پڑھے لکھے اور مسکراتے ہوئے لوگوں کا دیس… سری لنکا
کسی ملک کی افرادی قوت یا انسانی سرمایہ (Human capital) سونے اور تیل کے ذخائر سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔
کسی ملک کی افرادی قوت یا انسانی سرمایہ (Human capital) سونے اور تیل کے ذخائر سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتا ہے، جو ملک اس راز کو پاگئے، ترقی اور خوشحالی ان کے قدم چوم رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ترقی سے ہمکناراور ترقی کے آرزو مند تمام ممالک skill developmentکو بے پناہ اہمیّت دیتے ہیں، ساؤتھ ایشیامیں بھارت اور سری لنکا سمیت کئی ممالک نے ہنرمندی اور فنی تربیت کی علیحدہ وزارت قائم کرلی ہے۔ ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم و تربیت کے شعبے میں مختلف ممالک ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اس سلسلے میں مختلف بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کا جب بھی موقع ملتا ہے سری لنکا کے مندوبین کا رویّہ پاکستان کے ساتھ بے حد دوستانہ ہوتا ہے۔ فنی ّ تربیت کے میدان میں سری لنکا پورے ساؤتھ ایشیاکو پیچھے چھوڑ گیاہے، اس لیے ان کے سسٹم اسٹڈی کرنے کی دیرینہ خواہش تھی جو ہمارے پارٹنرجی آئی زیڈنے پوری کردی اور ایک پانچ رکنی وفد کے سری لنکا کے دورے کا اہتمام کردیا اسمیں نیوٹیک کراچی آفس سے نبیلہ عمر اور اسلام آباد سے عصمت اﷲ شامل تھے۔ GIZکے راجہ سعد اور رَونیکا(سری لنکن ماہر خاتون) بھی اس دورے میں ہمارے ساتھ تھیں۔
ائرپورٹ پرڈاکٹر ثانیہ نشتر سے ملاقات ہوگئی وہ تحریکِ پاکستان کے عظیم لیڈر سردار عبدالّرب نشتر کے پوتے ڈاکٹرغالب نشترکی اہلیہ اورملک کی قابل ترین خواتین میں سے ہیں۔ چند سال قبل پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کے بحرانی دور میں جب راقم امیگریشن اینڈ پاسپورٹ کا ڈائریکٹر جنرل تھا تو نگران حکومت کے دیگر وزراء کیطرح ڈاکٹر صاحبہ بھی نگران وزیر کی حیثیت سے پاسپورٹ بنوانے آئی تھیں۔ کئی وزراء نے وزیرِ داخلہ سے دباؤ ڈلوا کر اپنے بچّوں کے لیے بھی بلیو یعنی سرکاری پاسپورٹ بنوانے کی کوشش کی لیکن راقم نے ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہونے دی جس پر وہ ناراض ہوگئے مگر ڈاکٹر ثانیہ نشترکا طرزِ عمل سب سے باوقار تھا۔ ان کے بعد ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں، میری کتاب 'دوٹوک باتیں'کی تقریب میں بھی انھوں نے اظہارِ خیال کیا۔
تین مہینے کی وزارت کے دوران اصلاحِ احوال کے لیے انھوں نے جو رپورٹیںلکھیں انھیں پڑھکر آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ ایک خاتون نے کتنی محنت اور عرق ریزی سے سالوں پر محیط کام چند مہینوں میں سرانجام دے دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ' ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی سربراہی کے لیے اگلے سال انتخاب ہوگا اور وہ پاکستان کی نامزد کردہ امیدوار ہیں اور اسی سلسلے میں وہ سری لنکا جارہی ہیں۔ اس عہدے کے لیے اگر انتخاب میرٹ پر ہونا ہے تو ڈاکٹر ثانیہ نشترسے بہتر کوئی انتخاب نہیں ہوسکتا۔ ہمارے فارن آفس اور سفراء کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں ذاتی طور پر پوری کوشش کریں تاکہ میرٹ اور ملک دونوں کا نام سربلند ہو۔
ائرپورٹ کولمبو شہر سے خاصادور ہے۔ ڈرائیور سے راستے میں گپ شپ ہوتی رہی۔ وہ بھی بڑی اچھی انگریزی میں جواب دیتا رہا، یہاں لٹریسی ریٹ تقریباً سو فیصدہے۔ ہر شخص چاہے وہ ٹیکسی ڈرائیور ہے یا دکاندار انگریزی کی اچھی خاصی سوجھ بوجھ رکھتا ہے اور بول بھی سکتا ہے۔ میں نے ڈرائیور سے پوچھا "کولمبومیں کتنے گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے؟ "تو اس نے حیرانی سے پوچھا "لوڈشیڈنگ کیا ہوتی ہے؟ "میں نے کہا دن میں دو چار گھنٹے تو بجلی کی سپلائی بند ہوتی ہوگی؟ کہنے لگا ایک منٹ بھی بند نہیں ہوتی۔ میں نے دل میں دعا کی کہ اﷲ کرے ہم بھی جلد اس مسئلے پر قابو پالیں اور ہمارے ملک میں بھی چوبیس گھنٹے بجلی کی سپلائی جاری رہے۔
کولمبو کے سنو من گرینڈ ہوٹل کی لابی میں ایک کونے میں لگی نشستوں پر براجمان ہوئے تو اسے TVETلابی کا نام دے دیا گیا وہیں ناشتے کے فوراً بعد اکٹھے ہوتے اور وہیں دن کے اختتام پر ڈی بریفنگ سیشن منعقد ہوتا۔ سنومن کا مطلب دار چینی ہے جو سری لنکا کی خاص پیداوار ہے، سری لنکا یا سیلون صدیوں سے گرم مصالحوں کے لیے مشہور ہے، مگر ہم سری لنکا میں گرم مصالحوںکی خرید کے لیے نہیں بلکہ سکل ڈویلپمنٹ کے شعبے سے متعلقہ حکام سے ملنے اور فنّی تربیت کے اعلیٰ اداروں کا دورہ کرنے اور یہ دیکھنے آئے تھے کہ دو کروڑ آبادی کا وسائل سے محروم یہ ملک تعلیم اور ہنر کی فراہمی میں کسطرح پورے جنوبی ایشیا سے آگے نکل گیا ہے۔
کولمبو ڈاکیارڈ میں جہاز سازی کے تربیتی ادارے میں بریفنگ کے پہلے فقرے میں ہی ہمیں اپنے سوالوں کا جواب مل گیا۔ تربیت کا مفہوم بتاتے ہوئے بار بار دھرایا گیا کہ "For us, training means transforing a group of ordinary people into a team of highly skilled, competent and globally acceptable employees" (تربیت کا مطلب عام لوگوں کو مکمل طورپر تبدیل کردینا، اور انھیں ماہر اور چابک دست ہنرمندبنادینا ہے جنکے ہنر کو پوری دنیا تسلیم کرے)
جنکے نزدیک ٹریننگ کا مطلب محض وقت گزاری نہ ہو بلکہ ایسا عمل جسکے ذریعے زیرِ تربیت نوجوان کو مکمل طور پر تبدیل کردینا ہو وہی پوری قوم کو بامقصد ہنر سے بہرہ مند کرسکتے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں نہ ٹریننگ کو اہمیّت دی جاتی ہے اور نہ انسٹرکٹرکو عزّت۔۔ہمارے سول اداروں میں ٹریننگ کو سزا یا فٹیگ سمجھا جاتا ہے،۔۔ پاکستان میں صرف ملٹری کے تحت چلنے والے تربیتی اداروں میں اعلیٰ معیار کی ٹریننگ ہوتی ہے۔
پرائما بیکنگ ٹریننگ سینٹر ایک اعلیٰ معیار کا تربیتی ادارہ ہے جہاں نوجوانوں کو بیکری کا سامان بنانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس کے سربراہ ڈاکٹررنجن امراسنگھے بیحد کوالیفائیڈ شخص ہیں اور خود یورپ کے اعلیٰ اداروں سے تربیت حاصل کرچکے ہیں۔ پروفیشنلزم، ڈسپلن اور کام سے لگن کے مظاہر جگہ جگہ دیکھنے کو ملتے رہے۔ زیرِ تربیت نوجوانوں سے بات چیت کی تو ان کی خوداعتمادی نے بہت متاثر کیا۔ مزید کریدا تو معلوم ہوا کہ خوشحال خاندانوں کے نوجوان بھی فنّی تربیت کیطرف آرھے ہیں کیونکہ اسمیں معاوضہ سب سے زیادہ ہے۔
شعبۂ تعمیرات کے ایک اعلیٰ قسم کے تربیتی ادارے میں گئے تو اس کی پرنسپل میڈم پدمنی کمارا سنگھے نے جدیدطریقے سے دی جانے والی ٹریننگ (competency based training)کے نمونے دکھائے اس کے بعد ایک اور اعلیٰ معیار کے تربیتی ادارے میں گئے جہاں ٹیکسٹائل سے متعلقہ skillsکی تربیت دی جارہی تھی۔اس تربیتی ادارے کے سربراہ ڈاکٹرروہانہ کروپوہمیں مختلف کلاس رومز اور ورکشاپس دکھاتے رہے زیرِ تربیت نوجوانوں سے ان کی تعلیمی استعداد پوچھی تو پتہ چلا زیادہ تر او لیول یا اے لیول کرکے یہاں داخل ہوئے ہیں۔ ڈاکٹرروہانہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور جہاندیدہ شخص ہیں جو اپنے شعبے پر مکمل دسترس رکھتے ہیں۔
سری لنکا میں سرکاری سطح پر TVETسیکٹر کی نگرانی ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ایجوکیشن کمیشن کے پاس ہے جو ایک بااختیار ادارہ ہے۔ TVECکی سربراہی ایک ایڈمنسٹریٹر کے پاس ہے مگر باقی عملہ ماہرین پر مشتمل ہے۔ اس شعبے کی نگرانی کے لیے TVECکے علاوہ دو اور ادارے بھی اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ ایک یونیورسٹی آف ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن جو مختلف tradesکے نصاب تیار کرنے میں مدد کرتا ہے۔ وائس چانسلر ایک قابل اور تجربہ کار استاد ہیں، چانسلر پروفیسر دایانتھاوجے لیسکیرابیمار ہونے کے باوجود ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ وہ ایک ماہرِ تعلیم بھی ہیں اور ایک صاحبِ دانش بھی۔۔۔ انھیں ملے تو وطنِ عزیز میں شعبۂ تعلیم کے living legendشیخ امتیاز علی صاحب یاد آگئے۔ کاش ہماری یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کو چند اور شیخ امتیاز علی میّسر آجائیں۔
فنّی تربیت کے وزیرجناب مہندا سمرا سنگھے سے ملاقات کے دوران جب راقم نے دونوں ملکوں کی دوستی کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے"مشکل ترین وقت میں جب ہمارا وفد پاکستان گیا تو پاکستانی حکام اسے اسلحہ سے بھرے ہوئے ڈپو پر لے گئے اور کہا لے جائیں آپکو جتنے ہتھیار چاہئیں"۔ ہمارے وفد نے کہا "فوری طور پر ہمارے لیے رقم کی ادائیگی ممکن نہیں ہوگی "پاکستانی حکام نے کہا "رقم کو چھوڑیںہم دوستوں سے لین دین نہیں کرتے صرف دوستی نبھاتے ہیں"۔۔ ہم یہ باتیں کیسے بھول سکتے ہیں!!
نائٹا (National Apprentic Industrial Training Authority)وہ ادارہ ہے جو نوجوانوں کی انڈسٹری میں بطور اپرنٹس (زیرِ تربیت ملازم) تعیناتی کروانے کا ذمے دار ہے اس دوران نوجوان عملی تربیت بھی حاصل کرتے ہیںاور75% تنخوا ہ بھی لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں اپرنٹس شپ ایکٹ 1962ء میں بناتھا مگرصنعتی ادارے اس پر پوری طرح عمل نہیں کرتے۔ اب اسمیں کچھ ترامیم کے ساتھ حکومت کی منظوری کے لیے بھیجا گیا ہے۔ ہمارے ہاں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ایسے ہنرمند اشخاص موجود ہیں جنہوں نے informalطریقے سے اپنے استاد سے ہنر توسیکھ رکھاہے اور وہ کام بھی کررہے ہیں مگر ان کے پاس سرٹیفیکیٹ نہیں ہے جسکی وجہ سے انھیں بیرونِ ملک نوکری نہیں مل سکتی۔
ایسے ہنرمندوں کی assessmentکے بعد انھیں سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کا عمل(Recognation of Prior Learning)کہلاتا ہے۔۔ ہمارے ہاں یہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے مگر سری لنکا میں نائٹا یہ کام کئی سالوں سے کررہا ہے، اس لحاظ سے نائٹا کا دورہ ہمارے لیے بہت ہی مفید رہا۔ اسطرح اس دورے میں CBTکو اس کی اصل روح کے ساتھ سمجھنے اور RPLکے سارے سسٹم کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ان مشاہدات کی روشنی میں اب ہم وہ نظام اپنے ملک میں بہت جلد شروع کریں گے اور انشاء اﷲ بہت بہتر انداز سے کریں گے۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو فنّی تربیت دلائیں۔ اگر آپکے بیٹے کے پاس ھنّر ہے تو سمجھ لیں کہ روزگار آپکی دہلیز پر ہے۔
اس سلسلے میں مختلف بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کا جب بھی موقع ملتا ہے سری لنکا کے مندوبین کا رویّہ پاکستان کے ساتھ بے حد دوستانہ ہوتا ہے۔ فنی ّ تربیت کے میدان میں سری لنکا پورے ساؤتھ ایشیاکو پیچھے چھوڑ گیاہے، اس لیے ان کے سسٹم اسٹڈی کرنے کی دیرینہ خواہش تھی جو ہمارے پارٹنرجی آئی زیڈنے پوری کردی اور ایک پانچ رکنی وفد کے سری لنکا کے دورے کا اہتمام کردیا اسمیں نیوٹیک کراچی آفس سے نبیلہ عمر اور اسلام آباد سے عصمت اﷲ شامل تھے۔ GIZکے راجہ سعد اور رَونیکا(سری لنکن ماہر خاتون) بھی اس دورے میں ہمارے ساتھ تھیں۔
ائرپورٹ پرڈاکٹر ثانیہ نشتر سے ملاقات ہوگئی وہ تحریکِ پاکستان کے عظیم لیڈر سردار عبدالّرب نشتر کے پوتے ڈاکٹرغالب نشترکی اہلیہ اورملک کی قابل ترین خواتین میں سے ہیں۔ چند سال قبل پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کے بحرانی دور میں جب راقم امیگریشن اینڈ پاسپورٹ کا ڈائریکٹر جنرل تھا تو نگران حکومت کے دیگر وزراء کیطرح ڈاکٹر صاحبہ بھی نگران وزیر کی حیثیت سے پاسپورٹ بنوانے آئی تھیں۔ کئی وزراء نے وزیرِ داخلہ سے دباؤ ڈلوا کر اپنے بچّوں کے لیے بھی بلیو یعنی سرکاری پاسپورٹ بنوانے کی کوشش کی لیکن راقم نے ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہونے دی جس پر وہ ناراض ہوگئے مگر ڈاکٹر ثانیہ نشترکا طرزِ عمل سب سے باوقار تھا۔ ان کے بعد ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں، میری کتاب 'دوٹوک باتیں'کی تقریب میں بھی انھوں نے اظہارِ خیال کیا۔
تین مہینے کی وزارت کے دوران اصلاحِ احوال کے لیے انھوں نے جو رپورٹیںلکھیں انھیں پڑھکر آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ ایک خاتون نے کتنی محنت اور عرق ریزی سے سالوں پر محیط کام چند مہینوں میں سرانجام دے دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ' ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی سربراہی کے لیے اگلے سال انتخاب ہوگا اور وہ پاکستان کی نامزد کردہ امیدوار ہیں اور اسی سلسلے میں وہ سری لنکا جارہی ہیں۔ اس عہدے کے لیے اگر انتخاب میرٹ پر ہونا ہے تو ڈاکٹر ثانیہ نشترسے بہتر کوئی انتخاب نہیں ہوسکتا۔ ہمارے فارن آفس اور سفراء کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں ذاتی طور پر پوری کوشش کریں تاکہ میرٹ اور ملک دونوں کا نام سربلند ہو۔
ائرپورٹ کولمبو شہر سے خاصادور ہے۔ ڈرائیور سے راستے میں گپ شپ ہوتی رہی۔ وہ بھی بڑی اچھی انگریزی میں جواب دیتا رہا، یہاں لٹریسی ریٹ تقریباً سو فیصدہے۔ ہر شخص چاہے وہ ٹیکسی ڈرائیور ہے یا دکاندار انگریزی کی اچھی خاصی سوجھ بوجھ رکھتا ہے اور بول بھی سکتا ہے۔ میں نے ڈرائیور سے پوچھا "کولمبومیں کتنے گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے؟ "تو اس نے حیرانی سے پوچھا "لوڈشیڈنگ کیا ہوتی ہے؟ "میں نے کہا دن میں دو چار گھنٹے تو بجلی کی سپلائی بند ہوتی ہوگی؟ کہنے لگا ایک منٹ بھی بند نہیں ہوتی۔ میں نے دل میں دعا کی کہ اﷲ کرے ہم بھی جلد اس مسئلے پر قابو پالیں اور ہمارے ملک میں بھی چوبیس گھنٹے بجلی کی سپلائی جاری رہے۔
کولمبو کے سنو من گرینڈ ہوٹل کی لابی میں ایک کونے میں لگی نشستوں پر براجمان ہوئے تو اسے TVETلابی کا نام دے دیا گیا وہیں ناشتے کے فوراً بعد اکٹھے ہوتے اور وہیں دن کے اختتام پر ڈی بریفنگ سیشن منعقد ہوتا۔ سنومن کا مطلب دار چینی ہے جو سری لنکا کی خاص پیداوار ہے، سری لنکا یا سیلون صدیوں سے گرم مصالحوں کے لیے مشہور ہے، مگر ہم سری لنکا میں گرم مصالحوںکی خرید کے لیے نہیں بلکہ سکل ڈویلپمنٹ کے شعبے سے متعلقہ حکام سے ملنے اور فنّی تربیت کے اعلیٰ اداروں کا دورہ کرنے اور یہ دیکھنے آئے تھے کہ دو کروڑ آبادی کا وسائل سے محروم یہ ملک تعلیم اور ہنر کی فراہمی میں کسطرح پورے جنوبی ایشیا سے آگے نکل گیا ہے۔
کولمبو ڈاکیارڈ میں جہاز سازی کے تربیتی ادارے میں بریفنگ کے پہلے فقرے میں ہی ہمیں اپنے سوالوں کا جواب مل گیا۔ تربیت کا مفہوم بتاتے ہوئے بار بار دھرایا گیا کہ "For us, training means transforing a group of ordinary people into a team of highly skilled, competent and globally acceptable employees" (تربیت کا مطلب عام لوگوں کو مکمل طورپر تبدیل کردینا، اور انھیں ماہر اور چابک دست ہنرمندبنادینا ہے جنکے ہنر کو پوری دنیا تسلیم کرے)
جنکے نزدیک ٹریننگ کا مطلب محض وقت گزاری نہ ہو بلکہ ایسا عمل جسکے ذریعے زیرِ تربیت نوجوان کو مکمل طور پر تبدیل کردینا ہو وہی پوری قوم کو بامقصد ہنر سے بہرہ مند کرسکتے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں نہ ٹریننگ کو اہمیّت دی جاتی ہے اور نہ انسٹرکٹرکو عزّت۔۔ہمارے سول اداروں میں ٹریننگ کو سزا یا فٹیگ سمجھا جاتا ہے،۔۔ پاکستان میں صرف ملٹری کے تحت چلنے والے تربیتی اداروں میں اعلیٰ معیار کی ٹریننگ ہوتی ہے۔
پرائما بیکنگ ٹریننگ سینٹر ایک اعلیٰ معیار کا تربیتی ادارہ ہے جہاں نوجوانوں کو بیکری کا سامان بنانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس کے سربراہ ڈاکٹررنجن امراسنگھے بیحد کوالیفائیڈ شخص ہیں اور خود یورپ کے اعلیٰ اداروں سے تربیت حاصل کرچکے ہیں۔ پروفیشنلزم، ڈسپلن اور کام سے لگن کے مظاہر جگہ جگہ دیکھنے کو ملتے رہے۔ زیرِ تربیت نوجوانوں سے بات چیت کی تو ان کی خوداعتمادی نے بہت متاثر کیا۔ مزید کریدا تو معلوم ہوا کہ خوشحال خاندانوں کے نوجوان بھی فنّی تربیت کیطرف آرھے ہیں کیونکہ اسمیں معاوضہ سب سے زیادہ ہے۔
شعبۂ تعمیرات کے ایک اعلیٰ قسم کے تربیتی ادارے میں گئے تو اس کی پرنسپل میڈم پدمنی کمارا سنگھے نے جدیدطریقے سے دی جانے والی ٹریننگ (competency based training)کے نمونے دکھائے اس کے بعد ایک اور اعلیٰ معیار کے تربیتی ادارے میں گئے جہاں ٹیکسٹائل سے متعلقہ skillsکی تربیت دی جارہی تھی۔اس تربیتی ادارے کے سربراہ ڈاکٹرروہانہ کروپوہمیں مختلف کلاس رومز اور ورکشاپس دکھاتے رہے زیرِ تربیت نوجوانوں سے ان کی تعلیمی استعداد پوچھی تو پتہ چلا زیادہ تر او لیول یا اے لیول کرکے یہاں داخل ہوئے ہیں۔ ڈاکٹرروہانہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور جہاندیدہ شخص ہیں جو اپنے شعبے پر مکمل دسترس رکھتے ہیں۔
سری لنکا میں سرکاری سطح پر TVETسیکٹر کی نگرانی ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ایجوکیشن کمیشن کے پاس ہے جو ایک بااختیار ادارہ ہے۔ TVECکی سربراہی ایک ایڈمنسٹریٹر کے پاس ہے مگر باقی عملہ ماہرین پر مشتمل ہے۔ اس شعبے کی نگرانی کے لیے TVECکے علاوہ دو اور ادارے بھی اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ ایک یونیورسٹی آف ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن جو مختلف tradesکے نصاب تیار کرنے میں مدد کرتا ہے۔ وائس چانسلر ایک قابل اور تجربہ کار استاد ہیں، چانسلر پروفیسر دایانتھاوجے لیسکیرابیمار ہونے کے باوجود ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ وہ ایک ماہرِ تعلیم بھی ہیں اور ایک صاحبِ دانش بھی۔۔۔ انھیں ملے تو وطنِ عزیز میں شعبۂ تعلیم کے living legendشیخ امتیاز علی صاحب یاد آگئے۔ کاش ہماری یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کو چند اور شیخ امتیاز علی میّسر آجائیں۔
فنّی تربیت کے وزیرجناب مہندا سمرا سنگھے سے ملاقات کے دوران جب راقم نے دونوں ملکوں کی دوستی کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے"مشکل ترین وقت میں جب ہمارا وفد پاکستان گیا تو پاکستانی حکام اسے اسلحہ سے بھرے ہوئے ڈپو پر لے گئے اور کہا لے جائیں آپکو جتنے ہتھیار چاہئیں"۔ ہمارے وفد نے کہا "فوری طور پر ہمارے لیے رقم کی ادائیگی ممکن نہیں ہوگی "پاکستانی حکام نے کہا "رقم کو چھوڑیںہم دوستوں سے لین دین نہیں کرتے صرف دوستی نبھاتے ہیں"۔۔ ہم یہ باتیں کیسے بھول سکتے ہیں!!
نائٹا (National Apprentic Industrial Training Authority)وہ ادارہ ہے جو نوجوانوں کی انڈسٹری میں بطور اپرنٹس (زیرِ تربیت ملازم) تعیناتی کروانے کا ذمے دار ہے اس دوران نوجوان عملی تربیت بھی حاصل کرتے ہیںاور75% تنخوا ہ بھی لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں اپرنٹس شپ ایکٹ 1962ء میں بناتھا مگرصنعتی ادارے اس پر پوری طرح عمل نہیں کرتے۔ اب اسمیں کچھ ترامیم کے ساتھ حکومت کی منظوری کے لیے بھیجا گیا ہے۔ ہمارے ہاں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ایسے ہنرمند اشخاص موجود ہیں جنہوں نے informalطریقے سے اپنے استاد سے ہنر توسیکھ رکھاہے اور وہ کام بھی کررہے ہیں مگر ان کے پاس سرٹیفیکیٹ نہیں ہے جسکی وجہ سے انھیں بیرونِ ملک نوکری نہیں مل سکتی۔
ایسے ہنرمندوں کی assessmentکے بعد انھیں سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کا عمل(Recognation of Prior Learning)کہلاتا ہے۔۔ ہمارے ہاں یہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے مگر سری لنکا میں نائٹا یہ کام کئی سالوں سے کررہا ہے، اس لحاظ سے نائٹا کا دورہ ہمارے لیے بہت ہی مفید رہا۔ اسطرح اس دورے میں CBTکو اس کی اصل روح کے ساتھ سمجھنے اور RPLکے سارے سسٹم کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ان مشاہدات کی روشنی میں اب ہم وہ نظام اپنے ملک میں بہت جلد شروع کریں گے اور انشاء اﷲ بہت بہتر انداز سے کریں گے۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو فنّی تربیت دلائیں۔ اگر آپکے بیٹے کے پاس ھنّر ہے تو سمجھ لیں کہ روزگار آپکی دہلیز پر ہے۔