بجلی اور میری زندگی
پاکستان کو انتظامی لحاظ سے اہل شخصیات کا بحران پیش آ سکتا ہے۔
اس وقت جب میں نیم تاریکی کی حالت میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو مجھے لاہور کے ایک مسلمہ اور معزز دانشور مولانا صلاح الدین کے افسر اعلیٰ صاحبزادے کی یہ بات یاد آ رہی ہے جو میں اکثر دہراتا بھی رہتا ہوں کہ پاکستان کو انتظامی لحاظ سے اہل شخصیات کا بحران پیش آ سکتا ہے۔
اس ملک کے پاس سب کچھ ہے بلکہ ضرورت سے زیادہ مگر اس دولت کو کام میں لانے والوں کی قلت ہے جس کی وجہ سے اس ملک کے وسائل پوری طرح اور سلیقے کے ساتھ استعمال نہیں ہو سکتے۔ ان کا اسم گرامی غالباً ریاض الدین احمد تھا اور وہ کسی وجہ سے ملک سے باہر منتقل ہو رہے تھے۔ انھوں نے ہم پاکستانیوں سے ایک الوداعی ملاقات میں یہ بات کہی جو ایک پریس کانفرنس میں بیان کی گئی تھی۔ ان کے والد ماجد تو تھے ہی اس ملک کے عظیم المرتبت شخصیت مولانا صلاح الدین احمد لیکن جتنا مجھے یاد پڑتا ہے ان کی بیگم اختر الدین صاحبہ بھی ایک معروف قلمکار تھیں۔
جناب ریاض صاحب نے ایک وارننگ کی صورت میں لاہور کے صحافیوں کو بتایا کہ وہ اس ملک میں ایک انتظامی خلا دیکھ رہے ہیں۔ اہل نظم و نسق بہت کم پڑ جائیں گے اور ملک کے معاملات ناتجربہ کار لوگوں کے ہاتھوں میں آ جائیں گے۔ جناب ریاض الدین صاحب کی اس بات کو ایک عرصہ گزر گیا ہے مگر میں ایک مدت سے دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے امور مملکت کو چلانے والے اہل لوگ بہت کم رہ گئے ہیں اور ملک کے معاملات اور مسائل چل چلاؤ لوگوں کے ہاتھ میں آ چکے ہیں۔
یہ بات مجھے اکثر یاد آتی رہتی ہے اور اس وقت بھی جب اندھیرا ہو گیا ہے تو یہ بری طرح یاد آ رہی ہے ملک میں بجلی پیدا کرنے کے تمام اسباب اور وسائل موجود ہیں مگر بجلی نہیں ہے کیونکہ بجلی پیدا کرنے والے منتظم نہیں رہے ہیں جو بجلی پیدا کرنے کے اسباب کو استعمال میں لا سکیں اور بجلی کی مصنوعی روشنی جیسی ضرورت اور نعمت سے قوم کو مستفید کر سکیں۔
یورپ وغیرہ کے ممالک میں بجلی کا غائب ہو جانا ایک سانحہ ہوتا ہے جو بہت کم سامنے آتا ہے کیونکہ ان ملکوں کی بجلی ان کی ایک بنیادی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اس سے محروم ہونے کا نقصان برداشت نہیں کر سکتے۔ ورنہ ان کی زندگی کا پہیہ جام ہو جاتا ہے جو بجلی کی طاقت سے چلتا ہے اور اسے لازماً چلتا رہنا چاہیے ورنہ زندگی کی رفتار رک سکتی ہے اور پھر کیا ہو سکتا ہے اس کا تصور کرنے کی ہمت ہی نہیں ہے۔
بجلی کی طاقت ایک تو کار خانوں وغیرہ میں رواں رہتی ہے جس کی وجہ سے ملک کی مشین چلتی ہے اور اب تو یہاںتک بھی بجلی کا دائرہ وسیع ہو چکا ہے کہ آپ کا باورچی خانہ بھی بجلی کے بغیر نہیں چل سکتا۔ کھانے پکانے کے آلات بجلی کی طاقت سے چلتے ہیں یہ تو کسی گھریلو باورچی خانے کی بات ہوئی ہمارے ہاں تو اب ہمارے ریستوران بھی بجلی سے چلتے ہیں اور کھانے تیار کرتے ہیں اور وہ بھی ایک آدھ فرد کے لیے نہیں بازار کے لیے لوگ آتے ہیں کھانا کھاتے ہیں اور یہ ایک معمول ہے۔
بات بجلی کی ہو رہی تھی اور مجھے گاؤں جا کر تعجب ہوا جہاں پر بھی بجلی کی حکومت دکھائی دی اور اس کے بغیر گاؤں کی زندگی نہیں چل سکتی تھی۔ یہ وقت کی ترقی کے آثار ہیں اور وقت کی ترقی کو کون روک سکتا ہے۔ کھیت کی پیداوار جب ایک جگہ جمع کر دی جاتی ہے تو اس سے آگے اس کا سفر بجلی کے ذریعے شروع ہوتا ہے اور یہ پھر وہ انسانی ضرورت کی اشیا تیار کرتا ہے یعنی کھیت کی پیداوار بجلی کی طاقت سے انسانی ضروریات پوری کرتی ہے اور انسانوں کے کام آتی ہے اور تو اور آپ کی روٹی چپاتی بھی بجلی کی محتاج ہے۔
گندم کو جس چکی میں پیسا جاتا ہے وہ بجلی سے چلتی ہے اور گندم کے دانوں کو آٹا بنا کر آپ کے سامنے پیش کرتی ہے۔ اگر آپ گھریلو چکی پر انحصار کریں تو وہ چند افراد کو ہی کھانا کھلا سکتی ہے۔ ہمارے دیہات میں خواتین چکی پیستی ہیں مگر انتہائی مجبوری میں ورنہ ان کے گھر کے کارکن مرد کھانا کہاں سے کھائیں گے اور دیہی زندگی کا سفر کس طرح چلے گا اور اب جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو بجلی بند ہو چکی ہے اور میں مصنوعی بجلی کی روشنی میں قلم چلا رہا ہوں جب تک یہ روشنی برقرار ہے میرا قلم بھی رواں ہے لیکن اس کی روانی بھی بجلی کے چند جھٹکوں کی محتاج ہے۔
ادھر اس نے ایک جھٹکا کھایا روشنی ختم ہوئی اور میرا قلم میرے ہاتھ میں ایک مردہ لکڑی بن کر رہ گیا اور یہ بھی جیسا کہ عرض کیا ہے ہماری انتظامی نااہلی کا ایک جھٹکا ہے لیکن معلوم ہوا کہ میں کچھ زیادہ ہی سرگرم ہوں کہ اس اندھیرے میں بھی گرم ہوں ورنہ گاؤں کے اندھیروں میں امتحانوں کی تیاری کرنے والوں کو کون ان کے سفر سے روک سکتا ہے۔
اس ملک کے پاس سب کچھ ہے بلکہ ضرورت سے زیادہ مگر اس دولت کو کام میں لانے والوں کی قلت ہے جس کی وجہ سے اس ملک کے وسائل پوری طرح اور سلیقے کے ساتھ استعمال نہیں ہو سکتے۔ ان کا اسم گرامی غالباً ریاض الدین احمد تھا اور وہ کسی وجہ سے ملک سے باہر منتقل ہو رہے تھے۔ انھوں نے ہم پاکستانیوں سے ایک الوداعی ملاقات میں یہ بات کہی جو ایک پریس کانفرنس میں بیان کی گئی تھی۔ ان کے والد ماجد تو تھے ہی اس ملک کے عظیم المرتبت شخصیت مولانا صلاح الدین احمد لیکن جتنا مجھے یاد پڑتا ہے ان کی بیگم اختر الدین صاحبہ بھی ایک معروف قلمکار تھیں۔
جناب ریاض صاحب نے ایک وارننگ کی صورت میں لاہور کے صحافیوں کو بتایا کہ وہ اس ملک میں ایک انتظامی خلا دیکھ رہے ہیں۔ اہل نظم و نسق بہت کم پڑ جائیں گے اور ملک کے معاملات ناتجربہ کار لوگوں کے ہاتھوں میں آ جائیں گے۔ جناب ریاض الدین صاحب کی اس بات کو ایک عرصہ گزر گیا ہے مگر میں ایک مدت سے دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے امور مملکت کو چلانے والے اہل لوگ بہت کم رہ گئے ہیں اور ملک کے معاملات اور مسائل چل چلاؤ لوگوں کے ہاتھ میں آ چکے ہیں۔
یہ بات مجھے اکثر یاد آتی رہتی ہے اور اس وقت بھی جب اندھیرا ہو گیا ہے تو یہ بری طرح یاد آ رہی ہے ملک میں بجلی پیدا کرنے کے تمام اسباب اور وسائل موجود ہیں مگر بجلی نہیں ہے کیونکہ بجلی پیدا کرنے والے منتظم نہیں رہے ہیں جو بجلی پیدا کرنے کے اسباب کو استعمال میں لا سکیں اور بجلی کی مصنوعی روشنی جیسی ضرورت اور نعمت سے قوم کو مستفید کر سکیں۔
یورپ وغیرہ کے ممالک میں بجلی کا غائب ہو جانا ایک سانحہ ہوتا ہے جو بہت کم سامنے آتا ہے کیونکہ ان ملکوں کی بجلی ان کی ایک بنیادی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اس سے محروم ہونے کا نقصان برداشت نہیں کر سکتے۔ ورنہ ان کی زندگی کا پہیہ جام ہو جاتا ہے جو بجلی کی طاقت سے چلتا ہے اور اسے لازماً چلتا رہنا چاہیے ورنہ زندگی کی رفتار رک سکتی ہے اور پھر کیا ہو سکتا ہے اس کا تصور کرنے کی ہمت ہی نہیں ہے۔
بجلی کی طاقت ایک تو کار خانوں وغیرہ میں رواں رہتی ہے جس کی وجہ سے ملک کی مشین چلتی ہے اور اب تو یہاںتک بھی بجلی کا دائرہ وسیع ہو چکا ہے کہ آپ کا باورچی خانہ بھی بجلی کے بغیر نہیں چل سکتا۔ کھانے پکانے کے آلات بجلی کی طاقت سے چلتے ہیں یہ تو کسی گھریلو باورچی خانے کی بات ہوئی ہمارے ہاں تو اب ہمارے ریستوران بھی بجلی سے چلتے ہیں اور کھانے تیار کرتے ہیں اور وہ بھی ایک آدھ فرد کے لیے نہیں بازار کے لیے لوگ آتے ہیں کھانا کھاتے ہیں اور یہ ایک معمول ہے۔
بات بجلی کی ہو رہی تھی اور مجھے گاؤں جا کر تعجب ہوا جہاں پر بھی بجلی کی حکومت دکھائی دی اور اس کے بغیر گاؤں کی زندگی نہیں چل سکتی تھی۔ یہ وقت کی ترقی کے آثار ہیں اور وقت کی ترقی کو کون روک سکتا ہے۔ کھیت کی پیداوار جب ایک جگہ جمع کر دی جاتی ہے تو اس سے آگے اس کا سفر بجلی کے ذریعے شروع ہوتا ہے اور یہ پھر وہ انسانی ضرورت کی اشیا تیار کرتا ہے یعنی کھیت کی پیداوار بجلی کی طاقت سے انسانی ضروریات پوری کرتی ہے اور انسانوں کے کام آتی ہے اور تو اور آپ کی روٹی چپاتی بھی بجلی کی محتاج ہے۔
گندم کو جس چکی میں پیسا جاتا ہے وہ بجلی سے چلتی ہے اور گندم کے دانوں کو آٹا بنا کر آپ کے سامنے پیش کرتی ہے۔ اگر آپ گھریلو چکی پر انحصار کریں تو وہ چند افراد کو ہی کھانا کھلا سکتی ہے۔ ہمارے دیہات میں خواتین چکی پیستی ہیں مگر انتہائی مجبوری میں ورنہ ان کے گھر کے کارکن مرد کھانا کہاں سے کھائیں گے اور دیہی زندگی کا سفر کس طرح چلے گا اور اب جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو بجلی بند ہو چکی ہے اور میں مصنوعی بجلی کی روشنی میں قلم چلا رہا ہوں جب تک یہ روشنی برقرار ہے میرا قلم بھی رواں ہے لیکن اس کی روانی بھی بجلی کے چند جھٹکوں کی محتاج ہے۔
ادھر اس نے ایک جھٹکا کھایا روشنی ختم ہوئی اور میرا قلم میرے ہاتھ میں ایک مردہ لکڑی بن کر رہ گیا اور یہ بھی جیسا کہ عرض کیا ہے ہماری انتظامی نااہلی کا ایک جھٹکا ہے لیکن معلوم ہوا کہ میں کچھ زیادہ ہی سرگرم ہوں کہ اس اندھیرے میں بھی گرم ہوں ورنہ گاؤں کے اندھیروں میں امتحانوں کی تیاری کرنے والوں کو کون ان کے سفر سے روک سکتا ہے۔