آواز دھمال ڈالتی ہے
ہمارے اردگرد توپوں کی دھمک ہو اور بارود کی مہک تو ایسے میں ہم کیا کریں؟
ہمارے اردگرد توپوں کی دھمک ہو اور بارود کی مہک تو ایسے میں ہم کیا کریں؟
ہمارے بس کی بات توپیں چلانا اور طیارے اڑانا نہیں ہے، حد تو یہ ہے کہ ہم طوطے والی توپ بھی نہیں چلا سکتے، تو پھر ہم کس دیس میں بسرام کریں؟ اس بارے میں سوچیے تو ذہن کام نہیں کرتا۔ کچھ لوگ اس مسلسل ذہنی دباؤ کو برداشت نہیں کرسکتے۔ وہ دنیا بھر سے آنے والی خبریں پڑھتے رہتے ہیں، جن میں عراق اور شام کے شہروں پر ٹوٹنے والی آفتوں اور عذابوں کا ذکر ہے۔ بھرے پُرے شہر کس طرح آن کی آن میں اُدھیڑ کر رکھ دیے گئے۔
وہ گلیاں اور بازار جن کی سیر کو دور دراز سے سیاح آتے تھے، آج کھنڈر ہیں۔ باپ اپنے بچوں کے خستہ تن لاشے اٹھا رہے ہیں اور مائیں ملبے کے ڈھیر میں اپنے شیرخوار ڈھونڈ رہی ہیں۔ ایسے میں ذہنی توازن کیسے درست رہ سکتا ہے اور کچھ لوگ اگر تشدد کی طرف مائل ہوں تو ان کا راستہ کیسے روکا جائے اور کیوں کر انھیں یہ بتایا جائے کہ تشدد ایک ایسی دلدل ہے جس میں اگر کوئی اتر جائے تو پھر دھنستا ہی چلا جاتا ہے۔
ایسے زمانوں میں ہمیں اپنے صوفی بہت شدت سے یاد آتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کا کلام اور جن کی آواز ہمارے دلوں پر مرہم رکھتی ہے۔ یہ صوفی آج سے نہیں سیکڑوں ہزاروں برس سے دنیا کے ہر علاقے کی تہذیب و تمدن کا ایک لازمی جزو ہیں۔ بدترین وحشت و بربریت کے دور میں بھی ہمارے صوفیا، جوگی، سنت اور سادھو اس دہشت اور جنون سے برسر پیکار رہے ہیں۔ آج کے تناظر میں دیکھیے تو عابدہ پروین کا خیال آتا ہے جو پاکستان ہی نہیں برصغیر کی ایسی صوفی درویش ہیں جن کی آواز دلوں کو موم کردیتی ہے۔
لاڑکانہ کے محلے علی گوہر آباد میں پیدا ہونے والی عابدہ پروین کے گھر میں سُر کا دریا بہتا تھا۔ ماں اپنی رسیلی آواز میں گنگناتی رہتیں۔ چولہے میں آگ بھڑکتی اور ان کے سینے میں دہکتی ہوئی آتش صوفیانہ کلام کا چولا پہن کر گھر کی دیواروں اور منڈیروں پر بسیرا کرتی۔ باپ غلام حیدر، صوفی موسیقی کے استاد تھے۔ بیٹی کے گلے میں سوز کا جو دریا لہریں لیتا تھا، اسے باپ سے زیادہ بھلا کون پہچانتا۔ باپ نے تین برس کی عمر سے بیٹی کو صوفی موسیقی کے دریا میں تیرنا سکھایا۔ بعد میں انھوں نے شام چوراسی گھرانے کے استاد سلامت علی خاں (مرحوم) سے سبق لیا جس کے بعد عابدہ ساز و آواز کی لہروں میں یوں ڈوبیں کہ 19 برس کی عمر سے آج تک ان کی آواز دنیا کے تمام براعظموں میں گونجتی ہے۔
وہ اردو، ہندی، سندھی، سرائیکی، پنجابی اور فارسی میں غزلیں اور کافی گاتی ہیں۔ دنیا سے بیگانہ ہو کر درگاہوں میں اور بزرگوں کے مزاروں پر تان اڑاتی ہیں اور لوگ ان کے دیوانے ہوجاتے ہیں۔ حضرت امیر خسرو کے گیت اور غزلیں ہوں یا کبیر، غالب، بلھے شاہ، شاہ لطیف اور سچل سائیں کا کلام، عابدہ کے لبوں سے پھوٹتا ہے اور پتھر کو موم کردیتا ہے۔
عابدہ کا لحن پل چھن میں ہمیں تاریخ کی گپھاؤں میں لے جاتا ہے۔ یہ لحن، یہ سوز و گداز ہماری ڈیڑھ ہزار برس پرانی ہند ایرانی ثقافت کا حصہ ہے۔ وہ سرخ مٹی یاد آتی ہے جس سے اینٹیں بنائی جاتی ہیں، بھٹی میں پکائی جاتی ہیں اور اسی کی دھول سے ہزاروں جوگیوں بیراگیوں نے، صوفیوں اور سنتوں نے اپنا چولا رنگا ہے۔
ہماری صوفی عورتیں اس سرخ مٹی سے اور گُل ارمنی سے اپنی چادریں اور چولے رنگتی رہی ہیں۔ درگاہوں کی سیڑھیوں پر بیٹھنے والیاں اور مزاروں کے آنگن میں من کُنتُ مولا علی مولا کی وجد آفریں تان اڑاتی رہی ہیں۔ چھاپ تلک سب چھینی ری موسے نیناں ملائی کے... خسرو، نجام کے بل بل جایئے... ان کی پُرسوز آواز دھمال ڈالتی رہتی ہے۔
عابدہ کا نام دھیان میں آئے تو کیسی کیسی صوفی خواتین کے نام اپنی جھلک دکھاتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو امن و آشتی اورآہنگ کے شفاف جھرنوں سے اپنے زمانے اور بعد کے زمانوں میں سانس لینے والوں کی پیاسی روحوں کو سیراب کرتی رہیں۔
تاریخ میں ہمیں رابعہ بصری، فاطمہ خانقاہیہ، حسنہ بنت فیروز، عمرہ الفرغانیہ، اُم الحسین الوارقہ من العراق، عنیزہ بغدادیہ، عونہ نیثا پوریہ، شبکتہ البصریہ، مومنہ بہلول، مریم البصری اور ان کے علاوہ سیکڑوں صوفی خواتین جن کے نام اور جن کا کلام بڑی حد تک پردہ اخفا میں ہی رہا اور اب ہماری عابدہ پروین کا لحن سات براعظموں میں اپنے پُر کھولتا ہے، میں سوز محبت ہوں... میں ایک قیامت ہوں... میں اشک ندامت ہوں... میں نعرۂ مستانہ، میں طائر لاہوتی، میں تشنہ کہاں جاؤں... اور... ارے لوگو تمہارا کیا، میں جانوں مرا خدا جانے۔
اب سے 16 برس پرانی بات ہے جب منیزہ ہاشمی نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے عابدہ پروین کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا تھا۔ اس انٹرویو کے بارے میں منیزہ نے لکھا ہے کہ مجھے احساس ہوا کہ ہماری بات چیت میں سوال و جواب ایک زنجیر بنارہے تھے۔ ایک سوال میں سے دوسرا سوال آپ سے آپ جنم لے رہا تھا۔ ایک تواتر کے ساتھ، سُر اور تال کی مدھر موسیقی کے ساتھ ۔ میرے سامنے ایک ایسی شخصیت تھی جس میں کوئی غرور، کوئی تکبر اور کوئی دکھاوا نہیں تھا۔ عابدہ سے اپنی صوفیانہ گفتگو کے خمار کا ذکر کرتے ہوئے منیزہ کہتی ہیں کہ ان کے کسی انداز میں نہ تفاخر تھا اور نہ کوئی انانیت۔
اپنے اسی ٹیلی وژن انٹرویو میں عابدہ نے کہا تھا مجھے اپنے بچپن کے منظر یاد ہیں... میرے والد صاحب بہت اچھے گلوکار اور استاد تھے، میری ماں بھی بہت سُر میں گاتی تھیں، میرا گانا سیکھنا ایسا ہی ہے کہ جیسے خدا پرندوں کو سکھاتا ہے تو وہ خودبخود ہی گانے لگتے ہیں... اسی وجہ سے میں بھی اپنے چاروں طرف پھیلی موسیقی کو دیکھتی تو ہارمونیم لے کر بیٹھ جاتی اور گانے لگتی... مجھے اللہ نے سُروں سے گوندھا ہوا ماحول عطا کیا... اور ہم ابھی تک انھی سُروں کو ڈھونڈتے ہیں۔
اچھی موسیقی، سننے والوں اور اچھے کلام کے درمیان ایک پل کا کام کرتی ہے۔ حضرت امیر خسروؒ کہتے ہیں کہ موسیقی وہ ذریعہ ہے جو کسی پیغام کو سامنے والے کی روح میں جذب کردے۔ یہ آواز کا حسن ہے جو لفظوں کی خوبصورتی کو آگے بڑھاتا ہے... موسیقی ایک ایسا بندھن ہے بندے اور خالق کے درمیان جو کبھی توڑا نہیں جاسکتا، یہ رابطہ ہماری شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہ سارے سُر ہمیں اپنے زندہ ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں... سب سے بڑا آرٹ موسیقی ہے، باقی سب دریا اسی چشمے سے پھوٹے ہیں... موسیقی تو بس دوسرے تمام فنون کے لیے راستے کھولتی چلی جاتی ہے۔
اپنی پہلی بڑی محفل کے بارے میں عابدہ کہتی ہیں کہ: حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ کا عرس مبارک تھا... میں اس وقت پندرہ سال کی تھی، پہلی بار اتنے لوگوں کے سامنے گانے کی، شاہ لطیف سائیں کا کلام پڑھنے کی دعوت ملی تھی۔ کوئی بیس تیس ہزار لوگ ہوں گے عرس مبارک پر۔
میرے والد صاحب میرے ساتھ تھے۔ تو اس وقت کچھ ڈر بھی تھا ذہن میں، دل میں گھبراہٹ تھی کہ اتنی بڑی درگاہ اور کلام پڑھنا ہے، میں دعا کررہی تھی کہ اللہ مجھے کامیاب کرے... تو بس اسی درگاہ پہ میں ابھی بھی دونوں ہاتھ باندھے کھڑی ہوں جس طرح پہلے دن ہاتھ باندھے کھڑی تھی... ہم تو جی فقیر ہیں ان درگاہوں کے... سامنے بیٹھے لوگوں کے لیے گانے کا احساس ہی الگ ہوتا ہے۔ سب روبرو ہوجاتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ مجھے بس یہی شوق ہے شعر و شاعری کا، اچھا کلام اکھٹا کرنے کا... درگاہوں کے جو سفیر (فقیر) ہوتے ہیں، ان کے پاس بہت اچھا کلام ہوتا ہے اور ان کے پاس چل کر جانا چاہیے کیونکہ لنگر لینے کے لیے فقیر ہونا پڑتا ہے، ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے، بھیک مانگنی پڑتی ہے۔ میں گھنٹوں وہیں بیٹھ کر ان کا کلام سن سکتی ہوں۔ وجدانی کیفیت اور روحانی فیض حاصل کرنے کے لیے میں ہمیشہ فقیر عبدالغفور کے پاس جایا کرتی تھی... کیونکہ اچھا کلام کسی کی میراث نہیں ہوتا، کوئی بھی گانا چاہے تو گا سکتا ہے... اس میں یہ نہیں ہوتا کہ ہم نے گایا تو دوسرا نہ گائے... یہ تو لنگر کھلا ہے! اُس وقت تو سوچ ختم ہوجاتی ہے... بس رب سے دعا کرتے ہیں کیونکہ ہر محفل پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ آج پہلی بار ہے یا شاید آخری بار ہو۔
توپوں کی دھمک اور بارود کی مہک آخرکار مٹ جائے گی لیکن صوفی درویش عابدہ کی آواز رقص کرتی ہوئی بلندیوں کا سفر کررہی ہے اور ہم اس کی رقصاں آواز کو دیکھ رہے ہیں، سن رہے ہیں، اس درویش کی آواز اور آہنگ ہمارے وجود میں اتر رہا ہے، ہماری روح کو پگھلا رہا ہے، ہمارے اندر کی کثافت کو کاٹ رہا ہے، جنگ اور امن کے دنوں میں ایک سچے درویش کا یہی کمال ہے۔