم حالت میں آگئے۔ لوگ اپنے تئیں دانشور بنے طوطوں کی طرح چونچیں لڑاتے رہتے لیکن دلائل اور حقائق کے پے در پے وار ایک دوسرے پر کرنے کے بعد بھی کسی کی رائے تبدیل نہ ہوپاتی۔ خوف، بداعتقادی اور بے اعتمادی کا یہ عالم ہوگیا کہ لوگ اپنے سائے سے بھی ہراساں رہتے۔

زندگی کے رنگوں سے روشناس کرانے کے دعویدار اس ڈبّے نے بستی کے لوگوں کے کردار پر معکوس اثرات مرتب کیے۔ بستی سے سچے تخلیق کار ناپید ہوگئے جس میں جو کچھ بھی تھا وہ پیش کرنے کے لیے بے تاب تھا، کوئی اپنے ذوق کی تسکین پر آمادہ نہ تھا بلکہ کاروباری انداز میں اپنا فن پذیرائی کی بنیادوں پر بیچنا چاہتا تھا جس سے المیہ یہ ہوا کہ فن میں سے تربیت کا عنصر معدوم ہوگیا اور فن کے نام پر زندگی کے ہر پیچیدہ اور پوشیدہ پہلو کو عامتہ الناس کے سامنے بیان کیا جانے لگا۔


صنفی امتیاز میں کشش اور جاذبیت کو ابھارا گیا۔ جب انسانی بستی سے حیا ہی اٹھ جائے تو دیگر اخلاقی اقدار کا از خود ہی صفایا ہوجاتا ہے جب یہی صورتحال بستی میں درپیش ہوئی تو قوانین کا سہارا لیا گیا لیکن انسانی نفسیات کے زیرِاثر تشکیل پانے والے قوانین کب پائیدار ہوتے ہیں اور انسان جیسی مخلوق کہاں انسانی قوانین کی گرفت میں سماتی ہے لہٰذا بستی والے قانون، قانون شکنی اور لاقانونیت کے تکون میں اُلل رہے تھے۔ انفراد ی و شخصی آزادی کا تصّور سب کو نفسی آزادی کی جانب ہانک رہا تھا۔ ہر باسی آزادی کی آڑ میں اپنے سے وابستہ رشتوں کی ذمے داری، احترام اور لحاظ سے جان چھڑانے کے درپے تھا۔

قصہ المختصر یہ کہ اس جادوئی ڈبّے نے بستی کے لوگوں کی یک سوئی اور فکروشعور کی قوتوں کو مغلوب کرکے انھیں ایسی مخلوق میں تبدیل کردیا تھا جس کے چہروں سے وحشت ٹپکتی رہتی جو زندگی جیسی نعمت کو مشقت سے گزار رہے تھے۔ بظاہر کوئی مسئلہ نہ ہونے کے باوجود بھی سب پریشان رہتے۔ ہرخوشی ان کے لیے کھوکھلی اور بے تاثیر اور زندگی کی ہر سہولت ان کے لیے بے نفع ہوچکی تھی۔ ان کی بستی سکون سے محروم ہوچکی تھی۔

یہ آفاقی سچ ہے کہ اصلاح کے لیے ایک رہ نما قدرت ہمیشہ انسان کے اندر ودیعت کرتی ہے، سو بستی کے کچھ مصلحین باہر کے شور شرابے کو قطعی نظر انداز کرکے اپنے اندر کی رہ نمائی کی جانب متوجہ ہوئے تو ان کے د لوں پر الہام کے در وا ہونے لگے۔ سب سے پہلے ان کے دلوں نے اس حقیقت کو سچائی کے ساتھ تسلیم کیا کہ ''تبدیلی ناگزیر ہے''۔

دوسرا یہ کہ فلاح کی خاطر انھیں نئے سرے سے قوانین تراشنے کی ضرورت نہیں بلکہ حقیقی ضرورت اپنی اصلاح کی ہے یعنی انسان ہونے کے ناطے سے انسانیت دو ہی رشتوں سے بہم منسلک ہوسکتی ہے ایک نفس پرستی یعنی شیطانی اور دوسرا وہ آفاقی رشتہ جس سے آدمی کو انسان ہونے کا شرف حاصل ہوتا ہے اور اس طرزِ فکر کی ترویج کے لیے جس امر کی ضرورت ہے وہ تواتر و تسلسل کے ساتھ انسانی شعور کی تربیت ہے تاکہ وہ تبدیلی کا مثبت و منفی بنیادوں پر تجزیہ کرنے کے قابل ہوسکے اور اسے خیروشر کے پیمانوں میں تول سکے۔

اس نکتے پر متفق ہونے کے بعد ان مصلحین نے اپنی بستی سے ترقی کے نام پر مسّلط کیے جانے والے بھونچال کی بیخ کنی کے لیے کام شروع کیا اور ان کی کوششوں سے اس نام نہاد ترقی کے سیاہ اثرات سکڑ کر محض قانونِ قدرت کی تکمیل تک محدود ہوگئے اور خیر کو غلبہ حاصل ہو گیا۔

قارئین اس مضمون کی شدت سے اگر پوری طرح متفق نہ بھی ہوں مگر جو حقیقت اپنی ہولناک سچائی کے ساتھ ہمارے معاشرے میں رونما ہو رہی ہے وہ یہی ہے کہ ہمارا معاشرہ بھی مذکورہ پہلوئوں سے کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی طور سے نبرد آزما ہے۔ بدلتے ہوئے حالات اور بڑھتے ہوئے وقت میں اپنے قدم جمائے رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ تلخ سچائیوں پر نوحہ کناں ہمارے علما اور دانشور اور ان کے ساتھ تعلیمی ادارے صدقِ دل سے اپنی قوم کی ذہنی تربیت کی طرف متوجہ ہوں تاکہ ہماری قوم بے سدھ جتھے کے بجائے باشعور افراد کی حامل ہو۔
Load Next Story