رزاق مہر منفرد قلمکار

15 جولائی 2003ء کی صبح انھیں Severe ہارٹ اٹیک ہوا، ان کی موت اس طرح اچانک ہوئی کہ یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔


لیاقت راجپر October 05, 2016

ISLAMABAD: 15 جولائی 2003ء کی صبح انھیں Severe ہارٹ اٹیک ہوا، ان کی موت اس طرح اچانک ہوئی کہ یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ میرا ذہن رزاق کی زندگی کی طرف گھومنے لگا۔ ان کا بچپن، علمی اور ادبی سفر، شادی، گھر بار اور پھر معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے بھاگ دوڑ۔ ویسے تو اس کے کافی دوست تھے مگر ان سے گہرا تعلق محمدعلی پٹھان کا تھا جو ان کے زیادہ قریب رہے تھے اور وہ مجھے جب بھی ملتے تو وہ ان کے ساتھ ہوتے تھے۔

دونوں ادب سے منسلک تھے، دونوں کالج میں ایک ساتھ لیکچرر بنے۔ رزاق اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ایک انشورنس کمپنی کے ساتھ کام کرتے تھے۔ پھر ڈرامے لکھنے کے عمل نے ان کی مصروفیات میں اضافہ کر دیا۔ انھوں نے دن رات کام کرنے کو ترجیح دی مگر اپنی صحت کا خیال نہیں رکھا۔ اس مسلسل جستجو کی وجہ سے ان کی صحت پر بڑا برا اثر ہوا جو آخر کار دل کی بیماری میں ظاہر ہوا۔

رزاق مہرکہانی نویس، ڈراما نویس، شاعر اور کالم نگار تھے، رزاق مہر 20 جولائی 1954 کو لاڑکانہ کے محلے مراد واہن میں پیدا ہوئے تھے، ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے میٹرک کا امتحان 1971ء میں پاس کیا۔ بی اے سندھ یونیورسٹی جام شورو سے کرنے کے بعد ایم اے سندھی بھی اسی یونیورسٹی سے کیا اور میرپور خاص میں پبلک اسکول میں ٹیچر بن گئے پھر پبلک سروس کمیشن سے امتحان پاس کر کے گورنمنٹ ڈگری کالج لاڑکانہ میں لیکچرر لگ گئے۔

انھیں قومی اور بین الاقوامی معاملات پر اچھی خاصی دسترس حاصل تھی جس کی وجہ سے انھوں نے سندھی ادب کی دنیا میں ایک اہم مقام حاصل کیا تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی کو جستجو، محنت اور کام سے منسوب کر لیا تھا اور وہاں سے ملنے والی رقم سے وہ بیوی بچوں کو ہر سہولت مہیا کرتے تھے۔ ادب کی دنیا میں ان کی محنت ہمارے لیے ایک ورثہ ہے اور آنے والی نسلیں اس سے فائدہ اٹھاتی رہیں گی۔

رزاق کی تحریروں میں اس بات کا عکس بھی نظر آتا ہے کہ اس نے بچپن سے ہی مشکلات کا سامنا کیا ہے، وہ 5 سال کے تھے تو ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا اور اس کے کچھ ہی برس کے بعد ان کی والدہ چل بسیں۔ اس طرح جب ان کی پرورش ان کے دادا نے شروع کی تو وہ بھی انتقال کر گئے اور پھر ان کے نانا نے یہ ذمے داری سنبھالی تو وہ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔کتابوں سے لگاؤ ان کا اس وقت شروع ہوا جب ان کے نانا کی لائبریری جو ایک دکان میں قائم تھی، انھیں دیکھ کر اور پھر پڑھ کر ادب کی طرف رجحان پیدا ہوا۔ اب اسکول سے آنے کے بعد وہ سیدھے لائبریری آ کر کتابیں پڑھا کرتے تھے، جس میں ناول بھی شامل تھے۔

کتابیں پڑھنے سے ان میں لکھنے کی ترغیب پیدا ہوئی۔ یہ ترغیب اس وقت زیادہ فروغ پانے لگی جب ان کی دوستی سندھی ادب کے ایک بڑے نام ایازگل سے ہوئی اور اس کے لیے رزاق ڈاک کی ٹکٹیں جمع کرتے تھے جن کا ایاز کو بڑا شوق تھا اور یہ ان کی Hobby تھی۔ اب رزاق نے ایاز گل کو شاعری کرتے دیکھا تو ان کی تقلید کرنے لگے اور پھر ایک دوست امیر علی چانڈیو سے عروض اور شاعرانہ قواعد و ضوابط سیکھے۔ رزاق کے دوستوں اور رشتے داروں نے اسے کہا کہ شاعر تو بہت ہیں مگر کہانی لکھنے والوں کا فقدان ہے اس لیے انھیں اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ اس کے بعد اس نے شارٹ اسٹوریز لکھنا شروع کیں اور تقریباً 45 کہانیاں لکھ ڈالیں اور ان کی پہلی کتاب 1983ء میں ''امن کہاں ہے'' کے نام سے شایع ہو گئی۔

جب ان کا نام کافی مشہور ہو گیا تو اسے پی ٹی وی اور پھر پرائیویٹ چینلزکی طرف سے ڈرامے لکھنے کی بہت ساری آفرز ملنے لگیں۔ چنانچہ ان کی توجہ اس طرف چلی گئی کیونکہ وہاں سے انھیں کافی آمدنی ہو رہی تھی جس لیکن ان کی کہانیوں کی دوسری کتاب چھپ نہیں سکی۔ اس سے پہلے بھی وہ ماروی آرٹ کلب لاڑکانہ جو ہمارے مشترکہ دوست ممتاز ابڑو نے قائم کیا تھا اس کے لیے بدحواس کلرک، تین خاندانی بے روزگار لکھے جو اس کلب کی طرف سے پیش ہوئے۔ اس کے بعد جب ابڑو نے Message Group قائم کیا تو اس کے لیے بے شمار ڈرامے لکھے جس میں خاص طور پر FIR قابل ذکر ہے۔

اس طرح سے جب پی ٹی وی کے جنرل منیجر عبدالکریم بلوچ نے رزاق سے کہا کہ وہ پی ٹی وی کے لیے سندھی ڈرامے لکھ کر دیں اور اس کا جواب انھوں نے تقریباً 7 ڈرامے لکھ کر دیا جو جب نشر ہوئے تو اس کی بڑی پذیرائی ہوئی۔ ان میں ایک ڈرامہ سیریل جیاپو تھا جسے محمد بخش سمیجو نے پروڈیوس کیا تھا۔ اس کی مقبولیت اتنی تھی کہ جب یہ ڈرامہ چلتا تھا تو روڈ اور راستے سنسان ہو جاتے تھے اور لوگ ٹی وی کے ساتھ چپک جاتے تھے۔

جیاپوکی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ ڈراما سیریل نجی جیل پر بنائی گئی تھی۔ رزاق نے 1981ء میں جب میرپورخاص میں تھے تو انھوں نے یہ جیل وہاں دیکھی تھی۔ شروع میں تو لوگ اس بات پر یقین نہیں کر رہے تھے کہ کوئی نجی جیل بھی ہے۔ بعد میں جب 1991ء میں ہیومن رائٹس والوں نے سانگھڑ میں اس طرح کا نجی جیل دریافت کیا تو لوگوں نے رزاق مہر کو مبارک باد دی کہ انھوں نے ایک ایسی سماجی برائی کی نشان دہی کی ہے جسے جتنا برا کہا جائے وہ کم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے نوجوانوں میں کتاب پڑھنے کا رجحان اس لیے کم ہو گیا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا نے لوگوں کے دماغ پر قبضہ کر لیا ہے جو اب ہر بات اور چیز کو آسانی سے حاصل کرنا چاہتے ہیں اور پھر انٹرنیٹ نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ ٹی وی کے ڈرامے کے ذریعے دیکھنے والوں کو سب کچھ اس میں مل جاتا ہے۔ ان کا خیال ہوتا تھا کہ صحت مند Criticism بہت ضروری ہے جس سے اصلاح ہوتی ہے اور لکھنے والے میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔ مگر اس معاملے میں کوئی ذاتی رنجش یا پھر کینہ نہ ہو جس سے ادب کو بڑا نقصان ملتا ہے۔

ایک انٹرویو میں مجھے ان کے الفاظ یاد ہیں کہ رائٹر کو ہر موضوع پرکتابیں پڑھنی چاہئیں تا کہ اس کی نالج بڑھے ورنہ لکھتے ہوئے وہ ادھورا رہ جائے گا۔ وہ کوئی بھی چیز لکھنے سے پہلے کردار کی حرکات و سکنات کو دیکھتے تھے اور موضوع کی تلاش میں ہمیشہ سرگرداں رہتے تھے جس سے ان کے تجربے اور مشاہدے میں اضافہ ہوتا تھا۔ وہ سندھ کے مشہور و معروف رائٹر امر جلیل اور ان کی تحریروں کے بڑے مداح تھے اور ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ان بڑے رائٹرز کی کتابیں پڑھ کر بہت کچھ سیکھا تھا۔ ان کے لیے ایک لمحہ بڑی خوشی کا تھا جب ان کا لکھا ہوا ڈراما امرجلیل کے لکھے ہوئے ڈرامے کے مقابلے میں ایوارڈ کے لیے پی ٹی وی نے منتخب کیا تھا، لیکن اس سے زیادہ خوشی یہ تھی کہ ایوارڈ امر جلیل کو ملا جو ان کا حق تھا۔ رزاق نے اردو پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے لیے جب لکھنا شروع کیا تو نہ صرف اس کی آمدنی میں اضافہ ہوا بلکہ وہ اب پاکستان لیول پر پہچانے گئے۔

جب بھی کوئی نیا ادیب ان کے پاس آتا تو وہ انھیں کہتے کہ وہ سندھی ادبی سنگت میں جا کر اپنی تربیت کروائیں اور جتنا بھی ہو سکے ملک اور سندھ کے بڑے ادیبوں اور ڈراما نگاروں کو پڑھیں۔ ادیب کے لیے ضروری ہے کہ وہ سوسائٹی کے ہر شعبے کے بارے میں انفارمیشن رکھیں اور ہر انسان سے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ ہر شخص ایک کہانی ہے۔

وہ سندھی ادبی سنگت لاڑکانہ کے سیکریٹری بھی رہے اور اس کے علاوہ اور کئی ادبی تنظیموں میں انھوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ وہ اپنے گھر کے دروازے ہر سیکھنے والے کے لیے کھلے رکھتے تھے۔ ان کی ایک کتاب چھپ نہیں سکی جس کا نام تھا اوڑاہ تھا اسے ایوارڈ دیا گیا تھا۔ اس کی دوسری کہانی جیاپو کو سندھ کلچرل ایسوسی ایشن کی طرف سے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ کچھ عرصے ماہنامہ ''نئی دنیا'' میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے تھے۔

میں آخر میں یہ کہوں گا کہ حکومت اور ہم ادبی تنظیموں کو مل کر کچھ ایسا کرنا چاہیے جس سے ادبی دنیا کے لوگوں کی تحریریں جو چھپنے سے رہ گئی ہیں انھیں مارکیٹ میں لائیں اور جو زندہ ہیں ان کے ساتھ شام منائی جائے انھیں ان کی زندگی میں ہی خراج تحسین پیش کیا جائے تا کہ وہ سب کچھ دیکھ سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں