ڈرانے اور دھمکانے والے خود پسپا ہو گئے
بھارتی انتہائی اضطراب اور بے چینی میں جو منہ کو آ رہا ہے بک رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں اُٹھنے والی آزادی کی حالیہ تحریک کے رد عمل میں ہندوستان کی حکومت اور وہاں کے الیکٹرانک میڈیا نے جس طرح پاکستان کے خلاف نفرت و اشتعال اور ہرزہ سرائی کی جو مہم چلا رکھی ہے وہ اُن کی اضطرابی ذہنی حالت کی درست اور صحیح طور پر عکاسی کر رہی ہے۔ وہ انتہائی اضطراب اور بے چینی میں جو منہ کو آ رہا ہے بک رہے ہیں۔ کسی نے کہا کہ پاکستان کو سبق پڑھانے کا وقت آ گیا ہے۔ کوئی کہتا رہا کہ ہم پاکستان کو ساری دنیا میں تنہا کر دیں گے۔ خود وزیرِاعظم مودی فرماتے ہیں کہ ہم پاکستان سے ہزار سال تک جنگ کر سکتے ہیں۔ وہ کچھ نہ کر سکے تو اب پاکستان کا پانی بند کر دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
کشمیر میں اپنے ایک فوجی اڈے'' اُڑی'' میں ہونے والے دھماکوں نے تو اُن کے اور بھی اوسان خطا کر دیے ہیں اور وہ جنونی کیفیت میںاول فول بک رہے ہیں۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ دھماکے پاکستان نے ہرگز نہیں کروائے ہیں، مگر یہ اُن کا ہمیشہ سے وتیرہ رہا ہے کہ اپنے ملک میں کسی بھی قسم کی دہشتگردی کا الزام پاکستان کے سرتھوپ کر دنیا کی نظروں میں خود کو مظلوم ظاہر کرنا اور اپنے یہاں اُٹھنے والی آزادی کی تحریکوں کو دباتے رہنا ہے۔ یہ طریقہ کار اُن کی داخلی اور خارجہ حکمتِ عملی کا خاصہ رہا ہے۔ کشمیر میں اپنے غاصبانہ قبضے کو جائز بنانے کے لیے وہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔ سکم، آسام اور پنجاب میں سکھوں کی علیحدگی کی جو تحریکیں چل رہی ہیں اُنہیں وہ ایسے ہی ہتھکنڈوں سے اب تک دبائے ہوئے ہے۔
کشمیر پر جبری تسلط کو قائم رکھنے کے لیے وہ دنیا کی صحافتی اورانسانی حقوق کی تنظیموں کو کشمیر میں جائزہ لینے کی اجازت دینے کا بھی تیار نہیں اور جب حالات قابو سے باہر ہونے لگتے ہیں تو وہ اپنے ملک میں دہشتگردی کروا کے اُس کا الزام پاکستان کی سر تھوپنے کی حرکتیں کرتا ہے۔ گزشتہ دو تین ماہ سے کشمیر میں روزانہ ہڑتالیں اور ہنگامے ہو رہے ہیں اور بھارت کا مکروہ چہرہ عیاں ہو چکا ہے۔ وہ اپنی خجالت، خفت اور آزردگی کو پاکستان کے خلاف غصے میں بدل رہا ہے۔ اِسی لیے کسی نے ابھی تک بھارت کے اُن الزامات کو لائقِ اعتناء ہی نہیں جانا۔
ایسے میں کشمیریوں کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنا احتجاج دنیا کے سامنے ریکارڈ کروائیں۔ اور اپنا حق طلب کریں۔ پاکستان اُن کے اِس حقِ رائے دہی کے لیے آوازیں اُٹھاتا رہا ہے اور پاکستان کا یہی کردار بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ اُس کے خلاف فوراً الزام ترشی اور اشتعال انگیزی شروع کر دیتا ہے۔ ابتدا میں تو وہ یہ سمجھ بیٹھا کہ پاکستان اِن گیدڑ بھبکیوں سے خوفزدہ ہو جائے گا پھر اسے خیال آ گیا کہ پاکستان گرچہ رقبے، آبادی اور طاقت میں اُن سے بہت چھوٹا ہے لیکن اُس کے عوام اور اُس کی فوج جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہیں۔ وہ اگر مالی اور اقتصادی لحاظ سے کیوں نہ ہی بھارت سے کم ہوں لیکن اُن کے ولولے اور جذبہ شہادت کا کوئی مقابلہ نہیں۔
بھارت اگر ایک ایٹمی قوت ہے تو پاکستان کے پاس بھی دنیا کے انتہائی جدید نیوکلیئر ہتھیار ہیںاور یہی وہ ڈر تھا جس نے آج ہندو حکمرانوں کو پاکستان پر جنگ مسلط کرنے سے باز رکھا۔ یہ بات آج بڑی شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ پاکستان نے اگر 1998ء میں ایٹمی دھماکے نہ کیے ہوتے تو بھارت نجانے کب کا پاکستان پر حملہ کر چکا ہوتا۔ یہ ہماری دفاعی ایٹمی صلاحیت ہی ہے جس نے اُسے ایسی خطرناک حرکت سے ابھی تک روکے رکھا ہے۔ گزشتہ 18 برسوں میں کئی موقعے ایسے آئے جب ہمارے اِس ازلی دشمن نے ہم پر جنگ مسلط کر دینے کا ارادہ کر ڈالا لیکن پھر اُسے جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ پاکستان کوئی معمولی ملک نہیں بلکہ پہلا اسلامی ملک ہے جس نے میزائل ٹیکنالوجی میں ایسی صلاحیتیں حاصل کر لی ہیں، جو بھارت کے پاس بھی نہ ہوں چنانچہ وہ افہام و تفہیم اور غریبی دور کرنے کی باتیں کرنے لگے۔
پاکستان کی یہ ایٹمی صلاحیت کا سہرا وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نوا ز شریف کو جاتا ہے۔ اِن میں سے ایک نے اِس کی داغ بیل ڈالی تو دوسرے نے اپنے اقتدارکو خطرے میں ڈال کر پاکستان کی اِس ایٹمی صلاحیت کو ساری دنیا سے منوایا۔گرچہ اِن دونوں حکمرانوں کو بعد ازاں عالمی طاقتوں کے غیض وغضب سے بھی گزرنا پڑا لیکن وہ اگر ایسا نہ کرتے تو آج ہم بھارت کی دہشت کے خوف میں مبتلا ہوکرکشمیریوں کی اخلاقی و سفارتی حمایت سے بھی دستبردار ہو چکے ہوتے۔ آج اگر پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کے شانے بشانے کھڑا دکھائی دے رہا ہے تو یہ سب کچھ اُس ایٹمی صلاحیت کے مرہونِ منت ہی ہے جس نے بھارت کو ابھی تک جنگ شروع کرنے سے روکے ہوا ہے۔
اگر ہم نے اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کر دیا ہوتا توآج ہمارا کوئی پرسانِ حال نہ ہوتا۔ ہم بھارت کے رحم وکرم پر ہوتے اور وہ جس طرح چاہتا ہمیں اپنے مذموم مقاصد اور مطلب براری کے لیے استعمال کرتا رہتا۔ اِسی طرح موٹروے کی تعمیر بھی اِس ملک کی جہاں ترسیلات اور ٹرانسپورٹ کے لیے اہم سنگِ میل کی حیثیت کی حامل ہے تو دوسری جانب وہ ہمارے دفاعی مقاصدکے لیے بھی ایک موثر ٹول اور ذریعے کا باعث بن چکی ہے۔ حالیہ دنوں میں ہماری فضائی افواج نے ہنگامی لینڈنگ کے لیے اُسے بہت مناسب '' رن وے'' کے طور پر استعمال کر کے بھی دیکھ لیا ہے۔ قوموں کی زندگی میں بہت کم ایسے مواقعے آتے ہیں جہاں فیصلوں میں اگر معمولی سی غفلت، کوتاہی یا تاخیر کر دی جائے تو اُس کے نتائج اُن اقوام کو صدیوں بھگتنے پڑتے ہیں۔
'' سی پیک '' کی تعمیرکا فیصلہ بھی ہمارے ایسے ہی چند اہم منصوبوں میں سے ایک ہے۔ جس کے فوائد وثمرات کا اندازہ ہمیں فی الحال نہیں ہو پارہا لیکن یہ آنے والا وقت بتلائے کا کہ پاکستان کو معاشی اور اقتصادی طور میں ناقابل تسخیر بناڈالنے والا یہ فیصلہ ہمارے جمہوری حکمرانوں کی بصیرت اور اعلیٰ فہم وذکاء کی بدولت ہی ممکن ہو پایا ہے۔ پاکستان کوایک جانب دفاعی اعتبار سے اگر ناقابل تسخیر بنایا گیا ہے تو دوسری جانب معاشی اعتبار سے بھی اُسے مضبوط اور مستحکم بنانے کی ابتد ا کر دی گئی ہے۔
ہم نے اگر اِس میدان میں بھی بھارت کو مات دے دی تو بھارت پھر کبھی ہم پر یوں الزام تراشی اور دشنام طرازی کا خیال بھی اپنے دل میں نہیں لائے گا۔ دنیا کا مفاد اور جھکاؤ اگر آج بھارت کی جانب ہے تو اِس کی ایک ہی وجہ ہے کہ وہ تجارتی اور معاشی طور پر ہم سے زیادہ مستحکم ملک ہے۔ ہمیں اب یہ تہیہ کرلینا ہے کہ '' سی پیک'' کا منصوبہ ہر حال میں پورا کیا جائے گا۔ اِس کی راہ میںآنے والی ہر مشکل اوررکاوٹ کو ہم سب مل کر دور کر دیں گے۔ یہ نہ صرف ہمارے بہتر مستقبل اور ترقی واستحکام کا ضامن ہے بلکہ ہماری عافیت و سلامتی کا مظہر بھی ہے۔
کشمیر میں اپنے ایک فوجی اڈے'' اُڑی'' میں ہونے والے دھماکوں نے تو اُن کے اور بھی اوسان خطا کر دیے ہیں اور وہ جنونی کیفیت میںاول فول بک رہے ہیں۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ دھماکے پاکستان نے ہرگز نہیں کروائے ہیں، مگر یہ اُن کا ہمیشہ سے وتیرہ رہا ہے کہ اپنے ملک میں کسی بھی قسم کی دہشتگردی کا الزام پاکستان کے سرتھوپ کر دنیا کی نظروں میں خود کو مظلوم ظاہر کرنا اور اپنے یہاں اُٹھنے والی آزادی کی تحریکوں کو دباتے رہنا ہے۔ یہ طریقہ کار اُن کی داخلی اور خارجہ حکمتِ عملی کا خاصہ رہا ہے۔ کشمیر میں اپنے غاصبانہ قبضے کو جائز بنانے کے لیے وہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔ سکم، آسام اور پنجاب میں سکھوں کی علیحدگی کی جو تحریکیں چل رہی ہیں اُنہیں وہ ایسے ہی ہتھکنڈوں سے اب تک دبائے ہوئے ہے۔
کشمیر پر جبری تسلط کو قائم رکھنے کے لیے وہ دنیا کی صحافتی اورانسانی حقوق کی تنظیموں کو کشمیر میں جائزہ لینے کی اجازت دینے کا بھی تیار نہیں اور جب حالات قابو سے باہر ہونے لگتے ہیں تو وہ اپنے ملک میں دہشتگردی کروا کے اُس کا الزام پاکستان کی سر تھوپنے کی حرکتیں کرتا ہے۔ گزشتہ دو تین ماہ سے کشمیر میں روزانہ ہڑتالیں اور ہنگامے ہو رہے ہیں اور بھارت کا مکروہ چہرہ عیاں ہو چکا ہے۔ وہ اپنی خجالت، خفت اور آزردگی کو پاکستان کے خلاف غصے میں بدل رہا ہے۔ اِسی لیے کسی نے ابھی تک بھارت کے اُن الزامات کو لائقِ اعتناء ہی نہیں جانا۔
ایسے میں کشمیریوں کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنا احتجاج دنیا کے سامنے ریکارڈ کروائیں۔ اور اپنا حق طلب کریں۔ پاکستان اُن کے اِس حقِ رائے دہی کے لیے آوازیں اُٹھاتا رہا ہے اور پاکستان کا یہی کردار بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ اُس کے خلاف فوراً الزام ترشی اور اشتعال انگیزی شروع کر دیتا ہے۔ ابتدا میں تو وہ یہ سمجھ بیٹھا کہ پاکستان اِن گیدڑ بھبکیوں سے خوفزدہ ہو جائے گا پھر اسے خیال آ گیا کہ پاکستان گرچہ رقبے، آبادی اور طاقت میں اُن سے بہت چھوٹا ہے لیکن اُس کے عوام اور اُس کی فوج جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہیں۔ وہ اگر مالی اور اقتصادی لحاظ سے کیوں نہ ہی بھارت سے کم ہوں لیکن اُن کے ولولے اور جذبہ شہادت کا کوئی مقابلہ نہیں۔
بھارت اگر ایک ایٹمی قوت ہے تو پاکستان کے پاس بھی دنیا کے انتہائی جدید نیوکلیئر ہتھیار ہیںاور یہی وہ ڈر تھا جس نے آج ہندو حکمرانوں کو پاکستان پر جنگ مسلط کرنے سے باز رکھا۔ یہ بات آج بڑی شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ پاکستان نے اگر 1998ء میں ایٹمی دھماکے نہ کیے ہوتے تو بھارت نجانے کب کا پاکستان پر حملہ کر چکا ہوتا۔ یہ ہماری دفاعی ایٹمی صلاحیت ہی ہے جس نے اُسے ایسی خطرناک حرکت سے ابھی تک روکے رکھا ہے۔ گزشتہ 18 برسوں میں کئی موقعے ایسے آئے جب ہمارے اِس ازلی دشمن نے ہم پر جنگ مسلط کر دینے کا ارادہ کر ڈالا لیکن پھر اُسے جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ پاکستان کوئی معمولی ملک نہیں بلکہ پہلا اسلامی ملک ہے جس نے میزائل ٹیکنالوجی میں ایسی صلاحیتیں حاصل کر لی ہیں، جو بھارت کے پاس بھی نہ ہوں چنانچہ وہ افہام و تفہیم اور غریبی دور کرنے کی باتیں کرنے لگے۔
پاکستان کی یہ ایٹمی صلاحیت کا سہرا وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نوا ز شریف کو جاتا ہے۔ اِن میں سے ایک نے اِس کی داغ بیل ڈالی تو دوسرے نے اپنے اقتدارکو خطرے میں ڈال کر پاکستان کی اِس ایٹمی صلاحیت کو ساری دنیا سے منوایا۔گرچہ اِن دونوں حکمرانوں کو بعد ازاں عالمی طاقتوں کے غیض وغضب سے بھی گزرنا پڑا لیکن وہ اگر ایسا نہ کرتے تو آج ہم بھارت کی دہشت کے خوف میں مبتلا ہوکرکشمیریوں کی اخلاقی و سفارتی حمایت سے بھی دستبردار ہو چکے ہوتے۔ آج اگر پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کے شانے بشانے کھڑا دکھائی دے رہا ہے تو یہ سب کچھ اُس ایٹمی صلاحیت کے مرہونِ منت ہی ہے جس نے بھارت کو ابھی تک جنگ شروع کرنے سے روکے ہوا ہے۔
اگر ہم نے اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کر دیا ہوتا توآج ہمارا کوئی پرسانِ حال نہ ہوتا۔ ہم بھارت کے رحم وکرم پر ہوتے اور وہ جس طرح چاہتا ہمیں اپنے مذموم مقاصد اور مطلب براری کے لیے استعمال کرتا رہتا۔ اِسی طرح موٹروے کی تعمیر بھی اِس ملک کی جہاں ترسیلات اور ٹرانسپورٹ کے لیے اہم سنگِ میل کی حیثیت کی حامل ہے تو دوسری جانب وہ ہمارے دفاعی مقاصدکے لیے بھی ایک موثر ٹول اور ذریعے کا باعث بن چکی ہے۔ حالیہ دنوں میں ہماری فضائی افواج نے ہنگامی لینڈنگ کے لیے اُسے بہت مناسب '' رن وے'' کے طور پر استعمال کر کے بھی دیکھ لیا ہے۔ قوموں کی زندگی میں بہت کم ایسے مواقعے آتے ہیں جہاں فیصلوں میں اگر معمولی سی غفلت، کوتاہی یا تاخیر کر دی جائے تو اُس کے نتائج اُن اقوام کو صدیوں بھگتنے پڑتے ہیں۔
'' سی پیک '' کی تعمیرکا فیصلہ بھی ہمارے ایسے ہی چند اہم منصوبوں میں سے ایک ہے۔ جس کے فوائد وثمرات کا اندازہ ہمیں فی الحال نہیں ہو پارہا لیکن یہ آنے والا وقت بتلائے کا کہ پاکستان کو معاشی اور اقتصادی طور میں ناقابل تسخیر بناڈالنے والا یہ فیصلہ ہمارے جمہوری حکمرانوں کی بصیرت اور اعلیٰ فہم وذکاء کی بدولت ہی ممکن ہو پایا ہے۔ پاکستان کوایک جانب دفاعی اعتبار سے اگر ناقابل تسخیر بنایا گیا ہے تو دوسری جانب معاشی اعتبار سے بھی اُسے مضبوط اور مستحکم بنانے کی ابتد ا کر دی گئی ہے۔
ہم نے اگر اِس میدان میں بھی بھارت کو مات دے دی تو بھارت پھر کبھی ہم پر یوں الزام تراشی اور دشنام طرازی کا خیال بھی اپنے دل میں نہیں لائے گا۔ دنیا کا مفاد اور جھکاؤ اگر آج بھارت کی جانب ہے تو اِس کی ایک ہی وجہ ہے کہ وہ تجارتی اور معاشی طور پر ہم سے زیادہ مستحکم ملک ہے۔ ہمیں اب یہ تہیہ کرلینا ہے کہ '' سی پیک'' کا منصوبہ ہر حال میں پورا کیا جائے گا۔ اِس کی راہ میںآنے والی ہر مشکل اوررکاوٹ کو ہم سب مل کر دور کر دیں گے۔ یہ نہ صرف ہمارے بہتر مستقبل اور ترقی واستحکام کا ضامن ہے بلکہ ہماری عافیت و سلامتی کا مظہر بھی ہے۔