لگتا ہے حکومت خود مردم شماری کرانا نہیں چاہتی سپریم کورٹ

فوج كے بغیر مردم شماری كے اعداد وشمار پر بھروسہ نہیں كیا جائے گا، ڈی جی شماریات کا عدالت میں جواب


ویب ڈیسک October 04, 2016
فوج كے بغیر مردم شماری كے اعداد وشمار پر بھروسہ نہیں كیا جائے گا، ڈی جی شماریات کا عدالت میں جواب، فوٹو؛ فائل

عدالت عظمٰی نے مردم شماری كرانے كے لیے حكومتی اقدامات پر اعتراض كرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے كہ لگتا ہے كہ حكومت خود نہیں چاہتی كہ مردم شماری ہو۔

مردم شماری میں تاخیر سے متعلق ازخود نوٹس كیس كی سماعت كرتے ہوئے جسٹس ثاقب نثار كی سربراہی میں 3 ركنی بینچ نے مردم شماری كرانے كے لیے حكومتی اقدمات اور درپیش مشكلات كی مفصل رپورٹ طلب كرتے ہوئے ڈائریكٹر جنرل شماریات كو اگلی سماعت پر عدالت میں پرزنٹیشن دینے اور اٹارنی جنرل كو متعلقہ اداروں سے رابطہ كركے رپورٹ دینے كی ہدایت كی ہے۔

عدالت نے كہا كہ ہم ایك دن میں مردم شماری كرانے كا نہیں كہہ رہے لیكن پتہ تو ہونا چاہیے كہ اس بارے میں صحیح سمت میں كام ہورہا ہے اور اگر كہیں پر مشكلات ہیں تو اسے كیسے دور كیا جاسكتا ہے۔ دوران سماعت جسٹس ثاقب نثار نے كہا كہ مردم شماری جنگی بنیادوں پرہونی چاہیے تھی کیونکہ اس كے بغیرنظام حكومت نہیں چل سكتا۔ انہوں نے سوال اٹھایا كہ مردم شماری كے بغیركس طر ح طے كیاجائے گا كہ كس صوبے كی كتنی آبادی ہے اورمجموعی محاصل میں كس صوبے كا كتناحصہ بنتاہے، اعداد وشمار موجود نہ ہو تو مستقبل كے لیے منصوبہ بندی كیسے كی جاسكے گی، ابھی تك تو مردم شماری كرانے كے لیے اتفاق رائے نہیں ہوسكا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: سیاسی اور لسانی مفادات مردم شماری كی راہ میں ركاوٹ ہیں، چیف شماریات

جسٹس عارف حسین خلجی نے كہا لگتا ہے کہ حكومت خود نہیں چاہتی كہ مردم شماری ہو۔ کیس کی سماعت کے دوران شماریات ڈویژن كے ڈی جی آصف باجوہ اورایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے، عدالت كے استفسارپرڈی جی شماریات نے بتایا كہ مردم شماری كیلیے تمام انتظامات مكمل ہیں جونہی فوج كی طرف سے افرادی قوت فراہم كی جائے گی مردم شماری كا عمل مكمل كرلیا جائے گا۔ انہوں نے كہا كہ فوج كے بغیر مردم شماری كے اعداد وشمار پر بھروسہ نہیں كیا جائے گا، قابل بھروسہ مردم شماری كے لیے فوج كی نگرانی ضروری ہے۔

چیف شماریات نے عدالت کو بتایا کہ مردم شماری كرانے كیلیے ہم پوری طرح تیارہیں، ہماری طرف سے كوئی تاخیریا كوتاہی نہیں ہورہی لیكن فی الوقت فوجی اہلكاردستیاب نہیں اوراس كے بغیركی گئی مردم شماری پراعتراضات كیے جائیں گے۔ آصف باجوہ كا كہنا تھا كہ 1999 اور2011 میں اكٹھا كیے گئے اعداد وشمار پر اعتراض كی وجہ سے اسے مسترد كرنا پڑا۔

عدالت كے ایك سوال كے جواب میں چیف شماریات نے كہا كہ مرحلہ وار مردم شماری پر بھی غورہورہا ہے لیكن مجموعی اعدا وشمار اكٹھا كرنے كے لیے 6 مہینے سے زیادہ كا وقفہ نہیں دیا جا سكتا جب كہ مردم شماری كیلیے ایك لاكھ 65 ہزاراساتذہ كی تربیت بھی كرنی ہوگی جس كے لیے کم از كم 3 مہینے دركار ہوں گے۔ عدالت نے ڈی جی كی وضاحت پر حیرانگی كا اظہار كیا۔ جسٹس میاں ثاقب نثارنے ان سے كہا كہ آپ كے بقول آپ مردم شماری كیلیے تیارہیں لیكن ابھی تك اساتذہ كی تربیت بھی نہیں ہوسكی، یہ كیسی تیاری ہے ابھی توابتدائی مرحلہ بھی مكمل نہیں ہوا ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: مردم شماری نہ کروانے میں ذاتی مفادات شامل ہیں، چیف جسٹس

ڈی جی شماریات نے كہا كہ فوج سے افرادی قوت كی فراہمی كیلیے ڈی جی ملٹری آپریشن سے بات چیت چل رہی ہے اس سلسلے میں ایك میٹنگ رواں ہفتہ كو بھی ہونی ہے، ممكنہ طور پرنومبر یا پھر دسمبرمیں فوج مردم شماری كے لیے دستیاب ہوسكیں گی۔ جسٹس ثاقب نثارنے ان سے كہا كہ جب اساتذہ كی تربیت كرنی ہے توابھی سے شروع كردیں۔ ڈی جی نے بتایا كہ اگراساتذہ كی ابھی تربیت كریں اورپھرخدانخواستہ مردم شماری لیٹ ہوجائے توپھرمسائل پیدا ہوں گے، اس دوران كچھ اساتذہ ریٹائر بھی ہوسكتے ہیں۔ عدالت نے سماعت 18 اكتوبر تك ملتوی كرتے ہوئے ہدایت كی كہ اٹارنی جنرل متعلقہ حلقوں سے رابطہ كركے بتائے كہ مردم شماری كے لیے فوج كب دستیاب ہوسكتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔